کورونا نے جہاں دنیا بھر کے معمولات کو روک لگا کے رکھ دیا ہے، وہاں تعلیمی ماحول کوبھی بالکل بدل دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روزانہ حاضری، کلاس روم، اساتذہ کے روبرو لیکچر کے بہ جائے اب معاملہ ’اسکرین‘ کا محتاج ہو گیا ہے۔۔۔ ’کورونا‘ کے سبب چوں کہ فروری سے ہمارے تعلیمی اداروں میں معمول کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، چناں چہ اب اس خسارے کو ’آن لائن‘ ذریعہ تعلیم سے پاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔
ابتداً یہ سلسلہ نجی یونیورسٹیوں سے شروع ہوا، اور اب اسکولوں میں بھی اس حوالے سے عمل درآمد ہونے لگا ہے۔ ’آن لائن‘ اسباق کی مدد سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں نے تعلیمی کیلینڈر کو آگے بڑھانے کے لیے کورونا لاک ڈاؤن کو شکست دی ہے، لیکن اس رجحان نے تعلیمی ماہرین میں بہت سارے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان میں ’یونیسکو‘ اور ’یونیسیف‘ کے افراد بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے چھوٹے بچوں کے لیے انٹرنیٹ کی نمائش کے امکانی خطرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی ظاہر کی ہے۔
ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ خوف زدہ ہیں کہ ڈیجیٹل شفٹ معاشی طور پر پس ماندہ طلبا کو الگ کر سکتا ہے۔ جنھیں ڈیجیٹل اسباق کی ضرورت ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کے اسکول بند ہیں۔ جس کی وجہ سے 120 کروڑ سے زائد بچے کلاس روم سے باہر ہیں۔ اس وجہ سے ای لرننگ (E-LEARNING) کے مخصوص عروج کے ساتھ، تعلیم ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ جس کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر تعلیم دی جا رہی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آن لائن سیکھنے میں معلومات کی برقراری کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔
15اپریل 2020ء کو اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف (UNICEF) نے کہا ہے کہ کورونامیں لاک ڈاؤن کے دوران ان کی زندگیوں میں تیزی سے آن لائن تعلیم کے اضافے کے باعث لاکھوں بچوں کو نقصان کا خطرہ لاحق ہے ۔کورونا کی وجہ سے بچوں کی زندگی صرف اپنے گھروں اور اسکرینوں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔
یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریٹافور (HENREITTA FORE) نے کہا کہ ہمیں بچوں کو اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ 21 اپریل 2020ء کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو (UNESCO) نے اپنی جاری کی گئی ایک رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نصاب سیکھنے والوں کی تعداد میں سے نصف طلبا کورونا جیسی وبا کی وجہ سے تعلیم سے دور ہیں۔ جنھیں گھروں میں سہولت میسر نہیں اور 43 فی صد طلبا ایسے ہیں، جن کے گھروں میں انٹرنیٹ موجود نہیں ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ڈیجیٹل بنیاد فاصلاتی تعلیم کا استعمال بہت سے ممالک میں تعلیمی تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘
’آن لائن‘ کلاس سے مراد ایسی کلاس ہے، جس میں طلبا کسی بھی ’کمیونیکیشن سافٹ ویئر‘ کے ذریعے اپنے اساتذہ سے منسلک ہوتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل سر انجام پاتا ہے۔ ’آن لائن‘ کلاسوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ’ای لرننگ‘ سے نا آشنائی ہے۔ تعلیمی اداروں نے ’ای لرننگ‘ ای باکس (یا ٹیسکٹ باکس)، ای ریڈر، ای سکولنگ، اور موبائل لرننگ پر کوئی توجہ نہیں دی، کیوں کہ ہمارا واسطہ اس سے پہلے کبھی کسی وبا سے نہیں پڑا تھا ۔ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح تعلیم کے دروازے اساتذہ اورطلبا کے لیے بند ہو جائیں گے۔
آن لائن کلاسوں میں سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہے ، جو لگاتار چھے سے سات گھنٹے آن لائن کلاسوں کے لیے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، یا موبائل کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی ان ’آن لائن‘ کلاسوں سے بے حد پریشان ہیں۔ اکثروالدین کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی ’آن لائن‘ کلاسوں کا طریقہ کار سمجھ میں نہیں آتا، تو ہم اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے پڑھائیں گے۔
اس طرح گھنٹوں کے حساب سے ’لیپ ٹاپ‘ کے سامنے بیٹھ کر ہمارے بچوں کی آنکھوں پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ ان میں سر میں درد اور کمر میں درد وغیرہ کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور اب حالیہ دنوں میں شروع ہونے والا بجلی کی عدم دست یابی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ حکومت اور اسکولوں کو مل کے ایسی پالیسی بنانی چاہیے، جس سے بچوں کی تعلیم کا ہرج نہ ہو اور بچے احتیاطی تدابیر کے تحت باقاعدہ اسکول جا کے ہی اپنی تعلیم مکملکر سکیں۔
The post ’آن لائن‘ کلاسیں: طلبا کی بڑی تعداد کی محرومی کا خدشہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.