کورونا کے بعد دنیا ایک نئے انداز سے چلنے لگی۔ دفاتر، اسکول، جامعات، اور بازار حتیٰ کہ تمام چھوٹے بڑے ضروری اور غیر ضروری کام، جو کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ایک جگہ ٹھیر سے گئے تھے، آہستہ آہستہ معمولات پر آنا شروع ہوگئے ہیں، مگر ایک نئے انداز کے ساتھ۔۔۔ یہ تمام تر سرگرمیاں معمولات پر آنا تو شروع ہو گئیں، مگر ایک نئے انداز سے۔ جتنا ممکن ہوسکتا ہے یہ سرگرمیاں ’آن لائن‘ کر دی گئیں۔ جو کام ناممکن معلوم ہوتے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے ممکن بنا دیے گئے۔ اور لوگوں کو اس بات پر قائل کر دیا گیا کہ وہ اس لاک ڈاؤن کو چھٹیاں یا تعطیلات سمجھ کر گھر میں بیٹھے وقت کا ضیاع کرنے کے بہ جائے اپنے اپنے گھروں سے ہی اپنے معمولات دوبارہ سے کرنا شروع کر دیں۔
جیسے ہی دنیا کے تمام لوگ اس نئی طرزِ زندگی کے تحت اپنے کام سدھارنا شروع کر چکے تھے، اس ہی طرح ہماری جامعہ نے بھی کلاسیں آن لائن منتقل کرنے کا طریقہ کار وضع کر دیا۔ یوں ’کورونا‘ کے ساتھ ساتھ ہماری ’آن لائن‘ کلاسوں کا سفر جاری بھی و ساری ہو گیا۔ شروع میں تو غیر ذمہ دار شہری کی طرح ہم نے اپنی یونیورسٹی کے احکامات کو ہوا میں اچھال دیا، لیکن ایک دم احساس ہوا کہ یہ ’آن لائن‘ کلاسیں معمول کے مطابق روز لی جا رہی ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ ان میں کلاس میں حاضری اور کلاس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو بھی بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔
چوں کہ میرا معمول لاک ڈاؤن کی وجہ سے مکمل طور پر بگڑ چکا تھا، یہی وجہ تھی کہ میری شروع کی دو تین کلاسیں چُھوٹ گئیں اور مجھے کافی افسوس ہوا ان آن لائن کلاسوں کے چُھٹ جانے کا۔ اس غیر ذمہ داری کا احساس ہوتے ہی میں نے اپنے معمولاتِ زندگی کو بہتر بنانے کی ٹھانی۔ اگلے ہی دن میں صبح صبح اٹھی اور میں نے پرانی کلاسوں میں کرایا جانے والا کام مکمل کیا اور دوسری کلاسیں بھی پابندی سے لینا شروع کر دیں۔ یوں تو اچانک بگڑا ہوا روٹین سدھارنا بے حد مشکل لگا، مگر کچھ کوششوں سے یہ بھی ممکن ہو گیا۔
آن لائن کلاسیں تمام طالب علموں کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ چناں چہ سب ہی کو کوئی نہ کوئی پریشانی یا ہچکچاہٹ سی تھی۔ سب سے زیادہ جھجھک تو اس بات کی تھی کہ کہیں اساتذہ ہمیں ویڈیو کیمرا کھولنے کا حکم نہ دے دیں، لہٰذا ایک دو کلاسوں میں ہم قدرے صاف ستھرے اور تیار ہو کر بیٹھا کرتے تھے، جب اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ کیمرا نہیں کھولنا، تب ہماری آسانی کے دن شروع ہوئے۔ آن لائن کلاسیں، ویسے تو اس مناسبت سے اچھی بھی معلوم ہوتی ہیں کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ہی ہم کلاسیں لے سکتے ہیں، آنے جانے کی زحمت سے آزاد رہتے ہیں۔
ورنہ آنے جانے کی خاطر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پہلے اٹھ کر تیار ہونا پڑتا تھا۔ وقت خرچ ہونے کے اعتبار سے اگر اس بات کو دیکھا جائے، تو یہ کلاسیں لینے کا ایکا خاصا مثبت طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت کے ضایع نہ ہونے کی وجہ سے ہم اسے کافی کارآمد سرگرمیوں میں صرف کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ میں اس اضافی وقت میں گھر والوں کا کافی ہاتھ بٹا تی تھی اور اپنے اہل خانہ کو کافی وقت بھی دے پاتی تھی۔ اس سے پہلے مجھے یہ احساس نہیں ہو پایا تھا کہ ہم عام زندگی کے معمولات میں اپنے بڑوں اور بزرگوں کو اپنی زندگی میں سے کتنا کم وقت دے پاتے ہیں، جب کہ ہمارے دوستوں سے زیادہ وہی ہمارے وقت کے طلب گار اور اصل حق دار بھی ہوتے ہیں۔
یہ تو ان آن لائن کلاسوں کا مثبت پہلو تھا۔ اگر ہم منفی پہلوؤں کو دیکھیں اور انہیں تولا جائے، تو مثبت پہلوؤں کے مقابلے میں ان کا پلڑا بھاری ہوگا۔ پہلا نقصان تو یہ ہوا کہ روز کا طلبہ و طالبات کی آپس میں بات چیت اور میل ملاپ اور پھر کلاسوں میں حاضری اور براہ راست اسائمنٹ پیش کرنا، ساتھ ہی دورانِ کلا اساتذہ کے سوالات کا بروقت جواب دینا، یہ سب آن لائن کلاسوں میں ناممکن نہیں تو خاصا دشوار معلوم ہوا۔
ہمارے کورس میں کچھ پریکٹیکل کام بھی شامل تھا، لیکن پھر اس میں رد و بدل کرنا پڑا اور ہمارے ’عملی کام‘ والے اسائمنٹ تحریری مشقوں میں تبدیل ہوگئے۔ اس بات کا یوں تو کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا، لیکن دیکھا جائے تو اس بات کا نقصان ہمیں اس صورت میں ہوا کہ جو چیزیں ہم ’عملی کام‘ سے سیکھ پاتے، ان کو کسی دوسرے طریقے سے سیکھنے اور سمجھنے میں کافی کسر باقی رہ گئی۔ مجھے اس بات کا کافی افسوس ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ بہت سے اساتذہ اس وبا کی پیشِ نظر ملنے والی چھٹیوں میں طالب علموں کو یہ سوچ کر زیادہ کام دیا کرتے تھے کہ اب وہ بالکل فارغ ہیں اور گھر میں محض وقت ضایع کر رہے ہیں، جب کہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔
اساتذہ کو یہ بات بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے تھی کہ چوں کہ اب تمام افراد گھروں میں ہی محدود ہو کر رہ رہے ہیں اور گھر کے کاموں میں مددگار ملازم وغیرہ بھی موجود نہیں، اس لیے گھر کا کام بڑھ چکا ہے اور سارا سارا دن کلاسوں اور اسائمنٹ کرنے کی صورت میں کمرے میں بیٹھے رہنا طالب علموں کے لیے کافی مشکل کا باعث بنتا ہے۔ اساتذہ کو ان باتوں کا اور اپنے طالب علموں کا خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ گھڑی مشکل وقت کی ہے اور اس میں ہم سب کا فرض بنتا ہے کے ہم سب ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ان تمام تر مسائل جن میں انٹرنیٹ اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل شامل ہیں، ان سب کے با وجود اللہ کا شکر ہے کہ وبا کے دوران ہمارا سیمسٹر خیر خیریت سے اختتام کو پہنچ گیا۔
The post گھر میں بیٹھ کے نصاب کے ’عملی کام‘ کرنا دشوار ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.