مزاح کبیرہ
مصنف :ناصرمحمود ملک۔۔۔ قیمت:500 روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردوبازار،لاہور
انسان کو حیرت ہوتی ہے جب وہ کسی پولیس والے کو ہنستا ہوا دیکھتاہے اور اس وقت مزید حیرت ہوتی ہے جب پولیس والے کی باتوں سے دوسرے انسان خوش ہوتے ہیں۔ ناصرمحمود ملک ایسے ہی حیران کرنے والے پولیس افسر ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں خدمات سرانجام دینے کے لئے ایک عرصہ بیرون ملک ’سوڈان‘ بھی رہے۔
ایک مختلف رنگ کے لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی تخلیقی صلاحیتیں زیادہ تیز ہوئیں۔ عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں:’’ ان کی کتاب کے پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک شگفتگی کی ایک لہر ہے جو آپ کے گرد ایسا گھیرا ڈالے رکھے گی کہ آپ اس سے اپنا دامن نہیں چھڑاسکیں گے‘‘۔کسی مزاح نگار کے بارے میں بڑے بڑوں کی تعریفوں پر فوراً ایمان نہیں لانا چاہئے بلکہ خود وہ مزاح پارہ پڑھ کر دیکھ لیناچاہئے۔ میرا خیال ہے کہ ’’مزاح کبیرہ‘‘ پڑھنے کے بعد آپ کو عطاالحق قاسمی کی رائے کے درست یا غلط ہونے کا صحیح اندازہ ہوجائے گا۔
زیرنظر کتاب میں تین درجن مزاح پارے ہیں۔ یہ کیسے لکھے گئے؟ مصنف کہتے ہیں:’’ اس ضمن میں عرض ہے کہ ہوش سنبھالا اور معاملات زندگی شروع ہوئے تو نوٹ کیا کہ ہم سے کئی حماقتیں سرزد ہورہی ہیں۔ تھوڑا مزید غور کیا تو پتہ چلا کہ حماقتوں کی سرزدگی میں ہم تنہا نہیں دیگر لوگ بھی کم وبیش یہی کررہے ہیں۔ چنانچہ مشاہدے کو قدرے تیز کیا تو اس کا نتیجہ اس کتاب کی صورت میں نکلا۔‘‘
’القریش پبلی کیشنز‘ کا اب تک زیادہ کام فکشن شائع کرنے ہی کا تھا یا کم ازکم مجھے زیادہ فکشن نظر آیا تاہم ’مزاحِ کبیرہ‘ اور کچھ دیگر کتابیں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ اب ہرقسم کی کتابیں شائع کرنے لگا ہے۔ اللہ کرے کہ کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کا یہ سلسلہ مزید وسیع اور تیز ہو۔ کتابیں ہی فرد اور معاشرے کو بڑا بناتی ہیں۔ آپ بھی کتابوں کی قدر کیا کریں۔
گاندھی کے چیلے
مصنف : ضیا شاہد ۔۔۔ قیمت: 800 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
ضیاء شاہد پاکستان کے معروف اخبارنویسوں میں سے ایک ہیں، اور صحیح معنوں میں ایک رجحان ساز ایڈیٹر ہیں۔ وہ پاکستان کے ان صحافیوں میں سے ہیں جنھوں نے آزادی صحافت کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔ زیرنظرکتاب دراصل ان کے ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو انھوں نے ’’پختونخوا‘‘ یا ’’پختونستان‘‘کا مطالبہ کرنے والوں کے جواب میں لکھے۔کتاب کے ٹائٹل پر لکھا ہوا ہے :’’ گاندھی کے پاؤں دھونے والے سابق صوبہ سرحد کے سرخ پوش غفارخان اور ان کے بھائی ڈاکٹرخان صاحب اور بیٹے ولی خان کی پاکستان دشمنی اور انگریز اور ہندو کے ایجنٹ ہونے کی خوفناک اور اندرونی داستان‘‘۔ مصنف نے کتاب کا انتساب اجمل خٹک کے نام کیا جن کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے:
’’مجھے ان کے ساتھ تحریک نجات میں مسلسل سفر کا موقع ملا۔ بعدازاں ان سے بے شمار ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ وہ لاہور میں میرے گھر اور میں خیبرپختونخوا میں ان کے گھر بہت مرتبہ گیا۔ان کی علالت کے دنوں میں تیمارداری کے لئے بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ایسی ہی ایک شام وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور میں کرسی پر ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا:
’ضیا شاہد! میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کیا اس پر میں بہت شرمسار ہوں۔کبھی موقع ملے تو اپنے اس بوڑھے دوست کے بارے میں یہ لکھئے گا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میںنے اپنی غلطیوں پرشرمندگی کا اظہار کیاتھا‘۔
میراخیال ہے کہ اس کتاب کے تعارف کے لئے یہی سطور کافی ہیں، تفصیل جاننے کے لئے آپ کو کتاب پڑھنا ہوگی۔ اس میں آپ کو ہماری تاریخ کی انتہائی اہم شخصیات کے بارے میں جاننے کا خوب موقع ملے گا۔
تاریخ سندھ
مصنف: سیدابوظفرندوی۔۔۔ قیمت:500 روپے
ناشر: مکتبہ جمال، تیسری منزل، حسن مارکیٹ، اردوبازار، لاہور
سیدسلیمان ندوی نے لکھاتھا :’’ انگریزوں نے اسلامی ہند کی جو تاریخیں لکھیں وہ بہت کم سیاسی اغراض سے خالی ہیں، ان کا مقصد ہندو اور مسلمانوں میں منافرت پیدا کرنا، مسلمانوں کے دلوں سے ان کے نامور اسلاف اور شاندار ماضی کی وقعت گھٹانا اور اپنی حکومت کی عظمت و برتری کا نقش جمانا تھا، اس لئے ان کی لکھی ہوئی تاریخوں میں عموماً بڑی تحریف و تدلیس ہے اور ان مقاصد کے مطابق واقعات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نمایاں کیاگیا ہے اور رائی کو پہاڑ بنا کر دکھایاگیا ہے‘‘۔
اسی لئے انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان کی ایک مفصل و مستند تاریخ لکھنے کا آغاز ہوا۔ ’’دارالمصنفین‘‘ نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا۔اس کام میں تحقیق و صحت کا پورا اہتمام اور لحاظ کیا گیا۔ برسوں کی محنت کے بعد اس کے بعض حصے تیار ہوئے۔ زیرنظرکتاب اسی کام کا ایک حصہ ہے۔
سیدسلیمان ندوی جو دارالمنصنفین کے سربراہ تھے، نے تاریخ سندھ کی اہمیت یوں بیان کی:’’سندھ کی تاریخ اس حیثیت سے بہت اہم ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں مسلمانوں کا پہلا قافلہ سندھ ہی میں اترا تھا اور یہیں ان کی پہلی حکومت قائم ہوئی تھی اور وہ ایک ہزار سال سے اوپر یہاں کے حکمران رہے جس کے آثار آج بھی سندھ میں درودیوار سے نمایاں ہیں۔ اس کے باوجود اردو میں سندھ کی کوئی مفصل محققانہ اور مستقل تاریخ موجود نہیں ہے‘‘۔
زیرنظرکتاب اردو میں سندھ کی سب سے پہلی مفصل ، مستند اور مستقل تاریخ ہے، اس میں سندھ کا جغرافیہ ، مسلمانوں کے حملہ سے پیشتر کی مختصر اور اسلامی فتوحات کے مفصل حالات ، خلافت راشدہ کے زمانہ سے لے کر آٹھویں صدی ہجری تک سندھ جن جن حکومتوں کے ماتحت رہا اور عباسیوں سے آزاد یہاں جو جو حکومتیں قائم ہوئیں ، ان کی پوری تاریخ اور ان تمام دوروں کے نظام حکومت ، علمی وتمدنی حالات اور رفاہ عامہ کے جو جو کام انجام پائے ، ان سب کی پوری تفصیل ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ یہ کتاب تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں بالخصوص طلبا وطالبات کے لئے کس قدر اہم ہے۔
جیری ایٹرک کئیر (ناول)
مصنف: نعیم کیفی ۔۔۔ قیمت:650 روپے
ناشر: رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، اقبال مارکیٹ، اقبال روڈ، کمیٹی چوک، راولپنڈی
مصنف نے ایک کہانی لکھی تھی ’’سفررائیگاں‘‘، اسے ایک ناول کے طور پر شروع کیا تھا لیکن پھر عجلت میں اسے ختم کرنا پڑا تو پڑھنے والوں کو یہ ادھوری کہانی لگی۔ اس کے بعد مصنف نے اسی تسلسل کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ زیرنظرناول اسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ یہ امید، خواہش، کشش، گریز، دکھ ، خوف، پشیمانی، کسک، احساس گناہ اور ذہنی اضطراب جیسے انسانی جذبات کا امتزاج ہے۔ اس میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی اپنے پیشے سے لگن بھی ہے اور ایک خوبصورت عورت کا آتش شوق میں جلنا بھی۔
یہ کہانی بتاتی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں موجود کرپشن، غربت اور طبقاتی تقسیم ، صاحب اقتدار اور ثروت مند لوگوں کی بے حسی، تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے مناسب روزگار کے محدود ذرائع، امن وآشتی کا فقدان اور انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کا نہ ملنا ، ان سب حقائق سے بھاگ کر لوگ امریکا جیسے ممالک میں جاتے ہیں، وہاں وہ سخت جسمانی محنت کرتے ہیں، جان لیوا تنہائی کا شکار ہوتے ہیں، انھیں یکسر مختلف معاشرتی اقدار اور اجنبی زبان کے ساتھ جینا پڑتاہے، انھیں ناقابل قبول ڈشز کھانا پڑتی ہیں، وہاں بے رحم پیشہ وارانہ مسابقت ہوتی ہے جوانسان تو دور کی بات، مشینوں کو بھی تھکادیتی ہے ۔ پھر اس اجنبیت سے تنگ آکر وطن واپس آنے کا سوچا جائے تو یہ راستہ بھی آسان نہیں ہوتا، اگرکوئی آجائے تو پھر اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی یہی سب کچھ بتاتی ہے۔
ناول نگار درس وتدریس سے وابستہ ہیں، زیادہ تر وقت قومی ادارہ نفسیات ، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں گزارا، برطانیہ ، امریکا، کینیڈا اور ملائشیا میں بھی رہے۔طالب علمی کے زمانے ہی سے انگریزی اور اردو ادب سے شغف رہا۔ ان کی لکھی کہانیاں پڑھنے والا ان کے مشاہدے اور کردارنگاری کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کیا یہ بدن میرا تھا (افسانے)
افسانہ نگار: صباممتازبانو۔۔۔ قیمت:300روپے
ناشر: ولید پبلشرز، 394 بلاک G-4 ایم اے جوہرٹاؤن، لاہور
صباممتازبانو کو ایک طویل عرصہ تک میدان صحافت میں ہرلمحہ سخت جدوجہد کرتے ہوئے، اکثر انھیں لکھتے ہوئے دیکھا۔ کبھی انٹرویوز ، کبھی فیچرز اور کبھی بین الاقوامی مسائل پر رپورٹس۔ مرحوم علی سفیان آفاقی کہاکرتے تھے کہ صبا ممتاز کے لئے لکھنا ایک شوق اور مشغلہ ہے۔ اسی دوران صبا ممتاز بانو نے بتایا کہ وہ کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ ضرور لکھتی ہوں گی کیونکہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کہانیاں پڑھتی اور پھر لکھتی ہے، ڈائجسٹوں کی دنیا خواتین لکھاریوں ہی کی وجہ سے آباد ہے۔ لیکن ان کے ہاں موضوعات میں تنوع نہیں ہوتا۔ عورت اور خاندان، محبت کی کہانیاں اور بس! ان کہانیوں میں کبھی خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں اور کبھی آنسو بہتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ صبا ممتاز بھی ایسی ہی کہانیاں لکھتی ہوں گی۔
چند دن پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ ’کیا یہ بدن میرا تھا‘ موصول ہوا ا۔ دفتر میں بیٹھے بیٹھے ان کی دو، چار کہانیاں پڑھ لیں۔ سچی بات ہے کہ ان کہانیوں نے مجھے انگشت بدنداں کردیا۔ہر کہانی میں ایک مختلف موضوع ۔کہانی کی بنت ایسی کہ دل اش اش کر اٹھا۔ میں سمجھتاتھا کہ پاکستان میں اب اچھی کہانی نہیں لکھی جارہی، اسی لئے میں کسی کہانی کو پڑھنے سے پہلے سوبار سوچتاتھا کہ کہیں کہانی بدمزہ ہی نہ کردے تاہم صبا ممتاز کے افسانے پڑھ کر تسلیم کرتاہوںکہ اچھی کہانی لکھی جارہی ہے۔
زیرنظر مجموعے کے ڈھائی درجن سے زائد افسانے دراصل اس معاشرے کی ڈھائی درجن سے زائد تصویریں ہیں۔ ہر تصویر ایک مختلف منظر دکھاتی ہے۔ صبا ممتاز نے بعض مناظر کو دیکھ کر تصویر بناتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور کھٹاک سے تصویر بنا ڈالی۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو منظر میں تھا۔ یعنی ایک بولڈ تصویر۔مثلاً ایک تصویر’’چلتی پھرتی عورت‘‘ کی بھی ہے۔ اس میں ایک مخصوص ’پیشے‘ کی عورت کی نفسیات کوپیش کیاگیاہے۔’’اولاد‘‘ کے عنوان سے بھی ایک تصویر موجود ہے جس میں ایک خوش باش عورت کی بے کراں محبت اپنا ٹھکانہ انسانی جنس سے ہٹ کر حیوانی جنس میں تلاش کرلیتی ہے۔
میں صباممتاز کے نہایت عمدہ افسانے پڑھ کر عجب مشکل میں پھنس گیاہوں، فیصلہ نہیں کرپارہا کہ وہ صحافی اچھی ہیں یا کہانی کار۔ ان کی کہانیاںآپ بھی پڑھئے اور پھر اپنا خیال بتائیے گا۔
شب آرزو تیری چاہ میں(ناول)
ناول نگار: نائلہ طارق۔۔۔ قیمت:1200روپے
ناشر: القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ، چوک اردوبازار،لاہور
یہ تو ہر کسی کے علم میں ہے کہ کوئی بھی کہانی خلاؤں میں جنم نہیں لیتی، ہر کہانی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے،جو اسی زمین پر ہوتی ہے۔ ہر کہانی کے کردار اس زمین پر موجود ہوتے ہیں، اور ہر فرد کے اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ صرف نام تبدیل ہوتے ہیں ورنہ کہانیاں ہر جگہ اپنا آپ دوہرا رہی ہوتی ہیں۔ صرف ایک کہانی ہی اچھی کہانی ہوتی ہے۔کہانی لکھنے والوں کو کہانی کار ہی ہونا چاہئے، مبلغ، واعظ یا اپنے نظریات کا پرچارک نہیں۔اچھی کہانی خود اپنے پڑھنے والے کو مسخر کرتی ہے، اس میں کہانی لکھنے والا کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ کہانی کار ہی کیا ہے جو درمیان میں نثر یا پھر خطابت کے جوہر دکھانا شروع کردے۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو نائلہ طارق ایک بہت اچھی کہانی لکھنے والی ہیں۔
انھوں نے ’شب آرزو تیری چاہ میں‘کے عنوان سے اس ناول میں معاشرے کے ان نازک ایشوز کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جن پر عموماً زیادہ بات کرنا بھی معیوب سمجھاجاتاہے مگر یہ پوری سچائی کے ساتھ ہمارے اردگرد ، ہمارے اسی معاشرے میں موجود ہیں۔ ان ایشوز سے نظریں چرانا بہت آسان ہے مگر انھیں نمایاںکرنا ، ان کے محرکات ،و جوہات اور پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ایک بڑی اہم ذمہ داری کاکام ہے۔ ناول نگار کہتی ہیں کہ اس ناول کے کچھ اہم کردار ان کے قلمی سفر کے ابتدائی دور سے ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ کردار ماورائی یا آسمانی نہیں مگر ان کے اندر چھپے کچھ مقدس، پاکیزہ جذبے ضرور آسمانی ہیں۔
جب آپ یہ ناول ختم کرتے ہیں تو آپ کے پاس ایک نیا وژن ہوتاہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک نیا جذبہ، نئی ہمت بھی۔ذرا اس ناول کو پڑھ کر دیکھئے، کیا ایسا نہیں ہے؟
چین سے چین تک
انسانی تہذیب و تمدن کے سفر میں چین کو ہمیشہ ممتازو منفرد حیثیت حاصل رہی ہے۔چین سے دریافت ہونے والے آثار یہاں پر قبل از تاریخ عہد کے انسان کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں جبکہ چین میں پہلی باقاعدہ بادشاہت 17سو قبل مسیح میں موجود تھی۔ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک مختلف تاریخی ادوار میں علم و ہنر، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں غیر معمولی مہارتوں اور ایک طرح کی پراسراریت کی وجہ سے ہمیشہ پرکشش رہا ہے۔ ایک زمانے میں پوری دنیا میں صرف چین ریشم پیدا کیا کرتا تھا۔
ریشم پیدا کرنے کے اس راز کو چین سے باہر منتقل کرنے پر سرکاری ممانعت تھی۔ ایک طویل عرصہ تک دنیا اس راز کی کھوج میں سرگرداں رہی لیکن کوئی کامیابی نہ مل پائی۔ ریشم بنانے کا یہ راز تب دنیا کو معلوم ہوا جب انگریز جاسوس عیسائی مبلغ بن کر چین گئے اور اپنے اعصاء کو اندر سے کھوکھلا کرکے ریشم کے کیڑے ان میں چھپا کر برطانیہ لے آئے۔ آج دنیا کا یہ غیر معمولی ملک انقلابات زمانہ سے گزرتا ہوا اپنی قوم کی غیر معمولی محنت کے بل پر امریکہ جیسی واحد عالمی طاقت کے مقابل آن کھڑا ہوا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب بھی چین سے متعلق ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد کریم احمد ریڈیو پاکستان سے بحیثیت پروڈیوسر منسلک ہیں۔ انہیں تین برس تک چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اُردو سروس میں کام کرنے کا موقع ملا جس کا نتیجہ اس کتاب کی صورت میں سامنے آیا۔ ریڈیو میں محمد کریم احمد کے کام کی نوعیت تخلیقی ہے لہٰذا انہوں نے چین کو بھی ایک تخلیق کار کی نظر سے دیکھا ہے جس نے اس کتاب کے صفحات پر پھیلے بیانیے کو انتہائی دلچسپ اور پرکشش بنا دیا ہے۔ میرے لیے یہ کتاب اس لیے بھی خصوصی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں شامل بیشتر مواد کتابی صورت میں شائع ہونے سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں سلسلہ وار شائع ہو چکا ہے۔
گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا میں جاری کشمکش نے پاکستان اور چین کو بتدریج مخلص دوستی کے رشتے سے آگے بڑھا کر ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا ہے۔ دونوں ملک ایک ایسے دیرپا تزویراتی بندھن میں بندھ چکے ہیں جو عالمی کشاکش میں پاکستان کے حریفوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔
ایسے میں چین اور چین کے لوگوں کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش ایک قومی خدمت کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر ہم نے دنیا کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے تو ہمیں ’یعنی پاکستان اور چین کو‘ ایک دوسرے کو پوری طرح سے سمجھنا ہوگا جس طرح چینی زبان ہم پاکستانیوں کے لیے اہمیت اختیار کر گئی ہے اسی طرح چین کے مزاج اور معاشرتی رویوں کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے انتہائی مددگار ہے۔ کتاب کی پیشکش کامعیار بہت اعلیٰ ہے جسے فکشن ہاؤس بک سٹریٹ 68مزنگ روڈ لاہور نے شائع کیا ہے۔ قیمت600روپے ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.