ہم زندگی میں پہلی بار ماسک لگارہے ہیں یا یوں کہیے کہ ماسک کو منہ لگا رہے ہیں۔ ویسے تو ہماری حرکتیں ہمیشہ سے منہ چھپانے والی رہی ہیں مگر پردہ رکھنے والا پردہ رکھتا رہا اس لیے کبھی منہ چھپانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اپنی پی ٹی آئیٍ….ارے معاف کیجیے گا غلط لکھ گئے…اپنی ڈھٹائی کے باعث ہم نے کبھی ’’کس منہ سے جاؤ گے‘‘ یا ’’کیا منہ لے کر جاؤ گے‘‘ جیسے مسائل کی پروا نہیں کی جہاں بھی گئے یہی منہ ساتھ لے گئے۔ ویسے دوسرا منہ لاتے بھی کہاں سے، یوں بھی اب تک تو یہ منہ سلامت ہے ’’اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔‘‘ جب سے ماسک لگایا اور منہ چھپایا ہے بہت سی حقیقتیں بے نقاب ہوکر سامنے آگئی ہیں۔
پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی سانس اپنے منہ میں لوٹ کر آتی ہے تو ’’سانسوں کا ملنا‘‘ اور ’’سانسوں کا ٹکرانا‘‘ جیسے سارے رومانوی تصورات فضول لگنے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی ساس کی طرح اپنی سانس برداشت کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ ڈکار کی منہ میں واپسی اس سے بھی کہیں زیادہ اذیت ناک تجربہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ معافی، معذرت اور موقف میں تبدیلی کی صورت میں اپنے ڈکار سے زیادہ بدبودار الفاظ واپس لیتے ہیں ان پر کیا گزرتی ہوگی!
ماسک لگانے سے یہ تجربہ بھی ہوا کہ سارے فساد کی جڑ دہانے کا وہ حصہ ہے جس میں ہونٹ دانت اور زبان پائے جاتے ہیں۔ اکثر جھگڑے خاص طور پر خاندانی تنازعات کسی کے آنے، کچھ فرمانے یا کوئی اعتراض اٹھانے پر منہ بنانے سے شروع ہوتے ہیں یا کسی کی بات یا ذات پر دانت نکال دینے سے جنم لیتے ہیں۔
ماسک لگے منہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے جذبات احساسات اور خیالات کا پتا نہیں چلتا۔ کوئی پوری سنجیدگی سے کلن نائی، ببن قصائی اور شبن پنواڑی کے تجزیوں کی بنیاد پر سیاست پر موشگافیاں کررہا ہو، نماز پڑھو ’’قبل اس سے پہلے کہ‘‘ تمھاری نماز پڑھی جائے کی نثری نصیحت علامہ اقبال کا شعر قرار دے کر سنائے یا تاریخ بیان کرتے ہوئے جرمنی کی سرحد جاپان سے جا ملائے، آپ پسِ نقاب مسکرائیں یا پوری بتیسی نکال لیں، اسے خبر نہیں ہوگی کہ آپ اس کی دانائی سے بھری گفتگو پر دانت نکالے ہوئے ہیں۔ بس اثبات میں سر ہلاتے رہیں۔ یوں وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کے شرکاء اور وزیراعظم سے بالمشافہ ملاقات کرنے والوں کے لیے ماسک جراثیم ہی نہیں برہمی سے بچاؤ کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے، گویا ’’چہرہ چھپا لیا ہے کسی نے نقاب میں….ورنہ تو مسکرا کے وہ آتا عتاب میں۔‘‘
اس کے ساتھ ماسک بیگم کی تعریف کرتے ہوئے لبوں پر ہنسی روک کر آنے والی مسکراہٹ، شاپنگ کی فرمائش پر دانت بھینچ کر ابھرنے والی جھنجھلاہٹ، باس کی بکواس پر زیرلب گالیوں کی بھنبھناہٹ، کسی خطا پر چہرہ فق کرتی گھبراہٹ، کوئی پری چہرہ بیوی کے سامنے دیکھ کر ہونٹوں پر نغمے کی گنگناہٹ اور کسی بے زار کردینے والے کی طویل صحبت میں زور کی جَھلاہٹ کا پردہ رکھ لیتا ہے۔
ہماری عمر کے لوگوں کے لیے ماسک لگاکر راستے پر چلتے ہوئے اور لب سڑک سواری کا انتظار کرتے ہوئے گانا گنگنانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ایسے لمحات میں ہم تو دل بھر کے ’’مُنّی بدنام ہوئی‘‘،’’کجرارے کجرارے تورے کارے کارے نیناں‘‘ اور ’’نہ لحاف نہ غلاف ٹھنڈی ہوا بھی خلاف سُسری‘‘ جھوم جھوم کر گاتے ہیں مگر آنکھوں میں وہ غضب کی متانت ہوتی ہے کہ اگر کوئی بہ مشکل ماسک کے پچھے ہونٹوں کی جنبش کا اندازہ لگا بھی لے تو سمجھے گا ہم کوئی وظیفہ پڑھ رہے یا ’’سب مسلماں ایک ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ قسم کی کوئی قوالی گاکر اپنا ایمان بڑھا رہے ہیں۔
ویسے ماسک کے پیچھے ہم اکثر ذہنی آزمائش کے لیے پوچھے گئے سوال پر مبنی وہ مشہور گانا گا رہے ہوتے ہیں جس میں ایک ملبوس کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ بھیا بتاؤ تو اس کے پیچھے کیا ہے؟ پھر حکومتوں کی طرح آدھا سچ بولتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پیچھے دل ہے۔ مگر ایسے گانوں کا گانا ہی ٹھیک ہے ان کا ذکر تحریر میں آنا مناسب نہیں۔
ماسک کے اتنے فوائد جاننے اور ان سے مستفید ہونے کے بعد ہم نے تو فیصلہ کرلیا ہے کہ وبا رہے یا جائے اپنے رخ روشن سے اب ماسک ہٹایا نہ جائے گا۔ ہمارے اس فیصلے پر کسی کو اعتراض ہو تو ہوا کرے ’’میرا منہ میری مرضی‘‘ ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ ماسک میں بندھنا کھلے منہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادی عطا کرتا ہے۔
The post ماسک لگاکر جو حقیقتیں ہوئیں بے نقاب appeared first on ایکسپریس اردو.