یہ معلوم کرنا تو آسان ہے کہ کسی کو کورونا وائرس ہے یا نہیں لیکن اومیکرون وائرس کی شناخت کا عمل کچھ پیچیدہ ہے۔
کورونا کی نئی قسم جس کو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا اب برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیئم اور ہالینڈ تک پہنچ چکا ہے جبکہ دنیا بھر میں کئی ممالک اس وائرس کے داخلے سے بچنے کے لیے سفری پابندیاں لگا رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر لوگ ماسک پہنیں اور ویکسین لگوائیں تو کسی نئے لاک ڈاون کی ضرورت نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیدروس ادہانوم نے خبردار کیا تھا کہ کورونا کی اس نئی قسم سے دنیا بھر میں وبا کی ایک نئی لہر پھیل سکتی ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس کی جینیاتی ساخت میں غیر معمولی حد تک تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اب تک اس وائرس کے اثرات کے بارے میں سائنسدانوں کے پاس زیادہ معلومات نہیں تاہم اس کی شناخت کیسے کی جائے، اس سوال کا جواب موجود ہے۔
اومیکرون کورونا کی دوسری
اقسام سے کیسے مختلف ہے؟
اومیکرون کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہو سکیں، سوائے اس کے کہ یہ ایک نئی قسم ہے جس میں جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ یہ نئی قسم کس طرح سے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اور کیا یہ پرانی قسم کے وائرس کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے یا نہیں، یہ تمام ایسے سوالات ہیں جن کا جواب حاصل کرنے کے لیے سائنسدان دن رات ایک کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وائرس کی یہ نئی قسم ویکسین کے خلاف مدافعت رکھتی ہے یا نہیں؟
اومیکرون کی شناخت کے لیے کون سے ٹیسٹ کیے جائیں؟
یہ معلوم کرنا تو آسان ہے کہ کسی کو کورونا وائرس ہے یا نہیں لیکن اومیکرون وائرس کی شناخت کا عمل کچھ پیچیدہ ہے۔ عام لیبارٹری میں کیے جانے والے پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے صرف یہی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا کسی میں کورونا وائرس پایا جاتا ہے یا نہیں تاہم گنی چنی لیبارٹریز میں یہ سہولت ضرور موجود ہوتی ہے کہ وہ اس ٹیسٹ کی بنیاد پر یہ تشخیص کر سکتے ہیں کہ آیا کورونا کی قسم اومیکرون ہے یا کوئی اور ویرینٹ۔
اومیکرون کی شناخت میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں کئی نئی جینیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں جو پرانی اقسام میں نہیں تھیں۔ سب سے زیادہ فرق لیاں وائرس کی اس سپائک پروٹین میں پایا جاتا ہے کو کورونا ویکسین نشانہ بناتی ہے۔ یہی بات اس نئی قسم کے بارے میں پھیلی تشویش کی بڑی وجہ بھی ہے کیونکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اومیکرون کورونا کی ویکسین کے خلاف زیادہ مدافعت نہ رکھتا ہو لیکن اب جب کہ اس بات کا تعین کیا جا چکا ہے کہ اس نئی قسم میں کس مقام پر جینیاتی تبدیلی موجود ہے تو اس کی شناخت کا طریقہ بھی نکالا جا سکتا ہے۔
اومیکرون کی ’ساخت سے شناخت ممکن ہے
اومیکرون کے بارے میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی جینیاتی تبدیلی میں ایک اہم جزو ایس یا سپائک خلیہ ہے۔ ایک عام پی سی آر ٹیسٹ کے ذریعے عموماً وائرس کے تین حصوں کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔ ان میں وائرس کی سطح پر موجود ‘ایس’ یا سپائک خلیہ، جبکہ بیرونی سطح جس کو ‘ای’ کا نام دیا گیا ہے، کو بھی شناخت کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وائرس کی اندرونی سطح میں موجود ‘این ٹو’ نیوکلیو کیپ سِڈ کی بھی شناخت کی جاتی ہے۔
جب کسی کا کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے کہ آیا کورونا وائرس موجود ہے یا نہیں۔
اگر ہے تو کیا اس میں ‘ایس’ سپائک خلیہ ہے؟ اس خلیے کی شناخت ہو جائے تب بھی یہ حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اومیکرون ہے یا نہیں بلکہ اس کے بعد ایک مرحلہ اور درکار ہوتا ہے جس کے ذریعے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کی جس قسم کی شناخت کی گئی ہے وہ اومیکرون ہے یا کوئی اور۔ یہ طریقہ جینیاتی تجزیاتی ٹیسٹ ہوتا ہے جس کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ کیا وائرس کی یہ قسم اومیکرون ہے یا نہیں۔
جینیاتی تجزیے کی اہمیت کیا ہے؟
وائرس کی قسم کی جانچ کے لیے جینیاتی ساخت کے تجزیے کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ برطانیہ میں ہر ہفتے تقریبا ساٹھ ہزار مثبت کورونا کیسز سامنے آتے ہیں جن میں سے بیس فیصد کے سیمپل کو جینیاتی تجزیے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
اس سیمپل کے معائنے اور جینیاتی تجزیے سے سائنس دان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آیا اس میں پائی جانے والی وائرس کی قسم کوئی پرانا ویرینٹ ہے یا کہ کورونا کی نئی اومیکرون قسم۔ اس تجزیے کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر وائرس کی قسم کتنی پھیل چکی ہے کیوں کہ بیس فیصد سیمپل کی بنیاد پر ہر کیس سے متعلق حتمی طور پر رائے دینا مشکل ہوتا ہے۔
کیا اومیکرون جنوبی افریقہ میں ہی شروع ہوا؟
جس طرح کورونا کے آغاز میں اس بحث کا آغاز ہوا کہ یہ وائرس کہاں سے پھیلا ہے اور کیا اس کی شروعات چین سے ہی ہوئی ویسی ہی ایک بحث اومیکرون کے بارے میں بھی شروع ہو چکی ہے۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ جینیاتی تجزیے کی سہولت ہر جگہ موجود نہیں اسی لیے ہر ملک میں کورونا کی نئی قسم کی شناخت ممکن نہیں ہوتی۔
جنوبی افریقہ میں اس وائرس کی شناخت تو سب سے پہلے ہوئی لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کا آغاز بھی وہیں سے ہوا ہو۔ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کے باعث کورونا کی ایک نئی قسم دریافت کر لی گئی جس کی وجہ سے اب دنیا بھر میں اس پر مزید تحقیق ہو سکتی ہے اور اس کا توڑ نکالا جا سکتا ہے۔
اومیکرون سے کیسے بچا جائے؟
اب تک تحقیق اور معلومات کی کمی کے باعث حتمی طور پر اومیکرون کے اثرات سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سائنس دان یہ جاننے کے لیے کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الحال احتیاط ہی سب سے مفید راستہ ہے۔
دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس بات پر ہی زور دیا جا رہا ہے کہ اومیکرون کے خلاف مزاحمت کے لیے ویکسینیشن کے عمل کو تیز کیا جائے اور جو لوگ اب تک ویکسین سے محروم ہیں ان تک ویکسین پہنچائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ کورونا کے خلاف طے شدہ حفاطتی اقدامات پر عمل درآمد بھی اومیکرون سے بچاؤ میں مدد دے سکتے ہیں، یعنی ماسک پہننا اور سماجی فاصلوں کا خیال رکھنا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کینیڈا میں اومیکرون کی تصدیق کے بعد اعلان کیا کہ اس وقت پریشانی میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ اگر لوگ ماسک پہنیں اور ویکسین لگوائیں تو نئے لاک ڈاون کی ضرورت نہیں۔‘ ( بشکریہ بی بی سی )
The post کورونا وبا کی نئی قسم سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.