( قسط نمبر19)
1970 میں مصر کے جما ل عبدالناصر کے انتقال، 1971 میں پا ک بھارت جنگ، 1973 میں عرب اسرائیل جنگ سے لے کر 1978-79 میں انقلاب ایران تک ایک ایسی دہائی تھی جس میں ترقی پذیر دنیا کے نامور لیڈر یا تو قتل کر دیئے گئے یا پھر اُن کی حکومتوں کا خاتمہ ہو گیا۔
یہ سب کچھ سرد جنگ کی شدت کا کیا دھرا تھا۔ ہمارے خطے میں ستر کی دہائی میں ایک سے زیادہ مرتبہ پاک بھارت جنگ ،سوویت یونین کی جانب سے پا کستان پر براہ راست حملے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کے خطرات منڈلاتے رہے۔ افغانستان میں صورتحال بدل گئی لیکن تاریخی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو اِن سب واقعات میں اہم ترین واقعہ ایران کا انقلاب تھا۔ دنیا کے انقلا بات میں اب تک کا آخری انقلاب 1979 میں انقلابِ ایران ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ ایران کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جا ئے۔ قدیم تہذیبوں کے حوالے سے پوری دنیا میں ایران کا دسواں درجہ ہے۔
یہاں انسانی تہذیب تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار سال قدیم بتائی جا تی ہے۔ فارسی زبان میں تاریخ ادب شاعری اور دیگر علوم کا ذخیرہ یونان اور روم کے علمی ذخائر سے زیادہ قدیم تصور کیا جا تا ہے۔ ایران کی قدیم تاریخ میں زرتشت اور دنیا کا پہلا فاتح ِعالم سائرس اعظم عالمی سطح پر اہمیت کے حاصل ہیں۔
اگرچہ زرتشت کی زندگی کے بارے میں معلومات قدرے مبہم ہیں مگراس کے عہد کے بارے میں مورخین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وہ 628 قبل میسح میں پید ا ہوا اور 551 قبل مسیح میں وفات پائی۔ زرتشت نے ا پنے مذہب میں دو دیوتاوں کا تصور دیا ایک دیوتا ’اہورہ‘ جسے جدید فارسی میں ’مزد‘ کہتے ہیں وہ سچا اور نیکی کا دیوتا ہے اور زرتشت کے مطابق وہ سچائی اور سیدھے راستے پر چلنے والوں کی حوصلہ افزائی کر تا ہے۔ دوسرا دیوتا بدی کا ہے اور،، بد روح انگرہ مینیو ،، ہے جسے جدید فارسی میں ،،اہرمن ،،بھی کہتے ہیں یہ شر جھوٹ اور بدی کا نمائندہ ہے۔
زرتشت کے مطابق دنیا کی زندگی میںہر انسان کے اندر اہورہ مزدہ اور اہرمن کی جنگ جاری رہتی ہے اور ہر انسان اِن دونوں میں سے کسی ایک کی طر فداری کرنے میں آزاد ہے اور اس جنگ کا اختتام اُسی وقت ممکن ہے جب انسان دونوں دیوتاوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ زرتشت کے مطابق آخری فتح اہورہ مزدہ کی ہو گی۔ اس کی تعلیمات میں موت کے بعد زندگی کا تصور مو جود ہے اور وہ اخلاقی طور پر انسانی بھلائی صداقت اور نیک عمل کادرس دیتا ہے۔
اَن کی عبادت گاہوں میں ہمیشہ آگ کا الاؤ جلتا رہتا ہے فارسی اور اردو زبانوں میں ان کو آتش کدہ کہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اپنے مُردوں کو جلاتے یا دفناتے نہیں بلکہ اپنے انہیں خاص میناروں یا بڑے دہانوں کے کنو ؤں کی دیواروں میں بنے تاقچوں میں رکھ دیتے ہیں جہاں اِن لاشوں کا گوشت گدھ کھاجاتے ہیں اور بعد میں ہڈیاں دفن کردی جاتی ہیں۔
زرتشت کے پیرو کاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد بھی کسی کے کا م آنا چاہیے۔ زرتشت نے ایران میں جہاں تبلیغ شروع کی وہ علا قہ چھٹی صدی قبل میسح کے عظیم فاتح سائرس اعظم کی سلطنت میں شامل رہا اور اگلی دو صدیوں میں معتدد ایرانی باد شاہوں نے زرتشت مت کو قبول کیا اور یوں اس مذہب کو بہت فروغ حاصل ہوا مگر جب چوتھی صدی قبل میسح کے آخر میں سکندر اعظم کے حملے اور ایران کی شکست کے سبب زرتشت کا مذہب انحطاط کا شکار ہوا پھر ایرانیوں نے اپنے قتدار اور قوت کو بحال کیا ہیلینانی Hellenistic اثرات کم ہو ئے تو دوبارہ زرتشت مذہب اُبھرا اور پھر ساسانی سلطنت کے دور حکومت 226 ء سے 651 ء زرتشت مت کو خوب عروج نصیب ہوا کہ اس سلطنت نے زرتشت مذہب کو سرکاری مذہب قرار دیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں عرب مسلمانوں نے ایران فتح کر لیا تو آبادی کے بیشتر حصے نے اسلام قبول کر لیا۔ زرتشت کا مذہب آتش پرستوں کا مذہب بھی کہلا تا ہے اور ایران کے پرانے نام فارس کی نسبت سے اِن کو پارسی بھی کہا جا تا ہے۔ چونکہ زرتشت مت کی تعلیمات اپنے زمانے کے اعتبار سے انسانی فکر احساس اور جذبات کو بھی متاثر کرتی تھی یوں اس کے گہر ے اثرات خصوصاً فارسی شعر ادب پر مرتب ہو ئے اور آج تک بھی بہت سی ادبی اصطلاحات ، تلمیات وغیرہ اردو میںبھی استعمال ہو تی ہیں یوں یہ مذہب ایرانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ علاقے کی ثقافت کا حصہ بن گیا۔
جب لوگوں نے اسلام میں نیکی و بدی کے تصور کو اللہ تعالیٰ اور ابلیس کے تناظر میں اور پھر نیک عمل کرنے پر جنت اور بُرے عمال پر دوزخ کے تصور اور پورے اسلامی نظام حیات کو دیکھا تو ایران میں اسلام کی آمد پر بیشتر زرتشت مت کے ماننے والے ایرانیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کا تصور ایران میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے عاشقِ رسول ؐحضرت سلمان فا رسیؓ کے حوالے سے بھی مو جود تھا جو ایران کے ایک زرتشتی عالم کے صاحبزدے تھے۔
انہیں تلاش ِحق کی جستجو ہوئی اور پھر انہوں نے شام کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر عیسائیت کو قبول کر کے بڑے عیسائی راہب کے پاس علم حاصل کرنے پہنچے مگر اُس کے کردار سے بد دل ہو ئے تو اس کا نائب جو سچا عیسائی تھا اُس نے بتایا کہ تمہیں جس کی تلاش ہے اللہ کا وہ نبی ؐدنیا میں آچکا ہے اور پھر نبی کریم ؐ کی تین نشانیاں بتائیں کہ نمبر1 وہ صدقہ قبول نہیں کر تے البتہ حدیہ تحفہ قبول کرلیتے ہیں نمبر 2 اُنؐ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر مہر نبوت ہے اور نمبر3 وہ جہاں آباد ہیں وہاں اُس شہر میں کھجوروں کے گھنے باغا ت ہیں یوں سلمان فارسیؓ شام سے نکلے تو جس قافلے میںشامل ہو ئے اُس قافلہ سالار نے اُنہیں دھوکے سے کسی کو فروخت کر دیا اور وہ اُسے مدنیہ لے آیا جہاں واقعی کھجوروں کے گھنے باغات تھے پھر وہ غلامی سے نجات پا کر نہایت ہی قریبی صحابیؓ ِرسول اور عاشق ِ نبیؐ ہوئے اور حضرت محمد ؐکے خاص مشیر ہوئے۔ غزوہ ِ خندق میں اُنہی کے مشورے پر خندق کھود کر مدینے کی دفاعی جنگ لڑی گئی تھی جس میں کفار مکہ کو پسپائی ہو ئی تھی۔
ایران کے حوالے سے دنیا کے پہلے فاتح سائرس کا نام بھی بہت اہم ہے۔ اس کا عہد 590 قبل مسیح سے 529 قبل مسیح کا تھا۔ سائرس اعظم کا مقامی ایرانی نام ’کورش‘ تھا۔ وہ جنوبی ایران میں پیدا ہوا۔ سائرس اعظم ہی کو عظیم ایرانی سلطنت کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ انسانی تاریخ کی اُن شخصیات میں پہلی شخصیت ہے جنہوں نے پوری دنیا کو فتح کر نے کا خواب دیکھا اور کافی حد تک اپنے خواب کو پورا بھی کیا۔ اس کی سلطنت میں وسیع ایران کے علاوہ عراق،مصر،شام ،مشرق وسطیٰ،فلسطین، لبنان اسرائیل،کویت ،سعودی عرب ،عرب امارات ، اومان، پاکستان افغانستان ،سنٹرل ایشیا کی ریاستوںکے علاوہ مشرق میں بلقان کے علاقے بھی شامل تھے۔ اس کے اور اس کے بعد بھی اس جانشینوں کے زیر اقتدار وسیع و عریض سلنطت میں اُس وقت پانچ کروڑ انسان آباد تھے جو دنیا کی کل آبادی کا 44% تھے۔
سائرس اعظم کو آج یہودی اپنے پیغمبران کے بعد سب سے زیادہ مقدس سمجھتے ہیں اور اُس کا احترام کر تے ہیں۔ 586 قبل مسیح میں بابلیوں نے فلسطین کو فتح کیا تو یہاں نہایت بربریت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے نہ صرف ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا بلکہ یہودی آبادی کے بڑے حصے کو قیدی بنا کر بابل (عراق) لے آئے۔ یہاں یہ یہودی انتہائی ذلت آمیز اور غلامی کی زندگی بسرکر رہے تھے۔
اِن سے پورے شہر میں غلاظت صاف کر نے کا کام لیا جا تا تھا۔ یوں بابل میں اس جلا وطنی کے دورہ میں اُن کی زندگی قدیم ہندوستان کے شودروں سے بھی بد تر تھی۔ جب سائرس اعظم نے بابل کی سلطنت کو فتح کیا تو اُس نے بابل میں جلا وطن اُن تمام یہودیوں کو دو بارہ با عزت طور پر فلسطین میں آباد کیا اور تقریباً تمام مورخین اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ اگر سائرس اعظم پانچویں صدی قبل مسیح میں یہودیوں کو فلسطین میں دوبارہ آباد نہ کرتا تو یہودی بابل ہی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے۔ دنیا فتح کرنے کی کوشش کرنے والی دیگر شخصیات کے برعکس سائرس اعظم کا کمال یہ ہے کہ اُس نے جنگوں میں شہری آبادیوںکا خیال رکھا اور جنگوں میں بھی اُس زمانے میںا نسانیت کا احترام کیا۔
اسی لیے جب 1945 میں اقوام متحدہ کا ادراہ تشکیل پا یا تو سائرس اعظم کو اس موقع پر یاد رکھا گیا۔ ایران میں عرب مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک طویل عرصے یعنی 1501 ء تک یہاں کی آبادی سنی مسلمانوںپر مشتمل تھی۔ 1501 ء سے ایران میں صفوی سلطنت کا آغا ز ہوا تو 16 ویں صدی عیسوی میں ایران میں آبادی کی واضح اکثریت اثنا عشریہ اہل تشیح مسلم ہو چکی تھی۔ صفوی سلطنت 1736 تک رہی اور اپنے عروج پر ایران کی سلطنت مضبوط اور وسیع تھی۔ 1526 ء میں ظہیر الدین بابر نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر کی ماں چنگیز خان کی نسل سے اور باپ امیر تیمور کی نسل سے تھا۔
جب بادشاہ بابر نے سلطنت اپنے بیٹوں میں تقسیم کرنے کی روایت کے خلاف ہمایوں کو اپنا جانشین بنایا جو 1530 میں بابر کی مو ت کے بعد بادشاہ بنا تو بھائیوں کی طرف سے اقتدار کی جنگ اور پھر شیر شاہ سوری کے اقتدار حاصل کر لینے پر ہمایوں 1540 ء میں ایران فرار ہو گیا جہاں صفوی سلطنت کے دوسرے شہنشاہ تاہما سپ اوّل نے ہما یوں کو پناہ دی، یوں ہمایوں اپنے خا ندان کے ساتھ تقریباً پندرہ سال ایران میں رہا۔ مغلیہ دور میں اہم عہدوں پر بھی بہت سی ایرانی شخصیت تعینات رہیں۔ شاہجہان کے دور میں تاج محل جیسی دنیا کی حسین عمارت بنانے والا انجنیئرشیرازی بھی ایرانی تھا۔ جہاں تک ایرانی تہذیب اور ثقافت اور فارسی زبان و ادب کا تعلق ہے تو یہ ا ثرات آ ج بھی برصغیر میں موجود ہیں۔ فارسی زبان صدیوں تک ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کی سر کاری زبان رہی۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایران تاریخی طور پر دنیا کی بڑ ی اور طاقتور سلطنتوں میں شامل رہا ہے اور یہاں مستقل انداز سے بادشاہت 1979 تک ڈھائی ہزار سال تک قائم رہی۔ ایران کے باشاہ نادر شاہ نے1727 میں افغانیوں کو شکست دے کر ایران سے نکال دیا۔
افغانیوں کی شکست دیکھ کر روس نے1732 میںگیلان اور مازئراں کے صوبے ایران کو واپس کردئیے اور اسی طرح ترکی کی عثمانیہ سلطنت نے ہمدان اور لورستان کے ایرانی علاقے ایران کو واپس کرد ئیے لیکن گرجستان اور آرمینیا کے صوبے اپنے پاس رکھے نادر شاہ نے اس صلح نامے کو مسترد کر دیا۔ 1737 میں فیصلہ کُن جنگ میں ترکوں کو شکست دے کر گرجستان اور آرمینیا کے علاقے بھی واپس لے لیئے۔ نادر شاہ نے روس کو دھمکی دی کہ روس باکو اور داغستان کے علاقے ایران کو واپس کر دے ورنہ وہ ترکی کی سلطنت سے مل کر روس سے جنگ کر ئے گا، اس دھمکی پر روس نے باکو اور داغستان کے علاقے ایران کو واپس کر دئیے۔ اپنی باشاہت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد 1738 میں نادر شاہ نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا اور قندھار فتح کر لیا۔
یہاں کے افغانیوں کی بڑی تعداد نے کابل میں پناہ لی جو تب ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر شاہ نے مغلیہ سلطنت کو اِن افغانیوں کی واپسی کے لیے پیغام بھیجا اور جب مقررہ وقت تک جواب نہیں آیا تو کابل پر حملہ کر کے بہت آسانی سے قبضہ کر لیا۔ یوں نادر شاہ افشار کو ہند وستان کی مغلیہ سلطنت کی کمزوری کا پتہ چل گیا اُس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہ محمد شاہ المعروف رنگیلا شاہ کی حکومت تھی جو بہت عیاش اور کمزور بادشاہ تھا۔ اس کی کمزوری کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ کابل سے کرنال 600 میل دور ہے اور دہلی سے کرنال کا فاصلہ صرف 70 میل ہے۔ نادر شاہ اپنی فوج کے ساتھ کابل سے چھ سو میل کا فاصلہ طے کرتا راستے میں پشاور اور لاہور جیسے بڑے شہروں کو فتح کر تا کرنال پہنچا تو کرنال میں مغلیہ فوج تو مو جود تھی مگر توپ خانہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔
یہیں سے رنگیلے شاہ کے حوالے سے ’ہنوز دلی دور است‘ کا تاریخی جملہ مشہور ہوا۔ 1739 میں نادرشاہ نے دہلی فتح کر لیا۔ نادر شاہ نے یہاں دو مہینے قیام کیا اس دوران شہر میں سیر کرنے والے کچھ ایرا نی سپاہیوں پر مقامی نوجوانوں نے حملے کئے تو نادر شاہ نے دلی شہر میں قتل عام کا حکم دیا اور 20000 شہریوں کو قتل کر دیا گیا۔
نادر شاہ نے پہلے ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ جب اُسے ہاتھی سواری کے لیے پیش کیا گیا اور وہ ہاتھی پر سوار ہوا تو اُس نے پو چھا کہ اس کی لگام کہاں ہے۔ بتا یا گیا کہ آپ اس پر سوار ہوں، اس کو مہاوت چلا ئے گا۔ اِس پر نادر شاہ نے کہا کہ اُسے ہاتھی سے فوراً اتار دیا جائے کیو نکہ وہ ایسی سوار ی پر کبھی نہیں بیٹھے گا جس کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ نادر شاہ ہندوستان سے یہ بڑا خزانہ لوٹ کر واپس ہوا تو ایران آنے سے قبل نہ صرف سندھ کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا بلکہ بخارہ اور خیرہ کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ 1747 میں نادر شاہ قتل ہوا۔
ایران کی آخری بادشاہت پہلوی سلطنت تھی جو 1925 سے 1979 تک قائم رہی۔ یہ بادشاہت جنگ عظیم اوّل کے سات سال بعد قائم ہو ئی۔ جنگِ عظیم اوّل کے اختتام سے ایک سال پہلے 1917 میں روس میں لینن اور اسٹالن کے کیمونسٹ انقلاب کے بعد روس جنگ سے باہر آگیا تھا۔ سلطنت عثما نیہ ختم ہو گئی تھی۔ بر طانیہ کی نو آبایات بڑھ گئی تھیں مگر بر طانیہ کے مقا بلے میں امریکہ زیادہ طاقتور ہو گیا تھا۔ ہندستان پر انگر یز پوری طرح قابض تھا اور 1919 میں تیسری اینگلو افغان جنگ میں اگرچہ افغان بادشاہ غازی امان اللہ کامیاب ہو اتھا مگر کچھ عرصے بعد سازش کے تحت اُس کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اب ایران بھی برطانیہ ، امریکہ اور روس کے مقابلے میں بہت کمزور ملک تھا۔ اگر چہ 1906 ایران میں پہلی پارلیمنٹ تشکیل پا ئی مگر جمہوری مزاج نہیں آسکا تھا۔
1909 بادشاہ محمد علی قاجار کو روس کے مقابلے میں شکست ہو ئی۔ روس نے شمالی ایران پر قبضہ کر لیا۔1911 میں روسی فوجوں کے اور قاجار بادشاہت کے خلاف کو چیک خان کی جنگل تحریک شروع ہو ئی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ نے مغربی ایران کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ 1914 سے1920 کے دوران ترکوں نے آرمینیں کا قتل عام کیا بعد ازاں 1921 میںایران میں تاریخ کا بد ترین قحط آیا اور 80 لاکھ سے ایک کروڑ افراد ہلاک ہو گئے۔ اسی سال قاجار سلطنت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ایران کے سابق جنرل رضا شاہ وزیراعظم ہو گئے اورپھر1925 میں رضا شاہ نے اپنی باد شاہت کا اعلان کر دیا۔ ایران اب برائے نام آزاد و خود مختار تھا اورسویت یونین ، بر طانیہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جدید اسلحہ کے ساتھ بڑی فوجی قوت بن چکے تھے۔
ایران یورپ اور ایشیا کے درمیان جغرافیائی اور اسٹرٹیجی کے اعتبار سے اہم ملک ہے۔ 1925 میں سویت یو نین میں اسٹالن بر سر اقتدار آئے۔ 1933 میں جرمنی میں ہٹلر کی نازی حکو مت آگئی۔ 1941 میں جرمنی نے Molotov Ribbentrop Pact معاہد ہ توڑ کر سوویت یونین کے خلاف آپریشن بارباروسہ کے نام سے بڑاحملہ کر دیا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ایران پر پڑا جو دوسری جنگ عظیم میں اپنی غیر جانبداری کا اعلان کر چکا تھا۔
اسی سال کے آخر میں روس اور بر طانیہ ایران میں داخل ہو گئے اور رضا شاہ کو اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے حق میں دستبردار کر دیا اور ایران وہ مرکزی علاقہ بن گیا جہاں سے سوویت یو نین کو جنگ کے دوران امریکہ اور بر طانیہ جرمنی کے خلاف امداد فراہم کر تے رہے۔ 1943 میں جب اتحادیوں کو یقین ہو نے لگاکہ اب وہ یہ جنگ جیت جائیں گے تو اس سے قبل ہی خصوصاً تین بڑی قوتوں امریکہ ،سوویت یونین اوربرطانیہ کے درمیان کچھ عالمی سطح کے امور اور مسائل طے پانے لگے اور اِن امور میں سے ایران بھی بہت اہم تھا کیونکہ اس کی جغرافیائی پوزیشن بھی اہم تھی اور یہ تیل اور دیگر معدنیات سے مالا مال تھا، یوں 1943میں امریکہ کے صدر فرنک ڈی روزولٹ سوویت یونین کے جوزف اسٹالن اور برطانیہ کے وزیراعظم ونیسٹن چرچل کے درمیان تہران کانفرنس ہو ئی اور اس کے اختتام پر اعلانیہ جاری کیا گیا جسے تہران ڈیکلریشن کہا جا تا ہے اس ڈیکلریشن میں یہ طے پا یا کہ ایران کی آزادی و خود مختاری جنگ سے قبل ایران کی سرحدوں کے مطابق ہوگی۔ یعنی امریکی برطانوی ،روسی فوجیں ایران سے نکل جائیں گی۔
سوویت یونین 1917 کے بعد سے اشتراکیت کا پرچار ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں خصوصاً اپنے وسیع رقبے کے ملک روس کے ہمسایوں سے کرتا رہا تھا۔ سنٹرل ایشیا کی ریاستوں پر تو جنگ عظیم اول اور اشتراکی انقلاب سے پہلے ہی روس کا قبضہ ہو چکا تھا اس لیے ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی اشتراکی گروپوں کوسوویت یونین نے ترتیب دیا اور جنگ کے فوراً بعد سوویت یونین کی فوجیں یہاں مو جود رہیں۔ 1946 میں جب سوویت یونین کو تیل کی سپلائی کی یقین دہانی کر دی گئی تو یہاں سے روس نے اپنی فو جیں نکال لیں۔
1941 میں جب محمد رضا شاہ پہلوی کوامریکہ اور بر طانیہ نے اُن کے والد کی جگہ صرف 21 سال کی عمر میں ایران کا بادشاہ بنا دیا تھا تو دوسری جنگ عظیم جاری تھی اور یہ اندیشہ بھی تھا کی کہیں جرمن فوجیں روس پر قبضے کے بعد ایران اور برطانوی ہند پر قبضہ نہ کرلیں اس لیے بر طانیہ نے پاکستانی بلو چستان سے ایرانی بلوچستان کے شہر زہدان تک تقریبا ً 700 کلو میٹر ریلو ے لائن بھی ہنگامی طور پر بچھا دی تھی۔ محمد رضا شاہ پہلوی ایک ایسے بادشاہ تھے جو امریکہ اور بر طانیہ سے ہی احکامات لیتے تھے مگر1946 سے1948 تک دنیا میں حالات کافی تبدیل ہو ئے۔
پاکستان 1947 میں اوراسرائیل 1948 میں قائم ہوا۔ ایران نے اسرائیل کو بعد میں تسلیم کیا۔ ساٹھ کی دہا ئی تک سیٹو سینٹو جسے معاہدوں میں ایران ،ترکی اور پا کستان کے ساتھ شامل ہو کر امریکہ اور برطانیہ کے حق میں اور سوویت یونین کے خلاف سر د جنگ میں فریق رہا۔ اُس زمانے میں ایران میں غربت زیادہ تھی۔ پھر ایران کی قدیم عظمت کے قصے ایرانی بزرگوںکو یاد تھے اور جہاں تک تعلق پہلوی خاندان کا تھا تو جنرل رضا شاہ بھی امریکہ اور بر طانیہ کی وجہ سے اقتدار میں آ ئے تھے اور اِن کے بعد امریکہ اور بر طانیہ کے دباؤ ہی کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے رضا شاہ پہلوی کے حق میں تخت سے دستبردار ہوئے تھے یوں ایرانی اپنے بادشاہ کو آزاد نہیں سمجھتے تھے۔
1949 میں رضاشاہ پہلوی قاتلانہ حملے میں زخمی بھی ہو ئے تھے عوام میں قومی سیاسی اعتبار سے بادشاہت کی مخالفت اب وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آرہی تھی اور شاہ کی مخالفت میںدو نظریاتی گروپ تھے ایک مذہبی اور دوسرا اشتراکی۔ مذہبی گروپ میں جو علما بادشاہ کے حق میں تھے وہ اصل میں امریکہ نواز تھے اور جو بادشاہ کے حق میں نہیں تھے ان کو کو ئی بیرونی سپورٹ حاصل نہیں تھی البتہ اشتراکی گروپ کی جماعت تودہ پارٹی روس نواز تھی اور اس جماعت کو سوویت یونین کی سپورٹ حاصل تھی۔
یوں 1952 میں تود ہ پارٹی انتخابات جیت گئی اورمحمد مصدق پارلیمنٹ سے 12 ووٹوں کے مقابلے میں 79 ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اُنہوں نے زرعی سیاسی ،سماجی صنعتی اصلاحات کیں اور سب سے اہم یہ کہ ایران میں 1913 سے قائم برطانیوی اینگلو پرشین آئل کمپنی جو بعد میں برٹش پٹرولیم کہلائی اسے قومی ملکیت میں لے لیا۔ اب امریکی سی آئی اے اور برطانیوی ایم آئی سکس نے وزیر اعظم محمد مصدق کے خلاف ایرانی فوج کی مدد سے بغاوت کروائی۔ حالات اتنے خراب ہو ئے کہ بادشاہ رضا شاہ پہلوی اٹلی فرار ہو گئے اس موقع پر امریکی صدر آئزن ہاورسے مشورے کے بعد سیکرٹری جان فاسٹر ڈیگلس نے سی آئی اے کو بھر پور کاروائی کرنے کا حکم دیا۔
یوں سی آئی اے کے Donald Wibber ڈو نالڈ ویبرنے فوج کے تعاون اور ایک ملین ڈالر کے جاری شدہ فنڈ کی مدد سے19 اگست 1953 کو وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور22 اگست1953 کو باد شاہ رضاشاہ پہلوی روم سے واپس ایران پہنچ گئے۔ 2017 میں امریکی سی آی اے کے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق ایران میں سی آئی اے کے سربراہ ڈونالڈ ویبر نے باشاہ سے پہلے ہی دو طرح کی دستا ویزات پر دستخط کروا لیے تھے ایک میں ایران کے آئین کی خلاف ورزی کی بنیاد پر وزیراعظم محمد مصدق کی معزولی اور اِ ن کے خلاف مقدمہ قائم کر نا تھا دوسری دستاویزجنرل فضل اللہ زیدی کی بطور وزیراعظم تعینا تی کی تھی۔ بعد میں معزول وزیراعظم محمد مصدق کو سزائے موت کی بجائے تین سال قید ہوئی اور قید کے بعد اُن کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا جہاں اُن کا 1967 میں انتقال ہوا اور انتقال کے بعد اُن کو گھر کے اسی کمرے میں دفن کردیا گیا جہاں اُن کی رہا ئش تھی۔ اب شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی پوری طرح امریکہ اور بر طانیہ کی گرفت میں تھے اور وہ ممنون اور احسا ن مند بھی تھے۔ نئے وزیر اعظم نے فوراً ہی امریکہ اور بر طانیہ کی مراعات بڑھا دیں۔ آئل کمپنی بھی
بحال کردی گئی۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط تک امریکہ کا اثر پورے خطے میں بہت زیادہ تھا اور سی آئی اے کی گرفت بھی بہت مضبوط تھی۔ ایران کو اس زمانے میں خلیج فارس میں امریکہ کا محافظ یا سپاہی کہا جا تا تھا اور شہنشاہ فرینڈ آف امریکہ کہلاتا تھا جب کہ ایرانی خفیہ پو لیس ساواک کی عوام پر دہشت تھی۔
ہر دوسرا شخص یہ سمجھتا کہ اُس سے ملنے والا ملاقات کرنے والا ساواک کارند ہ ہو سکتا ہے۔ ملک میں شراب نوشی اور فحاشی کی ممانعت نہ تھی۔ ترقی کے نام پر خواتین کا پردہ تقریباً ختم کر دیا گیا تھا۔ جب مصدق کے خلاف کاروائی کی گئی اور تودہ پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو ہلاک و زخمی اور گرفتار کیا گیا تو درپردہ ایرانی علما نے شاہ کے خلاف تحریک جاری رکھی اور چند سال بعد آیت اللہ روح اللہ امام خمینی ایرانی سیاست کے افق پر ایک عظیم مذہبی رہنما کی حیثیت سے اُبھرے۔ آپ کا خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے ایران آ یا تھا۔ان کی نسبت سید علی ہمدانی سے ہے۔ آپ 24 دسمبر1902 خمین ایران میں پیدا ہوئے۔
ساٹھ کی دہائی میں شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ امریکہ کے ربر اسٹمپ بن چکے تھے۔ 28 اکتوبر 1964 کو شاہ ایران کی حکومت نے ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت امریکی فوجی مشن کے افراد کو سفارتکاروں کے ہم پلہ حقوق دے دیے گئے جو ویانا کنونشن کے تحت سفارتکاروں کو حاصل ہو تے ہیں۔ یعنی اب امریکی فوجی ایران میں جو چاہیں کر لیں اِن پر ایران کا کوئی قانون لا گو نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے دوسرے روز 29 اکتو بر1964 امام خمینی نے قم کے مدرسے میں وہ شہرہ آفاق تقریر کی جو پھر ایران کے انقلاب کا سنگ ِمیل ثابت ہوئی۔
انہوں نے کہا ’’میرا دل درد سے بیٹھ رہا ہے۔ میں اس قدر دل گرفتہ ہوںکہ موت کے دن گن رہا ہوں۔اس شخص ( اشارہ شاہ کی طرف) نے ہمیں بیچ ڈالا ہے۔ ہماری عزت اور ایران کی عظمت خاک میں ملا دی ہے ،اہل ایران کا درجہ امریکی کُتے سے بھی کم کر دیا گیا ہے۔
اگر شاہ ِایران کی گاڑی امریکی کتے سے ٹکرا جائے تو شاہ کو تفتیش کا سامنا ہو گا لیکن اگر کوئی امریکی خانساماں شاہ ایران یا کسی اعلیٰ ترین ایرانی عہد یدار کو اپنی گاڑی سے روند ڈالے تو ہم بے بس ہو نگے آخر کیوں ؟ ان کو امریکی قرضوں کی ضرورت ہے۔ اے نجف اور شیراز کے لو گو! میں تمیں خبر دار کر تا ہوں یہ غلامی مت قبول کر و۔کیا تم چپ رہو گے ؟ کیا ہمارا سودا کر دیا جائے اور ہم زبان نہ کھو لیں؟‘‘ اس کے فوراً بعد امام خمینی کو گر فتار کر کے ترکی جلا وطن کر دیا گیا 4 اکتوبر 1965 کو وہ نجف عراق آ گئے۔ اُن کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا۔
1967 میں وہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ مہم میں یاسر عرفات سے ملے۔ پھر عراق میں حالات اُن کے بہت زیادہ خلاف ہو گئے تو 6 اکتو بر1978 کو وہ فرانس چلے گئے اوراس دوران شاہ کے خلاف اُن کی تحریک شعلے سے آتش فشاں بن گئی۔17 جنوری 1979 کو شاہ ایران امریکہ چلے گئے اور فروری 1979 میں وہ ایران کے مقبول ترین انقلابی رہنما کی حیثیت سے وطن واپس آگئے جہاں لاکھوں ایرانیوں نے والہانہ اور پُر جوش انداز میں اُن کا ستقبال کیا۔ (جاری ہے)
The post سرد جنگ کی شدت نے انقلاب ایران کی راہ ہموار کی appeared first on ایکسپریس اردو.