ہر سال قائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش، یوم وفات اور دیگر اہم قومی دنوں کے موقع پر ہم متعدد مرتبہ قائد کے نام سے منسوب اداروں اور مختلف تنصیبات کا ذکر ستنے اور پڑھتے رہتے ہیں، لیکن کبھی آپ نے غور کیا اس میں قائد کی جائے پیدایش، ان کے مدفن اور مختلف نوادرات سے آراستہ عجائب خانوں کا ذکر تو بار بار آ جاتا ہے، لیکن ’قائداعظم اکادمی‘ کا تذکرہ بہت کم سننے میں آتا ہے۔۔۔!
وہی ’قائداعظم اکادمی‘ جو 1976ء میں بابائے قوم محمد علی جناح کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں مزار قائد کے مقابل مرکزی ایم اے جناح روڈ پر قائم کی گئی۔۔۔ شہر کی مصروف ترین شاہ راہ اور قائد کی آخری آرام گاہ کے عین سامنے ہونے کے باوجود نہیں معلوم ایسا کیا ماجرا ہے کہ یہ جگہ ہم سب کی نظروں سے کچھ اوجھل سی رہتی ہے۔۔۔
اور شاید یہی غفلت اس کی موجودہ صورت حال، انتظامی و مالی بحران اور سنگین ترین مسائل کا سبب بھی ہے۔۔۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ملک کے بانی کے نام سے منسوب ایک علمی اور تحقیقی ادارہ آج اپنی بنیادی ضرورتوں کے لیے ’حکومت پاکستان‘ سے توجہ کی بھیک مانگ رہا ہے، دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتِ وقت کو ذرا اونچا سنائی دیتا ہے۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا آج ’قائداعظم اکادمی‘ سال بھر سے اپنے بجٹ سے محروم ہوتی۔۔۔؟ جی بالکل آپ نے بالکل درست پڑھا، اکادمی کو 10 ماہ گزر جانے کے باوجود اب تک موجودہ مالی سال 2020-21ء کا بجٹ نہیں دیا گیا ہے اور اس کے ملازمین کو جولائی 2020ء سے پانچ ماہ تک تو فنانس ڈویژن نے ’اے جی پی آر‘ کے ذریعے تنخواہ دی، لیکن اب یہ سلسلہ گذشتہ چار ماہ سے موقوف ہے۔۔۔ کیوں کہ اب ان کے پاس بھی ’ریزرو فنڈ‘ ختم ہوگیا ہے۔ یوں اب صورت حال کچھ ایسی ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کے بچے کچھے ملازمین کو آخری تنخواہ دسمبر (برائے نومبر 2020ء) کی ملی ہوئی ہے۔۔۔ ایسی صورت حال کے باوجود بھی وفاقی وزارت نے ’اکادمی‘ کے ملازمین سے شکایت کی ہے کہ وہ ان کا ’میڈیا ٹرائل‘ کر رہے ہیں۔۔۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔!
اسی مالی بحران کے سبب اب نوبت یہ آگئی ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کو بجلی منقطع کرنے کا نوٹس ملا ہوا ہے۔۔۔ اس بحرانی صورت حال میں 17 فروری 2021ء کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ’قائداعظم اکادمی‘ تشریف لائے، تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ ’سربراہِ مملکت‘ کی آمد سے شاید کچھ مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن افسوس، ان کے وعدوں کے باوجود ’قائداعظم اِکادمی‘ کے دن نہ پھر سکے۔۔۔!
ہم نے شہرِقائد کے قلب میں واقع ’قائداعظم اکادمی‘ کی زبوں حالی کے قصے سنے، تو خود وہاں پہنچے۔۔۔ اکادمی کے کُھلے ہوئے دروازے سے جب اندر داخل ہونے لگے، تو دور بیٹھے ہوئے کسی ملازم نے ’دربان‘ کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہمیں سوالیہ انداز میں ایک آواز لگائی، ہم نے کہا ’ڈائریکٹر۔۔۔؟‘ تو وہ ہمیں موجودہ ڈائریکٹر زاہد حسین ابڑو کے کمرے میں لے گیا۔۔۔
زاہد حسین ابڑو کہتے ہیں کہ ’وہ ’ریسرچ آفیسر‘ ہیں اور ان کے پاس ڈائریکٹر اکادمی کا ’چارج‘ ہے، جو کہ 20 گریڈ کا ہوتا ہے، لیکن وہ اس وقت 17 گریڈ میں ہیں۔‘ ان کا اصرار ہے کہ دراصل ’ڈائریکٹر‘ کی پوسٹ اب بھی خالی ہی ہے۔ وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کراچی آنے سے پہلے 2001ء سے اکادمی کے اسلام آباد دفتر میں متعین تھے، وہ کہتے ہیں کہ ’وہ سب آفس ہے، انھیں کراچی کے مرکزی دفتر سے کام دیا جاتا ہے۔۔۔ اب یہاں وہ ریسرچ کے کام میں اکیلے ہیں، ورنہ یہاں اس شعبے میں مع ڈائریکٹر سات افراد ہوتے ہیں۔ اکادمی کے شعبۂ تحقیق میں 1976ء میں تقرریاں ہوئیں، اس کے بعد خالی ہونے والوں کی جگہ پر نہیں کی گئی۔‘
قائداعظم اکادمی کے ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ سے ’انضمام‘ کا ذکر چِھڑا، تو زاہد حسین ابڑو نے بتایا کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کو دسمبر 2019ء میں ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ کے ساتھ ضم کیا گیا، جسے دونوں اداروں کے ملازمین کی جانب سے چیلینج کیا گیا اور اب اس پر ’حکمِ امتناع‘ حاصل کیا گیا ہے اور اس کا فیصلہ ہونے تک تقرریاں نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت 15 ملازم یہاں اور 10 اسلام آباد دفتر میں ہیں۔ اکادمی میں نچلی سطح پر آخری بھرتی 2010ء میں کی گئی۔۔۔‘‘
ہم نے پوچھا کہ اس وقت ’اکادمی‘ میں کتنی اسامیاں خالی ہیں۔۔۔؟‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ’حکمِ امتناع کے سبب اس کا ذکر کرنا ٹھیک نہیں ہے، قائداعظم اِکادمی ایک ’سب آرڈینیٹ‘ آفس ہے، خودمختار ادارہ ہوتا تو خود بھرتیاں کر سکتے تھے۔۔۔ یہاں کے لیے ریکروٹمنٹ رول ہونے چاہییں۔‘
مطبوعات کے حوالے سے زاہد حسین ابڑو نے بتایا کہ ’’ایک کتاب ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ اور قائداعظم اکادمی نے مل کر شایع کی ہے۔ اس کتاب میں (1937ء تا 1948ء) ’مزار قائد میوزیم‘ میں آویزاں ’سپاس ناموں‘ کو جمع کیا گیا ہے۔ اس سال بس یہی ایک کتاب شایع ہو سکی ہے، جب کہ پچھلے برس سات کتابیں دوبارہ شایع ہوئی ہیں۔۔۔ اس سال کا بجٹ ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ ہمیں کچھ کتب دوبارہ شایع کرنی تھیں، لیکن بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے۔‘‘
’قائداعظم اکادمی‘ اور ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ کے عجیب وغریب انضمام کو دیکھیے، تو دونوں میں سوائے قائداعظم کے اور کوئی قدر مشترک نہیں ہے، اس حوالے سے سابق ریزیڈنٹ انجینئر ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ‘ انجینئر عارف کہتے ہیں کہ ’’قائداعظم اکادمی 1976ء میں قائم ہوئی، اس میں اب قائداعظم کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہو گئی ہیں۔۔۔!‘‘ ہم نے کہا کہ ایسے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق مکمل ہو گئی ہے، یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے، وقت کے ساتھ نئے پہلو اور نئے زاویے سامنے آتے رہتے ہیں۔۔۔‘
انجینئر عارف کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک، ڈیڑھ سال بطور ڈائریکٹر ذمہ داری نبھائی اور مارچ 2021ء میں ’قائداعظم اکادمی‘ کے ڈائریکٹر کی مسند سے سُبک دوش ہوئے۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ’قائداعظم اکادمی‘ اور ’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ دو یک سر مختلف ادارے ہیں، حکومت نے 400 مختلف ادارے باہم ضم کیے ہیں، یہ بھی اس کی ایک کڑی ہے۔ جس کے تحت دونوں اداروں کا سربراہ ایک ہوگا، لیکن نچلی سطح پر دونوں الگ الگ ہی رہیں گے۔ گویا ’انضمام‘ سے صرف ایک سربراہ کے عہدے کی بچت ہوگی، لیکن اب یہ ’انضمام‘ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ ’قائداعظم اکادمی‘ کا انضمام کرنا تھا تو اِسے اور ’اقبال اکادمی‘ کو ضم کرنا چاہیے تھا، وہ بہتر رہتا۔‘‘
سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر تحقیقی ادارے کے لیے تحقیق کے میدان کے آدمی ہونے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایک انجنیئر تاریخ وغیرہ کی کیا تحقیق کر سکے گا۔۔۔؟ انجینئر اپنی مہارت تعمیرات اور ’سنگ مرِمر‘ میں دکھا سکتا ہے، تحقیق میں نہیں، وہ تحقیقی موشگافیوں اور کتاب اور تاریخی دستاویزات کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت وغیرہ کیسے کر سکتا ہے؟‘‘
ایک طرف یہ سرکاری بے اعتنائی ہے تو دوسری طرف عوامی سطح پر بھی صورت حال اچھینہیں ہے۔ عوامی خدمات کے لیے بلا معاوضہ اپنے دروازے کھولے رکھنے والی ’قائداعظم اکادمی‘ کی لائبریری کا رجسٹر، زیادہ سے زیادہ چھے، سات افراد کی آمد کی خبر دیتا ہے۔
سابق ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر اپنی دوسری مدت (2017ء تا 2019ء) کے تجربات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’ان تین برسوں میں اُن سے ملنے تو بہت سے شناسا آتے رہے، لیکن کوئی ایک فرد بھی خاص کتابوں کے لیے وہاں نہیں آیا کہ جو یہ کہے کہ دراصل میں فلاں کتاب کی تلاش میں ’قائداعظم اکادمی‘ آیا تھا، مجھے پتا چلا آپ بھی یہاں ہیں، تو میں آپ سے ملنے بھی آگیا۔۔۔! ’قائداعظم اکادمی‘ کے پہلے ڈائریکٹر شریف المجاہد کے پاس شہر کے نام وَر محققین سمیت روزانہ سات آٹھ افراد لازمی آتے تھے، جس کسی کو ایک مضمون بھی لکھنا ہوتا تھا، وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کا ایک چکر لگا لیتا تھا اور اسے بہت سا مواد مل جاتا تھا، اب ایسی صورت حال نہیں دکھائی دیتی۔۔۔!!‘‘
ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے جامعات سے جڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ طالب علموں کو معلوم تو ہو کہ شہر میں ایسی ایک اکادمی بھی موجود ہے، تاکہ وہ کبھی بھولے بھٹکے وہاں آ جایا کریں۔۔۔؟ تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے جامعہ کراچی کے شعبۂ تاریخ، سیاسیات اور ’پاکستان اسٹڈی سینٹر وغیرہ کے طالب علموں کو لاتے رہتے تھے، تاکہ اکادمی کا نئی نسل سے رشتہ جڑے، لیکن اب یہ ساری تاریخی ونادر کتابیں ضایع ہو رہی ہیں۔۔۔ میں تو وہاں آنے والے طالب علموں کی دس، پندرہ صفحات کی فوٹو کاپی بھی بلا معاوضہ کروا دیتا تھا، تاہم مکمل کتاب کی کاپی کرانے کریم آباد ہمارا آدمی لے جاتا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے عوامی رابطہ قائم کرنے کی خاطر قائداعظم اکادمی کے ’جناح ہال‘ میں ایک دارالمطالعہ بنانے کا سوچا تھا، تاکہ لوگ وہاں روزانہ اخبارات پڑھنے کے لیے آئیں اور لوگوں کو ادارے سے واقفیت ہو سکے۔۔۔‘‘
خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک موضوع پر ایک چھت کے نیچے اتنی تعداد میں کتابوں کا اور کوئی کتب خانہ نہیں ہے۔ یہاں قائداعظم اور تاریخ پاک و ہند پر بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ہم نے وہاں دیگر موضوعات کی کتابوں کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا مرزا غالب اور حسرت موہانی وغیرہ پر کچھ کتب انھوں نے بھی اکادمی کو عطیہ کی ہیں، لیکن دراصل یہ دونوں شخصیات بھی تو ہندوستانی تاریخ ہی سے جڑی ہوئی ہیں۔
نام وَر محقق اور سابق مدیر اردو لغت بورڈ عقیل عباس جعفری کہتے ہیں کہ ’جیسے دنیا بھر میں اپنے قائدین اور اکابرین کے لیے باقاعدہ ادارے ہوتے ہیں، جو ان راہ نماؤں کے بارے میں مسلسل تحقیق کر کے اپنے عوام کے لیے مناسب نرخ پر ان مطبوعات کی فراہمی یقینی بناتے ہیں، ’قائداعظم اکادمی‘ کو بھی ایسے ہی شایان شان ہونا چاہے، جس میں تحقیقی مطبوعات کے علاوہ مختلف پروگرام، دستاویزی فلموں کے علاوہ الگ سے کوئی چینل بھی ہونا چاہیے۔
جو قائداعظم اور پاکستان کی تاریخ سے جڑے ہوئی مختلف شخصیات کے حوالے سے مسلسل کام کرے۔ یہی نہیں قائداعظم کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں بھی اکادمی کی طرف سے مدد ملنی چاہیے، قائداعظم پر اردو مطبوعات کے انگریزی کے علاوہ دیگر پاکستانی زبانوں میں ترجمے ہونے چاہئیں، لیکن جب اکادمی میں اسکالر ہی نہیں ہوں گے، تو یہ کام کیسے ہوں گے؟ ’قائداعظم اکادمی‘ میں ایسا منظم سلسلہ ہونا چاہیے کہ یہاں دنیا بھر میں قائداعظم پر ہونے والی ساری تحقیق کا مکمل ریکارڈ ہو۔۔۔ اور قائداعظم پر ہونے والی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے باقاعدہ ان مطبوعات کو خریدنے کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔‘
موجودہ ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ زاہد حسین ابڑو نے ہمیں بتایا کہ ’قائداعظم اکادمی‘ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر دوپہر سے شام تک ’مزارِ قائد‘ پر کتابوں کا اسٹال لگایا جاتا ہے، جو خاصا کام یاب ہے، دیگر جگہوں پر بھی اسٹال لگاتے ہیں، لیکن اگر کرایہ زیادہ ہو تو پھر یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اگر ہمارے پاس بجٹ ہو تو ’قائداعظم اکادمی‘ کی طرف سے تاریخ کے موضوعات پر ماہانہ لیکچر سیریز شروع کرانا چاہتے ہیں۔۔۔
ہم نے زاہد ابڑو کو اقبال اکادمی کی مثال دی کہ وہ دنیا بھر میں علامہ اقبال پر شایع ہونے والی ہر کتاب لیتے ہیں، تو وہ بولے کہ ’’ہمیں بھی جیسے جیسے پتا چلتا ہے، ہم بھی لے لیتے ہیں، ساری تو نہیں، ہمیں کیا پتا، کس نے کیا لکھا ہے، لیکن معلومات کر کے ایسی کتابیں لیتے ہیں۔‘‘
’’قائداعظم اکادمی کے لیے کابینہ سے بجٹ منظور ہو گیا ہے‘‘: قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت
’قائداعظم اکادمی‘ کی الم ناک صورت حال کے حوالے سے یہ امر ضروری تھا کہ باقاعدہ طور پر قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت (اسلام آباد) اس معاملے پر اپنا موقف دے۔ ہم نے اس حوالے سے ’وفاقی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت‘ سے رابطہ کیا، تو ان کے عہدے داران اس حوالے سے رائے دینے سے گریزاں رہے۔ سیکریٹری قومی وزارت قومی ورثہ وثقافت، نوشین جاوید مصروفیت کے سبب ہمارے رابطے میں نہ آسکیں، تاہم دفتری ذرایع نے ’ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے قائداعظم اکادمی کی نئی عمارت سے متعلق لاعلمی ظاہر کی۔
’قائداعظم اکادمی‘ کی رکی ہوئی تنخواہوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اِن کا بجٹ منظور ہو گیا ہے، بس اب اس کے طریقۂ کار پر عمل کے لیے کچھ وقت لگے گا، تاہم اس ادائی ہو جانے کی کوئی مدت بتانے سے انکار کیا۔ اکادمی کے قائم مقام ڈائریکٹر کے حوالے سے کہا گیا کہ تقرریاں نہیں کی جا سکتیں، اس لیے ادارے میں موجود سینئیر ترین افسر کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ معاملہ عدالت میں ہونے کے سبب تقرریاں نہیں کی جا سکتیں۔ اداروں کا انضمام کابینہ اور حکومت کا فیصلہ تھا۔
ہم سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت قومی ثقافت و قومی ورثہ کے عہدے داروں نے نہایت محتاط رویہ اپنایا، وہ ہمیں اپنا نام دینے سے منع کرتے رہے، ’قائداعظم اکادمی‘ کے معاملات سے لاعلمی اور اس موضوع پر باقاعدہ کوئی بات کرنے سے انکار کرتے رہے، اسی محکمے سے ایک صاحب نے تو یہ کہہ کر ہمیں ہی شک میں ڈال دیا کہ قائداعظم اکادمی ’نیشنل ہیریٹیج‘ (قومی ورثے) کے دائرے میں آتا ہے، جو کہ اب ان کے ’محکمۂ ثقافت‘ کا حصہ نہیں، ہم نے معلومات لیں، تو ایسا بالکل نہیں ہے، یہ دونوں محکمے بدستور یک جا ہی ہیں۔n
وہ ’قائداعظم اکادمی‘ کی نئی عمارت کیا ہوئی۔۔۔؟
پچھلی وفاقی حکومت کی جانب سے ’قائداعظم اکادمی‘ کے لیے نئی اور وسیع عمارت کا ڈول ڈالا گیا تھا۔ اس حوالے سے سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں ’’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ کے دفتر کے ساتھ ڈھائی ایکڑ زمین پر اکادمی کی نئی عمارت کا منصوبہ تھا، لیکن ہر نیا آنے والا نئے انداز میں کام شروع کرتا ہے، اس لیے پچھلی حکومت کے جاتے ہی یہ معاملہ بھی نہیں رہا۔‘‘
ہم نے سابق وفاقی مشیر عرفان صدیقی سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس بابت ہمیں بتایا کہ ’’قائداعظم اکادمی ملک کا ایک بڑا ادارہ ہے، ہم نے اس کے لیے مزارقائد کے باہر کی کچھ غیر استعمال جگہ پر اکادمی کے لیے ایک بڑی عمارت کا منصوبہ بنایا تھا، مجوزہ تین چار منزلہ عمارت میں بڑا کتب خانہ، آڈیٹوریم اور ہال وغیرہ قائم ہوتا۔
صدر ممنون حسین سے اس منصوبے کی منظوری کے بعد ’قائداعظم مزار مینجمنٹ بورڈ کے پاس یہ منصوبہ لے کر گئے تھے اور انھوں نے بھی اس کی توثیق کر دی تھی، جس کے بعد تعمیر کا کام شروع ہونا تھا، لیکن حکومت کا تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام سرد خانے کی نذر ہوگیا اور مجوزہ جگہ اب بھی خالی ہی پڑی ہوئی ہے۔۔۔ ورنہ ہم چاہتے تھے کہ بانیٔ پاکستان کے نام پر قائم یہ بڑا ادارہ، ان کے مزار کے ساتھ ہی منتقل ہو جاتا، جہاں اس کو کام کرنے کے لیے وسیع جگہ میسر ہوتی اور محققین اور طالب علموں کے ساتھ وہاں دیگر آنے والوں کی علمی پیاس کو دور کرنے کے لیے قائداعظم اکادمی وہیں موجود ہوتی۔‘‘
نئی جگہ سے منتقلی کے حوالے سے مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ کے انجینئر عارف تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس منصوبے کو ہم ہی نے منظور کرایا تھا، لیکن اب معاملہ سست روی کا شکار ہے۔ اس کے لیے رقم نہیں دی گئی، تاہم اس کا ’آرکیٹچکر کمپٹیشن‘ کرایا گیا ہے، جس میں مختلف آرا کے بعد ممکن ہے کہ اس منصوبے پر کوئی پیش قدمی کی جائے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ’قائداعظم اکادمی‘ اور ’قومی وزارت برائے قومی ورثہ وثقافت‘ نئی عمارت کے حوالے سے یک سر لاعلمی ظاہر کرتے ہیں۔
صدر مملکت آئے، تو ملازمین کو کمروں میں بند کردیا گیا!
ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے تاریخی ذخیرۂ کتب سے مزین کتب خانہ بھی دیکھا، یہاں اردو لغت بورڈ کی مکمل 22 جلدوں کے علاوہ 1994ء سے دو اخبارات کی باقاعدہ جلدیں موجود ہیں، آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم کی تاریخی دستاویزات کے ساتھ ساتھ، پچیس ہزار کتابیں بھی موجود ہیں۔ قائد کی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ کے رکنیت کے فارم کی نقل ہے۔ ایسی تمام نادر دستاویزات اسلام آباد میں ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ قائداعظم کے سیاسی مخالف معروف کانگریسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزاد کی کچھ کتب کی موجودگی سے ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی۔۔۔
ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کے عملے سے بھی ملاقات کی، اور وہاں مہمانوں کے تاثرات کے رجسٹر میں مختلف نامی گرامی شخصیات کے تاثرات مع دستخط بھی دیکھے۔۔۔ ہمیں معلوم ہوا کہ یہ ادارہ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قائم ہوا، تاہم جنرل ضیا الحق پہلے صدر مملکت تھے، جو ’قائداعظم اکادمی‘ آئے۔۔۔ اور رواں برس فروری میں ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے دوسرے صدر بن گئے، جو ’قائداعظم اکادمی‘ تشریف لائے۔۔۔ وہیں یہ انکشاف بھی ہوا کہ جب صدر عارف علوی یہاں آئے تو بڑے سخت حفاظتی اقدام کیے گئے۔۔۔
اس کے لیے دفتری عملے کے باقاعدہ پاس وغیرہ بھی بنوائے گئے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود نہیں معلوم ایسی کیا ضرورت محسوس ہوئی کہ جب صدر عارف علوی آئے، تو چند ایک کے سوا اکادمی کے باقی ملازمین کو ان کے کمروں میں بند کر دیا گیا۔۔۔ اور جب تک صدر مملکت اکادمی میں موجود رہے، عملے کو باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی! ہم نے اس کا سبب پوچھا، تو بتایا کہ ’حفاظتی نقطۂ نظر‘ سے ایسا کیا گیا، مبیّنہ طور پر اس قدم کا مقصد ملازمین کی جانب سے صدر کو ’قائداعظم اکادمی‘ کی حالت کی سن گن سے بچانا تھا۔ ہم نے کہا یہ امر تو بالکل ایسا ہے کہ جیسے کوئی مہمان آئے، تو میزبان کو مہمان نوازی کرنے دینے کے بہ جائے اسی کے گھر میں قید کر دیا جائے۔۔۔
2017ء اکادمی کے سروس رول ابھی تک منظور نہ ہو سکے
1976ء میں قائم ہونے والی ’قائداعظم اکادمی‘ کو 2014ء میں وفاقی وزارت کے ماتحت کر دیا گیا، جس کے بعد اکادمی کے ملازمین پنشن سمیت مختلف سرکاری مراعات کے حق دار ہوگئے، تاہم 2017ء تاحال اکادمی کے ’سروس رول‘ منظور نہیں ہو سکے ہیں، جس کے باعث خاصا انتظامی بحران موجود ہے، موجودہ صورت حال میں تقرریوں کے حوالے سے قائداعظم اکادمی کے ’مزار قائداعظم مینجمنٹ بورڈ‘ کے ساتھ انضمام پر عدالتی حکم امتناع کے باعث قانونی رکاوٹ موجود ہے۔
’قائداعظم اکادمی‘ کے مرکزی تحقیقی اور انتظامی عہدے بھی خالی ہیں۔ ’ایکسپریس‘ کو حاصل معلومات کے مطابق اس وقت وہاں 27 میں سے صرف 15 اسامیوں پر ملازم موجود ہیں۔ خالی اسامیوں میں ڈائریکٹر، معاون ڈائریکٹر، دو سینئر یسرچ فیلو، چار ریسرچ فیلو، اکاؤنٹنٹ اور اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کی اسامیاں خالی ہیں، ایک ’یو ڈی سی‘ (یونیورسل ڈیسیمل کلاسیفکیشن) اور اسسٹنٹ لائبریرن 10 سال سے ان فٹ ہیں۔
2010ء سے قائداعظم اکادمی کے لائبریری انچارج ’عبدالماجد فاروقی ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قائداعظم اکادمی کی مرکزی اور کلیدی عہدوں سمیت تقریباً 45 فی صد اسامیاں خالی ہیں۔ سابق ڈائریکٹر ’قائداعظم اکادمی‘ خواجہ رضی حیدر نے اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’بدقسمتی سے اب وہاں صرف کلرک ہی باقی رہ گئے ہیں، موجودہ ڈائریکٹر بھی تحقیق سے زیادہ دفتری معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے اب وہاں باقاعدہ ریسرچ کا کوئی آدمی نہیں۔ وہ 2007ء میں، تحقیقی معاون مہر الاسلام 2009ء میں اور شہلا کاظمی 2014ء میں ریٹائر ہوئے، اور باقاعدہ طور پر ان کی جگہ پُر نہیں کی جا سکی۔‘‘
The post ’قائداعظم اکادمی‘ بدترین سرکاری غفلت اور مجرمانہ بے حسی کا شکار۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.