زباں فہمی 122
بعض اوقات اہلِ زبان بھی طے شدہ اُمور میں یوں اختلاف کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ حیرت اُس وقت دوچند ہوجاتی ہے جب اس بحث میں اچھے خاصے صاحبِ علم لوگ شامل ہوجائیں۔
زبان کا علم یقیناً کسی ایک شخص یا گروہ کی میراث نہیں، مگر بہرحال اہل ِزبان یا اُن جیسی علمی استعداد کے حامل اہل قلم ہی تحقیق کی راہ کے سچے مسافر ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند عشروں سے ہماری عمومی معاشرتی حالت ہر پہلو سے زوال پذیر دکھائی دیتی ہے، بشمول روزمرّہ گفتگو اور تحریروتقریر کے معاملات۔
اب ایک عام آدمی، منجھے ہوئے صحافی، تجربہ کار اَدیب، مشہورومقبول شاعر اور بظاہر تربیت یافتہ و سندیافتہ معلّم، سبھی ایک سی غلطی ہر اُس مقام پر کرتے نظر آتے ہیں جہاں معلومات کی کمی اور تحصیل علم کی طلب میں عدم دل چسپی کا عنصر مشترک ہو۔ چونکہ بقول اس خاکسار کے، ا ب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ذمہ بھی ذرایع ابلاغ بشمول ٹیلی وژن اور خصوصاً سوشل میڈیا نے اٹھالیا ہے، لہٰذا صورت حال بہت گمبھیر ہوگئی ہے۔
(ضمناً عرض ہے کہ اگر لفظ گمبھیر کو Font بدل کر نہ لکھا جائے تو لفظ ہی بدل جاتا ہے)۔ اِن دنوں جن الفاظ کے غلط استعمال کی لہر چلی ہوئی ہے ان میں ’’سوا‘‘ اور ’’علاوہ‘‘ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے سے مختلف اور درحقیقت متضاد یا برعکس معانی کے حامل ہیں، مگر لوگ انھیں مترادف سمجھ رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں بات کی جائے تو ’’سوا‘‘ کا مطلب ہوا کہ اس چیز یا شخص کو چھوڑکر، اس کے بغیر، اس سے جدا، اس سے الگ…….وغیرہ جبکہ ’’علاوہ‘‘ کے معانی میں ’اور بھی‘،’مزید‘ ، ’بشمول‘، اور ’مزید برآں‘ بھی شامل ہیں۔
زیرِنظر کالم کی وجہ تحریر بھی دل چسپ ہے۔ ہوا یوں کہ ہماری واٹس ایپ بزم بعنوان بزم زباں فہمی میں پچھلے دنوں یہ بحث زندہ ہوئی کہ لفظ ’’عِلاوَہ‘‘ اور ’’سِوا‘‘ مترادف ہیں، متضاد ہیں یا ان کا استعمال ہر دو طرح درست ہے۔ (بات کی بات ہے کہ ہمارے یہاں عموماً لفظ علاوہ کا غلط تلفظ ’’عَلاوَہ‘‘ہی ادا کیا جاتا ہے)۔
اس سے قبل کہ علمی نکات پیش کیے جائیں، ذرا مندرجہ ذیل اشعار میں سوا اور علاوہ کا استعمال ملاحظہ فرمائیں:
سِوا
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے
(امیرؔ مینائی)
دنیا کے ستم یاد، نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی، محبت کے سوا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
(جگر مراد آبادی)
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
(فیضؔ)
اپنا اندازِ جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں
چاکِ دل، چاکِ گریباں سے سوا، رکھتا ہوں
(حمایت علی شاعر)
مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
(ساغرصدیقی)
وعدہ آسان ہے، وعدے کی وفا مشکل ہے
جن کے رُتبے ہیں سِوا، اُن کو سِوا مشکل ہے
(مختارٹونکی، پ: ۱۹۳۹ء)
(مختارٹونکی صاحب کا حوالہ ہمارے بزرگ ہندوستانی معاصر محترم ندیم صدیقی نے آن لائن موجود، اپنے ایک مضمون میں رقم کیا)
جدھر سے چاہو چلے آئو، گر چکی دیوار
اب اس مکان میں در کے سوا کچھ اور نہیں
(اسلم بدر، ہندوستان)
اب ملاحظہ فرمائیں کچھ اشعار جن میں لفظ ’علاوہ‘ استعمال ہوا ہے۔
علاوہ
علاوہ عید کے، ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کوچہ ٔ مئے خانہ نامراد نہیں
(غالبؔ)
یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے
یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو
(شہر یارؔ)
پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ
کچھ اور پڑھو یار نصابوں کے علاوہ
(نازمظفرآبادی ، پ: ۱۹۵۵ء)
جشن گریہ کے علاوہ بھی تماشا ہو تو
اب علاوہ کے علاوہ بھی تماشا ہو تو
(رستم نامی، پ: ۱۹۵۹ء)
دریا میں بہت کچھ ہے روانی کے علاوہ
مدت سے میں سیراب ہوں پانی کے علاوہ
(خورشید اکبر، پ: ۱۹۵۹ء)
بحر بے آب کے علاوہ بھی
وہ ملے خواب کے علاوہ بھی
(خضر عباس، پ: ۱۹۹۲ء)
]اخذِ مواداَز ریختہ ڈاٹ آرگ ودیگر ویب سائٹس[
واٹس ایپ حلقے ’’بزم زباں فہمی‘‘ میں جب یہ بحث چھِڑی تو کسی نے ہمارے مقبول معاصر، محترم عباس تابش کا یہ شعر نقل کیا جس میں لفظ علاوہ بمعنی ’’سوا‘‘ استعمال ہوا ہے:
رات کمرے میں نہ تھا میرے عِلاوہ کوئی
میں نے اِس خوف سے خنجر نہ سرہانے رکھّا
ہمارے فاضل واٹس ایپ دوست ڈاکٹر قاسم محمود نے اسے یہ کہہ کر رَد کیا کہ وہ اہل ِزباں نہیں، اس لیے سند نہیں۔ میں اُن سے اتفاق کرتے ہوئے یہاں بہ اَمر مجبوری احمد فراز ؔ کی ایک غزل نقل کررہا ہوں، جس میں ملی جلی صورت حال ہے:
سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
بہت سے ایسے ستم گر تھے اب جو یاد نہیں
کسی حبیب دل آزار کے علاوہ بھی ٭
یہ کیا کہ تم بھی سر راہ حال پوچھتے ہو
کبھی ملو ہمیں بازار کے علاوہ بھی ٭٭
اجاڑ گھر میں یہ خوشبو کہاں سے آئی ہے
کوئی تو ہے در و دیوار کے علاوہ بھی
سو دیکھ کر ترے رخسار و لب یقیں آیا
کہ پھول کھلتے ہیں گل زار کے علاوہ بھی
کبھی فرازؔ سے آ کر ملو جو وقت ملے
یہ شخص خوب ہے اشعار کے علاوہ بھی
(احمد فرازؔ)
٭ یہ مصرع خارج اَزبحرمعلوم ہوتا ہے۔
٭٭ یہاں شاعر نے لفظ علاوہ بمعنی سوا باندھا ہے۔
اب لگے ہاتھوں لغات کی سیر کرلی جائے۔
سِوا
فرہنگِ آصفیہ:
عربی، حرفِ استثناء: ۱)۔ علاوہ، ماسوا، سوائے، بجز، جُز، اُپرنت، بغیر، بغیر اَز، ماوَراء، تِس پر، غیرذالک جیسے ’بیٹے کے سِوا کون دے گا‘، ’تمھارے سِوا کوئی نہیں آیا‘۔۲)۔ صنعت: زیادہ، افزود، بڑھتی، فالتو، اُوپر جیسے ’خدا سِوا دے‘، ’ایک سے ایک سِوا ہے‘، ؎
بَل ہے نفرت کہ ہمیں دیکھ کے خوبانِ فرنگ
جلد جلد اور بھی بگھی کو سِوا ہانکتے ہیں
(بہادرشاہ ظفرؔ)
(یعنی انگریز حسینائیں ہم سے اتنی نفرت اور تکبر کا اظہار کرتی ہیں کہ ہمیں یعنی بادشاہ کو دیکھ کر تیزرَوبگھی کو مزید تیز ہانکنے کا حکم دیتی ہیں۔ یہ مضمون شاید ظفرؔ کے سِوا کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتا۔ س اص)
نوراللغات:
(الف)۔ عربی، حرفِ استثناء، بکسر ِ اوّل (یعنی پہلے حرف کے نیچے زیر ۔س اص)، علاوہ، بجز، بغیر، فقرہ: وہ خدا کے سوا کسی کو نہیں مانتا۔ اس کی اضافت، ہندی الفاظ کے ساتھ غیرفصیح ہے، عربی، فارسی الفاظ کے ساتھ جائز ہے۔ اضافت کی حالت میں ’ے‘ زیادہ کردیتے ہیں، جیسے سِوائے، جیسے سِوائے صبر کچھ چارہ نہیں۔ (ب)۔ زیادہ، بڑھ کر، برقؔ :
کسی معشوق کو پایا نہ کبھی سَرو سے کم
اِن میں جو ہوتا ہے، دو ہاتھ سِوا ہوتا ہے
{سَرو ایک بلند قامت پیڑ ہے، جس کی مثال یہاں دینے سے مراد ہے، معشوق کا تکبر، ورنہ محض بلندقامت کے لیے یہ کہنا ضروری نہ تھا کہ ان میں ہر کوئی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہت ہی دل چسپ اور منفرد مثال ہے کہ اس شعر میں سَرو کا استعمال بھی منفی کیا گیا، ورنہ محبوب ومعشوق کو سَرو۔یا۔شمشاد سے تشبیہ دیتے ہیں تو مراد اُس کے جسمانی حسن میں قد کی بطور تعریف ہوا کرتی ہے، جبکہ کسی شخص کو طنزاً یا تحقیراً لمبا کہنا ہو تو کہتے ہیں، تاڑ کی طرح لمبا۔یا۔ پورا تاڑ ہے تاڑ۔ س ا ص}۔ یہاں ضمنی، مگر، اہم نکتہ یہ ہے کہ مولوی نورالحسن نیرؔ کاکوروی صاحب نے اپنی اس وقیع لغت میں محض تخلص ’’برقؔ‘‘ لکھا ہے، پورا نام نہیں۔ اب یہ معلوم کرنا بھی بہت مشکل ہے کہ اس سے مراد، میرزا محمد رضابرقؔ لکھنوی (۱۷۹۰ء تا ۱۸۵۷ء۔ سن پیدائش ۱۷۷۵ء بھی ملتا ہے) ہیں، محمد بیچو برقؔ (پ۱۸۶۵ء ، سن وفات نامعلوم)۔یا۔مہاراج بہادروَرما برقؔ دہلوی (۱۸۸۶ء تا ۱۹۳۶ء۔ سن پیدائش ۱۸۸۴ء بھی ملتا ہے)۔
اردولغت بورڈ کی عظیم وضخیم لغت کا خلاصہ، بشکل مختصر اردولغت، جلددوم میں لکھا ہے:
(الف)۔ حرفِ استثناء، بجز،جُز (ب)۔صفت: زیادہ، بڑھ کر، دُونا(پراکِرِت لفظ ہے۔س ا ص)
اردو تھیسارَس مرتبہ رفیق خاور (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد: ۱۹۹۴ء) میں یہ لفظ (نیز سِوایا) بطور صفت منقول ہے۔ (ص ۶۵)
ہرچندکہ لفظ علاوہ، عربی الاصل ہے، ہم پہلے اپنی اردو لغات سے اکتساب کرتے ہیں۔
فرہنگِ آصفیہ:
علاوہ: عربی (تابع فعل) ۔۱)۔حرفِ استثنا۔ ماسوا۔ سوا۔ اس کے سوا۔ بجز۔
علاوہ: (تابع فعل)۔۲)۔اور۔ اُوپر۔ فالتو۔اوپرنت، زیادہ۔ اور بھی۔ اس کے لغوی معنی اس تھوڑے سے بوجھ کے ہیں جو بڑے بوجھ کے اوپر رکھ لیتے ہیں۔ نیزہر ایک چیز جو دوسری چیز پر ہو۔ نیز وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں جسے فارسی میں سرِبار کہتے ہیں۔
علاوہ ازیں: (تابع فعل) اس کے ماسوا۔ اس کے باوجود۔
نور اللغات:
عُلاوہ: بلندی
عِلاوہ: ہر چیز جو دوسری چیز کے اوپر رکھ لی جائے۔ وہ چیز جو کسی چیز پر بڑھائیں۔ اس کے سوا۔ ماسوا۔ زیادہ۔ اور بھی۔ یہ لفظ شمول اور شراکت کے لیے بھی آتا ہے اور علیٰحدگی کے لیے بھی۔ فقرے: زید کے علاوہ خالد بھی تھا یعنی زید بھی تھا اور خالد بھی تھا۔ اس کتاب کی قیمت، محصول کے علاوہ ، دس روپے ہے۔ (یہاں فاضل مرتب سے بہت بڑا سہو ہوا۔ دونوں مثالوں میں شمولیت تو واضح ہے، استثناء ہرگز نہیں۔ س ا ص)
فرہنگِ تلفظ:
علاوہ: ایزاد یعنی بڑھانے اور استثنا ء کے لیے مستعمل۔ نیزبمعنی بھی کا مترادف یا سوائے
علمی اردو لغت:
علاوہ: ماسوا، مزید، اور بھی
علاوہ ازیں: ماسوا، باوجود یکہ، مزید برایں، ماسوا اس کے
جامع اللغات:
علاوہ: زیادہ، ماسوا، مزید، اور بھی
علاوہ اَزیں/ علاوہ براَیں: اس کے سوا، مزید برآں، باوجود یکہ، ماسوا ئے اس کے
فرہنگِ عامرہ:
علاوہ: سوا، بڑے بوجھ کے اوپر چھوٹا بوجھ
مختصر اردولغت، جلددوم:
عربی: (۱لف)(۱)۔ مزید اور، اور بھی (اشتمال کے لیے مستعمل)۔ (۲)۔ بجز، سوا (استثناء کے لیے مستعمل)۔ (ب)۔ اسم مذکر: وہ چھوٹا (اضافی) بوجھ یا سامان جو (سامان سے لدے اونٹ یا گھوڑے کے) اوپر رکھا ہو، بڑے بوجھ پر چھوٹا بوجھ، مزید اضافہ۔
قاموسِ مترادفات:
علاوہ: مزید۔ بشمول۔ اور۔ ماسوا۔ بجز۔
اب ذرا عربی لغات سے بھی استفادہ کرتے چلیں:
مصباح اللغات عربی اردو:
علاوہ: اِضافہ۔ زائد۔ ہر چیز میں سے زیادہ۔
مثال: میں نے تمھیں ایک قلم کے علاوہ ایک دوات (بھی) دی، یعنی قلم تو دیا ہی تھا اس پر مستزاد یہ کہ دَوات بھی دے دی۔
القاموس العصری
علاوہ: زیادۃ یعنی زیادہ یا بڑھا کر دینا
یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی لغات کے مندرجات کسی طالب علم کو ابہام میں مبتلا کرتے ہیں، اُس کی رہنمائی فقط اہل علم، اہل زبان ہی کرتے ہیں اور بقول ہمارے بزرگ معاصر، محترم شہاب الدین شہابؔ ، ایسی کسی بھی صورت حال میںلغات پر اہل زبان کا پلّہ بھاری مانا جاتا ہے، لہٰذاکسی بھی قسم کے الجھائو کی صورت میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اہل زبان کا روزمرّہ ہی سند ہے۔ آخر میں اس ساری بحث کا خلاصہ ایک اہم ماخذ کی مدد سے کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے ذی علم بزرگ معاصر پروفیسرغازی علم الدین نے اپنی ایک نگارش میں یہ بحث منطقی انجام کو پہنچادی تھی، مگر مجھ سمیت اکثر اہلِ قلم کی نظر سے یہ اہم مضمون اوجھل رہا۔ اب دریافت ہوا ہے تو اس طرح کہ اس کا ماقبل حوالہ ہمارے مشفق کرم فرما، بزرگ معاصر محترم اطہرہاشمی (مرحوم) کے ایک (آن لائن دستیاب) کالم میں بھی منقول نظر آیا۔ انھوں نے متعدد مثالوں سے منطقی طور پر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچادی کہ باوجودیکہ، علاوہ اور سوا کے مابین فرق کے لیے کوئی باقاعدہ کلّیہ موجود نہیں، مگر اہل زبان کے روزمرّہ میں ان کا استعمال یکسر مختلف ہے اور اس کی بنیاد عربی وفارسی لغات سے بھی فراہم ہوتی ہے۔ غازی صاحب نے بہت اچھی مثال یہ پیش کی کہ کلمہ طیّبہ میں یہ کہنا کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں تو درست ہے، مگر کوئی لاعلمی میں یہ کہے کہ اُس کے عِلاوہ کوئی معبود نہیں……تو معاذاللہ، معانی بدل جائیں گے۔ باریک سی بات ہے، مگر ذراغور کریں تو واضح ہوجائے گی۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ ’’ایک اردو ٹی وی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام میں، ایک معروف عالم اور مبلغ نے ایک نومسلم کو کلمہ طیبہ اور اس کا ترجمہ (یوں) پڑھایا، ’اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، حضرت محمد (ﷺ) ا للہ کے رسول ہیں‘۔ یہاں ’سوا‘ کا محل تھا، ’علاوہ‘ کا استعمال درست نہیں کیا گیا‘‘۔ دیکھا آپ نے کس قدر نازک معاملہ ہے۔ محض ایک لفظ کے غلط استعمال نے معاملہ توحید کی بجائے شِرک تک پہنچادیا۔ غازی صاحب نے مفصل بحث کرتے ہوئے یہ نکتہ واضح کیا کہ ’’سوا‘، ’اِلاّ‘اور’غیر‘ تینوں عربی زبان کے وہ الفاظ ہیں جو اردو میں بھی کلماتِ استثنا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں‘‘۔ انھوں نے ان تینوں کی مثالیں بھی پیش فرمائیں:
۱۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۲۔ میں تم سے قطعاً بات نہیں کروں گا، اِلاّ یہ کہ تم معذرت کرلو۔
۳۔ میں نے آپ کے بغیر یہ کام کر لیا۔
پروفیسر غازی علم الدین نے برملا کہا کہ ’’ان الفاظ کے علاوہ لفظ ’علاوہ‘ بھی عربی زبان کا لفظ ہے لیکن یہ کلمہ استثنا نہیں ہے، اس کے باوجود اُردو زبان میں اسے کلمہ استثنا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے‘‘۔
The post سِواء اور عِلاوَہ appeared first on ایکسپریس اردو.