انسان زندگی میں مختلف کیفیات کا شکار رہتا ہے کچھ کیفیات اس کی زندگی کو حسین بنادیتی ہیں جبکہ بعض زندگی کے سارے رنگ چھین لیتی ہیں۔ مایوسی بھی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان تمام امیدیں ترک کردیتا ہے۔ معروف ڈرامہ نگار جارج برناڈ شاہ لکھتے ہیں کہ ’’جو کوئی امید نہ رکھے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوسکتا‘‘ یعنی امید کے بنا مایوسی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ برطانوی تاریخ نگار و پادری تھامس فیلٹر نے اس حوالے سے ایک مرتبہ کہا کہ ’’مایوسی ایک بزدل کو بھی بہادر بنا دینے کی قوت رکھتی ہے۔‘‘
اگر اس قول کی گہرائی میں جھانکا جائے تو درست انداز میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر صحیح بات کی گئی۔ مایوسی میں گھرا انسان کیسے اتنا بہادر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں گنوا دے۔ انسان کے اندر فطری طور پر زندگی سے محبت اور موت کے ڈر جیسے جذبات پائے جاتے ہیں مگر جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو وہ فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے یا یوں کہہ لینا چاہیے کہ جب انسان فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی تگ و دو کرنے لگتا ہے تو وہ مایوسیوں کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
ایسے میں خودکشی کا رجحان بڑھنے لگتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہا ہو تو اندازہ کرلیجئے وہ ذہنی کسمپرسی کی کس سطح پر کھڑا ہوگا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) کے اعدادو شمار کے مطابق ہر سال تقریباً آٹھ سے دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے والے افراد زندگی سے بیزاری اور مایوسی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں، عزیزوں، زندگی کی رعنائیوں، لطافتوں اور دلکشیوں سے منہ موڑ لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لیے وہ جن جگہوں مثلاً جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں، پلوں اور اونچائیوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں پاتی۔ دنیا میں ایسے بہت سے حسین مقامات ہیں جو خودکشی کے لیے چنے جاتے ہیں۔ انہی بدنام زمانہ جان لیواء جگوںمیں سے ایک جاپان میں واقع مونٹ فوجی کے شمال مغربی جانب درختوں کا سمندر اوکی گھارا بھی ہے ،جسے موت کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔
جہاں خودکشی کا رجحان اس قدر زیادہ ہے کہ مقامی پولیس نے ایسے نشانات اور پیغامات لکھ چھوڑے ہیں کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکیں۔ گزشتہ 20 برس کے اعدادو شمار کے مطابق یہ جگہ خودکشی کرنے والوں کا مرکز رہی۔ سن 2003ء میں اوکی گھارا گزشتہ سو برس کی نسبت زائد جانیں لے گیا۔ جاپان کے قومی اخبار دا جاپان ٹائمز (The Japan Times) کے مطابق 2010ء میں دوسو سنتالیس 247 افراد نے خودکشی کی کوشش کی جس میں سے چون 54 افراد کامیاب رہے۔
یہ جنگل اس قدر گھنا ہے کہ ایک بار اس میں جانے والا شخص شاید ہی زندہ بچ کر واپس آسکے۔ مردہ وجود اس جنگل کو مزید گھنا بناتے ہیں۔ اس جنگل سے بہت سی کہانیوں کوجوڑا جاتا ہے جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
٭ خودکشی کی روایت
خودکشی جاپان کے اہم سماجی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس فعل کے پیچھے جہاں نفسیاتی وجوہات اور پیشہ وارانہ دباؤ کارفرما ہیں ونہی اس کی تاریخی روایات بھی ہیں۔ صدیوں پہلے جاپان میں جاگیرداری نظام سے تنگ آکر باعزت انداز میں مرنے کے لیے خودکشی کا ایک خاص طریقہ استعمال کیا جاتا جسے مقامی زبان میں ’’سی پاکو‘‘ (Seppuku) کہا جاتا۔ اس طریقہ سے خودکشی کرنے والے اپنے پیٹ میں چاقو یا تلوار مارا کرتے جس سے ان کی آنتیں باہر نکل آتیں۔ گوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت ویسی نہ رہی مگر آج اس کی مختلف اشکال خودکشی کرنے والوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کا وساقی میں شعبہ سائیکاٹری کے ڈائریکٹر، کتاب ”Why do People Commit Suicide کے مصنف مذکورہ بالا خیالات کے حامی ہیں۔ان کے مطابق آج بھی لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے ایسے طریقوْں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔
٭ قبیح روایت کا امین ناول
کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے کا ادبی ذوق وہاں کے باسیوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ نئے نئے خیالات کو ترویج دینے کا سبب بنتے ہیں۔ جاپان کی تاریخ میں خودکشی کی روایت صدیوں سے موجود تھی۔ سن 1960ء میں ایک المناک ناول اس قبیح روایت کی ترویج کا ذریعہ بنا۔ کورئے جوکاٹے ”Kuroi Jukai” نامی ناول میں مرکزی کردار( لڑکی) محبت میں ناکامی کے بعد درختوں کے سمندر میں جاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہے۔ اس رومان پرور کہانی نے جاپانی ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے اور آوکی گھارا کو خودکشی کے لیے بہترین مقام کا درجہ دیا۔ اس خودکشی کی کتاب کے مسودے مرنے والوں کے سامان میں سے اکثر ملے۔ لوگ اس ناول کو ایک آئیڈیل کہانی تسلیم کرتے ہوئے زندگی کی تلخیوں سے نجات کا اہم ذریعہ خودکشی کوہی سمجھتے ہیں۔
٭ جنگل سے جڑی داستانیں
درختوں کے سمندر پر مشتمل یہ جنگل روز اول سے ہی اپنے ساتھ کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ پرانے وقتوں میں اس جنگل سے جڑی ایک دیو مالائی داستان سے یہ روایت منسوب ہے جسے ’’ایبسوٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پرانے وقتوں میں دوران قحط بوڑھے اور بزرگ افراد کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ بھوک، پیاس یا وہاں کے ماحول میں رہنے کے باعث مرجائیں۔ گوکہ یہ ایک انتہائی سفاکانہ طرز عمل تھا مگر بہرحال اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں شواہد موجود نہیں۔ اوکی گھارا کے حوالے سے ایک اور بات بھی مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اس جنگل میں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں وہاں ایبسوٹ اور بین کرتی بدروحوں کا بسیرا ہے جو جنگل میں بھٹک کر مرگئے۔ لوک داستانوں کے مطابق اوکی گھارا میں بھٹکتی روحیں وحشت ناک ہیں اور وہاں جانے والوں کو بھٹکا دیتی ہیں تاکہ وہ کبھی واپس نہ جاسکیں۔
٭ تلاش اور سدباب
سن 1970ء سے جاپانی لوگوں نے رضاکارانہ طور پر تلاش کاایک سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد ایسے افراد کی مدد کرنا تھا جو گھومنے پھرنے کے لیے جنگل میں داخل ہوتے ہیں مگر راستہ بھٹک جانے کے باعث زندہ واپس نہیں لوٹ پاتے۔ گوکہ رضا کار انہیں زندہ نہ بچاسکیں مگر ان کی باقیات کو وہاں سے نکالنا اور مقامی پولیس کے تعاون سے ان کی نعشوں کو سپرد خاک کرنا بھی ان کے مشن کا حصہ رہا۔
جیسے کہ اوکی گھارا میں کیمپنگ کی اجازت ہے مگر یہ کیمپنگ مخصوص دنوں کے لیے کی جاتی ہے اور حفاظتی اقدامات کرنے والا عملہ ان افراد سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں تاکہ کیمپنگ کے لیے آئے افراد باحفاظت گھروں کو لوٹ سکیں۔ خودکشی کے اس رجحان کو کم کرنے کے لیے جاپانی حکومت نے ایک سات سالہ منصوبے کا آغاز کیا جس کا مقصد کم از کم خودکشی کی شرح میں 20 فیصد کمی کرنا تھا۔ اس ضمن میں جو عملی اقدامات اٹھائے گئے ان میں جنگل کے داخلی مقامات پر سکیورٹی کیمرہ نصب کرنا شامل تھا۔ جس سے زیادہ سے زیادہ افراد کو بچانے کے لیے مدد مل سکتی۔ پھر ایسے کونسلرز اور پولیس کا بھی اہتمام کیا گیا جو لوگوں کو مایوسی کی دلدل سے نکلنے میں مدد دیں۔ خصوصاً ایسی پوسٹ اور ایسے بورڈز نصب کیے گئے جو مثبت طرز فکر کی ترویج دیں۔
جنگل میں مختلف جگہوں پر رسیوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے جس کی مدد سے اگر کوئی وہاں جاکر خودکشی کا ارادہ بدل لیتا ہے تو واپس آسکے۔ ایسے مثبت جملے وہاں لکھے ملتے ہیں جو زندگی کی طرف لائیں جیسے ’’اپنے بچوں اور خاندان کے بارے میں زیادہ سوچیں ’’آپ کی زندگی آپ کے والدین کا اثاثہ ہے‘‘ اس جنگل کی ایک اور خوفناک بات یہ بھی ہے کہ وہاں جاکر زمین میں میگنیٹک آئرن وہاں کسی بھی قسم کے رابطوں میں خلیج بن جاتی ہے کیونکہ وہاں کوئی جی پی ایس سسٹم، موبائل نیٹ ورک یہاں تک کہ کمپاس بھی کام نہیں کرتا۔ جس کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایسا وہاں موجود بدروحوں اور آسیب کی وجہ سے ہوتا ہے۔
خودکشی کا اہم محرک زندگی سے نا اُمیدی ہے: ڈاکٹر طاہر
سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز سے جب رابطہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا کہ نفسیات کی رو سے خودکشی کیسا عمل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’دراصل ہمارے ہاں کچھ ایسی نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے امکانات زیادہ ملتے ہیں۔ جیسے ڈپریشن‘ شرو فرینیا اور ایسی دیگر نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں اور پھر شدت اختیار کر جاتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر ا ثر خودکشی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما جذباتی ہوتے ہیں جو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔
تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ اس میں دو ہی چیزیں کار فرما ہوتی ہیںجو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت کے مسائل ہوتے ہیں یا پھر معاشرتی مسائل۔ ہمارے ہاں نفسیات کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ خودکشی کرنے والوںمیں 70 فیصد ڈپریشن ‘ دس سے پندرہ فیصد شزوفرینیا کے مریض پانچ سے دس فیصد منشیات و شراب نوشی کے عادی جبکہ بقیہ سماجی وجوہات کی بنا پر ایسا کرتے ہیں ۔
عام طور پر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات آتے ہیں جب وہ ہوپ لیس ہو جاتا ہے تو زندگی میں امید اور ناامیدی کے درمیان کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جب آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے تو اس کی سوچوں کا ایک ہی پیمانہ اور انداز ہو جاتا ہے۔ وہ ناامید ہو جاتا ہے اور کہیں سے کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ حالات کے سنورنے کی امید کھو دیتا ہے۔
اگر کسی شخص کے بارے میں ہم منفی ہی سوچتے رہیں تو اس سے د وستی تو ناممکن ہے تو ایسا شخص جو زندگی کے بارے میں مسلسل منفی خیالات کا شکار رہے اور سوچے کے مستقبل کے اچھا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ۔ جو مذہبی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں وہ دعا پر یقین کرتے ہیں لیکن جو ا یسا رجحان نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہو گا کوئی فائدہ نہیں زندہ رہنے کا۔ یہ سوچ ان پہ اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ پلان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے وہ اس پر عمل کر لیتے ہیں‘ کچھ بچ جاتے ہیں کچھ انہی کوششوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر طاہر کا مذہب اور خودکشی کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’’اس میں دو چیزیں ہیں اگر کوئی انسان بیماری کا شکار ہے اور اسے ایسی سوچیں آتی ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ وہ بیماری کے زیر اثر ہے ۔ ایسے میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہے۔
لیکن جو عام جبلت کے رویے ہیں اس میں مذہب کا بڑا کردار ہے کہ ایک آدمی سوچتا ہے یہ عمل مخلوط ہے ‘ حرام ہے‘ مجھے اس کی سزا ملے گی تو وہ خود کو روکنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن بیماری کے زیر اثر شخص بے اختیار ہوتا ہے۔ لیکن جیسے نمبر کم آ جائیں‘ کوئی نقصان ہو جائے تو انسان یہ سوچے کہ اللہ مدد کرے گا‘ کوئی بات نہیں دنیا مختصر ہے تو ایسے میں سوچ کا یہ پیمانہ جو مذہبی ہے اسے روکنے کا باعث بنے گا۔ عموماً نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے جیسے پندرہ سے 25برس ا مڈل ایج کے دوران بھی ایسے امکانات زیادہ ہوتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ایسی علامات ہوتی ہیں کہ آدمی اگر دو ہفتوں تک مسلسل ادس رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ڈپریشن کی طرف جانا شروع ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھار ہم میں سے سب لوگ چاہتے کتنے بھی پرامید کیوں نہ ہوں اس فیز سے گزرتے ہیں جو کہ تھوڑی دیر کے لئے اداس ہونا ایک فطری سی بات ہے لیکن مسلسل دو ہفتوں تک اداسی‘ بے چینی‘ مایوسی اور پریشانی رہے‘ کھانا‘ پینا‘ سونا ہر چیز سے بیزاری ہو تو اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہئے۔ اگر توپرسنالٹی میں مسئلہ ہو تو وہ تھراپی سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اگر بیماری ہو تو اس کے لئے دوا بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘
The post موت کا جنگل appeared first on ایکسپریس اردو.