’’ کہانیاں ہماری یادداشت کے پہلے آسمان کے ستارے ہیں ۔
روشن اور شوخ، مدھم اور نہایت مدھم ۔
جن کی روشنی فرقت کی تنہائی اور شب کی تاریکی کو کم کر کے گوارا بناتی ہے ۔
عمر کے ہر دور کی کہانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ ہوتا ہے ۔
بچپن کی کہانیاں ہم جولیوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ انھیں جب بھی پکاریں ، وہ دروازوں اور پردوں کے عقب سے نکل کر آجاتی اور ہمارے ساتھ گلی ڈنڈا اور لکن میٹی کھیلنے لگتی ہیں ۔ عہد شباب کی کہانیاں رسیلی اور خوشبو دار ہوتی ہیں اور ادھیڑ عمری میں کہانیوں کے سارے ذائقے اور معانی تبدیل ہو جاتے ہیں اور ان کی نئی پرتیں دکھائی دینے لگتی ہیں ۔‘‘
کہانی سے عشق کا یہ اظہار ’ بزم جہاں افسانہ ہے ‘ سے لیا گیا ہے جو اردو کے معروف افسانہ نگار منشا یاد ( مرحوم ) کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے ۔ یہ یادداشتیں ایک اعتبار سے ان کی خودنوشت ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا نہ آتا تو شاید وہ اسے اپنی زندگی میں آپ بیتی کی شکل دیتے ۔ ان کے انتقال کے بعد جناب خلیق الرحمن ( جو ان کے بھانجے ہیں) ، سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق نے اس کی ترتیب و تدوین کی ۔ آئیں ! مرحوم منشا یاد سے کچھ مزید سیکھتے ہیں :
’’کہانیوں کی کئی قسمیں ہیں
بعض کہانیاں لباسوں کی طرح ہوتی ہیں جنھیں ہم کچھ عرصہ پہن اور اوڑھ کر اتار دیتے ہیں ۔ بعض کہانیاں زیورات کی طرح ہوتی ہیں جنھیں ضرورت کے وقت اور خاص خاص موقعوں پر اپنے حافظے کی الماری سے نکال کر تھوڑی دیر کے لئے پہن لیتے پھر گڈی کاغذ میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔ بعض کہانیاں جسم پر چوٹوں ، زخموں اور جلنے کے نشانوں کی طرح ہوتی ہیں جو ہمارے ساتھ جوان اور بوڑھی ہوتی رہتی ہیں ۔
کہانیاں ہمارے ساتھ پیدا ہوتی اور ہمارے بعد بھی زندہ رہتی ہیں ۔
ہم دن رات کہانیوں میں گھرے رہتے ہیں ۔
کہانیاں دور دراز کے سفر کرتی ہیں اور وہاں بھی پہنچ جاتی ہیں جہاں ہم خود نہیں پہنچ پاتے ۔ ‘‘
مرحوم منشا یاد کی یہ باتیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ کہانی ہوتی کیا ہے؟ اسے کیسے لکھا جاتا ہے؟ اچھی کہانی کس قسم کے لوگ لکھ سکتے ہیں ؟ ان کی پرورش کس ماحول میں ہوتی ہے ؟ ان کے اپنے اوصاف کیا ہوتے ہیں ؟ آج ہمارے ہاں کہانیاں لکھی جا رہی ہیں ، ظاہر ہے کہ کہانی اس کائنات میں روز اول ہی سے تخلیق ہو رہی ہے، جب اس دنیا میں دو انسان اتارے گئے تھے، ایک نئی کہانی شروع ہو گئی ، پھر کہانی سنانے والے پیدا ہوتے گئے، ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ پھر کہانیاں لکھی جانے لگیں ، ایسے لکھاری ہزاروں نہیں لاکھوں اور کروڑوں میں ہیں ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں اچھی کہانی لکھنے والے کم ہو گئے ہیں ۔ منشا یاد جیسے کہانی کار چلے گئے تو اب کہانی لکھنے کا شوق رکھنے والے نئے لوگوں کو سکھانے والا کوئی نہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے ، ہمت بڑھانے والے نظر نہیں آتے، ایسے میں منشا یاد کی یادداشتیں ہی رہنما ہوتی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ گاؤں میں سب سے زیادہ کتابیں ہمارے ہی گھر میں تھیں اور گاؤں کے جس گھر میں رات کو دیر تک دیا جلتا رہتا ، وہ بھی ہمارا ہی گھر تھا ۔گاؤں گاؤں گھوم پھر کر کتابیں بیچنے والا پتوکی منڈی کا ایک نیم نابینا شخص بابا جلال بھی سال میں دو ایک بار آتا اور ہمارے ہی گھر میں قیام کرتا ۔ کچھ قصے کتابیں ہم قیمتاً خریدتے، کچھ وہ تحفتاً دے جاتا ۔ یہ سب منظوم قصے اور کتابیں ہوتیں اور باقاعدہ گا کر پڑھی اور ایک دوسرے کو سنائی جاتیں ۔‘‘
میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ، ہزاروں کہانیاں پڑھ اور سن چکا ہوں ۔ سیکڑوں کہانیاں سوچ چکا ہوں ۔ ان میں سے کچھ محفوظ ہو گئیں باقی جہاں سے آئی تھیں ، وہیں چلی گئیں مگر بعض اب تک میرے اردگرد چکر لگاتی رہتی ہیں کہ ہمیں لکھو ۔ ان میں کچھ کمزور اور معمولی ہیں ، ان کا لکھنا کچھ ضروری نہیں ۔ بعض کو میں کسی خوف ، دل آزاری کے اندیشے اور مصلحت کی بنا پر نہیں لکھنا چاہتا اور بعض اتنی میلی کچیلی اور ٹوٹی ہوئی ہیں کہ انھیں جھاڑنے ، پونچھنے اور جوڑنے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے ۔ بعض جگنوؤں کی طرح ہیں، لحظہ بھر کے لئے ٹمٹاتی ہیں اور اس سے پہلے کہ انھیں مٹھی میں بند کر لیا جائے نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں ۔‘‘
٭٭٭
کہانی سے میری رغبت بچپن ہی سے تھی بلکہ اس سے بھی پہلے ، جب میرا بسیرا پھولوں ، درختوں اور بادلوں پر تھا ۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں اور کہانی ایک ساتھ پیدا ہوئے کیونکہ کہانی میرے پیدا ہونے سے پہلے بھی موجود تھی اور کہیں دور نہیں ، ہمارے اپنے گھر میں رہتی تھی یا شاید ہم اس کے گھر میں رہتے تھے ۔ وہ دن کو گھر کی ایک پڑچھتی پر کتابوں میں سوئی پڑی رہتی ۔ رات کا اندھیرا پھیلتے اور لالٹین روشن ہوتے ہی آنکھیں مل کر جاگ اٹھتی اور رات بھر ہمیں بھی جگائے رکھتی ۔ کبھی سردیوں کی کسی رات کو جب نانا جی اور ماموں جان ہمارے ہاں آئے ہوتے تو ہم آدھی آدھی رات تک جاگتے اور کہانیوں ، لطیفوں اور شعر و شاعری کا دور چلتا رہتا ۔ اکثر اوقات تایا جی کو بھی بلوا لیا جاتا جن سے ہیر وارث شاہ سنی جاتی لیکن عام حالات میں ہمارے ہاں تایا جی کے آنے جانے کا کوئی وقت مقرر نہ تھا ۔ ان کا گھر قریب ہی تھا ۔ وہ روز ہی چکر لگاتے اور ان کی آواز سن کر نہ صرف کہانی کی بلکہ سارے گھر والوں کی نیند اڑ جاتی ۔
کہانی سے میرا شغف خاندانی تھا ۔ دادا جی اور چچا جان کو بھی کہانیوں سے دلچسپی تھی اور وہ بھی یوسف زلیخا اور ہیر وارث شاہ پڑھتے رہتے تھے ۔ گھر میں کوئی مہمان آتا تو میں اس سے یہ ضرور پوچھتا کہ کیا اسے کوئی کہانی یاد ہے ۔ مجھے وہ مہمان ذرا اچھے نہ لگتے جنھیں کوئی کہانی یا لطیفہ یاد نہ ہوتا ۔ اب بھی وہ لوگ جنھیں کہانی ، شعر اور نغمے سے دلچسپی نہ ہو مجھے لکڑی یا پلاسٹک کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ حیرت ہے کہ میرے ایک پھوپھی زاد بھائی محمد کو جو سر تا پیر کاشت کاری میں دھنسا رہتا تھا اور جس نے کوئی کتاب پڑھی تھی نہ اسکول کا منہ دیکھا تھا ۔ گیدڑوں ، خرگوشوں ، گھوڑوں ،کتوں اور بلیوں کی بہت سی دلچسپ کہانیاں یاد تھیں جو مجھے بھی آج تک یاد ہیں ۔
میں شروع میں تو محض کہانیاں سننے پر اکتفا کرتا ۔ پھر ذرا ہوش آیا تو پڑھی سنی ہوئی کہانیوں کو ایڈٹ کرنے کا گر آگیا ۔ میں ان سے مناسب ترمیم اور اضافہ کر کے یا دوسرے لفظوں میں نمک مرچ لگا کر انھیں زیادہ دلچسپ ، طویل اور قابل قبول بنا لیتا ۔ ہم عمر لڑکے میری اس صلاحیت پر رشک کرتے ۔‘‘
کتابیں پڑھنے کا جنون
’’خوش قسمتی سے خالہ کے سسرالی رشتہ داروں میں اسکول ٹیچرز بہت تھے ۔ بابا فضل حسین اور چچا محمد عالم دو مختلف دیہات کے اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر تھے اور ماسٹر محمد صدیق کے بہنوئی کا نام بھی محمد صدیق تھا جو نسبتاً زیادہ گورے تھے ، ہم انھیں صد یقین کہتے تھے ۔ ماسٹر گورا صدیق بھی اپنے گاؤں کلیاں والا کے مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اس لئے میری ان سب سکولوں کی لائبریریوں تک رسائی تھی ۔ میرے پڑھنے کی رفتار اور جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکول سے گھر پہنچتے پہنچتے ایک عام ضخامت کی کتاب ختم کر لیتا اور بعض اوقات پڑھتے پڑھتے کسی گڑھے میں گر جاتا ۔ راستے میں پھٹا ہوا اخبار کا ٹکڑا مل جاتا تو اسے بھی پڑھ ڈالتا ۔ دکاندار اخبار میں لپیٹ کر پکوڑے دیتا تو لگتا دو چٹپٹی چیزیں خریدی ہیں ۔ ملکہ ترنم نور جہاں کے گھر کی چھت سے کودتے ہوئے مشہور کرکٹر نذر محمد کا بازو ٹوٹنے کی کراری خبر میں نے اسی طرح پڑھی تھی ۔‘‘
’’ مجھے کتابیں اور خصوصاً کہانیاں پڑھنے کا شوق گھر سے ملا مگر اس کی تکمیل شہر میں آکر ہوئی ، جہاں کتابیں آسانی سے مل جاتی تھیں ۔ اسکول اور میونسپل لائبریری میں طرح طرح کے اخبارات اور رسالوں سے تعارف ہوا ۔ آنہ لائبریریوں سے کرائے پر ناول مل جاتے ۔ میں بہت پڑھتا اور بہت کچھ یاد رکھتا تھا ۔ ایک روز خالی پریڈ میں کلاس ٹیچر نے لڑکوں سے کہا کہ جس کسی کو کوئی گیت ، کہانی یا لطیفہ یاد ہو وہ سنائے ۔ کئی ایک لڑکوں نے گیت ، لطیفے اور کہانیاں سنائیں مگر سب نے پنجابی میں ۔ میں نے امیر خسرو کی دو ایک کہانیاں جن میں کھیر پکائی جنت سے اور چرخہ دیا جلا اور سب سے اچھا ڈھول بھلا ، بھئی ڈھول بھلا اردو میں سنائیں ۔ ایک تو میں نے پڑھی ہی اردو میں تھیں دوسرے میرے ساتھ ڈیسک پر ایک اردو سپیکنگ لڑکا بیٹھتا تھا جس کے ساتھ اردو بول بول کر میری زبان صاف ہو گئی تھی ۔ ماسٹر جی میرے اچھی اور دلچسپ کہانیاں سنانے اور وہ بھی اردو میں بہت خوش ہوئے اور شاباش دی ۔‘‘
پہلی کہانی
ماں جی کے چلے جانے کے بعد میں نے قصے کتابوں میں پناہ لی ۔ وہ جس سال فوت ہوئیں ، اسی سال بچوں کے رسالے میں میری پہلی کہانی کے روپ میں طلوع ہوئیں ۔ میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھا اور اسکول کی بزم ادب میں حصہ لیتا اور فقروں میں لفظوں کے بہترین استعمال پر استادوں سے شاباش حاصل کرتا تھا ۔ ایک روز میں نے رسالہ ’ہدایت‘ میں دئیے گئے عنوان ’’ مجھے بہت افسوس ہوا ‘‘ پر ایک بکری کے بارے کہانی لکھ بھیجی جو میں نے خود گھڑی تھی لیکن جب چھپ کر آئی تو اسے پڑھ کر میرے دوستوں اور ہم جماعتوں کو بھی ’’بہت افسوس ہوا‘‘ اور وہ اس من گھڑت واقعہ کو سچ سمجھ کر بکری کی موت پر مجھ سے اظہار افسوس کرتے رہے ۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اشاعت کے قابل کہانی گھڑنے کا ہنر بھی آتا ہے۔ آپ اسے تخلیقی صلاحیت کا احساس ہونا بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘
٭٭٭
’’دسویں سے پہلے بانگ درا ، پریم پچیسی ، احمد ندیم قاسمی ، منٹو ، بیدی اور کرشن چندر کے افسانے ، مرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط ، میاں ایم اسلم ، رشید اختر ندوی ، رئیس احمد جعفری اور نسیم حجازی کے متعدد ناول سردیوں میں کورس کی کتابوں میں چھپا کر اور گرمیوں میں رات کو گھر والوں سے چھپ کر چاند کی روشنی میں کہانیوں اور نظموں کی پوری پوری کتاب ختم ڈالتا … آٹھویں نویں میں مجھے ایسے مضامین اچھے لگتے جن کا تعلق کہانیوں سے بنتا تھا ۔ مثلاً اردو ، انگریزی ، فارسی اور حساب وغیرہ اور ایسے مضامین جن کا تعلق کہانیوں سے نہیں بنتا تھا ، بالکل اچھے نہیں لگتے تھے جیسے ڈرائنگ ، جغرافیہ اور کیمسٹری وغیرہ ۔ اردو کی کتاب میں نہ صرف کہانیاں بلکہ نظمیں بھی ہوتی تھیں مثلاً :
’’ ایک بچہ جس کی ماں کا ہو گیا تھا انتقال ۔ میرے پاس آیا کہیں سے روتا روتا ایک دن‘‘ یا پھر ’’ ایک لڑکی بگھارتی تھی دال۔ دال کرتی تھی یوں عرض احوال ‘‘ اور ’’ گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی۔ پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی ۔‘‘
انگریزی میں بھی کہانیاں اور جیک اور جیل وغیرہ کی نظمیں تھیں اور فارسی کی حکایات تو بہت ہی دلچسپ اور اچھی لگتیں۔‘‘
٭٭٭
’’شروع میں تو لکھنے کا ایک ہی مقصد تھا ۔ اپنے ساتھیوں اور دوستوں میں مقبول ، مختلف اور ممتاز نظر آنا اور رسالے میں اپنا چھپا ہوا نام دیکھ کر خوش ہونا لیکن پھر آہستہ آہستہ اپنے اردگرد کی زندگی میں طرح طرح کے تضادات ، ناانصافیاں ، مظالم دیکھ کر ان معاملات کے اظہار کا وسیلہ بن گئی ۔ایک آؤٹ لیٹ ، ایک دریچہ۔ جو بات منہ پر نہ کہی جا سکتی وہ میں اپنی کہانی میں کہہ لیتا، جس احتجاج کی کھلے عام اجازت نہ ہوتی وہ کہانی کے پردے میں کر لیا جاتا ۔ جن جذبات کا اظہار کسی کے سامنے نہ کیا جا سکتا ، اسے کہانی سمیٹ لیتی ۔ آہستہ آہستہ کہانی ایک ہمراز رفیق اور ہمدرد دوست بنتی چلی گئی۔ اس سے سارے دکھ سکھ کہہ لیتا ۔ عمر اور فکر کی مزید پختگی کے ساتھ لکھنا ایک سماجی ذمہ داری اور فریضہ محسوس ہونے لگا اور اب کہانی لکھنا یا پڑھنا میرے لئے ایسا ہی ہے جیسے سانس لینا ۔ میں نے اپنا بہت کچھ کہانی پر قربان کیا اور اپنا بہت کچھ اس میں منتقل کر دیا ہے ۔‘‘
پہلا افسانہ
’’میٹرک تک آتے آتے پتہ نہیں ابھی میں خود ذہنی طور پر بالغ ہوا تھا کہ نہیں مگر میں نے بالغوں کے لئے نظمیں ، غزلیں اور کہانیاں لکھنا شروع کر دیں ۔ 1955ء میں جب میں میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا تو ایک افسانہ ’’ کنول‘‘ کے نام سے لکھا اور اپنے دور کے مقبول ترین رسالے’ شمع ‘ لاہور کو ، جس میں اس دور کے سبھی مشہور ادیبوں کے افسانے چھپتے تھے ، بھیج دیا ۔ جب دو چار ہفتے گزر گئے اور پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو میں شاہ عالمی لاہور میں واقع شمع کے دفتر پہنچ گیا ۔ ایڈیٹر کے کمرے کی چق اٹھائی تو ایک مولانا صبیحہ خانم کی بڑی سی تصویر سامنے رکھے دکھائی دئیے ۔ چپڑاسی مجھے روکنے لگا تو مولانا نے شائد میرے گرمی اور غصے سے تمتاتے چہرے کی طرف دیکھا اور اسے منع کر دیا۔ میں نے افسانے کے بارے میں دریافت کیا تو جواب میں انھوں نے مجھے بیٹھنے کو کہا اور میرے لئے ٹھنڈا پانی منگایا اور نہایت شفقت سے میرا نام اور افسانے کا عنوان پوچھا ۔ پھر نائب مدیر عماد صدیقی کو بلوایا ۔ رسالے کے سرورق پر چھاپنے کے لئے تصویر ان کے حوالے کی اور میرے افسانے کی تلاش کا حکم دیا اور جب تک افسانہ ملتا ، انھوں نے میرے کوائف پوچھ لئے۔ میں نے بتایا کہ گھر والے مجھے انجینئرنگ کا ڈپلومہ کرانا چاہتے ہیں تاکہ جلدی سے با روزگار ہو جاؤں مگر کالج میں داخلہ لینا اور ادب میں ایم اے کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی ردی کی ٹوکری سے افسانہ مل گیا ۔ انھوں نے پڑھا ۔ کچھ دیر میری طرف دیکھتے رہے ، پھر بولے ’’ تم نے خود لکھا ہے ؟ ‘‘
میں بھڑک اٹھا ’’کیوں میں خود نہیں لکھ سکتا ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں ۔ میں نے چوری کیا ہے؟‘‘
کہنے لگے : ’’اس میں کرداروں کے نام ہندو کیوں ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’اس میں ایک بیوی شوہر کے لئے جس قسم کی قربانی دیتی ہے، وہ ایک پتی ورتا، ستی ہو جانے والی ہندو عورت ہی دے سکتی ہے کہ اسے ہی یہ سکھایا گیا ہے۔ دوسرے یہ خیال بھی تھا کہ کوئی مولوی اعتراض نہ کر دے۔‘‘
مولوی کی بات سن کر وہ مسکرائے تو مجھے خیال آیا وہ خود بھی تو مولوی ہیں مگر بات زبان سے نکل چکی تھی ۔ انھوں نے میرے لئے کھانا منگایا اور اصرار کر کے کھلایا ۔ حالانکہ لاہور میں میری دو خالائیں تھیں اور میرا ارادہ بڑی خالہ کے گھر جانے کا تھا ۔ کہنے لگے افسانہ ضرور چھپے گا مگر تم افسانوں کی بجائے ابھی اپنے کیرئیر کی طرف توجہ دو ۔ کالج کے بجائے ٹیکنیکل تعلیم تمھارے لئے بہتر رہے گی ورنہ مجھے دیکھو اتنی لمبی داڑھی اور اداکاراؤں کی تصاویر ۔ باروزگار ہو جاؤ گے تو بی اے ، ایم اے بھی کر لینا ۔ رہی افسانہ نگاری تو اس کے لئے عمر پڑی ہے ۔ وعدہ کرو انجینئرنگ اسکول میں داخلہ ہونے کے بعد مجھے خط لکھ کر اطلاع دو گے ، مجھے اس سے بہت خوشی ہو گی۔
میں نے وعدہ کر لیا تو وہ کہنے لگے۔ آج تمھیں دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے شرقپور کا محمد امین پھر سے جوان ہو گیا ہے ۔ میں بھی کبھی اسی طرح اعتماد ، غصے اور جوش سے بھرا ، ایک ساتھ دو دو سیڑھیاں پھلانگتا گاؤں سے لاہور کے ایک دفتر میں آیا تھا ۔ مجھے بھی کہانیاں لکھنے کا بہت شوق تھا ۔
یہ شمع ، بانو ، کھلونا اور مکتبہ شمع کے مالک و مدیر مولانا محمد امین شرقپوری تھے ۔ ان کے افسانوں کی ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی ۔ میرا ان سے بعد میں بھی رابطہ رہا ۔ ‘‘
ادبی زندگی کا اصل آغاز
’’ اس کے بعد میرے افسانے ماہ نامہ عکس نو لاہور میں شائع ہونے لگے۔ لیکن یہ ابتدائی مشق کا دور تھا ۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میری ادبی زندگی کا اصل آغاز اس افسانے سے ہوا جس کا عنوان ’ کہانی ‘ تھا اور جو میں نے 1957ء میں لکھا مگر یہ 1959ء میں اشفاق احمد صاحب کے خوب صورت رسالے ’’داستان گو ‘‘ میں شائع ہوا تھا ۔ شروع میں شاعری بھی کرتا رہا مگر ناول اور افسانے سے میری دلچسپی زیادہ تھی ۔ ناول لکھنے کے لئے زندگی کے تجربے، ریاضت اور فرصت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اردو کے زیادہ تر ادیبوں کی طرح میں بھی پارٹ ٹائم ادیب تھا اور ملازمت کے دوران میں افسانہ لکھنے کا وقت بھی مشکل سے نکال پاتا تھا ۔ کئی بار ناول لکھنے کی کوشش کی مگر عدیم الفرصتی کی وجہ سے ہر بار یہ کوشش ادھوری رہ گئی ۔‘‘
’’شروع میں تو افسانے کو اختصار کی سہولت کے پیش نظر ہی اختیار کیا مگر پھر محسوس ہونے لگا کہ یہ بہت عمدہ صنف ادب ہے ۔ آپ اس میں ہر طرح کے خیالات اور جذبات کا بھرپور اظہار کر سکتے ہیں ۔ پھر یہ افسانے ساتھ ساتھ ادبی رسائل میں چھپتے رہتے ہیں جس سے قارئین کے علاوہ ادیبوں، شاعروں ، نقادوں اور رسائل و جرائد کے ایڈیٹروں سے مسلسل تعلق قائم رہتا ہے ۔ جب میں نے افسانہ پڑھنا اور پھر لکھنا شروع کیا تو میں سبھی اچھے اور مشہور افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں سے متاثر تھا ۔ میں نے ابتداء میں نسیم حجازی کے سارے ناول پڑھ ڈالے۔ مرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط اور رومان اور اس عہد تک چھپے ہوئے سارے اردو ناول لیکن جن افسانہ نگاروں کے افسانے میں دل سے پسند کرتا تھا ان میں پریم چند ، احمد ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو ، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر اور اشفاق احمد شامل تھے ۔ میرا خیال ہے میں نے ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھا ۔ ان کے علاوہ نقوش کے ایک افسانہ نمبر میں آغا بابر کا مشہور افسانہ ’’ گلاب دین چٹھی رساں ‘‘ جو توازن کے عنوان سے شائع ہوا تھا، احمد ندیم قاسمی کا مجرم اور تسنیم سلیم چھتاری اور بہت سے دیگر لوگوں کے افسانے اب تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ اس لئے میرے افسانوں پر سبھی کے اثرات مرتب ہوئے ہوں گے ۔ میں انتظار حسین کے افسانوں کو بھی پسند کرتا ہوں مگر شعوری طور پر میں نے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ ہی کسی سینئر افسانہ نگار کے فکر و اسلوب کے سحر میں گرفتار ہو کر رہ گیا ۔‘‘
اپنے لکھے پر اطمینان
’’میں ہر افسانہ ایک سے زائد بار لکھتا ہوں اور جب تک اس میں مزید بہتر ہونے کی گنجائش ہوتی ہے، اس پر غور کرتا رہتا ہوں ۔ جہاں تک ممکن ہو سکے پڑھنے والوں کو ساتھ لے کر چلتا ہوں ۔ مجھے پڑھنے والوں کا بہت خیال رہتا ہے ۔ میں اکثر بہلا پھسلا کر ان سے اپنی کہانی پڑھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہوں اور اس کا اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں ۔ کیونکہ میں کہانی محض اپنے لئے نہیں لکھتا، اپنے پڑھنے والوں کے لئے لکھتا ہوں تاہم پڑھنے والوں سے میری مراد وہی پڑھنے والے ہیں جو افسانے کو افسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں، سچی کہانیاں نہیں ۔‘‘
سوانحی اور تحریری خاکہ
اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور پاکستان ٹیلی ویژن پر خوب مقبولیت حاصل کرنے والے مرحوم منشا یاد پانچ ستمبر 1937ء کو ٹھٹھہ نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوئے جو ضلع شیخوپورہ میں واقع ہے ۔ پہلے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ، پھر ادیب فاضل ۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے اردو اور پنجابی میں ماسٹرز کیے ۔ بی ڈبلیو ڈی بحالیات میں بطور سب انجینئر ملازمت اختیار کی ، بعدازاں اسسٹنٹ انجینئر ، ایگزیکٹو انجینئر ، ڈپٹی ڈائریکٹر ، افسر تعلقات عامہ اور افسر اعلیٰ شکایات رہے ۔
آپ نے اسلام آباد میں حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح اسلام آباد میں لکھنے والوں کی انجمن ، بزم کتاب، رابطہ اور فکشن فورم بھی تنظیمیں قائم کیں ۔ اسلام آباد میں حلقہ اور دیگر ادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے مختلف اخبارات میں کالم نگاری اور رپورٹیں لکھتے رہے ۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں شرکت اور ٹی وی ڈرامے اور سیریز ’’ بندھن ، راہیں، پورے چاند کی رات ، آواز ، کچے پکے رنگ ، ذرا نم ہو تو ، رنگ وفا ، جنون‘‘ اور بہت سے سنگل پلیز لکھے ۔ افسانوں کی بہت سی انتھالوجیز مرتب کیں اور بہت سے افسانوں کے دوسری زبانوں میں تراجم ہوئے۔
مرحوم منشا یاد کی ادبی تصانیف( ناول اور افسانوں کے مجموعے) میں ’ بند مٹھی میں جگنو ، ماس اور مٹی ، خلا اندر خلا ، وقت سمندر ، وگدا پانی ، انھاں کھوہ ، ٹاواں ٹاواں تارا ، درخت آدمی ، دور کی آواز ، تماشا ، خواب سرائے ، ایک کنکر ٹھہرے پانی میں ، منشائیے ، راہیں ، شامل ہیں ۔
آپ کے افسانوں کو دیگر کئی لوگوں نے بھی جمع کر کے شائع کرایا ، ان میں ’ منشا یاد کے تیس افسانے ‘ ( خاور نقوی ) ، منشا یاد کے بہترین افسانے ( امجد اسلام امجد ) ، تماشا اینڈ ادر سٹوریز ( انگریزی تراجم ) ، سلیکٹیڈ شارٹ سٹوریز آف منشا یاد ، منشا یاد کے منتخب افسانے (طاہر اسلم گورا ) ، شہر افسانہ (خود منتخب کردہ منشا یاد ) ، منشا یاد کے منتخب افسانے ( ڈاکٹر اقبال آفاقی) ، محمد منشا یاد شخصیت اور فن ( اسلم سراج الدین ) ، میں اپنے افسانوں میں تمھیں ملوں گا ( خود منتخب کردہ منشا یاد ) ایک سو گیارہ افسانے بھی شامل ہیں ۔
علاوہ ازیں آپ کے کئی افسانوں کا انگریزی ، عربی ، ترکی ، فارسی ، ہندی ، پنجابی اور کناڈا زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔
دس سال قبل پندرہ اکتوبر کو آپ کا انتقال ہوا ۔
The post کہانی اور میں appeared first on ایکسپریس اردو.