تقریباً پانچ سال قبل کی بات ہے جب ریڈیو پاکستان لاہور سے علامہ اقبال کے فلسفہ اور شاعری پر مبنی پروگرام ’’آہنگ اقبال‘‘ کا آغاز بطور میزبان کیا تو اقبال کے سرسری تعارف سے بڑھ کر تنقیدی اور غیر جانبدارانہ مطالعہ کا موقع ملا۔
پاکستان کے قومی شاعر اور تصور پاکستان کے خالق کی حیثیت سے تو علامہ اقبال کی اہمیت اور تکریم مسلمہ ہے اور یہ حیثیت ایک طرح سے ہمیں قومی مشاہیر کو زیادہ گہرائی سے جاننے کے حوالے سے سُست اور بے خبر بھی بناتی ہے، لیکن ایک پیشہ وارانہ ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے تقاضے بہت مختلف ہوتے ہیں۔
اس مقصد کے لئے لاتعداد موضوعات، اقبال شناسی پر مشتمل کُتب اور تاریخی حوالے، حقائق اور دلائل زیر بحث آئے جس کے باعث نہ صرف یہ کہ اقبال ؒ کی شخصیت کے کئی نئے گوشے وا ہوئے بلکہ اقبال ؒ کے حوالے سے روایتی مفروضوں سے ہٹ کر کچھ نئی جہتیں آشکار ہوئیں۔
یہ پروگرام ریڈیو پاکستان کی تاریخ کا پہلا پروگرام ثابت ہوا جس نے 350 اقساط مکمل کیں اور سات سو گھنٹے پر محیط نشریات اقبالیات کے حوالے سے سامعین تک پہنچائیں۔ ملک کے بہترین سکالرز اور فلسفہ اقبال سے جڑے اصحاب علم پروگرام کا حصہ بنتے رہے۔ ان اسکالرز میں ڈاکٹر شفیق عجمی، ڈاکٹر کامران، ڈاکٹر رفعت حسن، علی اصغر عباس اور دیگر اساتذہ شامل ہیں۔
وطن عزیز میں اقبال شناسی کی روایت برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے زمانے سے موجود ہے اور فلسفہ اقبال پر ان گنت کتب اور لٹریچر بھی موجود ہے جن کا ذکر ایک الگ تحریر کا متقاضی ہے، تاہم اس تحریر کا بنیادی نکتہ مختلف مشاہیر عالم کے بارے میں اقبال کی رائے اور با لخصوص پاکستان کی مختلف جغرافیائی اکائیوں یعنی صوبائی سطح پر اقبال کے حوالے سے پائی جانے والی آراء ہیں۔
ایک رائے دائیں بازو سے منسلک لوگوں کی ہے جو اقبال کو محبت و عقیدت کی بنیاد پر مذہبی حوالے سے اعلیٰ مسند پر بٹھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف بائیں بازو سے منسلک لوگ جو اقبال پر تنقید کرتے ہوئے اپنی رائے میں اقبال کو ایک ایسا ریاستی شاعر قرار دیتے ہیں جس کے فلسفے سے ریاست اور انتہا پسندوں کو اپنے مقاصد کے لئے ایندھن ملا اور دیگر محروم طبقات کو نقصان ہوا۔ تاہم ایک اور بڑا اہم نکتہ ملکی نسلی‘ گروہی اور لسانی تناظر میں ہے جو کہ پاکستانی سیاست میں قومی بالادستی کی لڑائی اور چھوٹی قوموں اور پنجاب کے مابین سیاسی اور نسلی تعصب میں اقبال کے حوالے سے ہے۔
اسی بنیاد پر کئی سوالات اٹھائے گئے یا اٹھائے جاتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق ایک چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے تو کم از کم یہاں کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکتا ہوں کہ عملی طور پر یہاں ایک مخصوص فکری طبقے کی اقبال سے وابستگی عوامی سطح پر ویسی نہیں جیسے ملک کے دیگر حصوں میں ہے، اور اسی فکر کے حامل لوگ ملک کے جس حصے میں بھی ہیں اقبال پر بے جا تنقید میں لگے رہتے ہیں۔
گو کہ اقبال شناسی کی عالمی، ایشیائی روایت بھی موجود ہے، این میری شمل، ڈاکٹر علی شریعتی اور کئی ترک اقبال شناس اقبال کو عالمی مفکر قرار دیتے ہیں یہاں تک کہ خطبہ آلہ آباد اور تقسیم ہند کے باوجود ہندوستان میں اقبال شناسی کی مضبوط روایت موجود ہے لیکن پاکستان میں پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بوجوہ دیگر ایسا پراپیگنڈہ زیادہ شدت سے موجود ہے کہ اقبال ؒ عملی طور پر پنجاب کے شاعر ہیں، حالانکہ یہ تاثر سرے سے ہی غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ کسی علمی شخصیت کی عظمت کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو۔
اقبال کی پنجاب کے مقابلے میں دیگر صوبوں میں نسبتاً کم موجودگی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے یہ بھی وجہ ہو کہ کلام اقبال کے پشتو، سندھی اور بلوچی میں تراجم کی کمی ہے۔ ایک وجہ حکومتی عدم دلچسپی بھی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کلام اقبال کے علاقائی زبانوں میں تراجم ہوئے ہی نہیں۔ بلوچستان سے لے کر خیبرپختونخوا تک مقامی زبانوں میں کلام اقبال ؒ کے تراجم کئے گئے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر سندھی، بلوچی اور پشتون دانشور اور عام آدمی سیاسی اور نسلی وجوہات کی بنیاد پر اقبال سے نا دانستہ صرف نظر کرتے ہیں۔
اس لاتعلقی میں بنیادی عنصر شاید مکمل آگہی کا فقدان ہو اور یہ فقدان اقبال کے حوالے سے پایا جانے والا عام تاثر ہے۔ اس تاریخی حقیقت سے اختلاف ممکن نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اداروں میں پنجاب کی بالادستی کو سیاسی مقاصد کے لئے منفی پراپیگنڈہ کا موضوع بنایا گیا اور یہ تاثر بنانے کی کوشش کی گئی کہ پنجاب دیگر قوموں کے حقوق غصب کرتا ہے، شاید یہی تاثر چھوٹے صوبوں میں فلسفہ اقبال یا کلام اقبال کے نہ پنپنے کا محرک ہو۔
دو سوال یا نکات عمومی طور پر ان صوبوں میں اقبال سے متعلق پائے جاتے ہیں:
1۔ اقبال پنجاب کے (پنجاب سے تعلق رکھنے والے) شاعر ہیں اور شاید وہ اسی پنجابی فلسفہ کے حامی ہیں جو قیام پاکستان سے اب تک ریاستی سطح پر اپنایا گیا۔
2۔ اقبال ریاستی شاعر ہیں اور انکا فلسفہ ہر اس ریاستی ایجنڈے کی تکمیل میں مدد کرتا ہے جو دوسری قوموں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ لمبی تہمید سے ہٹ کر ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اقبال کے ہاں پنجاب اور پنجابیت اسی طرح پائی جاتی ہے جس طرح سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں عوامی سطح پر سوچا جاتا ہے۔؟
اقبال ؒ نسلی اعتبار سے کشمیری برہمن تھے۔ ان کے آباء و اجداد مسلمان ہونے کے بعد پنجاب سیالکوٹ میں صدیوں قبل منتقل ہوئے یہیں بُود و باش اختیار کی اور مختلف مراحل طے کئے، اقبال بسلسلہ تعلیم پہلے لاہور پھر لندن اور جرمنی اور پھر دوبارہ لاہور میں مستقل سکونت پذیر ہوئے۔ پنجابی زبان اور دھرتی کو اپنا کے اقبال لاہوری کہلائے۔ ان کا رہن سہن، زبان، لباس پنجابی رہا۔ یہاں تک کہ اقبال کے کشمیری پس منظر پر آہستہ آہستہ پنجاب کی پہچان غالب آ گئی۔ اس عظیم فلسفی کے آباء و اجداد کا مسکن پنجاب ہی ٹھہرا اور آج اگر مقبول تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کو سرزمین پنجاب (سیالکوٹ) کا فرزند اور فخر ہی سمجھا جاتا ہے۔
پروگرام ’آہنگ اقبال‘ کے دوران تحقیق اور علمی جستجو میں بہت سے سوالات سامنے آتے رہے۔ کچھ کے تسلی بخش جواب ملے، کچھ میں تشنگی باقی رہی۔ کچھ سوالات سرکاری نشریات کی مجبوری کی وجہ سے اٹھائے نہ جا سکے۔ ان میں ایک سوال یہ تھا کہ علامہ اقبال جس دھرتی میں پیدا ہوئے وہاں بلھے شاہؒ، وارث شاہ، میاں محمد بخش ؒ، سلطان باہوؒ جیسی عظیم ہستیاں پیدا ہوئی ہیں۔
جنہوں نے پنجابی شاعری میں اعلی مقامات دریافت کئے۔ پنجابی شاعری کا بڑا اثاثہ صوفی کلام ہے تاہم روایتی شاعری کی بھی بات کی جائے تو اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی؟ اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ اسباب کی کھوج پر مزید تحقیق حیران کُن نتائج سامنے لاتی ہے۔ عام بول چال میں دن رات پنجابی میں گُفت و شُنید کرنے والے اقبال ؒ نے ایک نظم یا غزل تو کیا ایک شعر بھی پنجابی زبان میں نہیں کہا اور نہ ہی کوئی نثر پنجابی میں لکھی ہے۔
ناقدین اقبال ؒ اور اقبال ؒ کے چاہنے والے اس نکتے پر کہیں کہیں متفق نظر آتے ہیں کہ چوں کہ اقبال ؒ آگاہ تھے کہ پنجابی شاعری پہلے ہی اتنے عظیم اور بڑے ناموں سے مزین ہے اس لیے آج کا کوئی بھی شاعر اس مقام کو چھو نہیں سکتا جو صوفی شعرا بنا گئے ہیں۔
ممکن ہے اقبال نے اس سوچ کے تناظر میں پنجابی شاعری نہ کی ہو لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اقبال کے بعد بیسویں صدی کے ایک اور بڑے نظریاتی شاعر فیض احمد فیض جو پنجابی ہی تھے اور اقبال کے شہر سیالکوٹ ہی میں پیدا ہوئے نیز اقبال کی طرح انہوں نے بھی اظہار کا ذریعہ اردو اور فارسی کو بنایا، فیض بھی برصغیر کے بڑے شعراء میں شمار ہوئے، انہوں نے بھی کم از کم اپنی مادری زبان میں کچھ نظمیں لکھیں ایک نظم ’’ربا سچیا‘‘ تو معرکتہ الارا پنجابی نظم ہے۔
دیکھا جائے تو فیض بھی اقبال ؒ کی طرح غیر روایتی شاعری کے سرخیل رہے۔ گو کہ دونوں کا آہنگ اور نظریاتی ارتقا مختلف رہا اگر اقبال ؒ نے اپنے عہد کے مظلوم مسلمانوں کے لئے آواز بلند کی تو فیض نے اپنے دور کے پسے ہوئے طبقات کی تصویر کشی کی۔ سو فیض کے ہاں بھی باقاعدہ نہیں تو ایک آدھ پنجابی نظم کا سراغ ملتا ہے۔ تاہم اس دلیل کو مان بھی لیا جائے کہ اقبال کا پنجابی شاعری نہ کرنا بڑے پنجابی شعرا کی موجودگی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پروگرام کے موضوعاتی تنوع کے تناظر میں مزید علمی پیش قدمی نے اس دلیل کو بالخصوص اقبال کے تناظر میں مزید سوچنے پر مجبور کیا۔
’’اقبال کے ہیروز‘‘ یا اقبال کا مرد مومن یا مرد حق و حر کا فلسفہ : عمومی طور پر کوئی بھی عالمی مفکر اور نظریہ دان جب اپنے آئیڈیل یا ہیروز ڈھونڈتا ہے تو وہ اپنی اولین سرزمین پر بھی معیار کا وہ پیمانہ ضرور لاگو کرتا ہے جو کہ دیگر اقوام کے ہیروز میں پائے جانے والی خوبیوں کے لئے کرتا ہے۔
جیسے جیسے اس تحقیق میں کلام اقبال اور فلسفہ اقبال سے رہنمائی سامنے آتی گئی اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا محض کوئی شاعرانہ عذر نہیں۔ بنیادی طور پر اقبال کا ہیرو ایک اجتماعی خوبی رکھتا ہے اور وہ ہے خودی، اقبال کا پرکھنے کا پیمانہ خودی ہے، جس کی بنیاد پر وہ مختلف مذاہب، اقوام اور جغرافیہ کے عظیم سپہ سالاروں کو اپنا ہیرو یا اعلیٰ انسان قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے اقبال کی شاعری اور فلسفے کے پیمانے پر مختلف زبانوں اور کلچرز سے تعلق رکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے جبکہ تقابلی جائزہ لیا جائے تو اقبال ؒ کی فہرست میں ان کی اپنی سرزمین پنجاب سے کتنے دانشور، سپہ سالار، باغی، سیاستدان اور مفکر جگہ بنا سکے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اقبال کا پنجابی میں شاعری نہ کرنا ایک ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے تاہم اپنی فہرست میں اپنے ہیروز کے طور پر سرزمین پنجاب کی شخصیات کو نہ شامل کرنا اس بحث کو مزید گہرائی کی طرف لے جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں ان کا ہیرو افغان محمود غزنوی اور افغان شہاب الدین غوری تو ہے، ان کا ذکر بھی کلام اقبال میں ملتا ہے لیکن پنجابی سرزمین کے ہیروز دُلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ کا ذکر نہیں ملتا۔ ہمیں شیکسپیئر کا ذکر ملتا ہے ،اس عظیم شاعر کی مدح میں نظم کے آخری مصرعے کچھ یوں ہیں!
تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھونڈ
تابِ خورشید میں ‘ خورشید کو پنہا دیکھا
چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالم کو تیری آنکھ نے عریاں دیکھا
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
اور پھر کارل مارکس کے بارے میں ایک جگہ اقبال فرماتے ہیں!
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نسیت پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب
روس کے اشترا کی انقلاب کے بانی لینن کی اقبال بارگاہ خداوندی میں وکالت کرتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’ لینن خدا کے حضور میں‘ ان کی کتاب ’بال جبریل‘ میں موجود ہے۔اس نظم کے کچھ اشعار یہا ں دئیے جا رہے ہیں۔
اے انفس و آفاق میں پیدا تری آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
ظاہر میں تجارت ہے ‘ حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم‘ یہ حکمت‘ یہ تدبیر ‘ یہ حکومت
پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری افلاس
کیا کم ہے فرنگی مدنیت کے فتوحات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کی سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
پختون سرزمین کے خوشحال خان خٹک کو اقبال اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ مغل، ترک، عرب بھی کلام اقبال میں جابجا ملتے ہیں، جرمن فلاسفر نطشے، اسپین کی تاریخ اور پھرتیرتھ رام بھرتری ہری کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اہل فارس کے حافظ اور فردوسی کو بھی نمایاں جگہ ملتی ہے، بلکہ اقبال نے تو اپنا بیشتر کلام ہی فارسی میں لکھا اور اتنا عمدہ کہا کہ آج بھی ایران میں فارسی گرائمر کے طور پر ’’سبق اقبال‘‘ پڑھایا جاتا ہے، لیکن جس خطے (پنجاب) میں وہ موجود ہیں اس کی تاریخ کا ذکر تو دور کی بات اس جغرافیے کا سرسری حوالہ بھی بہت کم ملتا ہے۔
ایسا تو ہرگز نہیں ہے کہ اقبال جیسا عمدہ مطالعہ کا حامل مفکر جو کہ اس دور میں انگلستان میں بھی چھپنے والی کوئی کتاب پہلے ہی ہفتے لاہور منگوا کر نذر مطالعہ کردیتا تھا وہ سرزمین پنجاب سے تعلق رکھنے والی علمی، جری اور مزاحمتی شخصیات سے لاعلم ہو‘ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ اقبال اپنے ہم زبانوں کو اس معیار پر پورا اترتا نہیں دیکھتے۔؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ علامہ نے عموماً انہیں شخصیات کو اہمیت دی ہے جنہوں نے اپنی جد و جہد کا بنیادی عنوان محض نسل یا ایک محدود علاقائی پہچان کے بجائے انسانیت یا پوری ملت اسلامیہ کو بنایا۔
اقبال کے کلام میں واحد نظم جو انہوں نے پنجابی مسلمانوں کے نام لکھی جس میں اقبال پنجابی مسلمان سے مخاطب ہوئے اگر اس نظم کی بھی تشریح کی جائے تو یہ نکتہ واضح ہے کہ اقبال کا اس نظم (پنجابی مسلمان) میں اہلیان پنجاب سے مخاطب ہونا بلوچ، افغان، ترک اور عرب مسلمانوں سے کافی مختلف ہے اور اس کا تناظر بھی مختلف ہے۔
بالخصوص کلام اقبال میں ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ کا تقابلی جائزہ پنجابی مسلمان کے نام نظم سے کیا جائے تو اقبال بلوچ قوم کو جس طرح دیکھتے ہیں بادی النظر میں وہ پنجابی مسلمان کو اُس حوالے سے نہیں دیکھتے، بظاہر اقبال دیگر اقوام کے مقابلے میں پنجابی قوم کے اجتماعی شعور اور بصیرت کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں اور عقیدت کے ضعیف معیارات اور علمی و منطقی معاملات کے عدم توازن کا حوالہ دیتے ہیں۔
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبعیت
کر لے کہیں منزل تو گذرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مُریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اُترتا ہے بہت جلد
(پنجابی مسلمان، ضربِ کلیم)
یوں تو اقبال کے کلام میں مغلوں کا تذکرہ بھی بڑا محدود سا ملتا ہے۔ اورنگزیب کے حوالے سے اقبال کی ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حکیم الامت اقبال ؒ دلی سے بخارا اور کابل سے سمر قند، پھر ہسپانیہ تک نظر رکھتے ہوں مگر اپنی جنم بھومی سے منسلک حوالے کے مفصل یا سرسری ذکر سے وہ گاہے بگاہے دامن بچاتے نظر آتے ہیں۔
اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقبال تو پنجاب میں نظر آتے ہیں، لیکن پنجاب اقبال میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اسی مایوسی کا اظہار اقبال نے اپنی اس نظم میں بھی کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری میں کسی پنجابی کردار کا قطعی ذکر نہیں ملتا۔ بابا گرو نانک کو اقبال نے ضرور ایک نظم کی صورت میں اپنے کلام میں جگہ دی مگر اس نظم میں بابا گرو نانک کی نسلی توصیف کے بجائے روحانی اور شخصی صفات کا احاطہ کیا گیا جیسا کہ اس نظم میں اقبال کہتے ہیں۔
(نانک)
قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی
قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی
آہ! بدقسمت رہے آواز حق سے بے خبر
غافل اپنے پھل کی شیرینی سے ہوتا ہے شجر
آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا
ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا
شمع حق سے جو منور ہو یہ وہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی لیکن زمیں قابل نہ تھی
آہ! شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں
بُت کدہ پھر بعد مُدت کے مگر روش ہوا
نور ابراہیمؑ سے آذر کا گھر روشن ہوا
پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اس کلام میں بھی بابا نانک کا ذکر جغرافیائی سے زیادہ آفاقی فکر کے معنوں میں ملتا ہے۔ اقبال پشتون شاعر اور رہنما خوشحال خان خٹک سے بہت متاثر رہے اور اقبال نے برملا اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ خوشحال نے پشتون قوم کا عَلم مغلوں کے خلاف بطور مزاحمت بلند رکھا۔ خوشحال اقبال کے فلسفہ خودی پر پورے اُترتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوشحال کے پشتو اشعار کو اقبال نے اخذ کرکے اپنی شاعری میں جگہ دی
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پے جو ڈالتے ہیں کمند
اقبال نے اپنے آباء و اجداد کے سابقہ خطے کا حق بھی ادا کیا، اشارہ کشمیر کی طرف ہے۔ اقبال نے ’مُلا زادہ ضیغم لولابی‘ کے عنوان سمیت کئی نظمیں اہل کشمیر کی نذر کردیں جن میں کشمیر اور کشمیری قوم کے جذبہ حریت کو اُجاگر کیا گیا مگر اپنی موجودہ جنم بھومی، زبان اور خطہ پنجاب کے نام ایک تنقیدی نظم ہی ملتی ہے۔ ان سوالات سے کئی صاحبان علم اختلاف کا حق استعمال کریں مگر اختلاف ہی نئی راہیں متعین کرتا ہے، سو یہ اس نکتے کے طور پر محض مثبت بحث کا آغاز ہے اور کچھ مقصود نہیں ہے۔ دیگر صوبوں میں جو حوالہ اقبال کا نسلی طور پر بطور پنجابی پایا جاتا ہے وہ کلام اقبال سے یکسر مختلف ہے۔
اقبال سے نظریاتی اختلاف ممکن ہے اور یہ ناقدانہ روایات موجود بھی ہے، تاہم بطور پنجابی، اقبال کی اپنی زمین اور زبان سے وابستگی کا وہ عمومی تاثر یقینی طور پر مختلف ہے جو سالہا سال سے سندھ، خبیرپختونخوا اور بلوچستان میں اقبال بطور پنجابی یا پنجابی ریاستی شخصیت پھیلا ہوا ہے۔
یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اقبال نے کسی قوم، نسل یا زبان سے تعصب یا اجتناب روا رکھا ہے۔ کیونکہ انہوں نے اسلامی فکر کو دنیا کے تمام مسائل کا حل قرار دینے کے باوجود اُن عالمی شخصیات کے اوصاف کو غیر جانبداری کے ساتھ بیان کیا ہے جن کے فکر و فلسفہ اور عملی کار ہائے نمایاں نے دنیا کو متاثر کیا۔ لیکن اقبال کے ہاں پنجابیت ہمیں اُس طرح نظر نہیں آتی جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔
ایک علمی اور فکری دلیل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اقبال کے ہاں سیاسی بیداری، علمی بلندی اور حمیت کا معیار یا میرٹ ہی وہ آئیڈیل ہے جو خودی سے آشنا ہو۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا اقبال کو اہل پنجاب اس معیار پر پورے اترتے نظر نہیں آئے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اقبال کے آئیڈیلز کی فہرست میں بابا گرونانک کے علاوہ کسی اور پنجابی کو ہیرو کا درجہ نہیں ملتا تو یہ تو کوئی تعصب یا الزام نہیں بلکہ ایک تاریخی نکتہ ہے۔
بلاشبہ تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان میں پنجاب کی قربانیوں اور جدوجہد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس وقت کے پنجابی مفکروں کے قد پر سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔ قرار داد پاکستان منظور ہونے کے بعد قائد اعظمؒ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی علامہ اقبال کے ذکر سے کیا اور کہا کہ آج اقبال زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ہم نے اُن کے تصور کو حقیقت بنانے کے کام کا آغاز کر دیا ہے۔
پنجاب کے عوام کو جد وجہد پاکستان میں پوری طرح سے شامل کرنے کا مقصد قائد اعظم کے نزدیک ہمیشہ اہم ترین ترجیحات میں شامل رہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب کی برسر اقتدار قیادت ہمیشہ انگریزوں اور کانگریس کے ساتھ ساز باز پر آمادہ نظر آئی۔ پاکستان بننے کے بعد جس طرح پنجاب کی فکری اور سیاسی بلوغت پر زوال آیا اور جس طرح کا فلسفہ طاقت پنجاب میں پروان چڑھا اور یہ طاقت مخصوص طبقات کی بالادستی کی صورت میں سامنے آئی۔ اس تبدیلی نے کئی مسائل پیدا کئے۔
یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کی نفسیات تیزی سے اقدار سے اقتدار کے حصول کی طرف منتقل ہوئی۔ اور جیسا کہ ہوا کرتا ہے اس کے اثرات نیچے عوام کو منتقل ہوئے۔ یہ بھی نکتہ جواب طلب ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی جمہوری اداروں پر شب خون مار کر کوئی بھی آمر برسراقتدار آیا تو اس کو سب سے زیادہ پنجاب ہی سے تائید ملی۔
اقبال کو پنجاب کی حدود میں قید کرنا ایک جذباتی کوشش تو ہوسکتی ہے مگر منطقی نہیں۔ معاشی، عددی، سیاسی اور سیکیورٹی میں برتری کے حامل صوبے کے شاعر اقبال نے بطور پنجابی مفکر، پنجابی میں شاعری کیوں نہیں کی اور پنجاب کی شخصیات ان کی فہرست میں زیادہ کیوں نہیں ہیں اس کا جواب تو شاید اُنہوں نے خود اپنی نظم میں دے دیا ہے تاہم یہ بحث بھی الگ سے ہوسکتی ہے کہ اقبال کا مرد مومن، مرد کوہستان، مرد صحرائی، جغرافیائی حدود و قیود سے آزاد اور مبرا ہے لیکن ساتھ ساتھ دھرتی سے محبت اور تعلق کسی بھی آفاقی مفکر کا فطری حق ہوتا ہے جو وہ ادا کرتا ہے۔
ایک تناظر میں دیکھیں تو عمومی توقع یہ ہوتی ہے کہ اقبال محض مسلم تشخص کے رہنما نہ رہیں بلکہ پنجاب کی سرزمین کو پہچان بنائیں لیکن اقبال ؒ اگر عظیم ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ آفاقی پہچان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لئے جب ہم بطور پنجابی مفکر اقبال کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو شاید کچھ خاطر خواہ نظر نہیں آتا۔
اقبال کی شاعری میں پنجابی سورمائوں کے نظر انداز ہونے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟ کیا وجوہات وہی تو نہیں جو اقبال اپنی نظم میں بیان کرچکے؟ بہتر جواب اہل علم و دانش ہی تلاش کرسکتے ہیں، تاہم اگر اقبال کی پنجابی مسلمان کے نام نظم کو موجودہ حالات کے تناظر میں پنجاب میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور عقیدت کے نام پر عدم توازن کے پس منظر میں پڑھا جائے تو صورتحال کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ اقبال کے حوالے سے سندھ، بلوچستان سمیت دیگر اقوام میں جانے والے اس تاثر کی نفی کی جاسکتی ہے کہ اقبال بنیادی طور پر پنجابی فکر اور جغرافیے کو OWN کرتے ہیں یا اقبال کا جھکائو پنجاب کی طرف رہا ہے جبکہ خود اہل پنجاب دل و جان سے اقبال کو نہ صرف OWN کرتے ہیں بلکہ انہیں چاہنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب میں ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی حوالے کے طور پر اس مضمون میں شامل کرنا چاہوں گا کہ اقبال کے ہاں تو پنجاب پرستی اور پنجابی شاعری کا فقدان دکھائی دیتا ہے تاہم پنجاب میں پاکستان کی دیگر زبانوں کی طرح کلام اقبال کے منتخب حصوں کے پنجابی تراجم مختلف ادوار میں کئے گئے اور اقبال کو پنجابی زبان سے جوڑے رکھنے کی شعوری کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان تراجم کے حوالے سے معروف شاعر اور مترجم اسیر عابد کا کام قابل ذکر ہے جنہوں نے مجموعہ کلام ’’بال جبریل‘‘ کا ’’اُڈاری‘‘ کے نام سے پنجابی ترجمہ کیا اور اس ترجمے کو کافی سراہا گیا، علامہ اقبال کی چند منتخب نظموں کا پنجابی ترجمہ ڈاکٹر احسان اکبر نے کیا۔
اس کے علاوہ اقبالیات کے حوالے سے پنجابی زبان میں ایک اہم کام معروف پنجابی شاعر اور دانشور شریف کنجاہی کا بھی ہے جنہوں نے خطبات اقبال کا پنجابی ترجمہ بخوبی کیا اور اسی فصاحت وبلاغت کو برقرار رکھا جو خطبات اقبال کا خاصہ ہے، اس کے علاوہ یعقوب آسی اور ڈاکٹر فقیر نے بھی اقبال کی چند نظموں کو ترجمے کی صورت میں پنجابی میں ڈھالا۔ جسے اس حوالے سے عمدہ کام کہا جاسکتا ہے۔ دیگر کئی نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
اقبال اور کلام اقبال سے محبت ، عام پنجابی سے لیکر پنجابی سیاستدانوں، پنجابی جری جوانوں اور پھر پنجابی شاعروں، دانشوروں‘ تحقیق دانوں تک کے دلوں میں موجزن رہی ہے اور شاید اس حقیقت سے قطع نظر کے اقبال پنجاب اور پنجابیت سے بالاتر رہے پنجاب کے باسی نظریہ پاکستان اور فلسفہ اقبال کے لازم و ملزوم ہونے کے باعث علامہ کی فکر اور ان کی شخصیت کے روحانی فیض کے ساتھ مستقبل میں بھی جڑی رہے گی۔
The post اقبال ‘ مشاہیر عالم اور علاقائی وابستگی appeared first on ایکسپریس اردو.