امریکا اور سعودی عربیہ کا تاریخی اتحاد اب کم زور پڑتا نظر آ رہا ہے اس اتحاد کا آغاز 1945 میں اس وقت ہوا جب امریکی صدر Franklin D. Roosevelt اور سعودی فرمارواں شاہ عبدلعزیز کے درمیان ایک ملاقات ہوئی جس میں معاہدہ ہوا کہ سعودی عربیہ امریکا کی تیل کی ضروریات پوری کرے گا اور اس کے بدلے میں امریکا شاہی خاندان کے اقتدار کی ضمانت دے گا۔
اس اتحاد کو مزید مضبوط 1974 کی ڈیل نے کیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ سعودی عرب اپنا تیل صرف ڈالر میں فروخت کرے گا لیکن 2011 سے امریکا میں آنے والے تیل کے انقلاب نے صورت حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ امریکا جو کے تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ تھا اب تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن چکا ہے امریکا اب سعودی عرب سے زیادہ تیل فروخت کرتا ہے اور اب تیل کی مارکیٹ میں امریکا اور سعودی عربیہ حلیف نہیں بلکہ حریف بن چکے ہیں موجودہ تیل کی جنگ جو کہ بظاہر تو سعودی اور روسی اختلاف کی وجہ سے سامنے آئی لیکن اس نے سب سے زیادہ نقصان امریکی shale oil کی صنعت کو پہنچایا آیے موجودہ تیل کی جنگ کا معائنہ کرتے ہیں 8 مارچ 2020 کو سعودی عرب اور روس کے درمیان ایک کانفرنس میں تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے پر اتفاق نہیں ہو پاتا اور ایک تنازعہ اٹھتا ہے۔
یہ کانفرنس کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد تیل کے استعمال میں کمی کے پیش نظر تیل کی پیداوار میں کمی کے لیے بلائی گی سعودی عرب روس سے تیل کی پیدا وار میں 1.5 ملین بیرل یومیہ کمی کا کہتا ہے اور ساتھ ہی 2016 میں اتفاق شدہ 2 ملین بیرل یومیہ کمی کو جاری رکھنے کی درخواست کرتا ہے تاکہ تیل کی گرتی ہوئی قیمت کو سہارا دیا جا سکے لیکن روس تیل کی پیداوار میں کمی کی سعودی تجویز سے رضامندی ظاہر نہیں کرتا جس کے جواب میں سعودی عرب تیل کی پیداوار مزید بڑھا دیتا ہے، تیل کی قیمت تیزی سے نیچے گرتی ہے۔
سعودی عرب کا بظاہر مقصد روس کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانا تھا لیکن پس پردہ مقصد اپنے مارکیٹ شیر میں اضافہ بھی تھا لیکن روس نے تیل کی پیداوار میں کمی سے انکار کیوں کیا؟ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے: ولادیمیر پیوٹن 20 سال سے روس کی قیادت کر رہے ہیں وہ چار بار روس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں جس طرح چین کے صدر نے 2018 میں آئین میں تبدیلی کروا کر خود کو تاحیات صدر منتخب کروا لیا تھا بالکل اسی طرح ولادیمیر پیوٹن بھی جب چاہیں اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے آئین میں ترمیم کر لیتے ہیں روس میں الیکشن برائے نام ہوتے ہیں۔
2018 میں ہونے والے الیکشن کے دوران ان کے ایک مخالف کو قتل کردیا گیا تھا جب کہ ایک مخالف کو الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا، لیکن عوام کے ایک بڑے طبقے میں پٹن ایک مقبول لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ مغرب کی طرف ان کا جارحانہ رویہ ہے جو کہ سرد جنگ کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ چاہے وہ 2016 کے امریکی الیکشن میں روس کی مداخلت ہو یا شام میں بشارالاسد کی حمایت ہو پٹن ہر موقع پر مغرب کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔
روس امریکا میں تیل کی بڑھتی ہوئی پیداوار سے خائف ہے اور سمجھتا ہے کہ تیل کی پیداوار میں کمی سے جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو اس کا فائدہ امریکی shale oil کی صنعت کو ہوتا ہے امریکا دیکھتے ہی دیکھتے روس اور سعودی عرب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کا سب سے تیل پیدا کرنے والا ملک بن گیا ہے روس کا ماننا ہے کہ امریکا نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے مالی پابندیوں کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا امریکن منڈی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے، لہٰذا اگر امریکا کسی بھی کمپنی کو کسے بھی ملک کے ساتھ کاروبار ختم کرنے کا کہے تو اس کمپنی کے پاس امریکا کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ایسی ہی ایک کمپنی Swift ہے جو کہ بیلجیئم کی کمپنی ہے وہ صرف بینکوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔
یہ دنیا کے 11 ہزار بینکوں کو آپس میں ملاتی ہے اور روزانہ 2.5 کروڑ پیغام ایک بینک سے دوسرے بینک تک پہنچاتی ہے۔ اس کے بنا دنیا کا کوئی بینک نہ تو کسی دوسرے بینک کو پیسے بھجوا سکتا ہے اور نہ ہی وصول کرسکتا ہے اور بدقسمتی سے یہ واحد کمپنی ہے جو دنیا کے تمام بینکوں کو آپس میں ملانے کا کام کرتی ہے دنیا میں نہ تو کوئی اور ایسی کمپنی ہے جو ایشیا کے بینکوں کو آپس میں ملائے اور نہ ہی کوئی اور ایسی کمپنی ہے جو ایشیا اور یورپ کے بینکوں کو آپس میں ملائے، بلکہ یہ واحد کمپنی ہے جو ایشیا، یورپ، امریکا اور آسٹریلیا کے بینکوں کو آپس میں ملاتی ہے اور دنیا کی ہر کمپنی کی طرح جب امریکا اس کمپنی کو کسی بھی ملک سے رابطہ ختم کرنے کا کہتا ہے تو اس کمپنی کو ماننا پڑتا ہے، لہٰذا اس کمپنی کو کہہ کر امریکا نے ایران کا پوری دنیا سے رابطہ ختم کروا دیا لہٰذا موجودہ دور میں امریکا کا سب سے بڑا ہتھیار معاشی پابندیاں ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا لیکن امریکی معاشی پابندیاں طاقت کا بے دریغ استعمال ہیں لیکن دنیا فی الوقت انھیں ہتھیار ماننے پر راضی نہیں۔ امریکا نے روس ایران اور ونیزویلا پر معاشی پابندیاں لگا کار انھیں تیل پیدا کرنے سے روک رکھا ہے۔ امریکا کی تیل کی پیداوار کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے 13 ملین بیرل یومیہ تھی، لیکن اس میں سے 7 ملین بیرل یومیہ شیل آئل ہے شیل آئل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ فی بیرل شیل آئل کی پیداواری لاگت 30 سے 50 ڈالر کے کے لگ بھگ ہے جب کہ سعودی عرب کی فی بیرل پیداواری لاگت 7 سے 10 ڈالر فی بیرل ہے جب کہ روس کی فی بیرل پیداواری لاگت 15 سے 20 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 30 ڈالر فی بیرل پر بھی روس اور سعودی عرب منافع کما سکتے ہیں لیکن امریکی تیل کی کمپنییاں دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں، لیکن امریکی معیشت تیل کی صنعت کے سہارے نہیں کھڑی جب کہ روس اور سعودی عرب کی معیشت تیل کے سہارے کھڑی ہے۔ روس کو اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے تیل کی کم سے کم قیمت 42 ڈالر فی بیرل چاہیے جب کہ سعودی عرب کا حال اس سے بھی برا ہے۔
سعودی عرب کی حکومت کو اپنے بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے تیل کی کم سے کم قیمت 82 ڈالر فی بیرل چاہیے کیوں کہ سعودی عرب کے پاس 496 ارب ڈالر اور روس کے پاس 440 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں، لہٰذا وقتی طور پر دونوں ملک اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن تقریباً ایک ماہ بعد ہی دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پرا اور تیل کی پیداوار کم کرنے کا معاہدہ کرنا پڑا۔ اوپیک کے اجلاس میں دونوں ملکوں نے پیداوار میں 10 ملین بیرل یومیہ کمی کی اعلان کیا معاہدے کے مطابق ہر ملک تیل کی پیداوار کو 23 فی صد کم کرے گا روس اور سعودی عرب دونوں 2.5 ملین بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کم کریں گے، جب کہ عراق 1 ملین بریل یومیہ تیل کی پیداوار کم کرے گا۔
اس سال مئی سے جون تک تیل کی پیداوار میں کمی 10 ملین بیرل یومیہ ہو گی جب کہ جون سے دسمبر تک کمی 8 ملین بریل یومیہ ہو گی جب کہ جنوری 2021 سے اپریل 2022 تک کمی 6 ملین بیرل یومیہ ہو گی لیکن 10 ملین بیرل یومیہ کمی کے اعلان کے باوجود تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں تیل کی کھپت 65 سے 75 ملین بیرل یومیہ ہے، جب کہ روزانہ کی تیل کی پیداوار 100 ملین بیرل ہے، لہٰذا تیل کی منڈی میں موجود عدم توازن ختم کرنے کے لیے اوپیک کو تیل کی پیداوار میں 10 ملین بیرل یومیہ نہیں بلکہ 20 سے 25 ملین بیرل یومیہ کمی کرنی ہوگی اس کے بعد ہی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے جب کہ روس کسی طور پر 20 ملین بریل یومیہ کمی پر راضی ہوتا نظر نہیں آ رہا، لہٰذا مستقبل قریب میں تیل کی قیمت میں کمی کا رجحان جاری رہے گا۔
The post تیل کی سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.