دانائے سُبل، ختم ِرُسل، مولائے کُل حضور سیّد الرمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمّد مصطفٰی ﷺ جس طرح رفعت ِسیرت و کردار میں بے عدیل و بے مثال ہیں وہ اس بلندی کردار میں ابتدائے آفرنیش سے فنائے دنیا تک اس کرہ ارضی کے اوپر اور چرخ ِ کبود کے نیچے آپ ﷺ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ ہوگا۔ اسی طرح اﷲ رب العزت کے حبیبِ مکرم ﷺ ظاہری حسن و جمال میں لا مثال و یکتا ہیں۔
فی الواقع رخِ مصطفٰی ﷺ وہ آئینہ ہے جو انسانی بزم خیال میں سما اور آسکتا ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں اس کا تصوّر تو کیا اس کا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا۔ خالق دو جہاں نے ٹھیک اپنی حکمت سے اپنے محبوب ﷺ کا پیکر تخلیق کیا اور بلندی سیرت وہ کہ آپ ﷺ کی تقلید و اتباع کرنے والوں کو بہارِ فردوسِ بریں کی نوید ِجاں سنائی، گویا یہ رعنائی کردار کی کاملیت و جامعیت کی انتہا ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو جس کی خاک پا سے سرزمینِ بطحاء کا ہر ذرّہ کہکشاں ٹھہرا، جس کی تشریف آوری سے ہر گنہگار کو خود پر بخشش کا گماں ہونے لگتا ہے، جس کی عظمتوں کی انتہا یہ کہ بہ وقتِ معراج گردشِ ہفت و زمین آسمان رک جاتی ہے، جس کے غلاموں کی شانِ جلالت کی وجہ سے کوہ ساروں کی جبینوں پر پسینہ آ جاتا ہے، جس کے دم قدم سے امت کو خیر امم کا مرتبہ بخشا جاتا ہے، جس کی تابشِ جمال کا نظارہ کرنے کے لیے مہر و مہ لب بام نظر آتے ہیں، جس کے دستِ عطا نے سرِحیات کے رخ سے نقاب الٹ کر اُنہیں نسلِ آدمیت کے لیے مفیض بنا دیا، جس نے تنگ دامانی شش جہاد کو وسعتِ دو جہاں عطا کی، جس نے بھٹکی ہوئی نسل انسانی کو عشق کا انداز تخیّل عطا کیا، جس کے قدو مِیمنت لزدم سے شعلہ خورشیدِ محشر کو ذوقِ برودت عطا ہوا، جس نے نعرہ ہائے تکبیر سے مزاج گردشِ دوراں بدل کر رکھ دیا، جس نے خوف ِشب ِغم کو نُورِ سحر سے مالا مال کر دیا، جس نے رہینِ خوف و ہراس سسکتی انسانیت کو صبحِ آزادی کی دل کشائی سے آشنا کیا، جس نے فکر کی ہر کسک کو شعور تسکین ارزانی کیا، جس نے جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں کی جانب بڑھتی ہوئی مخلوق خدا کو طلب گار خلد بریں بنا دیا، جس کی وجہ سے یاس و قنوطیت و پژمردگی کے مارے ہوئے انسانوں کو نقش جمال عید کی تاثیر عطا ہوئی، جس کے جمال جہاں آراء سے عروس صبح کے رخ پر پڑے ہوئے نقاب خود بہ خود الٹ گئے اور سپیدۂ سحر نمودار ہوا، جس کے نعلینِ پُرفیوض سے ذرّاتِ صحرائے عرب رشکِ فرودسِ بریں بن جاتے، جن کے تلوے مبارک کو چھونے والے ذارّتِ خاکی خورشید و مہتاب میں ڈھل جاتے، جن کے محوِ خرام ہونے سے رستے کہکشاں در کہکشاں بنتے چلے جاتے ہیں، چمن کی نکہتیں جس کی زلفِ عنبرین سے خُوش بُو کشید کر کے عالمِ گیتی میں بکھرتی ہیں۔ کیوں نہ اُس رفیع الشان ہستی کی رفعت کردار کو سیارگان فلک جھک جھک کر سلام پیش کریں:
ہر خیر تریؐ سیرتِ تاباں سے چلی ہے
خُوش بُو کی ہر اک موج گلستاں سے چلی ہے
بالکل ٹھیک اسی طرح خد و خالِ نبوت ﷺ میں ایسی جامعیت و جاذبیت ہے کہ حسینان زمن اس حسن بے مثال پر تصدق و نثار ہونے کی آرزو کرتے رہیں گے، برگ گل کی نزاکت، لب ہائے مصطفٰی ﷺ پر فدا ہوتی رہے گی۔ تابش خورشید و قمر اور زیبائی نجوم و کہکشاں لاریب رخسارِ نبوتؐ سے خیراتِ رخشندگی حاصل کرتی رہے گی۔ ظلمتِ شب تاب آپ ﷺ کے حیات آفریں تبسم سے تابانیت کشید کرتی رہے گی۔ سیارگانِ فلک آپؐ کی سبک خرامی سے قرینہ ہائے رفتا ر پاتے رہیں گے۔ متانت کوہ و دمن آپؐ کے قیام کا ٹھہر ٹھہر کر نظارہ کرتی رہے گی۔ گلاب و چنبیلی کا پیرہن آپؐ کے جمال جہاں آرا ء سے فیض یاب ہوتا رہے گا۔
قطرہ ہائے شبنم پسینہ رسالت مآب ﷺ سے در افشانی کا لقب پاتے رہیں گے۔ عطر و گلاب و نسترن کی شمیم انگیزیاں آقا ﷺ کے پسینے پر ہزار جان سے تصدق ہوتی رہیں گی۔ مخزن و معدن، فصاحت و بلاغت حضور ﷺ کے طرز تکلّم اور حسن بیاں پر قربان ہوتے رہیں گے۔ نشیب و فراز ارض و سما آقا ؐ کی زلف طرح دار سے بانکپن حاصل کرتے رہیں گے۔ تابانیٔ سحر حضور ﷺ کے کندھوں کے درمیان موجود مہر نبوت پر دیوانہ وار نثار ہوتی رہے گی۔ زمرد اور یاقوت کی چمک سرکار رسالت مآب ﷺ کے دندان مبارک سے تزئین حاصل کرتی رہے گی۔ نکہت احساس آدمیت قربت مصطفٰی ﷺ کو سرمایہ انبساط گردانتی رہے گی۔
رونق ہنگامۂ کونین آپؐ کے وجود اقدس کا طلوع آفتاب قیامت تک طواف کرتی رہے گی۔ ابیض و اسود و احمر اپنے ہیولے میں رنگ بھرنے کے لیے اذن حضور طلب کرنے کے لیے بے قرار رہیں گے۔ خُوش بُوئے رگ گل شام پیکر مصطفٰی ﷺ کا رک رک کر مشاہدہ کرتی رہے گی۔ یہ حقائق جبین و ارض و سماء پر رقم ہیں کہ آقائے دو جہاں ﷺ جب محو خرام ہوتے تو دو جہاں ساتھ ساتھ چلتے محسوس ہوتے۔
حضور ﷺ قیام فرماتے تو چشم ِ افلاک جھک جھک کر مشاہدے میں محو ہو جاتی۔ آپؐ اپنے جاں نثار رفقاء کے درمیان فروکش ہوتے تو یوں لگتا جیسے چاند ستاروں کے درمیان ضو ریزی کر رہا ہو۔ حضورؐ کی جنبشِ لب سے وجدانِ رفقائے نبوت میں بے خودی کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ حضور سرور کائنات ﷺ کی آنکھوں کی پتلیاں حرکت پذیر ہوتیں تو قلبِ کائنات دو عالم بھی محو سا ہو جاتا۔
آپؐ کے مژگان و ابرو کے جھپکنے سے طائران بام حرم عقیدت سے گردنیں خم کر دیتے۔ حضور ﷺ کی انگشت مبارک حمد رب لایزال کے لیے آسمان کی جانب بلند ہوتی اہل فلک اس حمد رب کائنات پر احد احد پکارتے معلوم ہوتے اطلس و کمخواب و ہریر و پرنیاں لباسِ حبیب ِکبریا ﷺ کے سامنے خجل ہوتے نظر آتے۔
حضورؐ کے تلووں مبارک پر جبینِ جبرائیلؑ عقیدتاً خم ہوتی نظر آتی۔ ہلال آسمان حضورؐ کے ناخن مبارک کا عکس نظر آتا۔ شفق کی رعنائی سرکارؐ کے روئے مبارک کا فیضان معلوم ہوتی۔ قیامت تک موسموں کا تغیر و تبدل اپنا حسن ِ ضوفشاں لیے حریمِ حسنِ نبوتؐ پر محو ِ التماس رہے گا۔ بھٹکتی ہوئی تاریکیاں اور خارزار ظلمت انوار سحر میں تبدیل ہونے کا شرف حاصل کرنے کے لیے درخواست گذار بن کر حسن محمد ﷺ کے حضور ایستادہ رہے گا۔
دردود ان کے لیے سلام ان کے لیے
کہ جن کے نُور سے گھر گھر چراغ جلتا ہے
ملی ہیں مجھ کو بھی کرنیں حضورؐ کے در سے
کہ جن کو دیکھ کے سورج بھی رخ پلٹتا ہے
The post دانائے سُبُل، ختم الرسل، مولائے کُل ﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.