Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

لیڈر، وہ جو کشتی پار لگا دے

$
0
0

پرسکون سمندر میں بھاری بھرکم جہاز بڑی پھرتی کے ساتھ محوِ سفر تھا۔ کچھ میل کے فاصلے پر موسم خراب ہونا شروع ہوا، بادل گرجنے لگے، کچھ دیر میں بارش شروع ہوئی جو رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور پھر خطرناک شکل اختیار کرگئی۔

ہوائوں کے جھکڑ چلنے لگے اور موسم کے تیور سے لگ رہا تھا کہ ایک خطرناک طوفان آنے والا ہے، اور ۔۔۔پھر یہی ہوا۔ سمندر کی موجیں اژدھے کی طرح اٹھنے لگیں اوربحری جہاز بھی اس کی زَد میں آگیا۔ اندر موجود مسافر وں کے چہروں پر دہشت طاری ہونے لگی۔ سیاہ تاریک رات، طوفانی موسم، اور سیکڑوں مسافروں سے بھرا بحری جہاز، ایسے میں سب کی نظریں کپتان پر تھیں۔

کپتان کی بصیرت، تجربہ اور حکمت عملی ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ جہاز اس قیامت خیز طوفان سے نکل پائے گا یا نہیں۔ وہ اگر تجربہ کار، اعصاب پر قابو پانے والا، دوسروں کا احساس کرنے والا اور اس مشکل ترین گھڑی میں بہترین فیصلہ کرنے والا ہوا تو یقیناً جہا ز اس بحران سے نکل آئے گا، لیکن اگراس کے قدم ڈگمگاگئے اور دوسروں کی طرح وہ بھی دہشت زدہ ہوگیا تو پھر طوفان کے ختم ہوجانے کے بعد سمندر کی سطح پر جہاز کے ٹکڑے ہی تیرتے نظرآئیں گے۔

یہی ایک لیڈر کا کردار ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ پر قوموں کی تقدیر ہوتی ہے۔ اس کا ایک فیصلہ، لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگی کا رُخ متعین کرتا ہے۔ ہم آج جن آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں یہ دراصل ہمارے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کی بلند ہمتی اور اعلیٰ بصیرت کی بدولت ممکن ہوا۔ محمد علی جناح لیڈر کی حیثیت سے ایک شاندار مثال تھے۔ وہ ان تمام صفات سے مزین تھے جن کا کسی بھی لیڈر میں پایا جانا ضروری ہوتا ہے، وگرنہ وہ لیڈر نہیں ہوتا۔

’’لیڈرشپ‘‘ ایک مکمل تھیوری ہے۔ زمانہ قدیم میں بادشاہوں اور راجائوں کی اولاد کو ان کے اتالیق بچپن ہی سے ’’بادشاہ‘‘ بننے کے لیے تیار کرتے۔ انہیں تلوار بازی اور نیزہ بازی کی تربیت دیتے۔ مختلف علوم و فنون، زبانیں اور اس زمانے کی رائج مہارتیں انہیں سکھاتے اور ساتھ ہی ساتھ اعلیٰ اقدار و اخلاق بھی ان میں پیدا کرتے، تب جاکر وہ اس قابل ہوتے کہ انہیں ’’ولی عہد‘‘ نامزد کیا جاتا اور پھر وہ بادشاہ بن جاتے۔ جدید دور میں لیڈرشپ کے موضوع پر جان سی میسکویل نے گراں قدر کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی ایک اہم کتاب “LEADER SHIFT” ہے، جس میں وہ مندرجہ ذیل نکات بیان کرتے ہیں:ـ

(1) خود کو منتقل کرنا
زندگی میں ترقی پانے کے بعد انسان کو’’گروتھ‘‘ اپنے اندر جبکہ’’ ڈیویلپمنٹ‘‘ اپنی ذات کے باہرکرنی چاہیے۔ باہر کی چیزوں کو ڈیویلپ کرتے وقت اپنا ظرف بڑا رکھنا چاہیے،کیونکہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو ایک پوری ’’ایمپائر‘‘ کھڑی کرتا ہے۔ اب اگر ’’ایمپائر‘‘ تو کھڑی کردی لیکن وہ خود اندرسے کھوکھلا ہے تو اس ترقی کا کوئی فائدہ نہیں۔

(2) رویہ
ہر انسان لیڈر بننا چاہتا ہے، لیکن رہنما بننے کے بعد وہ سب سے پہلے جو چیز نظرانداز کرتا ہے وہ اس کا رویہ ہوتا ہے۔ قائد یا لیڈر کا اپنے ماتحت افراد اور ٹیم کے ارکان کے ساتھ رویہ ہی اس کی کمپنی یا ادارے کی ترقی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ اس کو ہم ابلاغی مہارتوں (کمیونکیشن اسکلز) سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں یعنی اگر کسی لیڈر میں ابلاغی مہارتوں کی کمی ہے تو اس کی لیڈرشپ متاثر کن نہیں ہوگی۔

(3) ادارے کی ترقی میں فرد کی اہمیت
ہر لیڈر چاہتا ہے کہ اس کا ادارہ ترقی کی بلندیوں کو چھوئے اور وہ نمبر ون بنے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تصورات اور مقاصد سے اپنے ٹیم کے ارکان کو آگاہ کرے۔ اپنی ٹیم کے ہر ایک رکن کو اعتماد میں لینا اور اس کو انفرادی اہمیت دینا بڑا ضروری ہے۔

جب بھی کوئی لیڈر اپنی ٹیم کے افراد کو اپنے خواب، اہداف اور حاصل شدہ کامیابیوں میں شریک نہیں کرتا اور اپنی ہی ٹیم سے عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے تو پھر ٹیم کے افراد بھی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ کبھی بھی ادارے کی ترقی کے لیے دِل و جان سے کوشش نہیں کرتے بلکہ صرف وقت گزارنے اور تنخواہ سمیٹنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔ اپنی ٹیم کو فیملی ٹیم بنانا اور ادارے کی کامیابیوں سے آگاہ رکھنا نیز جو مقاصد حاصل کرنے ہیں، ان کے مطابق انہیں تیار کرنا، یہ عوامل بڑے شاندار نتائج دے سکتے ہیں۔ یہی ایک ٹیم کی خوبصورتی ہے اور اسی کے بیش بہا نتائج نکلتے ہیں۔

(4) کھلے ذہن کے لوگوں کے ساتھ تعلق
ایک لیڈر کو ہمیشہ کشادہ ذہن رکھنے والا ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنا تعلق بھی ایسے لوگوں کے ساتھ رکھنا چاہیے جو گروتھ مائنڈ سیٹ والے ہوں۔ ایسے لوگ صرف ایک مقصد پر توجہ نہیں رکھتے بلکہ وہ بصیرت کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی نظر ہمیشہ دور پرہوتی ہے۔یہ ہر چیز میں امکانات کو دیکھتے ہیں۔

یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کا آج،گزشتہ کل سے بہتر ہو۔ یہ ہمیشہ خود کو بہتر سے بہتر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر منجمد سوچ ) (Fixed mindset کے حامل لوگوںکے ساتھ تعلق رکھا جائے تو وہ آپ کو بھی منجمد سوچ میں مبتلا کر دیں گے۔ ایسے لوگ آپ کی ترقی میں رکاوٹ بنیں گے اور آپ زندگی میں کچھ بڑا حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔

(5) ہر قسم کے افراد سے ملنا
ایک بہترین لیڈر وہی ہوتا ہے جو اپنا دروازہ ہر قسم کے لوگوں کے لیے ہمیشہ کھلا رکھتا ہے۔ وہ صرف ایک طبقہ فکر کے لوگوں سے نہیں ملتا بلکہ ہر مذہب، قومیت اور ملک کے لوگوں کے ساتھ بیٹھتا ہے۔ وہ سیاست دان، کھلاڑی، فنکار، مذہبی رہنما، مزدور اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات میں ہر ایک کے ساتھ ملتا ہے اور ان سے گھل مل جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ اس کو یہ ملتا ہے کہ اس کو تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں معلومات مل جاتی ہیں۔

دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس کو زندگی میں کسی مشکل کا سامناکرنا پڑے گا تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ لیتا ہے۔ کوئی بھی لیڈر جب صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے تو اس کی قابلیت کبھی بھی پروان نہیں چڑھتی۔ مختلف رنگ و نسل اور مذہب کے لوگوں کے ساتھ ملنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے سے انسان میں لیڈرشپ کی قابلیت مضبوط ہوجاتی ہے اور ہر طرح کے لوگوں کو ڈیل کرنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے ۔

(6) سیڑھی بننا
کوئی بھی انسان ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھنے کے بعد ہی کامیاب بنتا ہے۔ سیڑھی چڑھنا تو آسان ہے لیکن پھر دوسروں کے لیے سیڑھی بننا بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ اگر کوئی انسان دوسروں کی ترقی میں معاون نہیں بنتا اور دوسروں کا ہاتھ نہیں تھامتا تو وہ ایک بہترین لیڈر نہیں بن سکتا۔

(7) لیڈر شپ، ایک اتھارٹی
ہر ایک لیڈر کے پاس ایک اختیار، طاقت اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ یہ طاقت اس کے عہدے سے شروع ہوتی ہے لیکن جس قدر جلد وہ اس کو اپنی اخلاقی طاقت بنالے، تووہ ایک بہترین لیڈر بنتا ہے۔ ایک لیڈر کے اخلاقیات اتنے اعلیٰ ضرورہونے چاہئیں کہ ٹیم ممبرز اس پر اعتماد کریں اور انہیں یقین ہوجائے کہ یہ شخص واقعی لیڈر شپ کا اہل ہے۔

(8) ٹیم میں تنوع
ایک کامیاب لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی ٹیم میں مختلف قسم کے ارکان کو لیتا ہے۔ صرف نوجوان یا صرف جوشیلے لوگوں کی ٹیم بنانا کمال نہیں، بلکہ اپنی ٹیم میں مختلف مزاج، عمر اور پس منظر کے لوگوں کو شامل کرنا کمال ہے،کیونکہ اس سے لیڈرکو ہر قسم کے لوگوں سے ملنے اور ان کے پس منظر سے واقفیت ہو جاتی ہے اور اس میں اتنی قابلیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ہر طرح کے لوگوں کو لیڈکر سکے۔

(9) لیڈر، ایک منٹور
کامیاب لیڈر وہی ہے جوصرف حکم نہیں چلاتا بلکہ ایک بہترین منٹور بھی ہوتاہے۔ جو اپنی ٹیم ممبرز کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتا ہے۔ جو ان کی رہنمائی کرتا ہے اور ہر طرح سے ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے،تب ہی وہ ایک قابل قدر اور قابل احترام لیڈر بنتا ہے۔ جان سی میکسویل اپنی اس کتاب میں یہ بات بھی بتاتا ہے کہ ایک بہترین لیڈرکااصل کام دوسرے لوگوںکو خوش کرنا نہیں بلکہ اس کا اصل کام اپنی طرح کے دیگر قابل لیڈر پیدا کرنا ہے۔لیڈرشپ کی ضرورت ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں پڑتی ہے،کیونکہ یہ خصوصیت انسان میں احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اورجب انسان میں ذمہ داری کا احساس بیدار ہوجائے تو پھر وہ بہترین انداز میں کام کرتا ہے اور دوسروں سے بہترین کام لینے کا ہنر بھی جانتا ہے۔

مصنف کا تعارف
موجودہ زمانے میں لیڈرشپ کے موضوع پر بہترین اور معیاری کام کرنے کا سہرا جان کیلوین میکسویل کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر بیش بہا خدمات سرانجام دیں اور بے شمار کتابیں تصنیف کی ہیں۔ وہ 1947ء میں امریکی ریاست مشی گن میں پیدا ہوئے اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسیحیت کی تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف چرچوں میں پاسٹر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ لیڈرشپ کے موضوع پرمہارت رکھنے والے مصنف اور مقرر ہیں۔ ان کی چند کتابیں نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلرز کتابوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی فروخت ہونے والی کتابوں کی تعداد تقریباً دو کروڑ ہے۔

The post لیڈر، وہ جو کشتی پار لگا دے appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>