دنیا میں کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کے لیے تعلیم کی اتنی ہی اہمیت ہے جیسے گھپ اندھیر ے میں روشنی کی اہمیت ہو، تعلیم کو آج دنیا بھر میں پرائمری، سیکنڈری اور ہائر ایجوکیشن کے اعتبار سے تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
اگرچہ اِن تینوں درجات کی اہمیت کسی طرح ایک دوسرے سے کم نہیں مگر آج کی دنیا میں ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی درجہ بندی کے لیے بنیادی پیمانوں میں سے اہم ترین پیمانہ ہائر ایجوکیشن یعنی اعلیٰ تعلیم کا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں یونیورسٹیوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار کیسا اور تعداد کتنی ہے، انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف یونیورسٹیز کے ورلڈ وائڈ ڈیٹابیس فار ہائر ایجوکیشن کے مطابق اِس وقت دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد 18ہزار 6 سو 50 سے کچھ زیادہ ہے۔
دنیا بھر کی اِن یونیورسٹیوں میں سے 11 فیصد یعنی 2038 جامعات امریکہ میں ہیں۔ دوسرے نمبر پر میکسیکو ہے جہاںدنیا کی9% یونیورسٹیاں ہیں۔ 7% کے ساتھ فلپائن تیسرے نمبر چین چوتھے اور بھارت پانچویں نمبر پر ہے۔ امریکہ معیار کے اعتبار سے بھی ہائر ایجوکیشن میں سر فہرست ہے۔ World University Rankingورلڈ یونیورسٹی رینکنگ2021 ۔2022 کے مطابق دنیا میں ٹاپ 100 یو نیورسٹیوں سے51 یونیورسٹیاں امریکہ میں 10 یونیورسٹیوں کے ساتھ برطانیہ دوسرے نمبر پر ہے۔
جاپان اور جرمنی چھ چھ یونیورسٹیوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر، سویزر لینڈ پانچ یونیورسٹیوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر، نیدرلینڈ 4 یونیورسٹیوں کے ساتھ چھٹے نمبر پر، چین تین یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتویں نمبر پر، جنوبی کوریا، سوئڈن، اسرائیل اور آسٹریلیا کی دو دو یونیورسٹیاں ڈنمارک اورناروے، تائیوان اور سنگاپور کی ایک ایک یونیورسٹی دنیا کی پہلی 100 یونیورسیٹوں میں شامل تھیں، ورلڈ بنک کے مطابق اس وقت دنیا کی 18650 یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ تعداد 1998 ء میں 8 کروڑ 90 لاکھ تھی۔
دنیا بھر کی بڑی اور معیار ی یونیورسیٹوں کی پالیسی یہ رہی ہے کہ اِن میں ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے داخلے 17 سال سے 23 سال کے نوجوانوں کو اولیت کی بنیاد پر دئیے جاتے ہیں ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد یہ ریسرچ اسکالرز اپنے اپنے شعبوں میں ریسرچ کی بنیادوں پر ایجادات اوردریافتیںکرتے ہیں پھر آج کے دور میں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں 95 فیصد سے زیادہ افراد سائنس اور ٹیکنالوجی میں اور باقی سوشل سائنسز کے شعبوں میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں اور لٹریچر کے شعبوں میں اِن ترقی یافتہ ملکوں میںاب خال خال ہی پی ایچ ڈی کی جاتی ہے۔
جب یہ نوجوان 25 یا 26 سال میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر کے ریسرچ اسکالرز بن جاتے ہیں تو پینسٹھ ستر سال کی عمر تک اِن کے پاس بھرپور زندگی کے اوسطاً 45 سال ہوتے ہیں اور اس عرصے میں میدان ِ علم کے یہ اسکالرز مصروف عمل رہ کر اپنے ملک و قوم کی اور عموماً دنیا بھر کی انسانیت کی بھرپور خدمت کرتے ہیں، پھر امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ترقی یافتہ ملکوں کی کچھ یونیورسٹیاں ایسی بھی ہیں۔
جن کے سالانہ بجٹ پاکستان جیسے ملکوں کے بجٹ کے تقریباً برابر ہیں اور تعریف کی بات یہ ہے کہ اَن یونیورسیٹوں کو یہ بجٹ حکومت فراہم نہیں کرتی بلکہ یو نیورسٹیوں میں ہونے والی ریسرچ کی بنیاد پر ہونے والی دریافتیں اور ایجادات پیٹنڈ یعنی رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور اِن کو کمپنیاں کروڑوں، اربوں ڈالر کے عوض خریدتی ہیں۔
یوں ایسی یونیورسیٹوں کے پاس اپنے سالانہ بجٹ کو خرچ کرنے کے بعد بھی بہت بڑے فنڈز ریسرچ کے لیے بچ جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ نامی ادارے کی جا نب سے جاری کردہ انٹرنیشنل ریسرچ رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد کو دگنا کرنے سے اُس ملک کے سالانہ جی ڈی پی اور فی کس سالانہ آمدنی میں 4 فیصد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
یو ایس سینسز (شماریاتی ) بیورو کے انٹرنیشنل ڈیٹابیس کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 17 سے 23 سال تک کی عمر کے گروپ کی کل تعداد 82 کروڑ 66 لاکھ 81 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ اس تعداد میں سے 20 کروڑ نوجوان ہی یونیورسٹوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے جو اس عمر کے گروپ کا صرف 24 فیصد تھے اور اس 24 فیصد میں سے 80 فیصد کا تعلق ترقی یافتہ ملکوں سے ہے یعنی ترقی یافتہ ملکوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور معیارکے اعتبار سے بھی اِن کی یونیورسٹیاں ٹاپ پر ہیں یہاں نوجوان اسکالرز کی تعداد بھی ہمارے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہے درج بالااعداد و شمار سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک ابھی اِن ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کتنے پیچھے ہیں۔
یہ درست ہے کہ علم اور تحقیق کے لحاظ سے مسلمانوں کا ماضی بہت تابناک رہا ہے مسلمانوں نے یونان اور روم کے علمی ذخیرے کو عربی میں تراجم کر کے استفادہ بھی کیا اور پھر اس میں مزید اضافہ بھی کیا۔ بارویں اور تیرویں صدی عیسوی اِس اعتبار سے بہت اہم رہی، تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس دور میں تین ذہین و فطین شخصیات ایک ہی جامعہ میں زیر تعلیم رہیں۔
اِ ن میں سلجوق سلطنت کے بادشاہ ملک شاہ اوّل کا وزیر اعظم نظام الملک طوسی، فارسی رباعی کا مشہور شاعر، فلکیات اور علم نجوم کا ماہر اور ریاضی دان عمر خیام اور ذہین مگر شیطانی عقل کا مالک حسن بن صبا شامل تھے اور اِن تین دوستوں نے آپس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ز ندگی میں جس کو بھی اچھا اور اعلیٰ مقام ملا وہ دوسرے کی مدد کرے گا، جب نظام الملک طوسی اُس زمانے کی ایک بڑی اور مضبوط سلجوقی سلطنت کا وزیراعظم بنا تو یہ بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل تھا۔
اُسے اُس زمانے میں علم و تحقیق کی اہمیت کا اندازہ تھا، ایک بار سلجوقی بادشاہ ملک شاہ اوّل نے اُسے لاکھوں اشرفیاں دیں کہ سلطنت کے مضبوط دفاع کے لیے نا قابلِ تسخیر قلعے تعمیر کئے جائیں۔ نظام الملک طوسی نے ساری رقوم سے اعلیٰ تعلیمی ادارے تعمیر کروا دئیے تو درباریوں نے بادشاہ کے کان بھرے کہ وزیراعظم رقم خرد برد کر گیا ہے۔ بادشاہ نے طوسی سے کہا کہ مجھے تعمیر شدہ قلعے دکھاؤ تو وزیر اعظم نظام الملک طوسی نے وہ عظیم درس گاہیں دکھائیں جہاں ہزاروں اسکا لرز زیر تعلیم تھے اور کہا کہ یہ وہ قلعے ہیں جن سے نکلنے والی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکے گی۔
اس پر علم دوست بادشاہ بہت خوش ہوا۔ نظام الملک طوسی کے باقی دودوستوں میں سے عمر خیام طوسی کے پاس آیا تو اُس نے خیام کی خاصی مدد کی مگرخیام مئے نوش تھا اس لیے بعد میں ساری دولت عیاشی میں اڑا دی، حسن بن صبا، دنیا پر حاکمیت کے شیطانی خواب دیکھتا تھا۔
اُس نے نظام ا لملک طوسی کی میزبانی کا لطف تو اٹھایا مگر اُسے بتا دیا کہ وہ اُس کا خواب پورا نہیں کر سکتا، اس کے بعد اُس بدبخت نے فارس کے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے باطنی فرقے کی بنیاد پر نہ صرف ایک جنت بنائی بلکہ اُس نے ہی خودکش حملوں کی بنیاد ڈالی اور اپنے پیروکاروں سے خودکش حملے کروا کر اُس عہد کے جیّد علما ِدین کوقتل کروایا۔ حسن بن صبا کا خاتمہ 1129 ء میں ہوا ۔ یہ وہ دور ہے جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا۔
تقریباً اسی دور میں یعنی 1095ء سے 1251ء تک فلسطین اور بیت المقدس کے لیے یورپ نے صلیبی جنگیں لڑیں اور اِن ہی صلیبی جنگوں کی بدولت یورپ میں تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا ۔ 1258 ء میں چنگیز خان کے پو تے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کر کے یہاں کی عظیم یونیورسٹیوں کو نذرِ آتش کر دیا، لائبریریوں کو جلا کر کتابوں کو دریا میں پھینک دیا، پھر1492 ء میں اسپین میں عیسائی ملکہ ازابیلا اور بادشاہ فرننڈس نے اسپین کی مکمل فتح کے بعد مسلمانوں کا قتل عام کر کے اسپین سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ کر دیا۔
اسی سال ملکہ ازابیلا کی مالی معاونت سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کیا، اس واقعے کے ٹھیک 420 سال بعد جنگ، عظیم اوّل میں جرمنی کے ساتھ ترکی کی خلافت ِعثمانیہ کو 1918 ء میں شکست ہوئی اور اس کے بعد سے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے ازابیلا کی مالی معاونت سے کرسٹوفرکولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔
اس واقعے کے ٹھیک 420 سال بعد جنگ، عظیم اوّل میں جرمنی کے ساتھ ترکی کی خلافت ِعثمانیہ کو 1918 ء میں شکست ہوئی اور اس کے بعد سے 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام اور اقوامِ متحدہ کے قیام تک آج کی دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں سے صرف تین اسلامی ممالک افغانستان ، ترکی اور سعودی عرب ہی آزاد ملک کہلاتے تھے اور صرف ترکی میں جدید تعلیم کی جانب کسی حد تک توجہ دی جا رہی تھی، لیکن پاکستان کی خوش قستمی کہ بر صغیر کی جنگ آزادی 1857 ہی میں دو قومی نظریے کے حق میں پہلی آواز بلند کر نے والے عظیم رہنما ماہر تعلیم سماجی مصلح سر سید احمد خان جیسی شخصیت ہمیں ملی جس نے نظام الملک طوسی کی طرح یہ بھانپ لیا تھا کہ آزادی، ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد اور جنگ کے لیے بنیاد ی ہتھیار علم ہی ہے۔
کو ئٹہ میں بلوچستان کے سر سید تعمیر ِ نو ٹرسٹ کے سابق سیکرٹری و پرنسپل تعمیر نو کالج پروفیسر فضل حق میر مرحوم نے تعمیر نو کالج کی پیشانی پر یہ احادیث نبویﷺ لکھوائیں ( عقل میرے دین کی بنیاد۔ علم میرا ہتھیار ہے ) مگر بد قسمتی سے آزادی کے بعد اور خصوصاً قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہم نے تعلیم کے شعبے کی جانب وہ توجہ نہیں دی جس کی ہمیں ضرورت تھی۔ بلوچستان جو ملک کے رقبے کا 43% ہے ا س کو تو تقریباً نظر انداز کردیا گیا۔
1947 ء تک پورے بلوچستان میں کو ئی کالج نہیں تھا البتہ کوئٹہ میں آج کے ڈگری سائنس کالج کو جو اُس زمانے میں گورنمنٹ سنڈے من اسکول تھا، 1947 ء ہی میں ہائر سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا تھا اور یہاں اسکو ل کے ٹیچرز ہی بارہ جماعتوں تک پڑھاتے تھے۔ 1948 ء میں اس کو کالج کا درجہ دیا گیا اور یہ بلوچستان کا پہلا کالج بنا اور پھرجب 1970 ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا تو یہاں پہلی یو نیو رسٹی ’’بلوچستان یونیورسٹی‘‘ قائم ہوئی جس کے پہلے چانسلر صوبے کے پہلے گورنر لیفٹیننٹ جنرل ریاض حسین اور پہلے وائس چانسلر جسٹس دراب پٹیل تھے۔ آج بلوچستان یونیورسٹی کو پچاس سال ہو گئے ہیں۔
اب جہاں تک تعلق پاکستان میں ہائر ایجو کیشن کا ہے تو پاکستان دنیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد کے اعتبار سے 20 ویں نمبر پر ہے اور معیار تعلیم کے لحاظ سے پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہے، 2002ء سے قبل تک مرکزی سطح پر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کا ادارہ تھا جس کو 2002 ء میں ہائر ایجوکشن کمیشن بنا دیا گیا اور ملک میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن پر بھرپور توجہ دی گئی، 2002 ء تک ہمارے ہاں یونیو رسیٹوں کی تعداد صرف 74 تھی اور بلو چستان میںاکلوتی یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی تھی۔
جولائی 2018 ء تک پاکستان میں یو نیورسیٹوں کی تعداد 189 ہو گئی جس کی تفصیل یوں ہے، پنجاب میں سرکاری جامعات 35، نجی یونیورسٹیاں 26 کل 61 جامعات، سندھ میں 23 سرکاری 32 نجی کل55 یو نیورسٹیاں، خیبر پختونخوا میں 25 سرکاری 10 نجی کل 35 جامعات، بلوچستان 7 سرکاری اور ایک نجی کل 8 یونیورسٹیاں، گلگت بلتستان 2 سرکاری یونیورسٹیاں، آزاد جموں وکشمیر 5 سرکاری اور 2 نجی یونیورسٹیاں یعنی کل 7 جامعات ہیں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 15 سرکاری اور 6 نجی یونیورسٹیاں ہیں یعنی کل 21 جامعات ہیں ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ بازیافت یکم جولائی2018 ء کے مطابق درج بالا یونیورسٹیوں کی کل تعداد 189 ہے۔
اسی طرح پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس2016 ء ۔2017 ء وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے مطابق پا کستان کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد 1192535 تھی اور نجی یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی تعداد 270744 تھی اور یوں کل تعداد 1463279 تھی۔ اِن اعداد وشمار میں اُس وقت بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں طلبا و طالبات کی کل تعداد 27464 تھی جو اب 29600 ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی قومی تعلیمی پالیسی برائے 2017 ء تا 2025 ء میں بھی ملک میں ہائر ایجوکیشن کے لیے عمر کا گروپ 17 سال تا 23 سال ہے۔ یوں اِ س وقت ملک میں17 سال سے23 سال تک کی عمروں کے تقریباً 1 کروڑ 90 لاکھ نوجوان ہیں اور اس میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تقریباً11 لاکھ ہے۔
پاکستان کی سطح پر ایک کروڑ 90 لاکھ میں سے صرف تقریباً 15 لاکھ یونیورسٹیوں میں ہیں جب کہ بلو چستان کے17 سے23 سال کے 11 لاکھ نوجوانوں میں سے صرف تقریباً 30 ہزار نوجوان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں جو کل کا تین فیصد سے بھی کم ہیں، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ 2002 ء میں بلو چستان کی یونیورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس کی کل تعداد صرف 3700 تھی جو اب 29600 ہو چکی ہے۔
اس دوران ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو کل 32 ارب روپے دیئے یعنی سالانہ بلوچستان کی 7 سرکاری یونیورسیٹوں کو1 ارب 68 کروڑ روپے دئیے گئے اور بلوچستان کی سات یونیورسٹیوں میں یہ رقم سالا نہ فی یونیورسٹی 23کروڑ 43 لاکھ روپے بنتی ہے جو ایچ ای سی کی جانب سے گذشتہ 19 برسوں میں دی گئی۔
آئین کی18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے حوالے سے تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی سبجیکٹ ہے، یوں اس کے بعد بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کو اپنے سالانہ بجٹوں سے بھی ہائر ایجوکیشن کے اعتبار سے یونیورسیٹوں کو بھی فنڈ ز فراہم کرنے پڑے اور خصوصاً بلوچستان یونیورسٹی جو ایک طویل عرصے تک صوبے کی اکلوتی یو نیورسٹی رہی عرصے سے مالی بحران کا شکار ہے، اس کے لیے تھوڑی بہت رقوم یا فنڈز صوبائی حکومت نے بھی فراہم کئے، اس وقت بلوچستان ڈیویلپمنٹ پروفائل کے مطا بق ہائر ایجوکیشن پر صوبے میں انفراسٹکچر پر 13 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں، اِن میں سے 2.45 ارب روپے ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ پرخرچ کئے گئے ہیں۔
بلوچستان چونکہ رقبے کے اعتبار سے بہت وسیع ہے اور ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43 فیصد ہے جب کہ آبادی کے لحاظ سے یہ ملک کی کل آبادی کا صرف 6% ہے، اس آبادی کا تقریباً 60% صوبے کے اندرون اور دور دراز علاقوں میں آباد ہے اس لیے صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ بلوچستان کی سات سرکاری یونیورسٹیوں کے زیادہ سے زیادہ کیمپس بلوچستان میں ضلعی سطح پر کھولے جائیں، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی صوبے میں خواتین کی واحد یونیورسٹی ہے۔
اس کے کیمپس ضلع نوشکی، پشین، خضدار، لسبیلہ ، وڈہ اور ڈیرہ مراد جمالی میں ہیں۔ یو نیورسٹی آف بلوچستان کے کیمپس خاران ، مستونگ اور پشین میں قائم کئے گئے ہیں۔ تربت یونیورسٹی کا کیمپس حال ہی میں گوادر میں قائم کیا گیا ہے، واضح رہے کہ بلوچستان کی سات سرکاری یونیورسٹیوں میں تین یونیورسٹیاں نمبر1 یونیورسٹی آف بلوچستان یا بلوچستان یونیورسٹی نمبر2 ’’بیوٹمز‘‘ بلوچستان یونیورسٹی آف انفامیشن ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسسز اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہیں۔
جب کہ تربت یونیورسٹی کیچ تربت میں، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر مینجمنٹ میرین سائنسسز اوتھل میں، یونیورسٹی آف لو رالائی ، لورالائی میں ، انجینئر نگ یونیورسٹی خضدار میں اور بولان میڈیکل کالج کوئٹہ بھی میڈیکل یو نیو رسٹی کے مراحل طے کر رہا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر بلوچستان کے پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے مالی وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ 922 ملین روپے 2300 ایسے طلبا و طالبات کے لیے رکھے گئے ہیں جو ایم ایس اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کے مختلف شعبوں میں بلوچستان کی یونیورسٹیاں اِس وقت akistan Education and Reseach Network Pکی بنیاد پر ایچ ای سی، آئی ٹی کے ذریعے دیگر یونیورسیٹوں سے منسلک ہے ۔
بلو چستان کی سات سرکاری اور ایک نجی یو نیورسٹی میں زیادہ تر ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے لیکن یہ تمام یونیورسٹیاں اس وقت نہ صرف خود بی ایس چار سالہ کورس کی بنیاد پر ڈگری فراہم کر رہی ہیں بلکہ اس کے ساتھ بلوچستان کے 45 سرکاری ڈگری کالجوں میں بھی چار سالہ بی ایس ڈگری کورس شروع کیا ہے اور کورس کے بعد امتحان اور ڈگری کا اجرا بلوچستان کی یونیورسٹیاں ہی کرتی ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ تعلیمی اصلاحات پورے ملک کی طرح چند برس قبل بلوچستان میں بھی شروع ہوئیں جن کے تحت صوبے کے ہائی اسکولوں کو ہائر سیکنڈری اسکول بنانا شروع کیا گیا۔
جہاں دس جماعتوں کی بجائے اب بارہ جماعتوں یعنی انٹرمیڈیٹ تک تعلیم فراہم کی جا رہی ہے اور اِن کے سرٹیفکیٹ کی سطح کے امتحانات انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ بلوچستان لیتا ہے اور کالجوں کی سطح پر بی ایس چار سالہ ڈگری کورس شروع کیا گیا ہے جس کے ڈگری کے امتحانات یونیورسٹی لیتی ہے۔
اس سے قبل ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی ہائی اسکولوں میں میٹرک تک انٹر کالجوں میں ایف اے، ایف ایس سی دو سالہ سرٹیفکیٹ کورس پڑھائے جا رہے تھے اور ڈگری کالجوں میں بی اے ، بی ایس سی کے دو سالہ ڈگری کورس ہوتے تھے اور اس کے امتحان کے بعد گریجویشن کی ڈگری یونیورسٹی دیتی تھی، مگر اب ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کے ڈگری کالجوں میں بھی بی اے بی ایس سی کی بجائے ، بی ایس کے چار سالہ کورسز شروع کئے گئے ہیں۔
یہ تبدیلی جو بڑی اہم تعلیمی ا صلا حات کے بعد پاکستان میں نافذ العمل ہے اور پورے ملک ہی میںاس نئے تعلیمی نظام پر زور و شور سے عملدرآمد ہو رہا ہے مگر بلوچستان جو پہلے ہی تعلیمی اعتبار سے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم یا پیچھے تھا اس کو تعلیمی میدان میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس بڑے چیلنج کا سامنا اُس وقت ہوا جب ساتھ ہی کرونا، خشک سالی اور ٹڈی دل کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا مگر اس کے باوجود 2018 ء سے2021 ء تک کے اِن تین برسوں میں صوبائی حکومت نے 45 کالجوں کو 1970 ملین روپے کی لاگت سے اپ گریڈ کرتے ہوئے بی ایس کے چار سالہ کورسزکے لیے ڈگری کالجوں کا درجہ دے دیا، اسی طرح 37 کالجوں میں غیر موجود سہولتوں کو پورا کرنے کے لیے 3331 ملین روپے خرچ کئے گئے۔
صوبائی حکومت نے کالجوں کی سطح پر بھی خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کر نے کی غرض سے صوبے کے گرلز کالجوں کے لیے 200 ملین روپے کی لاگت سے 33 بسیں خریدی ہیں پھر اِن تین برسوں میں ہی صوبائی حکومت نے بلوچستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں627 اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد کو خصوصاً درس و تدریس کے شعبے میں ملازمتیں فراہم کی ہیں ۔ یہ سارے اقدامات اس لیے کئے گئے ہیں تاکہ بلوچستان میں خواتین کو بھی اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبوں میں مردوں کے برابر لایا جائے۔
مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ اب بھی نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے اداروں یعنی ڈگری کالجوں اور یونیورسٹوں کی مطلوبہ تعداد کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے بلکہ اس سے زیادہ مسائل خصوصاً سرکاری ڈگری کالجوں میں ہیں ، جہاں تمام شعبوں میں بی ایس چار سالہ کورسز کا نصاب پڑھانے کے لیے ماہر اساتذہ کی بہت قلت ہے۔ اگرچہ 2002 سے کوئٹہ میں بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچر جیسا ادارہ کام کر رہا ہے جس کی ڈائریکٹر اِس وقت شبانہ سلطان ہیں۔
یہ اکیڈمی صوبے بھر کے کالجوں کے لیکچرارز اور پروفیسروںکو خصوصاً نئی تعلیمی اصلاحات کے مطابق بی ایس کے چار سالہ ڈگر ی کورسز کو پڑھانے کی تربیت بھی فراہم کر رہی ہے، مگر حقیقتاً اس ادارے کے وسائل اس چیلنج کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس وقت صوبے میں ڈگری کالجوں کی تعداد 45 ہو چکی ہے جب کہ اب بھی 50 کے قریب انٹرمیڈیٹ کالج موجود ہیں جن کو جلد ہی اپ گریڈ کرتے ہوئے ڈگری کالجوں کا درجہ دینا ہے، پھر جہاں تک تعلق صوبے کے 45 سرکاری ڈگری کالجوں کا ہے تو اِن میں بھی بدقسمتی سے بی ایس کے چار سالہ کورسسز تک کی تدریس کا معیار نہایت کم اور کمزور ہے۔
95 فیصد کالجوں میں بی ایس کورسسز کو پڑھانے کے لے مطلوبہ استعدادکار اور تعلیمی قابلیت کے حامل اساتذہ نہیں یعنی اِن 45 ڈگری کالجوں میں جو لیکچرار، اسسٹنٹ پرو فیسرز ،ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اُن میں سے بہت کم ایم فل، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے حامل ہیں اور جو ایم فل، ایم ایس اور پی ایچ ڈی ہیں اِ ن کی اکثریت کا علم جدید تقاضوں کے مقابلے میں پرانا ہے۔ بد قسمتی سے ایسی ہی صورتحال ذرا کم شدت کے ساتھ صوبے کی سرکاری یونیورسٹیوں میں ایم فل ، ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تدریسی عمل میں پیش آرہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس صورتحال میں بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے مالی وسائل بھی بہت کم ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت بلوچستان یونیورسٹی اور بلوچستان اکیڈمی فار کالج ٹیچرز جیسے اداروں کی مالی حالت ہے، جہاں تک تعلق بلوچستان کی صوبائی حکومت کا ہے تو وہ اپنے مالی وسائل کے مطابق ہائر ایجوکیشن کو بھی مالی معاونت فراہم کر ر ہی ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کے اداروں کے مالی مسائل پوری طرح حل کرنا صوبائی حکومت کے بس میں نہیں ہے جو فی الحال خود بھی خود انحصار نہیں ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بلوچستان سی پیک کے منصوبوں پر تعمیروترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور امید ہے کہ کئی بڑے منصوبے آئند ہ دو تین سال میں مکمل ہو جا ئیں گے او ر باقی بھی 2030 ء تک مکمل ہو جائیں گے جن کے لیے ہزاروں ڈگری ہولڈرز نوجوانوں کی ضرورت ہو گی اور بلوچستان ہی کے نوجوان اِن منصوبوں میں ملازمتوں کی بنیادوں پر شامل ہوں گے، اس کے لیے ضروری ہے کہ سی پیک کے تحت مستقبل قریب میں ہائر ایجوکیشن کے مختلف شعبوں کی بنیاد پر مطلوبہ قابلیت اور اہلیت کی افرادی قوت کا تخمینہ لگاتے ہوئے۔
سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کی رقوم میں سے چین کی جانب سے گرانٹ کی صورت بلوچستان کے ہائرایجوکیشن کے اداروں کی مالی معاونت کی جائے، دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کے محکمہ تعلیم (کالجز ہائراینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن) بلوچستان اکیڈمی فارکالج ٹیچرز اور بلوچستان کی تمام سرکاری یونیورسیٹوں کے درمیان بہترین رابطے میں ہوں ۔
صوبائی محکمہ ( کالجز ہائر اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن) صوبے کے ہائر ایجوکیشن کے تمام دیگر اداروں میں موجود تمام ایم فل، ایم یس، اور پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی فہرست ترتیب دیں اور پھر ماہرین پر مشتمل ایک ہائرایجوکیشن کونسل بنا کر ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور پروفیسروں کی مدد سے بلو چستان کے 45 ڈگری کالجوں میں مختلف شعبوں میں جاری بی ایس چار سالہ ڈگر ی کورسسز کے لیے سیکنڈ ٹائم کی بنیاد پر اساتذہ کو ہنگامی بنیادوں پر ٹریننگ دیں۔
یہ کونسل یہ بھی تحقیق کرے کہ صوبے میں ہمیں ہائر ایجوکیشن کے مطلوبہ اہداف حاصل کر نے کے لیے یونیورسٹیوں اور ڈگری کالجوں کے لیے کتنی تعداد میں اورکن کن شعبوں میں پی ایچ ڈی کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں پی ٹی آئی نے جوانسال آغا ظہور شاہ کو حال ہی میںگورنر تعینا ت کیا ہے جو صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں وہ بھی سی پیک کے چینی اعلیٰ حکام کو اس پر قائل کریں کہ وہ بلوچستان میں ہا ئر ایجو کیشن کے اِن مطلوبہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بلوچستان کی تمام یونیورسٹیوں اور صوبے کے45 ڈگری کالجوں کی مالی معاونت کریں۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال خان کی بھی یہ کوشش ہے کہ صوبے میں جلد ازجد ہائر ایجوکیشن کو فروغ حاصل ہو۔ وزیر اعلیٰ نے صوبے بھر میں ہائر ایجوکیشن سے متعلق طلبا و طالبات میں گذشتہ تین برسوں میں 500 ملین روپے کے 8200 لیپ ٹاپ مفت تقسیم کئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
طلباو طالبات کے لیے گذشتہ تین برسوں میں 2755 ملین روپے کی لاگت سے31 نئے کالج بھی تعمیر کر وائے ہیں ، طالبات میں ہائر ایجوکیشن کے آسان حصول کے لیے صوبے کے مختلف اضلاع میں گرلز ہاسٹل بھی تعمیر کئے ہیں، خوش قسمتی سے صوبے کی پہلی جامعہ، یعنی بلوچستان یو نیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمن ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ میں پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں کام کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔
پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمن طویل عرصے تک قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد جیسی اہم ترین یونیورسٹی میں بطو ر رجسٹرار بھی کا م کر چکے ہیں، یوں وہ بھی صوبے کی ہائر ایجوکیشن کے مسائل کو حل کر نے میں اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں ۔
The post بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم بحران کا شکارکیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.