یہ26 دسمبر2004 کا دن تھاجب میرے کانوں نے پہلی بار لفظ ’’سونامی ‘‘سنا اور اس کی ہولناک تباہی دیکھی۔
آپ اسے میری کم علمی سمجھیں کہ مجھے اس سے پہلے سونامی کے لفظ سے آشنائی نہ تھی۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ ہم جیسے پہاڑوں کے دامن میں رہنے والوں کی سمندر سے دوری ہوسکتی ہے۔ لیکن جب ٹی وی پر انڈونیشیا کے جزیرے سمٹرا میں تباہی کے مناظر دیکھے اور بار بار سونامی (tsunami) کا لفظ سناتو ایک خوف نے آگھیرا کے اس قدر خوفناک قدرتی آفت اللہ کی پناہ۔
اس واقعہ کے بعد سونامی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو جو حقائق آشکار ہوئے اُن میں اس کی نمایاں وجہ ’’زلزلے‘‘ سے اپنی پرانی آشنائی نکلی۔ کوئٹہ کی تاریخ کم اور زیادہ شدت کے زلزلوں سے بھری پڑی ہے اور اس شہر کا مکین ہونے کے ناطے ہمیں ان جھٹکوں کا بہت عملی تجربہ ہے۔
جدید سائنس ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ وہ زلزلہ کے آنے کے وقت اور تاریخ کی پیش گوئی کرسکے۔ لیکن اُن علاقوں کی نشاندہی ضرور کردیتی ہے جہاں زلزلے آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔پاکستان کی کافی آبادیاں ایسی فالٹ لائن کے قریب موجود ہیں جو زلزلے کا محرک بنتی ہیں جیسا کہ کوئٹہ۔ زلزلوں کا باعث بننے والی ان فالٹ لائنز میںسے ایک فالٹ لائن ’’ مکران سبڈکشن زون‘‘ ہے جو مکران کے ساحل سے 100 کلومیٹر دور جنوب مغربی جانب سمندر کے اندر موجود ہے۔
جہاں عربین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹیں (Arabian and Eurasian tectonic plates ) آپس میں ملتی ہیں۔یہ وہ مقام ہے جو پاکستان کے ساحلی شہروں اور آبادیوں کو کسی بھی وقت سونامی کا شکار بنا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ فالٹ لائن مشرق سے مغرب کی جانب ہے جو بلوچستان کے ساحل کے متوازی سمندر میں چلتی ایران کے ساحلی علاقوں تک بڑھ جاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے مکران کا ساحل 28 نومبر1945 میں زلزلہ سے پیدا ہونے والی سونامی کی لپیٹ میں آچکا ہے جس سے مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ 4 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
پاکستان جنرل آف میٹرولوجی میں چھپنے والے ’’ دی پوٹیشل آف سونامی جنریشن آلانگ کراچی اینڈ مکران کوسٹ آف پاکستان ـ‘‘ نامی تحقیقی مقالہ کے مطابق گزشتہ75 سالوں میں پاکستان کے ساحل پر 8 اور اُس سے زائد شدت کے 50 سے زائد زلزلے آچکے ہیں۔جن میں سے چار 1945,1943,1919 اور1956 میں سونامی کا باعث بنے۔اس کے علاوہ تحقیقی مقالہ کے مطابق مشرقی سندھ کی جانب دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے قریب submarine landslides بھی سونامی کا باعث بن سکتی ہیں جسے کسی طاقت ور زلزلہ کے جھٹکے کی ضرورت نہیں بلکہ کوئی معمولی جھٹکا بھی سونامی کا موجب ہوسکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور فالٹ لائن کرا چی کے جنوب مغربی جانب بحرہ عرب میں موجود ہے جسے Murray ridge کہتے ہیں۔ جو انڈس بیسن کو عمان بیسن سے علیحدہ کرتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں آنے والے زلزلوں اور دیگر عوامل کے باعث بننے والی سونامی اگرچہ بہت طویل فاصلہ تک موجود ساحلوں کوبھی متاثر کرتی ہے لیکن قریبی ساحلی علاقوں میں اس کی تباہی شدید ہوسکتی ہے۔اس لیے اقوام متحدہ نے 5 نومبر کو سونامی سے آگاہی کا عالمی دن قرار دیا ہے۔ تاکہ اس قدرتی آفت سے بچاؤ اور اس سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی آگہی کو فروغ دیا جائے۔
سونامی منٹوں سے گھنٹوں کے درمیان ہی ساحلی آبادیوں کے سروں پر آپہنچتی ہے۔اس سے انسانی جانوں کے بچاؤ کا واحد طریقہ سونامی ارلی وارنگ سسٹم کا قیام اور اُس پر عملدرآمد ہے۔ تاکہ سونامی کے پہنچنے سے قبل ہی انسانوں اور مویشیوں کو نکال لیا جائے۔اس کے علاوہ اگر آپ ساحلی علاقوں میں ہیں اور زلزلہ کے جھٹکے محسوس کرتے ہیں تو زلزلہ کے بعد جو پہلی چیز آپ کو مزید متاثر کرسکتی ہے وہ سونامی ہو سکتی ہے۔لہٰذا ارلی وارنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے شواہد پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں (کلائیمیٹ چینج) سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
متوقع سمندری سطح میں اضافے اور سمندری سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے بڑھتی ہوئی سائکلونک سرگرمی ساحلی علاقوں پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ کیونکہ ملک کے ساحلی علاقوں کے درجہ حرارت میں اضافہ کا عمل جاری ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے مطابق ’’پاکستان کے ساحلی علاقوں میں 1900 کی دہائی کے آغاز سے اوسط درجہ حرارت میں 0.6 سے 1.0 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے‘‘۔
اس کے علاوہ یوکے ایڈ کی رپورٹ ’’ریوو آف سی لیول رائز سائنس، انفارمیشن اینڈ سروسز اِن پاکستان ‘‘ کے مطابق کراچی ٹائیڈ گیج اسٹیشن کے 1916 سے 2011 کے اعدادوشمار کے مطابق سمندر کی سطح میں مذکورہ اسٹیشن کے پوائنٹ پر 1.1 ملی میٹر سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ ان اعدادوشمار کا جب 2007 میں اسٹیشن کی منتقلی کے بعد دوبارہ تجزیہ کیا گیا تو 1916 سے2016 تک سمندر کی سطح میں2 ملی میٹر سالانہ اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اسی طرح ہمارے ساحلی علاقے بھی سمندری طوفانوں کے زیادہ شکار بننا شروع ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی نومبر2017 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ’’ایک صدی میں اوسطاً چار سمندری طوفان سندھ کے ساحل سے ٹکراتے ہیں۔لیکن 1971سے2010 کے عرصے میں سندھ کے ساحل پر 17 طوفان ریکارڈ کیے گئے۔ بدلتی ہوئی آب و ہوا (کلائیمیٹ چینج)طوفانوں کو زیادہ ،بار بار اور بھیانک بنا سکتی ہے۔کلائیمیٹ چینج کے باعث رونما ہونے والی سمندری آفات اورسونامی کے جانی اور مالی نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں چنداقدامات پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ جن میں سے ایک جنگلات بھی ہیں خصوصاً وہ جنگل جو لبِ ساحل موجود ہیں۔ ایسے جنگلات میں سے ایک کو ہم تیمر (Mangroves)کے جنگلات کے نام سے جانتے ہیں۔
تیمر کے جنگلات اپنی قدرتی ساخت کی بدولت ساحلوں کو قدرتی دفاع فراہم کرتے ہیں ۔ یہ ایک Biological Wall ہیں جوسمندر اور آبادی کے درمیان بفر زون کا کام کرتے ہیں۔ یہ تیز ہواؤں کا رخ موڑنے ،سمندر کی تیز و تند موجوں، سائیکلون ،سمندری طغیانی اور سونامی کی بلند لہروں کا زور توڑنے میں اپنی مثال آپ ہیںاور ساحلوں کو ناصرف ہوائی کٹاؤ اور زمین بردگی سے بچاتے ہیںبلکہ ساحلوں پر موجود ریت کے ٹیلوں کو استحکام بخش کر سمندری موجوں کے آگے موجود بند کو مضبوط بناتے ہیں۔ نتیجتاً یہ سب عناصر مل کر انسانی آبادیوں کو محفوظ بنادیتے ہیں۔
سونامی کے دوران تیمر کے جنگلات کی افادیت کا اندازہ جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کے ان تجربات سے ہوتا ہے جن کے مطابق تیمر کے گھنے جنگل کی 100 میٹر چوڑی بیلٹ سونامی کی تباہ کن توانائی کو 90 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔تیمر کی اہمیت و افادیت دسمبر 2004 میں آنے والے سونامی کے بعد اور زیادہ واضح ہوچکی ہے۔ بحر ہند میں2004 کو آنے والی سونامی کے بعد کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق بحر ہند میں جزائر انڈمان کے جن علاقوں میں تیمر کے قدیم جنگلات تھے وہاں سونامی سے متاثر ہونے والے صرف 7 فیصد دیہات کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کے برعکس تیمر کے انحطاط یا خاتمے والے علاقوں میں 80 سے100 فیصد تک دیہات میں تباہی ہوئی۔
2004 کے بعد سے سونامی کے چھوٹے واقعات کی تحقیقات بھی اسی نتائج پر پہنچی ہیںکہ تیمر کے جنگلات کا تحفظ، بحالی اور شجر کاری بطوراسٹریٹجک گرین بیلٹس سونامی کے خلاف تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ تیمر کے درخت ایسا کیسے کرپاتے ہیں؟ ماہرین اس خوبی کو بعض اقسام کے تیمر کے درختوں کی اونچائی ان کے تنوں ، چھتری دار شاخوںاور دوردور تک پھیلی پتلی پتلی جال دار جڑیں جو پانی کے اندر اور پانی سے باہر کھلی فضا میں بھی موجود ہوتی ہیں کو قرار دیتے ہیں۔ تیمرکے درخت سونامی کی منہ زور لہروں کے آگے ایک ایسا لچک دار جال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو سونامی کے زور کواپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔
یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تیمر کے جنگلات ہر سال 65 بلین ڈالر سے زائد مالیت کے املاک کو پہنچنے والے نقصانات کو روکتے ہیں اور سالانہ 15 ملین لوگوں کے لیے سیلاب کے خطرے کو کم کردیتے ہیں۔سادہ الفاظ میں یہ کم لاگت موثر ترین فطرت پر مبنی حل میں سے ایک ہے کیونکہ تیمر کے جنگلات کی بحالی گرے انفراسٹرکچرجیسا کہ سیلاب سے بچاؤکی دیواروں کی تعمیر سے پانچ گنا کم لاگت کی حامل ہے۔
اس کے علاوہ سمندری آفات سے بچانے کے لیے بنایا گیا انجینئرڈ گرے انفراسٹرکچر بھی مکمل طور پر موثر ثابت نہیں ہوتا اور موسمی تغیرات اور طوفانوں کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار رہتا ہے جس کی بحالی اور دیکھ بھال کے لیے مسلسل مالی وسائل کی ضرورت رہتی ہے۔ جبکہ تیمر جیسے قدرتی سمندری دفاع کی سب سے قیمتی خوبی خود کو نقصان پہنچنے کی صورت میں اس کا اپنے آپ کو خود دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔اس لیے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ تیمر کے جنگلات کی بحالی پر خرچ کیے گئے ہر ایک ڈالرکے بدلے میں چار ڈالر کا فائدہ پہنچتا ہے۔
تیمر کا وجود ساحلی پٹی اور دریاؤں کی سمندر میں میٹھے پانی کی آمیزش سے مشروط ہے۔ دلدلی ساحلی علاقوں میں پروان چڑھنے والے تیمر کے جنگلات ورلڈ اٹلس آف مینگرووز کے مطابق دنیا کے123 ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ تیمر عموماً انہی ڈیلٹائی خطوں میں نمو پاتے ہیں جہاں دریا کے پانی کے ساتھ بہہ کر آئی ہوئی مٹی سمندر کے پانی سے ہم آغوش ہوجانے کے بعد ساحلوں پر بچھ جاتی ہے اور سمندر اپنی تیز اور منہ زور موجوں سے اسے مستقل نم کرتا رہتا ہے اور کہیں کہیں سمندری پانی کم گہرائی کی صورت میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
اسی لیے میٹھے اور کھارے پانی کے سنگم پر واقع مستقل نم رہنے والے یہ دلدلی رقبے تیمر کے گھنے جنگلات سے ڈھکنے لگتے ہیں۔عام نباتات اور پودوں کی افزائشی رفتار کے مقابلے میں نسبتاً سست رو سمجھے جانے والے تیمر کی دنیا بھر میںورلڈ اٹلس آف مینگرووز کے مطابق73 اصل اقسام پائی جاتی ہیںاور دی اسٹیٹ آف دی ورلڈز مینگرووز 2021 نامی رپورٹ کے مطابق ’’تیمر کے جنگلات دنیا میں 135881.65 مربع کلومیٹر پر موجود ہیں‘‘۔ جو دنیا کے ساحلوں کا 11.96 فیصد رقبہ اور دنیا کے جنگلات کا صفر عشاریہ سات فیصد ہیں۔
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے اُن خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاںیہ قدرتی دولت موجود ہے۔ وطنِ عزیز میں تیمر کے جنگلات سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی ’جو مجموعی طور پر 1050 کلومیٹر پر محیط ہے‘ کے مختلف مقامات پرموجودہیں۔ سندھ کی 250 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ملک کے جنوب مشرقی جانب ہندوستان کی سرحد سے مغرب میں بلوچستان کے ساحل کے ساتھ دریائے حب کے درمیان واقع ہے۔ سندھ کوسٹ کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ، انڈس ڈیلٹا کریک سسٹم اور کراچی کوسٹ۔
سندھ میں تیمر کے جنگلات رن آف کچھ سے لیکر کراچی تک، ڈیلٹا کے علاقوں میں موجود ہیں۔جو پاکستان میں پائے جانے والے تیمر کے جنگلات کا 97 فیصد ہے۔ یہ خطہ گزشتہ ہزاروں برس سے سمندر میں دریائے سندھ کے میٹھے پانی کی آمیزش اور سالانہ کروڑوں ٹن لائی ہوئی ریت و مٹی کے ننھے ذرات کے باعث ’’ مسطح خطوں‘‘ کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔ اس زمینی سلسلے میں کھاڑیوںcreeks کا جال سا بچھا ہوا ہے۔ جن کی تعداد 17 ہے اور یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع سرکھاڑی سے لیکر کراچی میں کورنگی کھاڑی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انڈس ڈیلٹا پاکستان کے ساحل کا ایک اہم نشان ہے۔
یہ ڈیلٹا کئی بڑے اور معمولی نالوں پر مشتمل ہے جو دریائے سندھ کی طرف سے بحیرہ عرب میں خارج ہونے سے پہلے بنتے ہیں۔ ڈیلٹا ایک پنکھے کی شکل کا ڈیلٹا ہے جس میں ندیوں ، گیلی مٹی کے میدانوں(mud flates) ، ریت کے ٹیلوں ،تیمرکا مسکن ، دلدل اور سمندری خلیج شامل ہیں۔ انڈس ڈیلٹا دنیا کے پانچ بڑے ڈیلٹا سسٹم میں سے ایک ہے۔ یہ دریائے سندھ سے میٹھا پانی حاصل کرتا ہے جو بحیرہ عرب تک پہنچنے سے پہلے ڈیلٹا سے بہتا ہے۔ تیمر کے جنگلات کویہاں دو اہم بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کیٹی بندر بلاک اور شاہ بندر بلاک۔ ضلع ٹھٹھہ کے شاہ بندر بلاک سے آگے رن آف کچھ کی ایک تنگ پٹی ہے جس میں اہم آب گاہیں(Wetlands) ہیں۔
بلوچستان کا 800 کلومیٹر طویل ساحل مشرق میں دریائے حب کے منہ سے مغرب میں گوادر خلیج (ایران کی سرحد) تک پھیلا ہوا ہے۔بلوچستان کے ساحل کو لسبیلہ اور گوادر (صوبہ بلوچستان کے اضلاع) کے ساحلوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کے ساحل میں کئی خلیج(Bays) ہیں جن میں گوادر خلیج ، گوادر مغربی اور مشرقی خلیج ، پسنی خلیج اور سونمانی خلیج شامل ہیں ۔ بلوچستان میں بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر تازہ دریائی پانی کی سمندر میں آمیزش موسمی دریائوں کی مرہون منت ہے۔تاہم یہاں دریائے سندھ جیسا مستقل پانی کی فراہمی کا نظام کبھی بھی موجود نہیں رہا اور اس کا جغرافیائی ارضیاتی موسم ’’ خشک علاقوں‘‘ aridland کے طور پر موسوم کیا جاتا ہے۔ سندھ کے مقابلے میں یہاں تیمر کے جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے جو ملکی سطح پر مینگرووز فارسٹ کا تین فیصد ہے ۔
تیمر بلوچستان کے ساحل کے ساتھ تین مقامات ،سونمانی ہور ، کلمت کھور اور گوادرخلیج (جیوا نی )میں پائے جاتے ہیں۔ سندھ کے تیمر کے جنگلات کی بقا اگرچہ بڑی حد تک تازہ دریائی پانی سے مشروط ہے۔ تاہم بلو چستان کے تیمر سمندر کے کھارے پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس کا سبب دریائی پانی کی فراہمی میں تعطل اور قدرتی ارتقائی عمل کے سبب ان میں سمندری پانی سے موافقت کی صلاحیت کا پیدا ہوجانا ہے۔
انڈس ڈیلٹا پر موجود تیمر کے جنگلات سندھ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائیٹ کے مطابق تین اداروں کے انتظامی کنٹرول میں ہیں۔ محکمہ جنگلات سندھ، پورٹ قاسم اتھارٹی اورسندھ بورڈ آف ریوینیو جبکہ آئی یو سی این کی ایک دستاویز کے مطابق اس فہرست میں چند مزید ادارے بھی شامل ہیں۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ/ کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور ڈی ایچ اے کراچی۔جبکہ بلوچستان میں تیمر کے جنگلات صوبائی محکمہ جنگلات، بلوچستان بورڈ آف ریوینیو اور مقامی کمیونٹیز کے پاس ہیں۔2010 میں سندھ حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے میں موجود تمام تیمر کو محفوظ جنگل قرار دیا جا چکا ہے ۔
یعنی محکمہ جنگلات سندھ ، سندھ بورڈ آف ریوینیو ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام مینگرووز کی کٹائی اور جانورچرانے پر پابندی ہے۔ البتہ ٹوٹی ہوئی اور سوکھ جانے والی شاخوں کو اکٹھا کرنے کی اجازت ہے۔ جبکہ بلوچستان کے تیمر کے جنگلات کا تقریباً7 فیصدرقبہ کو ’’ محفوظ جنگل‘‘ قرار دے کر صوبائی محکمہ جنگلات کو1958 میں منتقل کیا گیا۔
قدرتی آفات کے مقابل تیمر کے دفاعی کردارکے ساتھ ساتھ اس کے سماجی، ماحولیاتی اور معاشی فوائد اس کی اہمیت کو دوچند کردیتے ہیں۔کیونکہ مینگرووز فاریسٹ کرہ ارض کے سب سے زیادہ پیداواری اور متنوع ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے۔ جو پاکستان کے ساحل پر (تیمرکے جنگلات میں اور اس کے اردگرد رہنے) والے 1.2 ملین افراد کی زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن میں سے9 لاکھ سند ھ ڈیلٹا پر اور3 لاکھ بلوچستان کے ساحل پر آباد ہیں۔ اوسطً ملکی ساحلی علاقوں میں آبادی 6 سے 8 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔
90 فیصد سے زیادہ آبادی کسی نہ کسی طرح ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ ماہی گیری کا شعبہ ساحلوں پر آباد کمیونیٹیز کی غربت کے خاتمے اور غذائی تحفظ کے حصول میں اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ اس صنعت سے بلواسطہ اور بلاواسطہ وابستہ لاکھوں افراد کے روزگار اور معاش کا ذریعہ بھی ہے۔ ما ہی گیری کے تناظر میں تیمر کی افادیت اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کی ساخت اور پیداواری صلاحیت انہیں قابل بناتی ہے کہ وہ ماہی گیری کی بھرپور مدد کریں کیونکہ یہ سمندری مچھلیوں خصوصاً جھینگے کی پیداواری نرسریاں ہیں۔
اقوام متحدہ کی تنظیم UNEP کے مطابق اگر تیمر کے جنگل کے 1 ہیکٹرکا مناسب طریقے سے انتظام کیا جائے توسالانہ 100 کلو مچھلی ، 25 کلو جھینگے(shrimps)، 15 کلو کیکڑے کا گوشت(crabs meat) ، 200 کلو پلپلے جانور اور گھونگے(ریڑھ کی ہڈی کے بغیر جانور mollusks) اور 40 کلو جونک جیسا سمندری کیڑا (sea cucumber)پیدا ہوں گے اور اس پیداوار میں لکڑی اور چارے کی بھی مقدار شامل کی جائے تو LIVING DOCUMENTS Pakistan DGIS-WWF Tropical Forest Portfolio 2004 نامی دستاویز کے مطابق ’’پاکستان کے تیمر کی معاشی قیمت تقریبا ً 60 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے ‘‘۔پاکستان کے تناظر میں تیمر اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ملکی ساحلی پانیوں سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کا 80 فیصد سے زائد حصہ اپنی زندگی کا کچھ نا کچھ حصہ خصوصاً اوائل حصہ تیمر کے جنگلات میں ضرور گزارتا ہے یا پھر وہ تیمر کے ماحولیاتی سسٹم کے اندر موجود کھانے کے نظام پر انحصار کرتا ہے۔
جس کا حاصل یہ ہے کہ مالی سال 2020-21 کے جولائی تا مارچ کے عرصہ کے دوران ملکی ماہی گیروں نے اپنے سمندر سے 465.200 ہزار میٹرک ٹن مچھلی حاصل کی اور اس عرصہ کے دوران مچھلی اور اس کی مصنوعات سے ملک کو303.606 ملین ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوا یعنی48945 ملین روپے، جس میں سے قابل ذکر حصہ جھینگا کی برآمد سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ پر مشتمل ہے جو تیمر کے جنگلات کی سب سے نمایاں پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ تیمر کے جنگلات اور اس کے اردگرد آباد کمیونیٹیز کے مال مویشیوں کے لیے چارہ اور ایندھن اور تعمیرات کے لیے لکڑی فراہم کرنا اُن جنگلات کا دوسرا نمایاں پہلو ہے۔
انڈس ڈیلٹا کا تیمر جنگل ماحولیاتی نظام زندگی کا ایک ایسا معاون قدرتی نظام ہے جو معاشی طور پرکئی اہم جنگلی حیوانات اور نباتات کے لیے رہائش ، پناہ گاہ اور افزائش گاہ فراہم کرتا ہے۔ زولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق انڈس ڈیلٹا مینگرووز میں اب تک مچھلیوں کی 98 اقسام ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ان علاقوں میں موجود غذائیت سے بھرپور غذائی ذرائع کی وجہ سے زیادہ تر مچھلیاں اونچی لہروں کے دوران مینگروو کے دلدلی علاقوں کی طرف راغب ہوتی ہیں۔ چھپکلیوں کی تین اور سانپوں کی 14 اقسام کی موجودگی زمینی اور آبی حیوانات دونوں کی موجودگی کی بہت اچھی مثال ہے۔
انڈس ڈیلٹا تیمرکے سدا بہار جنگلات اور آب گاہیں بہت سے آبی پرندوں کے لیے مسکن ہیں۔ خصوصاً یہ ہر برس ہزاروں کی تعداد میں مہاجر پرندوں کی نومبر سے فروری تک آماجگاہ رہتے ہیں۔ یہ پرندے جس روٹ سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اُسے انڈس فلائی وے، گرین روٹ کہا جاتا ہے۔ اسے انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4 بھی کہتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میںتیمر ایک اہم ہتھیار ہے۔کیونکہ اِن جنگلات کا ایک نمایاںاعزازاس کا ’’ بلیو کاربن ‘‘ سٹوریج کا بنیادی کام بھی ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی(کلائیمٹ چینج) کے بنیادی محرک کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیادہ مقدار میں جذب کرنیکی اس درخت کی صلاحیت اسے کرہ ارض پر موجود دیگر اشجار سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ کاربن جمع کرنے کے ہاٹ سپاٹ ہیں ۔ جو فضا میں کاربن کو کم کرتے ہیں اورکاربن کو زندہ پودوں اور ان کی زمینوں میں محفوظ کرتے ہیں۔
جہاں یہ صدیوں تک قائم رہ سکتا ہے۔ تمام جنگلات کی طرح تیمر بھی فوٹو سنتھیس کے عمل کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پتے ، لکڑی اور جڑوں میںمنتقل کرتے ہیں اور جیسے جیسے یہ بڑھتے ہیں تو ان کے بائیو ماس میں کاربن کا ذخیرہ بھی بڑھاتے جاتے ہیں۔ درحقیقت مینگرووز کرہ ارض پر کسی بھی دوسرے مسکن کے مقابلے میںناصرف سب سے زیادہ کاربن اسٹورکرنے اور فضا سے CO2 کو الگ کرنے والا ماحولیاتی نظام ہے۔ تیمر عام درختوں کے مقابلے میں 4 سے 5 گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو نامیاتی کاربن میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی نے حال ہی میں ورلڈ بینک کے تعاون سے ملک کے بلیو کاربن ریپڈ اسیسمنٹ کا انعقاد کیا ہے جس کے مطابق تیمر کے ملکی جنگلات اور سمندری دلدلی علاقے 21 ملین ٹن نامیاتی کاربن ذخیرہ ہے۔ جس میں سے 19.8 ملین ٹن نامیاتی کاربن صرف تیمر کے جنگلات اکیلے کا ذخیرہ ہے جسکی مالیت 873.1 ملین ڈالر سے1.4 ارب ڈالر ہے۔ ماہرین کے مطابق تیمر کا ایک درخت اپنی25 سالہ زندگی میں 308 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے۔
جبکہ ایک ہیکٹر پر موجود تیمر کے درخت 25 سالہ زندگی میں 840 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ہوا سے کشید کرلیتے ہیں۔محققین نے تخمینہ لگایا ہے کہ تیمر کے جنگلات کا فی ہیکٹر ایک لاکھ94 ہزار ڈالر کا مالیاتی فوائد یا “ایکو سسٹم سروسز” کی مد میں فراہم کرتا ہے ۔جبکہ صرف سیاحت کی مد میں ایک ہیکٹر تیمر 1079 ڈالر سالانہ مہیا کرتے ہیں۔یوں اپنی ان تما م خوبیوں کی بنا پر یہ دوسرے ماحولیاتی نظاموں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی تیمر کاجنگل حیاتیاتی تنوع اور انسانیت دونوں کے لیے اہم ماحولیاتی نظام ہیں۔
اپنی ان بے بہا خوبیوں کے باوجود پاکستان میں تیمر کے جنگلات آب و ہوا کی تبدیلی ، کٹائی ، زراعت ، ماہی پروری ، آلودگی، قدرتی وسائل کا گنجائش سے زیادہ استعمال اور ساحلی ترقی کے نتیجے میں شدید تنزلی کا شکار رہے ہیں۔خصوصاًانڈس ڈیلٹا میںتیمر کا ماحولیاتی نظام ساحلی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے ساحلی وسائل کے زیادہ استحصال، آلودگی ، دریائے سندھ سے میٹھے پانی کی قلت ، ساحلی شہری کاری اورانڈسٹریلائزیشن کی وجہ سے حالیہ برسوں میں منفی طور پر متاثر ہوا ہے ۔
انڈس ڈیلٹا کے مینگرووز اپنی بقا کے لیے میٹھے پانی کے اخراج پر انحصار کرتے ہیںاوراُن کی نشو و نما ایسے علاقوں میں بہترین ہے جہاں میٹھے پانی کا بہاؤبہتر ہوتا ہے۔ لیکن دریائے سندھ سے ڈیلٹا تک پہنچنے والے پانی کی مقدار میں بتدریج اور مسلسل کمی کے ساتھ ڈیلٹاتک پہنچنے والی تقریباً 270 ملین ٹن سالانہ ریت اور مٹی کی مقدار میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
جوورلڈ بینک کے ایک حوالہ کے مطابق کم ہوکر اب 13 ملین ٹن تک آچکی ہے۔اس لیے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ’’ اب ڈیلٹادو سو سال پہلے کے 1290000 ہیکٹر کے مقابلے میں صرف 100000ہیکٹررقبہ تک محیط ہے اور اس کا 90 فیصد زیر زمین پانی سمندری پانی کے آگے بڑھنے کی وجہ سے کھارا ہوچکا ہے‘‘۔ اس پر سالانہ بارش کی اوسط کا 221 ملی میٹر سے بھی کم ہونا اور بعض اوقات طویل عرصے تک خشک سالی کا رہنااور گرمی کی طویل لہریںبھی ایک تشویشناک امر ہے۔ ان وجوہات کی بنا پرانڈس ڈیلٹا مینگرووز کو میٹھے پانی کی دستیابی انتہائی کم ہوگئی ہے۔
دریائی پانی میں قلت کے سبب سمندر میں تازہ پانی کی عدم آمیزش ’’ ماحولیاتی آبی بہاؤ‘‘ میں رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔ جس کے اثرات ماحول بالخصوص تیمر کے ساحلی جنگلات، بعض اقسام کی مچھلیوں اور سندھ ڈیلٹا پر پڑے ہیں۔ پاکستان کی 2012 کی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی (سی سی پی) میں کہا گیا ہے کہ انڈس ڈیلٹا میں نمکین پانی کا بڑھتا ہوا دخل مینگرووز اور اس میں مچھلیوں کی اقسام پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ اگرچہ بحر عرب میں میٹھے پانی کے اخراج کے حوالے سے مختلف طبقہ ہائے فکر و نظر مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
لیکن ماہرین ماحول کا اتفاق ہے کہ سمندر میں دریا کے میٹھے پانی کی شمولیت معیشت کے لیے فائدہ مند اور سازگار ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ آئی یو سی این پاکستان کے ایک اندازہ کے مطابق تیمر کی صحت مند نشوونما کے لیے ہر 40 ہیکٹر (100 ایکڑ) رقبے کے لیے میٹھے پانی کا اوسطً 1 کیوسک (28 لیٹر/سیکنڈ) بہاؤ ضروری ہے۔
ماحولیاتی آبی بہاؤ میں رکاوٹ نے بحر عرب میںموجوں کو زیریں سندھ کے وسیع رقبے، انڈس ڈیلٹا کے خطے اور دریائے سندھ کی اُن آبی گزرگاہوں میں داخلے کا موقع فراہم کردیا ہے جس کے ذریعے تازہ پانی سمندر میں جاگرتا تھا۔ جس کی وجہ سے ان علاقوں میں پانی میں نمکیات کی مقدار میں 50 پی پی ٹی تک اضافہ ہوا ہے۔ جس سے تیمر کے ماحولیاتی نظام اور اس میں پروان چڑھنے والے سمندری آبی حیات کے مسکنوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اوراس پر انحصار کرنے والی کمیونٹیز بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ڈیلٹا سے12 لاکھ افراد کراچی نقل مکانی کرچکے ہیں۔ تیمر کے ماحول کو لاحق دوسرا بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی سے ہے۔
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کی ایک دستاویز کے مطابق ملک کے شہری علاقوں سے روزانہ 400 ملین گیلن سے زائد مایافضلہ اور 8 سے14 ہزارٹن ٹھوس فضلے کے علاوہ سالانہ 90 ہزار ٹن تیل بحری جہازوں سے خارج ہوکر بندرگاہوں کے علاقوں کو آلودہ کررہا ہے۔ اِن خطرات کے علاوہ تیمر کی ایندھن اور تعمیرات کے لیے غیر قانونی کٹائی ، جانوروں کی گنجائش سے زیادہ چرائی اور شہری وسعت اور ترقی کے لیے تیمر کا صفایا نمایاں محرک ہیں۔
ان محرکات کی وجہ سے سندھ میں تیمر کا رقبہ جو 1966میں 344870ہیکٹرز تھا کم ہوکر 2020 تک140922 ہیکٹر ہوچکا ہے۔ جبکہ بلوچستان میں یہ رقبہ 1988 میں 7340 ہیکٹر سے کم ہوکر 2020 تک 5436 ہیکٹر ہوچکا ہے۔تیمر کے رقبے میں اس کمی کا معاشی نقصان یہ ہوا کہ 1951 میں انڈس ڈیلٹا نے5 ہزار ٹن مچھلی پیدا کی جوحالیہ برسوں میں کم ہوکر3 سو ٹن تک آچکی ہے۔جھینگا جو تیمر کے ماحولیاتی نظام کی ایک اہم پیداوار ہے اس کی پکڑے جانے والی مقدار میں بھی واضح کمی آئی ہے جو 1980 کی دہائی میں29 ہزار ٹن سالانہ تھی کم ہوکر 18500 ٹن تک آچکی تھی۔
تیمر کی تنزلی کی وجہ سے ساحلوں کی حفاظت ،طوفانوں اور قدرتی آفات کے خلاف فطرت کی ڈھال کے طور پراِن کا انمول کرداد محدود ہوتا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ساحلی آبادیوں کو جانی اور مالی نقصانات کا سامنا باربار اور زیادہ شدت سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ساحلی علاقوں کے ماحولیاتی نظام میں تنزلی کے باعث قدرتی وسائل کو زمینی کٹاؤ اور ہوا کے کٹاؤ کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے۔
اس کے علاوہ جب تیمر کے جنگلات کو کاٹا جاتا ہے تو اِن کا ذخیرہ شدہ کاربن فضا میں دوبارہ تحلیل ہو جاتا ہے۔ فرض کریں کے خدانخواستہ ہمارا یہ ماحولیاتی نظام اگر تباہ ہوجاتا ہے اور صرف مٹی کی اوپری ایک میٹر تہہ میں ذخیرہ شدہ نامیاتی کاربن دوبارہ فضا میں شامل ہوتی ہے تو اس کی مقدار 76.4 ملین ٹن ہوگی۔ لہذا ماحول میں CO2 کے نئے اخراج کو کم کرنے کے لیے نہ صرف مینگرووز کا تحفظ ضروری ہے بلکہ تیمرکی کٹائی کے رقبے کو بھی بحال کرنا اور نئے رقبہ پر تیمر کی شجر کاری فضاء سے کارن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرنے اور اس کی اسٹوریج بڑھانے میں معاون ثابت ہو گی۔
تیمر کے وسیع علاقے اگرچہ ہم کھو چکے ہیں لیکن حالات بدل رہے ہیں۔ اب افراد اور اداروں نے ان کی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی افادیت کا زیادہ احساس کرنا شروع کر دیا ہے۔ توجو کچھ بچا ہے اس کی حفاظت کے لیے اور بحالی کے پروگراموں کو شروع کرنے کے لیے اب زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس سلسلے میں ملک میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے بڑے پیمانے پر مینگروو کی بحالی پربھرپور کام ہورہا ہے۔دلدلی لیکن تیمر سے خالی ساحلی علاقوں میں ان کی شجر کاری پاکستان کا ایک نیا اعزاز ہے۔
اس طرح کے علاقوں میں تیمر کی شجر کاری دنیا کے صرف چند ممالک میں ہی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں سندھ اور بلوچستان کے محکمہ جنگلات، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، بقائے ماحول کی عالمی انجمن (آئی یوسی این) اوردیگر ملکی و بین الاقوامی تنظیموں اورمتعلقہ اداروںکی کوششوںکی بدولت ملک میں تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں 1990 سے2020 تک کے دوران مجموعی طور پر 207فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں تیمر کا رقبہ جو 1990 تک کم ہوکر 477.22 مربع کلومیٹر تک آگیا تھا اب2020 تک دوبارہ بڑھ کر 1463.59 مربع کلومیٹر ہوچکاہے۔
یعنی3.74 فیصد سالانہ کی رفتار سے ملک میں تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں تیس سالوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔تیمرکے رقبہ میں اضافہ کی یہ خوشخبری حال ہی میں شائع ہونے والے ریسرچ پیپر’’Evaluating mangrove conservation and sustainability through spatiotemporal (1990-2020) mangrove cover change analysis in Pakistan ‘‘ میں قوم کو دی گئی ہے۔ اس اچیومنٹ کو دوچند کرنے کے لیے تیمر کووفاقی حکومت کی دس بلین ٹری سونامی مہم کے مرکزی حصہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔اس پروجیکٹ کے تحت مینگروو کو بحال کرنے کی دنیا کی سب سے بڑی کوششوں میں سے ایک میں 43.50 ملین تیمر کے پودے ملک کے ساحلی علاقوںمیں لگائے جائیں گے۔
سید علی عمران
آپ دس بلین ٹری سونامی پروگرام محکمہ جنگلات بلوچستان کے پراجیکٹ ڈائریکٹرہیں وہ کہتے ہیں کہ ــ’’بلوچستان میں مینگروو کے صرف دو نوٹیفائیڈ پروٹیکٹڈ جنگلات ہیں جو ضلع لسبیلہ میں 734 ایکڑ رقبے پر محیط ہیں۔ اگرچہ یہ رقبہ ان جنگلات کی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت معمولی علاقہ ہے۔ تاہم اگر تیمر کا کوئی درخت محفوظ جنگلات کی حدود سے باہر بھی موجود ہے تویہ جنگلات ایکٹ 1927 کے تحت پروٹیکٹڈ ریزرو درختوں کی فہرست میں شامل ہے ۔یعنی تیمر کی اقسام کو محفوظ درخت کادرجہ دیا گیا ہے۔لیکن حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماہی گیری سے جڑے روزگار کے تحفظ کے لیے تیمر کے باقی ماندہ جنگلات کو محفوظ درجہ یعنی پروٹیکٹڈ فاریسٹ کے تحت لانا ناگزیر ہو گیا ہے۔
دس بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت صوبے میں باقی تیمر کے جنگلات کو محفوظ قرار دینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 15 سالوں میں بلوچستان کے تیمر کے جنگلات کا رقبہ 10028 ایکڑ سے بڑھ کر 13433 ایکڑ ہو گیا ہے جو ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ اس پیش رفت کا جاری رکھنے کے لیے تقریباً 10 ملین تیمر کے پودوں کامقامی کمیونٹیز اور این جی اوز کی شمولیت کے ذریعے شجرکاری کا ہدف بنایا گیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر بابرحسین
بقائے ماحول کی عالمی انجمن، آئی یو سی این پاکستان میں نیچرل ریسورس منیجمنٹ کورڈینیٹر کے طورپر فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اُ ن کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ کئی دہائیوں سے آئی یو سی این پاکستان کے ساحلی علاقوں میں تیمر لگار ہا ہے ہم نے گزشتہ 5 سالوں میں تیمرکے77 لاکھ پودے لگائے ہیں۔جبکہ موجودہ سال ہم نے مئی، جون، جولائی کے دوران بلوچستان کے علاقے میانی ہور میں تیمرکے4 لاکھ پودے لگائے ۔ یہ تمام شجرکاری ہم مقامی کمیونیٹیز کے ساتھ مل کر کرتے ہیں اس حوالے سے کمیونیٹیز کو تربیت دی جاتی ہے اُنھیں Incentives دیئے جاتے ہیں۔
مثلاً کھارو چھان میں ہم نے کمیونٹیز کو سولر پینل فراہم کیے۔اس کے علاوہ ہم نے کراچی میں کاکا پیر ویلج میں کمیونٹی کو تیمر کے حوالے سے ماحولیاتی سیاحت کے تناظر میں تربیت دی۔ جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اس تربیت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدن کمیونٹی اپنے اسکولوں میں اساتذہ رکھنے پر خرچ کررہی ہے۔ اب وہاں بچیوں کی تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے 100 کے قریب بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔ بچیوں کو پڑھانے والی ٹیچرز بھی اُسی گاؤں سے ہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہم نے پورٹ قاسم پر کراچی کنزویشن پروگرام شروع کیا ہے جس میں نجی کاروباری شعبے کو شامل کیا گیاہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علم آئی یو سی این کے ساتھ مل کر تیمر کی شجر کاری کو فروغ دیکر ساحلی علاقوں کو بچائیں‘‘۔
ڈاکٹر طاہر رشید
ڈبلیو ڈبلیوایف پاکستان کے سندھ اور بلوچستان کے ریجنل ہیڈ ہیں ۔ وہ کہتے ہیںکہ ’’ ڈبلیو ڈبلیو پاکستان پچھلی دو دہائیوں سے مختلف اقدامات کے ذریعے تیمر کے تحفظ اور شجرکاری کے لیے کام کر رہا ہے۔ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے اپنے مختلف پراجیکٹس کے ذریعے تقریباً 10750 ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات لگانے کہ ساتھ ساتھ متعلقہ کمیونٹیز کی غربت کے خاتمے، اُن کے معیار زندگی کو بہتر بنانے خصوصاً خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی کافی کام کیا ہے۔ اس وقت ہم انڈس ڈیلٹا کے 17 گاؤں پر مشتمل مینگروو ایکوسسٹم کے پائیدار انتظام کے حوالے سے ایک پراجیکٹ کے اختتامی مراحل میں ہیںجس کے31 دسمبر اختتام تک ہم 1500 ہیکٹر اضافی رقبہ پر محکمہ جنگلات سندھ کے تعاون سے تیمر لگا لیں گے۔
اس کے پراجیکٹ کے تحت کمیونٹی کی سرپرستی کو فروغ دینے اور مینگرووز کے تحفظ میں کمیونٹیز کے کردار کو بڑھانے کے لیے 125000 پودوں کے سٹاک کے ساتھ دو کمیونٹی بیسڈ نرسری بھی قائم کی گئی ہیں۔ڈاکٹر طاہر رشید کہتے ہیں کہ ماضی میں ملک میں تیمر کے رقبہ میں تنزلی کے بعد گزشتہ 30 سالہ محنت کی بدولت تیمر کے جنگلات کے رقبے میں جو حوصلہ افزا اضافہ ہوا ہے اس کو جاری اور برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تیمر کے جنگلات کی بحالی ، حفاظت اور وسعت کے لیے مزیدموثرقانون سازی کی جائے۔ محکمہ جنگلات سندھ اور بلوچستان اس حوالے سے داد کے مستحق ہیں جن کی شبانہ روز کوششوںسے قوم کو تیمر کے جنگلات میں اضافہ کی یہ خوش خبری ملیـ‘‘۔
عارف علی کھوکھر
آپ محکمہ جنگلات سندھ میں کنزیرویٹر آف فارسٹ مینگرووز فارسٹ مینجمنٹ سرکل کراچی ہیں۔ محکمہ جنگلات سندھ کی صوبے میں تیمر کے جنگلات کی بحالی(restoration)جو دنیا میں اپنی نوعیت کاسب سے منفرد اور قابل ستائش کام ہے اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ـ’’ 1980 میں صوبے میںتیمر کے جنگلات کا رقبہ سکڑ کرصرف80 ہزار ہیکٹر رہ گیا تھا۔ جو ایک تشویشناک صورتحال تھی جس پر قابو پانے کے لیے محکمہ جنگلات سندھ نے تیمر کی بحالی کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس کا آغاز کیا 2011 میں تیمر کی بحالی کے پہلے بڑے پراجیکٹ کا آغازکیا گیاجس کے تحت35 ہزار ہیکٹر رقبہ پر تیمر کی شجرکاری کی گئی 2014 میں دوسرے پراجیکٹ کا آغاز ہوا جس میںمزید 35 ہزار ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے درخت لگائے گئے۔
اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا یوں ہم اب تک صوبہ میں 2 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات بحال کرچکے ہیں۔جس کی تائید حال ہی میں انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حماد گیلانی کی تحقیق سے بھی ہوئی ہے۔
وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے مشترکہ ٹین بلین ٹریز سونامی پروگرام کے تحت ہم نے سندھ میں 40 ہزار ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات لگانے کا ہدف بنایا ہے جس میں سے40 فیصد ہم لگا چکے ہیں اور آنے والے تین سالوں میں انشاء اللہ ہم باقی ماندہ ہدف بھی حاصل کرلیں گے۔ بحال کیے گئے جنگلات کی حفاظت کے لیے اختیار کی گئی حکمت عملی کے بارے میں بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ہم نے ہر400 ہیکٹر رقبہ کے لیے مقامی کمیونٹیز سے ہی ایک فرد کو حکومت کی مقرر کردہ اجرت پر رکھا ۔ یہ چوکیدار اپنے اپنے رقبہ پر تیمر کے جنگلات کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ عارف علی کھوکھر نے کہا کہ ہم اپنے تیمر کے جنگلات کو انٹرنیشنل کاربن مارکیٹ میں پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اگر ہمارے بلیو کاربن کریڈٹس recognize ہوگئے تو ہم اس سے کثیر زرمبادلہ حاصل کرسکتے ہیں‘‘۔
آج دنیا بھر میں تیمر کے جوجنگلات موجود ہیں وہ فطرت کی صدیوں کی ریاضت کاثمر ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی انسانی آبادی ، غیر متوازن استفادہ اور کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے ان جنگلات پر موجود دباؤ میں روزبروزاضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے تیمر کے فوائد انسانی تہذیبوں کے اس پر انحصار اور معاشی اہمیت کے سبب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کی باضابطہ شجر کاری کی طرف سنجیدہ عملی کوششیں گزشتہ کئی عشروں سے جاری ہیں۔ جن کے نتائج ثمر آور ہیں۔ تاہم ابھی سفر جاری ہیں اور بہت کچھ کرنا اور بہت کچھ ہونا ابھی باقی ہے۔
کہاں‘ کتنے رقبے پر جنگل ہیں؟
ملک میں تیمر کے جنگلات کے حتمی رقبہ کا تعین ابھی نہیں ہوسکا مختلف اداروں اور انفرادی سطح پر کام کرنے والوں نے مختلف سالوں میںاس کی مختلف پیمائشیں بتائی ہیں۔ مثلاً1958 میں سندھ میں 344846ہیکٹرز پر موجود تیمر کے گھنے جنگلات کا رقبہ محکمہ جنگلات سندھ کو منتقل کیاگیا۔
اس کے بعد1966میں سندھ میںتیمر کے جنگلات کا رقبہ 344870 ہیکٹر دستاویز میں لکھا ملتا ہے۔ 1985 میں محکمہ جنگلات سندھ نے اس کا رقبہ 280470 ہیکٹر بیان کیا۔فارسٹ سیکٹر ماسٹر پلان کے تحت1992 ملک میں تیمر کے جنگلات کا رقبہ 155369 ہیکٹر بتایا گیا۔
2003میں سپارکو نے ملک کی ساحلی پٹی کے 86728 ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات موجود ہونے کا کہا۔ جس میں سندھ کی ساحلی پٹی پر82669ہیکٹر اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر4058ہیکٹر پر تیمرکے درخت موجود تھے۔لندن سے 2000 میں شائع ہونے والی کتاب ’’دی روٹ کاززآف بائیوڈاورسٹی لاس‘‘میں پاکستان میں تیمر کے جنگلات کا رقبہ 132000 ہیکٹر تحریر ہے، جس میں سے 129000 ہیکٹر انڈس ڈیلٹا پر جبکہ3000 ہیکٹر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر موجودہونے کا کہا گیا۔ 2005 میں سپارکو اور محکمہ جنگلات سندھ کی ایک سٹڈی کے مطابق صوبے میں 55760ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات تھے۔
بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی ایک رپورٹ میں2005 میں سندھ کے 605370ہیکٹرزرقبہ پر تیمر کے جنگلات کا بتایاگیا ہے۔2008-09 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ملک میں تیمر کے جنگلات98128 ہیکٹر پر موجود ہونے کا کہا۔ جس میں سے92412 انڈس ڈیلٹا پر1056 ہیکٹرکراچی کے ساحل کے ساتھ اور 4660ہیکٹربلوچستان میں مکران ساحل پر موجود تھے۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک زراعت کے فاریسٹ ریسورس اسسیسمنٹ نے 2015 میں 95000ہیکٹرزرقبہ بتایا۔
اس کے علاوہ گلوبل مینگروو واچ کے مطابق پاکستان میں تیمر کے جنگلات کا رقبہ 2016 میں 64157 ہیکٹرزتھا۔ محکمہ جنگلات سندھ کی ویب سائیٹ پر تیمرکے جنگلات کا رقبہ ابھی بھی صوبے میں 6 لاکھ ہیکٹر لکھا ہواہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے26 جولائی2021 کو اپنے ایک بیان میں انڈس ڈیلٹا کے 130000 ہیکٹر رقبہ پر تیمر کے جنگلات کی نوید سنائی۔ورلڈ بینک کی مئی 2021 میں جاری کردہ ’’ بلیو کاربن رپیڈ اسسمنٹ فار پاکستان ‘‘ نامی رپورٹ میں Estuarine, Coastal and Shelf Science نامی بین الاقوامی ریسرچ جنرل شائع ہونے والے ریسرچ پیپر’’Evaluating mangrove conservation and sustainability through spatiotemporal (1990-2020) mangrove cover change analysis in Pakistan ‘‘ کے حوالے سے پاکستان میں تیمر کے جنگلات کا تازہ ترین رقبہ 2020 میں1464 مربع کلومیٹریعنی 146400 ہیکٹربیان ہے۔اس تحقیقی مقالہ کو تین اداروں کی سات رکنی ماہرین کی ٹیم نے تیار کیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حماد گیلانی جو اس ریسرچ پیپر کے Corresponding author ہیں اُنھوں نے بتا یا کہ ’’ ملک میں تیمر کے جنگلات آٹھ ارضیاتی ٹکڑوں میں موجود ہیں جو آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں۔
1464.95 مربع کلومیٹر رقبہ پر موجود تیمر کے جنگلات میں سے 1395.66 مربع کلومیٹر انڈس ڈیلٹا میں موجود ہے۔ جبکہ ریتلے میدانوں (Sandspit) پر 13.56مربع کلومیٹر پر تیمر موجود ہے۔ بلوچستان میں سونمیانی کھور(Sonmiani Khor)، کلمت ہور(Kalmat Hor)، ساہیدی کھور(Sahidi Khor)،سوار کھور(Sawar Khor)، شابی کھاڑی(Shabi Creek)، انکرا کھاڑی(Ankra Creek) اور جیوانی(Jiwani) میں تیمر کا مجموعی رقبہ 54.36 مربع کلومیٹر ہے ‘‘۔ اعداد و شمار کے نشیب وفراز اورتضادات کے باوجودعالمی سطح پر یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ پاکستان زمین پر کسی بھی جگہ موجود خشک بارانی arid climate آب و ہوا کے حامل تیمر کا سب سے بڑا حصہ رکھتا ہے۔
تاریخی طور پر تیمرکی آٹھ اقسام انڈس ڈیلٹا میں پائی گئیں۔ تاہم ان میں سے چار نمکیات کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ناپید ہو چکی ہیں۔اس وقت سندھ ڈیلٹا میں تیمر کی جو چار اقسام پائی جاتی ہیں ان میں سے Avicennia marina کی قسم کا تناسب سب سے زیادہ ہے جو 90 فیصد ہے۔ اس کے بعد پائی جانے والی قسم Rhizophora mucronata ہے جس کا تناسب 08 فیصد ہے۔ Aegiceras corniculatum کا تناسب ڈیڑھ فیصد اور Ceriops tagal کا صفرعشاریہ پانچ(0.5%)فیصد ہے۔ مکران کے ساحل کے ساتھ تیمر کی تین اقسام پائی جاتی ہیں۔ جن چار اقسام کا اوپر ذکر کیا گیا اس میں سے صرف Aegiceras corniculatum بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں موجود نہیں جبکہ باقی تینوں قسمیں وہاں پائی جاتی ہیں ۔ میانی ہور وہ واحد علاقہ ہے جہاں تیمر کی یہ تینوں اقسام موجود ہیں۔
کاربن کریڈٹس؟
آپ اپنے گھر کے پچھواڑے میں ایک چھوٹا سا جنگل اُگائیں۔ حساب لگائیں کہ آپ کا جنگل اپنی زندگی بھر میں کتنے ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرے گا۔ پھر وہ مقدار کاربن کریڈٹس کی صورت میں کمپنیوں اور نجی اداروں کو بیچیں جو ابھی تک CO2 کو ہوا میں خارج کرنے میں مصروف ہیں۔
کاربن کریڈٹ ایک تجارتی اجازت نامہ یا سرٹیفکیٹ ہے جو کریڈٹ کے حامل کو ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ یا دوسری گرین ہاؤس گیس کے مساوی اخراج کا حق فراہم کرتا ہے ۔ کیونکہ جو کاربن کریڈٹ خریدا گیا ہے وہ دنیا میں کہیں ایک ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کو فضا سے کشید کرنے یا پھرکشید کرکے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے حوالے سے فروخت کیا گیا ہے۔ کاربن کریڈٹ کی تخلیق کا بنیادی مقصد صنعتی سرگرمیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہے تاکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
کاربن تجارت کیا ہے؟
کاربن ٹریڈ ،کریڈٹس کی خرید و فروخت ہے جو کسی کمپنی یا دوسرے ادارے کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک خاص مقدار کے اخراج کی اجازت دیتی ہے۔ کاربن کریڈٹ اور کاربن تجارت کو حکومتوں کے ذریعہ اختیار کیا جاتا ہے ۔
بلیو کاربن کریڈٹس؟
وہ خاص کاربن کریڈٹس ہیں جو ساحلی اور سمندری ماحولیاتی نظام میں کاربن ذخیرہ کرنے سے منسلک ہیں ۔یہ ماحولیاتی نظام بنیادی طور پر سمندری جنگلات، سمندری دلدل،تیمرکے جنگلات اور سمندری گھاس کے علاقوں پر مشتمل ہیں۔
The post تیمر کے جنگلات، جو زیرِ سمندر زلزلوں سے آنیوالے سیلابوں کو روکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.