اسلامی تہذیب میں فن خطاطی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ قرآن مجید کی برکت سے کئی صدیوں پر محیط اس فن کی آب و تاب ماند نہیں پڑی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئی بلندیوں سے روشناس ہو رہا ہے۔
اللہ کے کلام سے زیادہ سچا، موثر اور طاقتور پیغام اس دنیا میں نہیں؛ جب لکھنے والا پاکیزگی کے احساس کے ساتھ، خالق کائنات کی ودیعت کردہ حس جمالیات سے کام لیتے ہوئے، اسے لکھتا ہے تو معجزہ فن تخلیق ہوتا ہے اور یہ نور ہدایت آنکھوں سے انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔
یہ اتنی بڑی سعادت ہے کہ اگلے وقتوں میں نیک حکمران ایسے خطاط کے سامنے دونوں ہاتھوں سے دوات اٹھا کر بیٹھتے اور اپنے اس عمل کو دنیا و آخرت میں سرفرازی کا ذریعہ جانتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ وطن عزیز میں محمد علی زاہد، ایک ایسے خطاط ہیں، جنہیں فن خطاطی کی نسبت سے اسلامی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
بالخصوص ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائشیا، ایران اور الجزائر میں ان کے فن کے مداح موجود ہیں۔ حال ہی میں ترکی میں منعقد ہونے والے ’البرکہ عالمی مقابلہ خطاطی‘ میں انہیں ’خط ثلث جلی‘ کے زمرے میں اول انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی ملکی اور بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن خطاطی کے تعلق سے ایک مکالمے کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: اپنے ابتدائی حالات زندگی کے متعلق کچھ بتائیں؟
محمد علی زاہد: فیصل آباد میں جڑانوالہ روڈ پر ایک گائوں ’’محمد والا‘‘ واقع ہے، 1963ء میں اسی گائوں میں پیدا ہوا۔ ایک بھائی مجھ سے بڑا اور دو چھوٹے ہیں۔ اس وقت گائوں میں پڑھائی کا ماحول ہی نہیں تھا، ہماری بہت بڑی فیملی تھی، ہم گائوں کی ایک سائیڈ پر ہوتے اور سکول دوسری طرف تھا۔ گھر سے نکلتے تو راستے میں رشتہ داروں کے بچے روک لیتے، ہم ان کے ساتھ سارا دن کھیلتے رہتے اور چھٹی کے وقت گھر واپس آ جاتے۔ ہم نے تو اپنے بچوں کے لیے ڈیوٹی دی ہے، صبح بچوں کو سکول چھوڑ آنا اور پھر واپس لانا، وہاں تو ایسا کچھ نہیں تھا، والدین کو کوئی پروا نہیں تھی۔
اس طرح کھیل کود میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ خط، بچپن سے اچھا تھا اور ہمارے دور میں اساتذہ کا خط بھی اچھا ہوتا، سکولوں میں تختی لکھی جاتی۔ شوق اتنا زیادہ تھا کہ دن رات لکھتا رہتا یا ڈرائنگ کرتا۔ گھر والے بھی تنگ تھے کہ کوئی اور کام نہیں کرتا، آمدنی بھی کچھ نہیں، ظاہر ہے گائوں میں تو خطاطی سے آمدنی نہیں ہو سکتی۔ والدہ حوصلہ افزائی کرتیں، میرے ساتھ بیٹھ کر بتاتیں کہ ایسے لکھو، یہ رنگ لگائو، وغیرہ۔ انہوں نے ہی مشورہ دیا کہ بیٹا آپ یہی کام کر لو، اس کا آپ کو شوق ہے۔ پھر میں فیصل آباد چلا گیا اور ایک اخبار میں بطور کاتب کام کرنے لگا۔
ایکسپریس: خطاطی سیکھنے کا خیال کب آیا؟
محمد علی زاہد: اخبار میں کام شروع کیا تو پتا چلا کہ خطاطی ایک الگ فن ہے۔ میرے ساتھ کام کرنے والوں نے کہا کہ آپ کو جتنا شوق ہے، آپ لاہور چلے جائیں، وہاں زیادہ اچھے خوش نویس ہیں۔ میں لاہور آ کر کچھ لوگوں سے ملا، انہوں نے میرا کام دیکھ کر کہا کہ آپ تو پہلے سے سیکھے ہوئے لگتے ہیں، کم از کم دو سال آپ نے کسی بڑے استاد کے پاس لگائے ہیں۔ میں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ 1986ء کی بات ہے۔ اسی سال حافظ محمد یوسف سدیدی، جو سب خطاطوں کے استاد تھے۔
ان کا انتقال ہو گیا۔ سعودی عرب میں ان کا ایکسیڈینٹ ہوا اوردو سال بعد وہ چل بسے۔ مجھے لوگوں نے مشورہ دیا کہ آپ خالد جاوید یوسفی کے پاس اسلام آباد چلے جائیں جو حافظ یوسف سدیدی کے بہترین شاگرد بلکہ جانشین ہیں۔ میری خوش قسمتی کہ وہاں سے ایک نیا اخبار نکلا اور میں وہاں چلا گیا۔ میں نے استاد صاحب سے باقاعدہ سیکھنا شروع کیا، تب مجھے پتا چلا کہ خطاطی ایسے سیکھی جاتی ہے،اس کی تختیاں ہوتی ہیں، وہ کرنی پڑتی ہیں۔ ان سے سیکھا اور ساتھ کام بھی کرتا رہا۔ ان سے میں نے خط نستعلیق سیکھا جو پاکستان میں رائج تھا۔
ایکسپریس: آپ کے فنی سفر میں اہم موڑ کون سا تھا؟
محمد علی زاہد: 1989ء میں میرے استاد صاحب ایک کانفرنس میں شرکت کرنے عراق گئے، پاکستان سے کچھ دوسرے خطاط بھی ان کے ہمراہ تھے۔ استاد صاحب نے واپس آ کر بتایا کہ وہ ہمیں خطاط نہیں سمجھتے اور یہ بھی کہا کہ یہ بات درست ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ آخری دن وہاں کے اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فلاں ملک کے اتنے ایوارڈ ہیں، فلاں کے اتنے، اور جہاں تک پاکستان کا ذکر ہے وہ نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ استاد صاحب تھوڑے مایوس ہوئے، اس بات کو صرف انہوں نے محسوس کیا۔ پھر انھوں نے مجھے کہا کہ آپ اس طرف آئیں اور آپ ہم پاکستانیوں کاکام نہ دیکھیں، آپ صرف ترکوں کا کام دیکھیں۔
ترک کئی صدیوں سے خطاطی میں معیار کا درجہ رکھتے ہیں اور انہوں نے ہر طرح کے خط کو بہت خوبصورتی سے لکھا ہے۔ پوری دنیا میں کسی خطاط کو ترک تھوڑا سا تسلیم کر لیں تو وہ خطاط ہے، ورنہ وہ خطاط نہیں۔ اس وقت انٹرنیٹ کا دور تھا نہ ہی اتنی کتابیں میسر تھیں۔ کہیں سے مشکل سے کچھ صفحات یا ایک آدھ فوٹو کاپی ملتی، تو اسی کو دیکھ دیکھ کر میں نے کوشش کی۔ 1991ء میں پہلی دفعہ ترکی کام بھجوایا اور مجھے تیسرا انعام ملا۔ میرے نزدیک یہ بڑی کامیابی تھی۔ کیونکہ ترکی میں پانچ سال میں ایک خط سکھاتے ہیں۔
اس کے بعد استاد باقاعدہ اجازت دیتے ہیں کہ یہ سیکھ گیا ہے، یہاں رہ کر میں نے دو تین سال میں اتنی قابلیت پیدا کی کہ پوری دنیا میں پہلی دفعہ پاکستان کو تیسرا انعام ملا۔ اس وقت بڑی خوشی اور حیرت کی بات تھی۔ اب بھی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ سب کہاں سے سیکھا، کیونکہ پاکستان میں تو کوئی سکھانے والا نہیں۔ جب میں کہتا ہوں کہ کتاب سے سیکھا تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی استاد نہیں ملا تو میں نے تحقیق کا راستہ اختیار کیا۔ تحقیق سے تو کئی چھپی ہوئی باتیں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ترکوں کا میرے بارے میں کہنا ہے کہ یہ برصغیر کا پہلا خطاط ہے۔ یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے اور اس خطے پر بھی۔ پہلے یہ خطوط سکھانے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی لکھنے والا، اللہ پاک نے مجھے عطا کیا ہے تو اب میں نے لوگوں کو سکھانا شروع کیا ہے۔ ترکی میں تیسرا انعام جیتنے سے حوصلہ ملا، آہستہ آہستہ دوسرے ملکوں سے رابطے ہونا شروع ہوئے۔ پھر میں نے پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔
ایکسپریس: خطاطی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے؟
محمد علی زاہد: بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن رات لگے رہیں تب جا کے آدمی کچھ لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ بھی تھا کہ میرا ذریعہ معاش بھی یہی تھا تو ساتھ کمرشل کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ کمرشل کام آرٹ میں شمار نہیں ہوتا۔ پھر مجھے یہاں کے لکھنے والوں سے فاصلہ بھی اختیار کرنا پڑا، کیونکہ یہ جو کچھ بتاتے اس سے بہتری تو کیا آتی، الٹا کام خراب ہوتا تھا۔ دراصل ان کو اخبار کے لیے لکھنے کی عادت تھی۔ اب اخبار میں تو اتنا وقت نہیں ہوتا، ہیڈ لائن سب سے آخر میں آتی، وہ پانچ منٹ میں لکھنی ہوتی تو پانچ منٹ میں آرٹ تو تخلیق نہیں ہوتا۔ یہاں لوگ سمجھتے تھے کہ فن پارے بھی اتنی ہی جلدی میں لکھے جاتے ہیں۔ اب میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے ان چیزوں کا کیسے پتا چلا کہ ایسے نہیں ہوتا۔
پہلے آپ ایک عبارت منتخب کرتے ہیں، پھر اس کو کئی مرتبہ لکھتے ہیں، اس کی کمپوزیشن درست کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ اخبار میں اس کا وقت نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ درستی کرنے کو عیب سمجھتے کہ اس کو لکھنا نہیں آتا۔ پھر جس چیز سے مجھے بہت مدد ملی وہ انٹرنیٹ کی سہولت تھی، پہلے ترک خود بھی اپنے فن کے رموز چھپاتے تھے لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ علم ہر طرف پھیل گیا۔ پرانے اساتذہ کے خط، ان کی مشقیں اور قالب (کمپوزیشنز) سب عام ہو گئے، تب پتا چلا کہ فن پارہ تخلیق کرنے میں کتنا زیادہ وقت لگتا ہے۔
خطاطی کے ایک مستند استاد، جو ڈیڑھ دو سو سال پہلے ہو گزرے ہیں، ان کے بارے میں یہی سنا ہے کہ وہ ایک فن پارہ مکمل کرنے میں دو سال لگاتے تھے۔ اس سے پہلے کام دیتے ہی نہیں تھے۔ وہ مسلسل کام نہیں کرتے تھے، بلکہ وقفے وقفے سے اپنے کام پر نظرثانی کرتے رہتے۔ ایک ہی نشست میں کوئی فن پارہ تیار نہیں ہو سکتا۔
اس میں، میں مشتاق احمد یوسفی کی مثال دیتا ہوں۔ وہ کوئی تحریر لکھ کر پانچ، دس سال کے لیے رکھ دیتے۔ پھر نظر ڈالتے تو ایسے لگتا جیسے کسی اور کا لکھا ہوا پڑھ رہے ہیں اور اس میں ان کو غلطیاں نظر آنے لگتیں۔ تو خطاطی میں بھی ایسے ہی ہے، لکھتے ہیں تو دو چار مہینے بعد اس میں تھوڑی تھوڑی خرابی نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح میں نے کچھ کاموں کی اصلاح کی تو ان کی شکل ہی کچھ اور ہو گئی۔ اب تو کچھ صحت کے مسائل ہو گئے، لیکن جوانی میں کام کے وقت کا کوئی حساب نہیں ہوتا تھا۔ کام کا موڈ ہو تو دن رات گزرنے کا پتا نہیں چلتا تھا۔
ایکسپریس: خطاطی میں جدید ٹولز اور سافٹ ویئرز کے استعمال کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
محمد علی زاہد: ایک خطاط اور آرٹسٹ کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہیں کیونکہ مشق کا عمل آپ وہاں کرسکتے ہیں۔ پہلے آپ کاغذ پر کرتے تھے تو لاتعداد کاغذ ضائع ہوتے۔ جو خطاط نہیں، وہ جب سافٹ ویئر کی مدد سے لکھتا ہے تو اس کی نالایقی عیاں ہو جاتی ہے۔ مطلب جو خاکہ آپ کے ذہن میں ہے، اس کو حتمی شکل دینے کا سفر آپ کمپیوٹر پر کر لیتے ہیں، پھر آپ اسے ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ اصل اہمیت اوریجنل ہاتھ سے لکھے کام کی ہے۔ تو کمپیوٹر خطاط کو مدد تو ضرورکرتا ہے، لیکن یہ کسی کو خطاط بنا نہیں سکتا۔
ایکسپریس: پاکستان میں فن خطاطی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
محمد علی زاہد: ویسے تو پاکستان میں بہت سے خطاطوں کے نام لیے جاتے ہیں، لیکن میری رائے ان کے کام کے بارے میں اچھی نہیں۔ میرے دادا استاد حافظ یوسف سدیدی مرحوم کو بھی عمر کے آخری مرحلے میں احساس ہو گیا تھا کہ ہم پاکستانیوں کو فن خطاطی کا نہیں پتا۔ دراصل وہ سعودی عرب گئے ہی اس لیے تھے کہ پھر وہ ترکی جائیں گے اور وہاں جو اس وقت بڑے خطاط موجود ہیں، ان سے سیکھیں گے۔ پاکستان میں ’’فن خطاطی‘‘ کا آغاز اب ہوا ہے اور یہ فن بڑی آہستگی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں انڈونیشیا، ملائشیا اور الجزائر میں یہ فن تیزی سے پروان چڑھا ہے، ان کے نوجوانوں نے انٹرنیٹ کی سہولت سے زیادہ استفادہ کیا اور بہت کم وقت میں عالمی معیار کے مطابق خود کو تیار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں مجھے کئی ایوارڈ ملے، لیکن یہاں کے لوگوں سے میری بنی نہیں۔ لوگوں کی سوچ اتنی محدود ہے کہ مجھے کوفت ہوتی تھی۔ میں نے سوچا کہ ان سے ملتا رہا تو یہ مجھ پر بھی اثر ڈال دیں گے، چنانچہ میں نے ان سے ملنا چھوڑ دیا۔ اس پر یہ مجھے متکبر، مغرور سمجھنے لگے کہ وہ تو کسی سے ملتے ہی نہیں۔ میں کسی سے کیا ملوں جب ہماری سوچ ہی نہیں ملتی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں فلاں خط ہمارا نہیں، ترکوں یا عراقیوں کا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں وہ مسلمان ہیں اور ہم بھی مسلمان ہیں اور جو آدمی اچھا کام کرتا ہے وہ ہمارا ہے۔ میں نے تو سب خط لکھے ہیں۔ ہم کیوں کہیں کہ وہ الگ ہیں۔ ترک اصل فنکار ہیں، فنکار بغض نہیں رکھتا، وہ اچھے کام کی داد دیئے بنا رہ نہیں سکتا۔ اس سوچ سے مسلمانوں میں یکجہتی پیدا ہو گی اور فن خطاطی کو مزید عروج ملے گا۔
ایکسپریس: خطاطی کے فروغ کے لیے حکومت کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
محمد علی زاہد: مجھے ڈر ہے کہ پھر ایسے لوگ آگے آ جائیں گے جنہیں اس فن کا علم نہیں۔ حکومتی اداروں میں قابل آدمی کو کم ہی برداشت نہیں کیا جاتا۔ وہاں تعلقات زیادہ چلتے ہیں۔ حکومتی آرٹسٹ اور اوریجنل آرٹسٹ الگ الگ ہوتے ہیں۔ حقیقی فنکار تو حکومت کے پاس نہیں جاتے کہ ہماری مدد کرو۔
حکومت اس فن کو سپورٹ کرنا چاہتی ہے تو وہ باصلاحیت نوجوانوں کو تلاش کرے جو آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جو پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہیں، وہ اس میں اب کچھ نہیں کر سکتے۔ نوجوان خود بھی دلچسپی لیں، آج کل تو آن لائن سیکھنے کی بھی سہولت ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ترکوں اور عراقیوں سے براہ راست سیکھیں۔ میں نے بھی اپنی طرف سے ان نوجوانوں پر کام شروع کیا، جو پڑھے لکھے ہیں اور انہیں شوق بھی ہے۔ اس وقت آٹھ، دس نوجوان ہیں جو مجھ سے سیکھ رہے ہیں، ان کے بھی وہی معاشی مسائل ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور تک میں میرے شاگرد ہیں۔
ایکسپریس: کچھ اپنے کام کے بارے میں بتائیں؟
محمد علی زاہد: میں مزدور خطاط ہوں، میں نے اپنی روزی روٹی بھی پوری کرنی تھی اور اپنے شوق کو بھی پورا کیا۔ کمرشل کام اتنا کیا کہ مجھے اب یاد ہی نہیں۔ شارجہ میوزیم والوں نے میرا کام خریدا، وہاں کچھ دوسرے لوگوں نے بھی میرا کام خریدا ۔پھر مجھے چار قرآن مجید لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، جن میں سے ایک سعودی عرب میں شائع ہوا۔ پانچویں مرتبہ بھی لکھا لیکن شراکت داروں میں اختلاف کی وجہ سے شائع نہیں ہوسکا۔ دوسرا اہم کام، جس سے میری مدد بھی ہوئی اور شوق بھی پورا ہوا۔ کوئی اٹھارہ سال پہلے علامہ اقبال کی بیٹی اور نواسے میاں اقبال نے مجھ سے رابطہ کیا۔
تب سے اب تک علامہ صاحب کی شاعری پہ کام کیا ہے، اس میں میرا شوق بھی پورا ہوا، مالی مسائل بھی کم ہوئے۔ میں ہر مہینے دو یا تین فن پارے مکمل کرتا، اس وقت پانچ چھے سو کے قریب فن پارے ہیں۔ اس میں میاں اقبال اس حد تک انوالو تھے کہ وہ مجھے کاغذ، روشنائی، ایک ایک چیز بہت معیاری دیتے۔ ہم نے زیادہ تر کام سونے کے پانی سے کیا، اور یہ فن پارے ان کے گھر میں یا دبستان اقبال کے نام سے ایک ادارے میں موجود ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے، لیکن یہاں کسی کو نہیں پتا۔ میں جب اپنے کام کی طرف دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں یار میں نے بہت کام کیا ہے، جب یہ دیکھتا ہوں کہ ابھی کام کرنے والا کتنا ہے تو پھر خیال آتا ہے ابھی تو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ کام تو ابھی سارا کرنا ہے۔ پہلے تو معاش کے مسئلے میں پھنسا رہا، بچوں کو تعلیم دلوانا اور ان کی تربیت کرنا، میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے۔
اب بچے ماشاء اللہ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ بیٹا ترکی (استنبول) میں ہوتا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے انشاء اللہ کام کرنے کا موقع ملے گا، لیکن کچھ صحت کے مسائل ہیں۔ اس طرف سے اللہ کرم کرے۔ میری خواہش ہے کہ جیسے ترکوں کا خطاطی میں ایک نام ہے، ویسے ہی پاکستان کا نام بھی ہو، وہاں آپ گن نہیں سکتے، اتنے خطاط ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک، یہاں بھی میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہی ہو۔
’یہاں لوگوں نے خط نستعلیق کو خراب کیا‘
ہمارے ہاں خط نستعلیق لکھا جاتا ہے، لوگوں نے اس کو بھی خراب کر دیا ہے۔ کیونکہ یہ اخبارات کی سرخیاں لکھتے تھے تو اس میں جگہ کی پابندی ہوتی تھی، اس جگہ میں آپ نے الفاظ اور حروف کو گھسیڑنا ہوتا تھا، اس سے خط اور کمپوزیشن خراب ہو گئی، لیکن یہ اسی خوش فہمی میں رہے کہ ہم استاد ہیں۔ پھر یہ اصلاح کو بھی خامی سمجھتے تھے۔ عراق ہمیشہ سے علوم و فنون کا گڑھ رہا ہے۔ نستعلیق خط بھی وہیں سے پیدا ہوا۔ یہ آٹھویں صدی ہجری میں میر علی تبریزی نے ایجاد کیا۔ اس میں بھی حضرت علیؓ کا کردار ہے، کیونکہ میر علی تبریزی کچھ نیا کرنا چاہتے تھے۔
حضرت علی ؓ ان کو خواب میں نظر آئے اور فرمایا کہ یہ جو آبی پرندے ہیں ان پر غور کرو۔ وہ ندی کنارے جاتے اور ان کا مشاہدہ کرتے رہتے۔ وہاں سے انہوں نے نستعلیق خط اخذ کیا۔ پرانے دو خط تھے، ایک نسخ اور دوسرا تعلیق۔ نسخ قرآن پاک کے لیے مخصوص تھا اور تعلیق ایک آرائشی خط تھا۔ تو انہوں نے دو خطوں کو ملایا، آبی پرندوں سے جو اخذ کیا اس کو بھی شامل کیا، تو یہ نستعلیق بن گیا۔ اس کا پہلے نام نسخ و تعلیق تھا، جو کثرت استعمال سے نستعلیق بن گیا۔
’خط ثلث میں اسم جلالہ لکھنا مشکل فن ہے‘
خط ثلث، انسانی جسمانی ساخت سے اخذ کیا گیا ہے۔ انسانی جسم کے تین حصے ہیں، سر، دھڑ اور ٹانگیں۔ سب سے اہم حصہ سر ہے، جس میں حرکت اور جان زیادہ ہوتی ہے، یہ ثلث ہے، دوسرے کم اہم حصوں کو ثلثین کہتے ہیں جن میں حرکت کم ہے، تو یہ انسانی جسم سے اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح جسم کے اعضاء کے بھی عام طور پر تین حصے ہوتے ہیں۔ انسان کے جذبات، احساسات اور اس کی سوچ، اس کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ یہ خط اچھا بھی اس لیے لگتا ہے کیونکہ انسان فطرتاً خود پسند ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ انسان نے بھگوان کو بھی اپنی شکل پہ بنایا ہے۔ اس خط میں حروف و الفاظ ایسے ہی اکٹھے ہوتے ہیں، جیسے ایک گھر کی فیملی ہوتی ہے۔ اس میں ایک بزرگ ہوتا ہے جس کا احترام زیادہ ہے، بھائی ہوتے ہیں، جو ہم پلہ ہیں۔ پھر اس میں بچے ہوتے ہیں، تو سارے اسی طرح کے معاملات ہیں۔ بزرگ کو آپ نمایاں، اچھی جگہ پر بٹھاتے ہیں، بچوں کو آپ گود میں بٹھا لیتے ہیں، بغل میں لے لیتے ہیں، نیچے بٹھا لیتے ہیں۔ تو یہ ساری بات خط ثلث میں موجود ہے۔ اس میں جہاں اسم جلالہ، یعنی اللہ تعالیٰ کا نام آ جائے گا، اور حضور ﷺ کا نام آئے گا، وہ سب سے اوپر لکھا جائے گا۔
اس کے اوپر کوئی لفظ نہیں آئے گا۔ پھر اللہ کے نام کو ایک خاص شکل دی گئی ہے، جو خطاطی کے اصولوں سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ آدمی تو اللہ تعالیٰ کے اصولوں کا پابند ہے، لیکن خدا کسی چیز کا پابند نہیں۔ تو اسی طرح ہم بھی اسم جلالہ لکھتے ہوئے خطاطی کے اصولوں کے پابند نہیں، اور یہ اس کی وحدانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن خط ثلث میں اسم جلالہ لکھنا اتنا مشکل ہے کہ میری اب تک ساری زندگی میں کوئی دن ایسا نہیں کہ میں نے اس کی باریکی پر غور نہ کیا ہو، پھر بھی کبھی لکھا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت جتنے بھی ترک نوجوان ہیں، وہ اس کا حق نہیں ادا کر رہے، وہ اس طرح نہیں لکھ سکتے جیسے پہلے اساتذہ لکھ گئے ہیں۔
اسلامی فن خطاطی کا پس منظر
خطاطی ایک بہت بڑا علم ہے، اسے جاننے کے لیے بہت سے دوسرے علوم کو تھوڑا بہت جاننا ضروری ہے، ظاہر ہے عبور تو نہیں ہوتا۔ کسی بھی شعبے کا آدمی صرف اپنے شعبے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اسے دوسری چیزوں کا بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے۔ ابتدا میں مسلمان معاشرے میں مصوری کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تھی، قدرت نے ہر شخص میں ایک مصور رکھا ہوا ہے، تو وہ شوق مسلمانوں میں فن خطاطی نے پورا کیا۔ اس میں مصوری ، شاعری، علم صرف و نحو، نقاشی، فن تعمیر، جیومیٹری اور بہت سے فنون شامل ہیں۔ اصل میں یہ خط عراق سے شروع ہوئے۔ مسلمانوں نے بھی ان سے سیکھا۔ صحابہ ؓ جو لکھتے تھے وہ کتابت کی حیثیت رکھتا تھا، بے شک وہ ہمارے لیے خطاطی سے زیادہ متبرک ہے۔
اسلامی فن خطاطی کا باقاعدہ آغاز عباسی دورمیں ابن مقلۃ سے ہوا۔ ابن مقلۃ نے اس وقت رائج علوم حاصل کیے، وہ اتنے قابل تھے کہ تین عباسی خلفاء کے وزیر رہے۔ انہوں نے پانچ نئے خط ایجاد کیے اور پھر ان کے اصول بھی وضع کیے، تو میں سمجھتا ہوں اسلامی خطاطی کا آغاز یہاں سے ہوا۔ وہ فن عراق میں ادھر ادھر چلتا رہا، پھر ایک وقت آیا کہ اس کو ترک اپنے پاس لے گئے اور مختلف خطوں میں اپنی مہارت کو انتہا پر پہنچا دیا۔ ان میں خط ثلث کو خطوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ پھر نسخ ہے، جو قرآن پاک کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ یہ باریک اور تیزی سے لکھا جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک خطاط نے دس ، بارہ یا اس سے زیادہ قرآن مجید بھی لکھے، پہلے کوئی مشکل سے ایک آدھ لکھ پاتا تھا۔ ایک خطاط کے لیے روایت پر چلنا ضروری ہے، جو روایت پر نہیں چلتا، وہ روایت بنتا ہی نہیں۔ اس روایت کے اندر رہتے ہوئے ہی فنکار وہ کمال دکھاتا ہے، جس کو اہل نظر سمجھتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اسلامی خطاطی اتنا بڑا فن ہے کہ غیر مسلم بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جن ممالک پر انہوں نے قبضہ کیا، وہاں بھی اس کے آثار نہیں مٹائے۔
’اب بھی بادشاہ فن کی سرپرستی کر رہے ہیں ‘
اب پہلے والا دور لوٹ آیا ہے۔ پہلے بادشاہ خطاط رکھتے اور ان کے سامنے روشنائی پکڑ کر بیٹھتے۔ یہ وہ دور تھا جس میں روشنائی کی تیاری کا بھی خاص طریقہ تھا، کئی مہینے لگ جاتے۔ جبکہ کاغذ کی تیاری کا مرحلہ تو کئی برسوں میں مکمل ہوتا۔ بادشاہوں کی سرپرستی کا وہ دور واپس آ گیا ہے۔ اب شارجہ میں جو حاکم ہیں، وہ ہر رمضان میں تیس خطاطوں کو بلاتے ہیں، اور ان سے ایک ایک پارہ لکھواتے ہیں۔ پھر ان کی اپنے محل میں دعوت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں۔
اس وقت بھی جو ترک ہیں، انہوں نے اپنے سارے خطاطوں کو ایک بڑا مکان دیا اور ایک وظیفہ مقرر کیا ہوا ہے۔ ایران میں تو ہزاروں کی تعداد میں خطاط ہیں جو حکومت سے وظیفہ لیتے ہیں۔ حکومت انہیں یہ بھی نہیں کہتی کہ ہمیں مہینے کے بعد اتنا کام دو، وہ کہتے ہیں آپ اپنا اپنا کام کرو۔
محمد علی زاہد
وُہ اِنکسارِ مجّسم، بہت شفیق و خلیق
ہمارے عہد کا اِک خوشنویِس خوش توفیق
کریں گے اہلِ نظر میری بات کی تصدیق
وُہ اعتبارِ خطِ ثلث و نسخ و نستعلیق
کچھ اِس ہُنر سے وہ نقطے مِلائے جاتا ہے
کہ جگنوئوں کے ستارے بنائے جاتا ہے
بتا رہی ہیں یہ پیوند کاریاں اُس کی
ریاضِ پیہم و شب زندہ داریاں اُس کی
روایتوں میں یہ جدّت شعاریاں اُس کی
بہشتِ چشم ہیں گوہر نگاریاں اُس کی
وہ حرف حرف کی زیبائِشوں کا ماہر ہے
عُروسِ لفظ کی آرائِشوں کا ماہر ہے
ہے ضَوفگن سِرقرطاس موتیوں کی قطار
ہر ایک سطر تناسب میں ایک شالامار
مہک رہی ہے دبستانِ یوسفی کی بہار
اگرچہ عُمر میں چھوٹا مگر بڑا فنکار
خفی کی ہو کہ ہو خطِ جَلی کی خطّاطی
کمالِ فن ہے محمد علی کی خطّاطی
(انور مسعود)
The post کوئی استاد نہیں ملا تو تحقیق کا راستہ اختیار کیا، محمد علی زاہد appeared first on ایکسپریس اردو.