جنگ بدر میں شکست کفار مکہ کو بے چین کیے ہوئے تھی کیوںکہ اس معرکے میں انہیں جانی نقصان کے علاوہ مالی شکست بھی ہوئی تھی اس لیے ان کے دلوں میں انتقام کی آگ دو آتشہ ہوگئی تھی ستر کفار جن میں ابوجہل سرفہرست تھا مارے گئے تھے عرب کا اصول تھا کہ وہ ایک فرد کا بھی بدلہ لیتے تھے یوں سالہا سال وہ سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ یہ جنگ اس انتقام کا فطری نتیجہ تھی۔ مدینہ میں مسلسل ان کے حملہ اور چڑھائی کی خبریں گردش میں تھیں۔
۵؍ شوال ۰۳ھ کو حضورؐ نے دو خبر رساں انسؓ اور مونسؓ کو سرحد پر خبر لانے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے آکر اطلاع دی کہ کفار کا لشکر قریب آپہنچا ہے اور مدینہ کی چراگاہ عریض کو ان کے گھوڑے صاف کر چکے ہیں۔ آپ نے حباب بن منذر ؓ کو دشمن کی فوج کی صحیح تعداد اور طاقت کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا۔
ان کی اطلاع پر مدینہ شہر پر حفاظتی نقطہ نگاہ سے پہرے بٹھادیے گئے اور حضرت سعد بنؓمعاذ ہتھیار لگا کر رات بھر مسجد نبوی کا پہرہ دیتے رہے۔ صبح کو آپؐ نے صحابہ کرام ؓسے مشورہ لیا مہاجرین اور انصار نے بالعموم یہ مشورہ دیا کہ خواتین اور بچوں کو باہر قلعے میں بھیج دیا جائے اور مرد شہر میں رہ کر مقابلہ کریں مگر چند نوخیز صحابہؓ نے جو جنگ بدر میں شریک نہ تھے یہ مشورہ دیا کہ شہر سے نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ آنحضرتؐ گھر میں تشریف لائے اور زرہ پہن لی۔ اب لوگوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے آپؐ کو خلاف مرضی نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ تمام نے مل کر عرض کی ہم اپنے رائے سے باز آتے ہیں ارشاد فرمایا کہ پیغمبر کو زیب نہیں دیتا کہ ہتھیار پہن کر اتارے۔
قریش ابوسفیان کی سربراہی میں تین ہزار کا لشکر لے کر بدھ کے دن مدینہ کے قریب کوہ احد پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ آنحضورؐ نے جب سنا کہ زرہ پوش دو سو سوار دستوں اور بیس دف بجاکر گانے والیاں اپنے مقتول بدر کا بدلہ لینے کے لیے زورشور سے حد بندی کر چکے ہیں آپؐ اپنے ساتھ ہزار کی جمعیت لے کر بروز جمعہ مدینہ سے نکلے راستہ ہی میں عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) یہ کہہ کر کہ میں مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے خلاف ہوں شہر میں ہی جنگ لڑی جائے، اپنا تین سو کا دستہ لے کر علیحدہ ہو گیا۔ اب آنحضورؐ کے ساتھ صرف سات سو جاں نثار رہ گئے، جن میں صرف پچاس ہی تیر انداز تھے اور صرف سو زرہ پوش تھے۔
مدینہ سے نکل کر ایک مرتبہ پھر فوج کا جائزہ لیا گیا جو بچے تھے انہیں گھر جانے کے لیے کہا گیا مگر جذبہ ایسا کہ اسے ناپنے کے لیے کوئی پیمانہ نہ تھا۔ ہر کمسن جنگ کے لیے بضد تھا۔ حضرت رافع بن خدیج ؓسے جب جانے کے لیے کہا تو انگوٹھے کے بل کھڑے ہوکر اپنے پستہ قد کو دراز کرتے ہوئے چلنے کی اجازت لے لی۔ ان کی ترکیب کا رگر ثابت ہوتے دیکھ کر ان کے ایک ہم عصر سمرۃ نے کہا، میں رافع کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں چنانچہ وہ کشتی جیت کر شریک جنگ ہوگئے۔
حضورؐ نے احد کو اپنی پشت کی جانب رکھا۔ صف آرائی کی۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو فوج کا علم (پرچم) عنایت فرمایا حضرت زبیرؓ سالار فوج مقر ر ہوئے۔ حضرت حمزہؓ کو اس دستے کی قیادت ملی جو زرہ پوش نہ تھا۔ پشت کی جانب سے حملہ کا خطرہ موجود تھا۔ چنانچہ عبداللہ بن جبیرؓ کو پچاس افراد کے دستے کے ساتھ متعین کیا گیا اور سختی سے کہا گیا کہ یہاں سے کسی قیمت پر نہ ہٹنا۔
قریش کو بدر کے میدان میں شکست کا تجربہ تھا۔ اس لیے اس مرتبہ انہوں نے منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے کو تیار کیا۔ خالد بن ولید جو (ابھی اسلام نہ لائے تھے) میمنہ پر عکرمہ پر میسرہ کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ قریش کا مشہور رئیس صفوان امیہ سواروں کا کمانڈر تھا۔ عبداللہ تیراندازوں کا افسر اور طلحہ کے ہاتھ میں علم تھا۔
جنگ شروع ہونے سے قبل آپؐ نے ابو دجانہؓ کو اپنی تلوار مرحمت فرمائی لشکر اسلام نے بڑی جرأت کے ساتھ حملہ کیا کفار ان کے حملہ کی تاب نہ لا سکے اور پسپا ہونے لگے۔ حالاںکہ تلواروں کی گھن گرج میں دف بجا کر گانی والیاں کفار کے لشکر کو جوش دلا رہی تھیں، مگر وہ مسلمانوں کا جوش جہاد دیکھ کر پیچھے ہٹتے رہے۔
حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، حضرت شیبہؓ اور حضرت ابودجانہ ؓ دشمنوں کی صف میں گھس کر اسے تہس نہس کرچکے تھے۔ انصاری بھی پیچھے نہ تھے انہوں نے بھی حق رزم ادا کردیا۔ تیرانداز یہ منظر دیکھ کر اپنی جگہ سے ہٹ گئے کیوںکہ وہ یہ سمجھے مسلمان غالب ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب مال غنیمت سمیٹ لیا جائے۔ وہ اس طرف متوجہ ہوئے ہی تھے کہ خالد بن ولید نے دیکھا کہ مسلمان مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو پشت کی جانب سے حملہ کردیا۔ یہ مقامات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس پہاڑی کو جبل رماح کہا جاتا ہے۔ رماح عربی میں تیر کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو کہتے ہیں۔
حجاج اور زائرین کرام ان دونوں مقامات، یعنی جبل احد اور خالد بن ولید نے جس جگہ تیراندازوں پر پشت پر حملہ کیا تھا جبل رماح اور ان دونوں جبال کے درمیان شہدائے احد کے مقبرے ہیں، کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ خالد بن ولید کے اس غیرمتوقع حملہ سے مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی۔ لشکر درہم برہم ہوچکا تھا۔
کچھ کفار آنحضرتؐ کے قریب پہنچ گئے تھے۔ مصعب بن عمیر ؓ نے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شہادت پائی۔ اسی دوران کسی نے آنحضورؐ پر حملہ کردیا آپ کا چہرہ انور لہو لہان ہوچکا تھا۔ دائیں طرف کا نچلا دانت بھی شہید ہو چکا تھا۔ حنظلہ ؓ نے ابوسفیان پر حملہ کیا لیکن شداد بن اسود نے ان پر حملہ کرکے شہید کر دیا۔ جب مشرکین کا کوئی بس نہ چلا تو انہوں نے حضورؐ کی جانب سنگ باری شروع کردی آپؐ گڑھے میں گرتے گرتے بچے۔ حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ نے آگے بڑھ کر آپ کو سنبھالا۔ خود کے حلقے چہرہ انور میں پیوست ہوچکے تھے۔ مالک بن سنانؓ اور ابوعبیدہ بن جراح ؓنے حلقے نکالے اور خون صاف کیا۔کفار مکہ حضورؐ کی جانب بڑھتے چلے آرہے تھے۔
مگر جاں نثاروں نے انہیں روکے رکھا اور جام شہادت نوش کرتے رہے۔ عمارؓ بن یزید اور طلحہؓ بھی اسی جگہ مامور تھے۔ انہوں نے دشمنوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا مگر اسی دوران عمارؓ شہادت پاگئے۔ ابو دجانہ ؓ نے حضور کو مسلسل اپنی اوٹ میں رکھا اور تمام تیر جو حضورؐ پر آرہے تھے اپنے جسم پر کھائے۔ جسم چھلنی ہوچکا تھا آخر آپ نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ عمرو بن قمیہ نے آگے بڑھ کر حضرت عمیرؓ کو شہید کر ڈالا وحشی (بعد میں ایمان لے آئے) جو کہ ایک حبشی غلام تھا۔ اس کے آقا نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر حمزہؓ کو شہید کر دے گا تو آزادی پائے گا اس نے تاک کر ایک تیر حضرت حمزہؓ کی ناف میں مارا آپ جواب دینے ہی والے تھے کہ لڑ کھڑا کر گرے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
نضرؓ بن انس نے ستر زخم کھائے مگر ہمت نہ ہاری عمروبن قیمہ نے اعلان کر دیا تھا کہ حضورؐ کو شہید کردیا گیا ہے مگر اسے دھوکا ہوا تھا وہ حضورؐ نہیں مصعب بن عمیرؓ تھے۔ نضرؓ نے لوگوں میں اتنے زخم کے ساتھ بھی ایک نئی روح پھونکی کہ جو کام ہمیں آپ کی زندگی میں کرنا تھا بعد میں بھی کریں گے۔ چنانچہ مسلم لشکر ایک مرتبہ پھر مجتمع ہوا اور نشۂ شہادت کے متوالے ایک مرتبہ پھر بھڑکتی ہوئی آگ میں کود پڑے۔ کعب بن مالکؓ (مشہور شاعر) نے حضورؐ کو پہچانتے ہوئے کہا مسلمانو! خوش ہوجاؤ حضورؐ زندہ ہیں۔ یہ نعرہ مستانہ سنتے ہی سب آپ کے گرد پروانہ وار جمع ہونا شروع ہوگئے۔
آپ ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ جس میں حضرت عمر فاروقؓ، ابو بکر صدیقؓ، علیؓ، زبیرؓ اور حارث ؓ بن اصمہ تھے پہاڑ کی گھاٹی کی جانب آئے۔ ابوسفیان نے دور سے ان بہت سے لوگوں کو دیکھ کر پکارا کیا تم لوگوں میں محمدؐ، ابوبکر اور عمر، علی وغیرہ موجود ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’انہیں جواب نہ دو‘‘ جب کئی مرتبہ پکار پر جواب نہ ملا تو اس نے خوش ہو کر کہا ’’اے ہبل تیرا نام بلند ہو‘‘ اس وقت آپ نے فرمایا ’’اب جواب دو‘‘ تب حضرت عمرؓ نے بلند آواز سے پکارا’’خدا سب سے بلند اور بزرگ تر ہے یہ تمام تجھے ذلیل کرنے کے لیے زندہ سلامت ہیں۔‘‘
یہ سن کر وہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گیا اور زور سے پکارا ’’لڑائی ختم ہو گئی ہے ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے۔ اے ہبل! تیرا نام بلند ہو اب آئندہ سال پھر تم سے لڑنے کا وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ آنحضرتؐ کے حکم کے بموجب حضرت عمرؓ نے جواب دیا‘‘ہم بالکل تیار ہیں۔‘‘اس کے بعد لشکر کفار نے مکہ کی جانب کوچ کیا اور حضورؐ اپنے بقیہ اصحاب کے ساتھ مدینہ تشریف لے آئے۔ بہ ظاہر یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی، تاہم مسلمانوں کا اس میں جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا۔ جنگ احد میں ہار کی جانب قرآن شریف میں سورہ العمران آیات 173-137میں ذکر ہے۔
The post غزوۂ احد appeared first on ایکسپریس اردو.