Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

لاک ڈاؤن، ایس او پِیز اور بے خبر صحافی

$
0
0

 زباں فہمی نمبر 54

خاکسار نے اپنی تحریروتقریر میں یہ بات بارہا کہی کہ ’تعلیم عام ہوگئی، علم اُٹھ گیا۔‘ اس کی وضاحت یا تشریح میں صفحہ قرطاس سیاہ کیا جاسکتا ہے، مگر اختصار وجامعیت کا احساس دامن گیر ہے۔ مسلم اُمّہ کے عہدِزوال میں جنم لینے والا یہ المیہ بہت دل گرفتہ ہے کہ جب ہم نے دین کو فقط ایک مختصر، محدود اور ناقص مضمون کی شکل میں نصاب تک محدود کردیا اور فرنگی عہد استعمار میں مغربی تعلیم کے حصول کی محدود سعی ہی ہماری معاشی و معاشرتی ترقی کا پیمانہ قرار پائی تو نوبت بہ این جا رسید کہ کہاں تو ہمارا ایک سترہ سالہ شخص، بہ یک وقت عابدوزاہد، مجاہد، تقریباً تمام دینی و دُنیوی علوم وفنون کا ماہر ہوا کرتا تھا (دُنیاوی غلط ہے، بحوالہ لغات ِکشوری) اور کہاں آج، ہمارا نوجوان کیا، بزرگ کیا، اپنے مضمون ہی پر عبور کا حامل نہیں ہوتا، باقی باتیں تو اضافی ٹھہریں۔

ہم پاکستانی اگر (قومیت کی کسی بھی تعریف کی رُو سے) کوئی قوم ہیں تو ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اکثر اپنی مشترکہ خرابیوں اور خامیوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان عام خرابیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ بلاامتیاز ِ طبقہ وشعبہ، لاعلمی اور کم علمی کو یا تو سِرے سے کوئی خامی نہیں سمجھا جاتا، یا اس کے تدارک کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی جاتی، یا اس پر اکتفا کرتے ہوئے بعض افراد اسے بھی باعث ِ فخر سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک زیادہ پڑھنا اور زیادہ جاننا انسان کی ذہنی صحت کے لیے مُضِرّ ہے۔ خاکسار کو مختلف شعبوں میں کام کرنے اور بھانت بھانت کے لوگوں سے ملنے اور اُن کی ’’شخصیت خوانی‘‘ یعنی مزاج سمجھنے کا بارہا موقع ملا۔ ایک سربرآوُردہ طبقہ وہ ہے جو یہ سمجھ کر ہی کسی سے مخاطب ہوتا ہے کہ مقابل کو کچھ نہیں پتا، ہمیں دین و دنیا کا سب علم حاصل ہوچکا ہے۔

اُن کا سلوک اکثر توہین آمیز اور تحقیرآمیز ہوتا ہے۔ بقول ِشاعر ع رُوئے سخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ………..اُن کا نام بتانے کی ضرورت نہیں، آپ کو انٹرنیٹ پر ہمہ وقت، بے تحاشا مواد اُنھی سے متعلق مل جاتا ہے۔ ہم اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑتے ہیں اور براہ راست بات کرتے ہیں اہلِ صحافت کی جو ہمارے ہم پیشہ تو ہیں، ہم مزاج یا ہم ذوق نہیں۔

ان دنوں ہم ایک مصنوعی وباء کرونا کے خوف میں مبتلا ہیں (بی بی سی، سی این این، انڈس ٹی وی اور پی ٹی وی ورلڈ سمیت تمام انگریزی چینلز، اصل ہجوں کے ساتھ ’کو۔رو۔نا‘ نہیں کہہ رہے تو ہمیں بھی چنداں ضرورت نہیں)۔ (مصنوعی اس لیے کہ اب تک کی تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ کوئی قدرتی وباء یا آسمانی آفت نہیں)۔ صحافیوں میں گزشتہ دو عشروں سے ایک بہت بڑی کھیپ کا اضافہ ہوا ہے جو یا تو پہلے کسی اخبار سے منسلک تھے اور اخبار کے مالک/مالکان نے اپنے نیوز ٹی وی چینل کا آغاز کیا تو اُنھیں بھی بھرتی کرلیا۔ یا وہ کچھ اور کام کرتے تھے، کسی سے واقفیت کے طفیل، اُس کی سفارش پر کسی نئے ٹی وی چینل میں بڑے منصب پر براہ راست فائز ہوگئے اور پھر تو بس چل سو چل۔ یہاں کئی ایک محاورے بھی یاد آرہے ہیں۔

آپ جو چاہیں موزوں سمجھ لیں۔ مثلاً: جب اللہ مہربان تو گدھا پہلوان۔ ایسے حضرات (بشمول خواتین، کیونکہ بقول جناب یوسف جمال وہ بھی تو، حضرت کی جمع کے طور پر، اسی زُمرے میں آتی ہیں) نے جہاں دنیا کو بالعموم اور پاکستان کو علی الخصوص اپنے ناقص علم سے ’’بری طرح‘‘ متأثر کیا ہے، وہیں اردو زبان کے ساتھ بھی سوتیلی ماں کا سلوک کیا ہے۔ یہ کام انھوں نے کسی باقاعدہ پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے کیا ہے، جبکہ دوسری طرف ایک بڑی قطار خبرخواں (News reader/News caster)اور خبررساں(News reporter)افراد کی ہے جو کسی باقاعدہ تعلیم وتربیت کے بغیر، اکثر محض اس بنیاد پر، بھرتی ہوگئے کہ فُلاں شہر، قصبے اور گاؤں میں اس سے سستا کوئی میسر نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ٹیلی وژن پر خبریں سنیں/دیکھیں تو اکثر دل دماغ پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سادہ زبان میں کہیں تو ’دماغ پر ہتوڑے برستے ہیں۔‘ خاکسار کا دیرینہ تعلق ٹی وی اور ریڈیو سے ہے، {پاکستان ٹیلی وژن سے یکم جنوری 1993ء سے بطور ‘A’کیٹیگری مصنف و محقق اور ریڈیو پاکستان سے بطور ‘AA’کیٹیگری براڈکاسٹر وابستہ}، شعروادب پہچان ہے{امریکا اور برطانیہ سے شایع ہونے والے چار عظیم وضخیم انگریزی عالمی انتخاباتِ شعری میں شامل واحد اردو شاعر}، اور ابتدائے کار (1985ء ) سے آزادہ رَو (Freelance) صحافی رہا، پھر پاکستان کی اولین آن لائن نیوز ایجنسی میں (2014ء سے) بطور مدیرِاعلیٰ خدمات انجام دیں تو عامل /پیشہ ور(Professional) صحافیوں کی صف میں بھی شامل ہوگیا۔

یہ وضاحت اُن لوگو ں کے لیے ہے جو اِس تحریر پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالیں تو یہ نہ کہہ سکیں کہ لو! انھیں بھی اس موضوع پر بولنے کا شوق ہوا……انھیں کیا پتا، صحافت، وہ بھی ٹی وی کی صحافت کا۔ آمدم برسرِمطلب! پہلے ہم نے ٹی وی کی بات کی، اب ساتھ ساتھ یہ بھی طے کرلیں کہ عموماً زبان وبیان کی اغلاط، اخبارات میں بھی وہی دیکھنے میں آرہی ہیں جو ٹیلی وژن کی خبروں اور پروگراموں کی دین ہیں۔

یہاں ذرا دَم لیں تو عرض کرتا چلوں کہ اس ضمن میں بھیڑچال اس قدر بڑھ گئی ہے کہ زبان وبیان کے علم اور شعور سے عاری، اکثر نیم خواندہ، متعدد غیراہل زبان مصنفین کی ایک اچھی خاصی تعداد کا کام ڈراموں کی شکل میں ٹیلی وژن کے پردہ نیرنگ پر موجود ہے جنھیں حالات و واقعات نے کسی ’سیڑھی‘ کی مدد سے پہلے مصنف اور پھر عظیم مصنف بنادیا۔

ان کے مہربانوں میں ایسے ’’مہان‘‘۔ یا۔ ’’مہا پُرش‘‘ ہدایت کار/پیش کار (یعنیProducer ) شامل ہیں جنھیں انگریزی کُجا، اردو میں لکھا ہوا مسودہ بھی پڑھنا محال ہے، مگر جب کام شروع کردیا تو وقت کے ساتھ ساتھ انھیں بھی ’عظیم‘ سمجھا جانے لگا۔ ایسے لوگوں نے بھی زبان کا ’حسب ِاستعداد‘ (حسب ِ توفیق کہنا مناسب نہیں) بیڑا غرق کیا ہے۔ آئیے اس موضوع کو خاص خاص ذیلی عنوانات کے تحت تقسیم کرتے ہوئے اپنا مدعا سب کے لیے واضح کریں۔

غلط تلفظ: سب سے بڑا مسئلہ صحافیوں (اور جعلی ادیبوں) کے تلفظ کا ہے۔ اس ضمن میں عموماً یہ سمجھا جاتا ہے اور غلط سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ایسے افراد کا انگریزی ذریعہ تعلیم سے اکتساب کرنا ہے۔ یہ ہیچ مدآں (یہ ’’مَد‘‘ استعمال کرنا تلفظ کی وضاحت کے لیے ضروری ہے)، شعبہ تدریس سے وابستگی کے سبب، اپنے تجربات ومشاہدات کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ اس ضمن میں اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کے فیض یافتہ افراد، بالکل ایک جیسے ہیں۔ مؤخرالذکر کی انگریزی بھی ایسی ہوتی ہے کہ انگریز شرما جائے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اخبارات، ٹی وی چینلز، ریڈیو (خصوصاً ایف ایم چینلز) اور جامعات کے شعبہ صحافت (جدید نام شعبہ ابلاغ ِعامّہ) کے طلبہ و اساتذہ، نیز اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ واساتذہ کو ماہرین لسان (نہ کہ لسانیات) کے زیرنگرانی کورس کرایا جائے۔

اس بابت اِس راقم نے اپنی سی کوشش کا پہلا پتھر رکھتے ہوئے واٹس ایپ بزم بعنوان زباں فہمی میں تحریک کا آغاز کیا جس کے نتائج خوش گوار موصول ہوئے، مگر احباب کی توجہ اُس درجے نہیں رہی جو ہمیں مطلوب تھی اور ہے۔ بہرحال یہی کام دیگر واٹس ایپ بزم اور فیس بک سے جُڑے ہوئے بعض حضرات کررہے ہیں اور کچھ واقعی اچھا کررہے ہیں۔ یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ سکھانے کے لیے سیکھنا اولین شرط ہے۔ کچاپکا علم فائدے سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔

اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اپنے چہیتے، بہ زَعمِ خویش عظیم میزبانوں (Anchors) کودیے جانے والے معاوضوں میں فوری طور پر کچھ تخفیف کرکے، معقول رقم اس مقصد کے مَختص کریں۔ وہ ایک قدم بڑھائیں، ہم چار قدم بڑھا کر اُن کا مشن اپنا لیں گے اور محض چند ہفتوں میں نمایاں تبدیلی (حقیقی) آئے گی۔ وہ یقین کریں کہ اِس اِقدام سے اُن کے ٹی وی چینل /اخبار کی ساکھ بہتر اور بفضلہ تعالیٰ بہترین ہوگی کہ اس چینل /اخبار میں پیش ہونے والی/ شایع ہونے والی خبر، زبان وبیان کے اصولوں کے مطابق، مستند ہے اور دیگر کے لیے لائق تقلید۔ سارا مسئلہ Ratingکا ہی ہے تو آئیے پاکستان ٹیلی وژن کا تجربہ کار مصنف و محقق (نیز نجی چینل کا کوئز ماسٹر یعنی میزبان) آپ سے کھُل کر بات کرنے کو تیار ہے، اپنے ماہر اور اہل ذوق ساتھیوں کی مختصر جماعت کے ہمراہ۔

غلط/بھونڈا ترجمہ: یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے فوری توجہ اور عملی اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ یاد رکھیں برصغیر پاک وہند کے عظیم صحافیوں کی اکثریت نے صحافت کی مخصوص تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر، متنوع و مختلف الجہات معلومات کی بدولت ایسا کام کرگئے کہ آج بھی معیار اور سند ہے۔ خاکسار نے آج کے Position  holder صحافی کا معیار بھی دیکھ رکھا ہے۔ اس لیے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے اور اپنی معلومات کا لوہا منوانے کے لیے غیررسمی، ہمہ جہتی تعلیم وتربیت کی اہمیت کبھی نظرانداز نہ کریں۔ یہی پیغام اساتذہ کے لیے بھی ہے۔ جب ماضی میں کم پڑھے لکھے صحافی انگریزی سے عمدہ ترجمہ کرسکتے تھے تو آج ذرائع معلومات کی وافر دستیابی کے ماحول میں ایسا کرنا کیوں ممکن نہیں۔ اگر آپ اپنی ترجمہ کاری کی صلاحیت بہتر کریں، تو بہتر خبر لکھنا، ترتیب و تدوین کرنا اور پیش کرنا ممکن ہوگا۔

انگریزی کا بے جا اور غلط استعمال: جہاں جہاں اردو مترادفات موجود ہیں اور عام فہم بھی ہیں، انھیں کسی بھی سبب ترک کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس ضمن میں ہم سبھی خطاکار اور مجرم ہیں۔ ہمارے اکثر گھروں میں امی، ابو کی جگہ ماما، پاپا نے لے لی ہے، دادا، دادی کی جگہ گرینڈپا، گرینڈما (علیٰ ہٰذاالقیاس)، باورچی خانے کی جگہ کچن، بیت الخلاء کی جگہ ٹوائلٹ، غسل خانے کی جگہ باتھ روم، خواب گاہ کی جگہ بیڈ روم، بستر کی جگہ بیڈ (Very bad!)، کرسی کی جگہ چیئر، میز کی جگہ ٹیبل، ہاتھ دھولو کی بجائے ہینڈ واش کرو، پڑھو کی جگہ رِیڈ کرو اور اسی قسم کی بھونڈی، مخلوط اور ناروا زبان نے لے لی ہے۔

صحافت، تعلیم وتدریس، شعروادب اور نشریات سمیت تمام شعبوں میں انفرادی و اجتماعی مساعی درکار ہیں۔ جہاں اشدّ ضرورت محسوس ہو اور کہیں سے رہنمائی نہ ملے تو انگریزی یا کسی دوسری غیرملکی زبان کے الفاظ واصطلاحات برتنا ہرگز ناموزوں یا باعثِ تنقیص نہیں! ناقص اور فضول برجستہ گفتگو: صحافت سمیت تمام شعبوں میں نمایاں ہونے والا، یہ مسئلہ بھی ہر خاص وعام کی توجہ چاہتا ہے۔ زیادہ بولنا اور غلط سلط بولنا کسی بھی معاشرے میں، کسی بھی زبان کے بولنے والوں میں کوئی معیارِفضیلت نہیں۔ اپنی اصلاح کے لیے اہل علم اور بزرگوں سے رجوع کرتے رہنا چاہیے۔ اس موضوع پر مزید اظہار خیال کے لیے بشرط زیست آیندہ خامہ فرسائی کروں گا۔

فی الحال ایک نمونہ (بطور آئینہ) اسی کالم میں شامل ہے جس سے اچھی خاصی اصلاح احوال ممکن ہے۔

لاک ڈاؤن کی جگہ بَندشِ عامّہ

ایس او پیز (جبکہ پری کاشنز یا پری کاشنری میژرز درست تھا) کی جگہ احتیاطی تدابیر

آئسولیشن کی جگہ خلوت یا تنہائی یا محدودی

ہراسگی اور ہراسانی دونوں غلط، کیونکہ درست ہے: ہراس

استحصال نہیں استیصال

مُتوَقعا نہیں مُتَوقِع

مُتَوجا نہیں متوجِہ

اقدام اٹھانا نہیں اقدام کرنا یا قدم اٹھانا

عام عوام نہیں عوام النّاس (لام ساکن۔ عوامُن ناس)

اعلیٰ عدلیہ نہیں عدالت ِعالیہ /عظمیٰ

The post لاک ڈاؤن، ایس او پِیز اور بے خبر صحافی appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles