ان کی تجارت ظہوراسلام کے قبل سے ہی جاری تھی۔ طلوع اسلام کے بعد تو تجارتی قافلے اور بھی زیادہ آنے لگے تھے، جس کی وجہ سے انڈو پاک کے ساحلوں پر مسلمان تاجروں کی بستیاں آباد ہوگئی تھیں۔ اس وقت سرزمین پر ہندو راجے حکم رانی کرتے تھے، جن سے مسلمان تاجروں کے رابطے و تعلقات بہت اچھے تھے اور انہیں مذہبی تبلیغ کی بھی پوری آزادی حاصل تھی۔
تواریخ کتب میں اکثر مقامات پر لکھا ہے کہ مسلمان عرب تاجروں نے اپنی امانت، دیانت داری سے ہندوستان کے لوگوں کو بہت متاثر کیا تھا۔ حتٰی کہ بہت سے غیرمسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے۔ غرض یہ کہ عرب اور ہند کے تعلقات تجارتی سطح پر تھے۔
سیاسی تعلقات کی ابتدا حضرت عمر ؓ کے دور سے شروع ہوئی جب کہ مسلمان 636ء میں بمبئی کے قریب تھانہ پر حملہ کر چکے تھے۔ پھر یہ سلسلہ بہ وجوہ روک دیا گیا اور دوسرا لشکر عبداللہ بن عمر ربیع کی قیادت میں روانہ کیا گیا جو کرمان اور سیستان کو فتح کرتا ہوا مکران پہنچا اور مکران و سندھ کی متحدہ فوج کو شکست دی۔
پھر ایک اور جماعت حاکم بن جبالہ کی قیادت میں سرحدِہندوستان کے حالات دریافت کر نے لیے بھیجی گئی، جس نے یہ رپورٹ پیش کی کہ وہاں پانی کم ہے، پھل کھٹے ہیں، ڈاکو سخت ہیں، تھوڑی فوج قتل ہو جائے گی اور بڑی فوج بھوکوں مرجائے گی۔ اسی لیے اس طرف توجہ نہ دی گئی اور جب بنوامیہ برسراقتدار آگئے تو فتوحات کا سلسلہ بڑھنے لگا اور خلیفہ ولید کے عہد میں گورنر حجاج بن یوسف نے اس طرف اپنی توجہ مبذول کی۔
اس وقت سندھ پر راجاداہر کی حکومت تھی۔ راجا داہر سے قبل چندر اور چچ حکم راں تھے اور یہ بدھ مذہب کے پیروکار تھے مگر راجاداہر ہندو مذہب کا شدت سے قائل تھا۔ اس نے تمام مراعات صرف ہندؤوں کو دیں اور بدھوں پر اپنا ظلم و استبداد روارکھا۔ تاریخ میں اس کے لیے متکبر اور جابر کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کے سر پر پگڑی دیکھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ گھوڑے پر عام رعایا کو سواری کی ممانعت تھی۔ اس کی ہٹ دھرمی ظلم، جبر، تشدد سندھ پر حملے کا باعث بنا۔
مکران مسلمانوں کے قبضہ میں تھا 703ء میں کچھ لوگ مکران کے گورنر سعید بن اسلم کو قتل کرکے راجا داہر کے پاس پناہ گزین ہوگئے تھے۔ جب حجاج بن یوسف نے جو اس وقت عراق کا گورنر تھا ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکا ر کردیا۔
بدھ مت کے پیروکار اس کے ظلم سے عاجز آچکے تھے اس لیے انہوں نے ایک وفد حجاج کی خدمت میں بھیجا اور راجا داہر کی شکایت کی اور ساتھ ہی عربوں کو سندھ پر حملے کی دعوت دی۔ حجاج فتوحات کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ اسلامی سلطنت کی عمل داری میں توسیع کا خواہش مند تھا۔ اس لیے اس نے موقع غنیمت جان کر اس طرف توجہ کی۔
تاریخ داں طبقہ سندھ پر حملے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی بتاتا ہے کہ لنکا کے راجا نے حجاج کی دوستی حاصل کر نے کے لیے لنکا میں مقیم عرب تجار کی چند لاوارث لڑکیاں اور بیش قیمت تحائف حجاج کو بھیجے۔ یہ جہاز ساحل کے ساتھ ساتھ آرہے تھے کہ دیبل (مید) کے بحری قزاقوں نے انہیں لوٹ لیا۔ ایک مسلم لڑکی نے حجاج کو دہائی دی حجاج کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ اس نے سامان کی واپسی اور لڑکیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو داہر نے جواب دیا کہ بحری قزاق خودمختار ہیں، میرا ان پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ (فتوح البلدان)
یہ خلیفہ ولید بن عبدالملک (اوّل) کا زمانہ تھا۔ حجاج نے اس سے سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ ولید اس حملے پر راضی نہ تھا، کیوںکہ اسے خدشہ تھا کہ سندھ کا علاقہ غیرسرسبز ہے، اس لیے مہم ناکام نہ ہوجائے۔ کچھ پس و پیش کے بعد ولید نے راجاداہر پر حملہ کرنے کی۔ اجازت دے دی۔ حجاج نے ایک فوجی لشکر عبیداللہ کی قیادت میں سندھ روانہ کردیا۔ یہ جر نیل جب شہید ہوگئے تو اس کے بعد بدیل جو عمان میں تھے۔ دیبل پہنچنے کا حکم دیا ان کے ساتھ 3ہزار کا لشکر تھا جو مکران کے راستے دیبل پہنچا۔ بدیل کو بھی شکست ہوئی اور شہید ہوگئے۔ حجاج کو پے در پے دو جرنلوں کی شہادت اور شکست کا ازحد افسو س ہوا اور اب وہ جان چکا تھا کہ سندھ کی فتح کے لیے ایک غیرمعمولی صلاحیت کے حامل جرنیل اور لشکر کی ضرورت ہے۔ چناںچہ اس کی نگاہ انتخاب عماد الدین محمد بن قاسم، جو رشتے میں اس کا چچا زاد بھائی اور داماد بھی تھا، پر پڑی جو اس وقت فارس کا حاکم بھی تھا۔
محمد بن قاسم اس وقت نوجوان تھا اور اس کی عمر صرف 17برس تھی مگر وہ ایک بہترین قائد تھا اور انتظامی امور پر گہری نظر رکھتا تھا۔ فن سپہ گری اور شجاعت میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا ۔ 711ء میں حجاج نے اسے 12000(بارہ ہزار) کا لشکر جس میں چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوجی تھے دے کر موسم خزاں میں خشکی کے راستے سے بھیجا اور اسے اگلے اقدام کے لیے اپنی ہدایت کا پابند بنایا۔ اس کے لشکرجرار میں پتھر برسانے والی ایک منجنیق بھی تھی جس کا نام عروس تھا۔
کہا جاتا ہے کہ اس منجنیق کو حرکت میں لانے کے لیے پانچ سو افراد مامور تھے۔ فوج کا ضروری جنگی و غذائی سامان بحری راستے کے ذریعے محمد بن قاسم کے لشکر کے ساتھ دیبل پہنچا جو اس وقت بندرگاہ تھی۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے لشکر کے ساتھ مقامی آبادی کے افراد بھی فوج میں شامل ہوتے رہے۔ اس طرح اٹھارہ ہزار کی فوج نے دیبل کی بندرگاہ کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ تقریباً 3ماہ جاری رہا۔ مقامی لوگ جو دیبل کے قلعے میں محصور تھے ان کا خیال تھا کہ جب تک قلعے کے مندر کے کلس پر جھنڈا لہراتا رہے گا وہ شکست نہیں کھا سکتے، کیوںکہ ان کا دیوتا اس وقت تک ان کا مدد گار ہوگا۔
جب محمد بن قاسم کو ان عقائد کا پتا چلا تو اس نے عروس کے ذریعے پتھر برسانے کا حکم دیا، جس سے کلس ٹوٹ کر معہ جھنڈا نیچے آگرا۔ اب شہر کے لوگوں کی ہمت پست ہو چکی تھی اور مسلمان فوج کی ہمت بلند ہوگئی تھی جس کی وجہ سے وہ قلعے کی فصیل تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئے تھے۔ شہریوں نے تھوڑی بہت مزاحمت ضرور کی تھی مگر مسلم فوج کے عزائم دیکھ کر وہ ہتھیار پھینک چکے تھے۔ اس طرح عظیم جرنیل نے چار ہزار مسلمان آباد کیے اور ایک مسجد بھی تعمیر کروائی۔ (تاریخ پاک و ہند)
دیبل فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے نیرون اور سیستان فتح کیا۔ اس کے بعد سہون فتح کیا اور حجاج کی ہدایات موصول ہوتے ہی راجا داہر سے مقابلے کے لیے اروڑ کی جانب روانہ ہوگیا۔ اس دوران عراق سے بھی دوہزار کے لشکر کی کمک جوکہ تازہ دم تھی اروڑ پہنچ چکی تھی۔ جنگی آداب کے تحت محمد بن قاسم نے ایک اعلیٰ سطحی وفد مذاکرات کے لیے راجا داہر کے پاس بھیجا مگر وہ مصالحت پر آمادہ نہ ہوا اور کہنے لگا کہ فیصلہ بہ ذریعہ تلوار ہوگا۔
یوں اس نے جنگ کو ترجیح دی۔ تاریخ پاک وہند میں لکھا ہے کہ رات کی تاریکی تھی راجا داہر کے لشکر کے تیرانداز مسلم فوج کو پُل نہیں بنانے دے رہے تھے، کیوںکہ دونوں کے بیچ دریائے سندھ حائل تھا۔ الغرض اروڑ کے مقام پر دونوں افواج کا آمنا سامنا ہوا۔ داہر ہاتھیوں کے جھرمٹ میں آیا۔ اس کے پیچھے دس ہزار سوار فوج تھی اور تیس ہزار پیدل سپاہ تھی۔ (تاریخ اسلام) کہتے ہیں کہ فریقین بڑی شجاعت کے ساتھ لڑے۔ کئی ایک خونی معرکے ہوئے مگر مسلمان کام یاب نہیں ہو رہے تھے، کیوںکہ مسلم فوج کے سامنے ہاتھیوں کی دیوار تھی۔
تب انہوں نے بارود کو آگ لگائی جس کے سامنے ہاتھیوں کی دیوار مٹی کی طرح ڈھے گئی۔ راجا داہر کی فوج بدحواس ہوکر بھاگی۔ خود راجا داہر کا ہاتھی بھی بدک کر بھاگا اور ندی میں کود پڑا۔ مسلمانوں نے ہاتھی پر تیر برسانے شروع کیے۔ فیل بان نے ہاتھی کو اٹھا یا مگر وہ سیدھا قلعے کی طرف بھاگا۔ داہر کی فوجوں نے برابر مقابلہ کیا۔ کئی سردار بے جگری سے لڑے مگر مارے لے گئے۔ یہ دیکھ کر راجاداہر کی ہمت بڑھی اور وہ پیدل ہی میدانِ جنگ میں وارد ہوگیا اور آخرکار وہ بھی مارا گیا۔ یہ دیکھ کر راجا داہر کی ایک رانی15ہزار سپاہیوں کو لے کر قلعے میں محصور ہوگئی لیکن جب اس نے دیکھا کہ اب شکست ہوچکی ہے یا شکست یقینی ہے تو جوہر کی رسم ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا اور اروڑ بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگیا۔
اس عظیم فتح کے بعد محمد بن قاسم برہمن آباد پہنچا۔ راجاداہر کا بیٹا جے سنگھ یہاں حکم راں تھا۔ یہاں بھی ہندو فوج قلعہ بند ہوکر مقابلہ کر رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ جے سنگھ اس معرکے میں شریک نہیں تھا۔ شہریوں نے محاصر ے سے تنگ آکر قلعے کا دروازہ کھول دیا اور مسلم فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ داہر کی ایک بیوی لاڈی یہاں موجود تھی جسے محمد بن قاسم نے اپنی نکاح میں لے لیا تھا۔ اروڑ داہر کے دوسرے بیٹے کے قبضے میں تھا جس کا نام گولی تھا۔ اس نے بھی چند روز تو محمد بن قاسم کا مقابلہ کیا آخر راہ فرار اختیار کی اور یہ قلعہ بھی مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہوگیا۔
اس کے بعد محمد بن قاسم نے ملتان کی جانب پیش قدمی کی، کیوںکہ اس وقت ملتان سندھ کا حصہ تھا اور مذہبی طور پر بدھوں کا بڑا مرکز تھا اور ان کا تیر تھ بھی۔ یہاں کے بت کدے میں بے شمار دولت تھی جو مسلمانوں کے قبضے میں آئی۔ بلاذری کے بیان کے مطابق اٹھارہ گز لمبا اور دس گز چوڑا ایک کمرہ صرف سو نے سے بھرا ہوا تھا جو مسلم فوج کو ملا۔ اس سرزمین کو اس وقت مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ سندھ کے اکثر شکست خوردہ حکم رانوں نے مشورہ دیا کہ قلعہ بند ہوجاؤ چناںچہ مسلمانوں نے کئی ہفتے بلکہ مہینوں تک محاصرہ کیے رکھا۔ چچ نامے میں لکھا ہے کہ دوران محاصرہ ایک ملتانی پکڑا گیا جس نے مسلم فوج کو قلعے میں پانی کی سپلائی بند کرنے کا مشورہ دیا۔ تدبیر کارگر ثابت ہوئی دروازہ کھل گیا اور انہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی۔
بالآخر یہ سترہ سالہ دلیر جنگجو نوجوان جسے اس کے خسر حجاج نے اسلامی جذبے کے تحت مسلم حکومت کی وسعت کی خاطر بھیجا تھا معزول کردیا گیا، کیوںکہ سندھ کی فتح کی مہم کے دوران حجاج کا انتقال ہوگیا تھا اور پھر خلیفۂ اسلام کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ اس کی جگہ سلیمان خلیفہ بنا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلیمان حجاج کا سخت مخالف تھا، کیوںکہ حجاج سلیمان کے خلیفہ بننے کے حق میں نہ تھا۔ اس نے سلیمان کی جگہ یزیدین مہلب کو عراق اور مشرقی علاقوں کا نائب السلطنت مقرر کیا۔ ان حالات میں محمد بن قاسم کا زوال ہوا اسے قید میں ڈال دیا گیا اور پھر یہیں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر بھی مختلف روایتیں آئی ہیں۔
تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم جس قدر بہادر تھا یہ مردآہن اسی قدر عام زندگی میں خو ش مزاج، ملنسار، بامروّت اور رحم دل تھا۔ اس نے کم سنی کے باوجود اپنی فہم و فراست کا بروقت استعمال کیا۔ ہر قدم سوچ کر اٹھایا۔ فتح کے بعد انسانوں کو روندتا ہوا نہیں گیا بلکہ جس نے اس سے پناہ کی درخواست کی اسے پناہ دی۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں سندھ کی معاشرت کو بدل دیا۔ اس کی مذہبی رواداری نے عوام کے دل موہ لیے اس نے مظلوم بدھوں کو قید سے آزادی دی اور ایک عمدہ قسم کا نظام حکومت دیا۔ فتوح البدان میں علامہ بلاذری لکھتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم معزول ہوکر سندھ سے روانہ ہوا تو ہندو رو پڑے اور اہل کیرچ (موجود ہ کچَھ کا علاقہ) نے تو اس کا بت بناکر پرستش شروع کردی۔ اسی واقعے کا ابن اثیر نے بھی جلد چہارم میں تذکرہ کیا ہے۔
The post سندھ کی فتح اور محمد بن قاسم appeared first on ایکسپریس اردو.