غزل
وہاں سے لوٹ کے آئی ہے دید ۂ بینا
جہاں ہے بامِ محبت کا آخری زینہ
لہو ہی سوکھ گیا ہو تو جام کیا بھرنے
بدن ہی ٹوٹ گیا ہو تو زہر کیا پینا
نہیں خبر بتِ پندار کس طرف ٹوٹے
سِپر ہے تیری کماں کی طرح مِرا سینہ
یہ کس کا سایہ در و بام پر لرزتا ہے
یہ کس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے چشمِ نابینا
اگر تُو چاہے تو رستے جدا جدا کر دے
کسی نے تجھ سے بچھڑنے کا حق نہیں چھینا
محبّتوں کی سی شدّت جدائیوں میں بھی ہے
پلٹ کے آیا نہیں میرا یارِ دیرینہ
اُٹھائے ہاتھ میں پیمانہ محتسب ذاکرؔ
لگا رہا ہے مِری تشنگی کا تخمینہ
(ذاکر رحمان۔ؔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
وہ اشتعال خدا کی پناہ دونوں طرف
نہیں کسی کا کوئی خیر خواہ دونوں طرف
یہ کیسی جنگ ہے جس میں مقابلے پہ کھڑی
سیاہ پٹّیاں باندھے سپاہ دونوں طرف
طلب ،رسد میں توازن رکھا کرو مرے دوست
میں چاہتا ہوں برابر ہو چاہ دونوں طرف
وہ جس طرف بھی چلے ساتھ ساتھ چلتی ہے
بہشت جیسی کوئی سیر گاہ دونوں طرف
پھر اک بدن کے دلائل سے مطمئن ہو کر
خدا نے بانٹ دیا وہ گناہ دونوں طرف
درونِ خواب سرِ چشم کیا تماشہ ہے
کہ دیکھتے ہیں ترے کم نگاہ دونوں طرف
میں جنگ جیت کے ساحر ؔذرا بھی خوش نہیں ہوں
کھڑے ہیں لوگ یونہی خوامخواہ دونوں طرف
(جہانزیب ساحر۔فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ہم آج کہتے ہیں، کل کی تاریخ اہم نہیں ہے تو کیا غلط ہے
نئے زمانے کے ہاتھ کاغذ قلم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے!
ہمارے ناکام تجربوں کی کسی کو کوئی خوشی نہیں تھی
ہمیں بزرگوں کی رائیگانی کاغم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے
ہمیں بڑوں نے یہی کہا تھا کہ’’لا‘‘ہی سچ ہے، سو گھر کی چھت پر
کسی جماعت، کسی خدا کا عَلم نہیں ہے، تو کیاغلط ہے
کہ سائنسی طور پر بھی دونوں کا کوئی امکاں نہیں، سو کہہ دوں
تمھارا ملنا خدا کے ملنے سے کم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے!!
یہی بہت ہے کہ مدتوں بعد، دوست آئے ہیں بات کرنے
اب ان کا موضوع تیرا ظلم و ستم نہیں ہے، تو کیا غلط ہے
جو مان بیٹھے، کہ ارتقا سے سبھی کے کس بل نکل گئے ہیں
تو رازؔ صاحب اب اس کی زلفوں میں خم نہیں ہے تو کیا غلط ہے!
(رازؔ احتشام ۔آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
مرے مُرشد کہا کرتے تھے ـ، سب اچھا نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سوچا نہیں ہوتا
بہت خستہ مکانوں میں رہائش بھی مصیبت ہے
اگر کھڑکی سلامت ہو تو دروازہ نہیں ہوتا
کسی سے راہ چلتے میں اچانک عشق ہو جائے
یہ ایسا جرم ہے ، جس پر کہیں پرچہ نہیں ہوتا
مجھے بینائی کَھو جانے کا اِک یہ فائدہ بھی ہے
کہ میں اب وہ بھی پڑھ لیتا ہوں جو لکھا نہیں ہوتا
محبت ہو کسی سے اور یک طرفہ محبت ہو
یہ وہ احساس ہے ، جس میں کبھی دھوکہ نہیں ہوتا
ہر اِک درویش کے کاسے میں درویشی نہیں ہوتی
ہر اِک چشمے کا پانی دوستا! میٹھا نہیں ہوتا
کسی کے عشق میں برباد ہو کر یہ کھلا عامیؔ
بہت خوش حال ہونا بھی بہت اچھا نہیں ہوتا
(عمران عامی ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
اِک عکس تھا خیال میں آیا، چلا گیا
دو پل لہو ابال میں آیا چلا گیا
حیران کیوں ہو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر
جو بھی یہاں زوال میں آیا چلا گیا
وحشی کو اور چاہیے بھی کیا مکان سے
تھوڑا سا اعتدال میں آیا چلا گیا
کیا دیکھتے ہو ہاتھ سے چہرہ ٹٹول کر
جو رنگ ماہ و سال میں آیا چلا گیا
یہ دشتِ عمر ہے یہاں ٹھہرا نہیں کوئی
جو شخص جیسے حال میں آیا ،چلا گیا
اختر ؔپڑی ہیں سامنے یادوں کی سیپیاں
دریا تھا وہ اچھال میں آیا چلا گیا
(اختر ملک کلر کہار۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
تھکن سے چور ہوئے اور سفر کی نذر ہوئے
ہم ایک قافلۂ بے خبر کی نذر ہوئے
کوئی نہیں تھا مگر مانتے رہے کوئی ہے
یہ لوگ ڈرتے رہے اور ڈر کی نذر ہوئے
عجیب قافلہ تھا رک نہیں رہا تھا کہیں
مسافروں کے مسافر سفر کی نذر ہوئے
کسی کے ہاتھ میں جب ٹہنیاں نہیں آئیں
تب اس کے ہاتھ کے پتھر شجر کی نذر ہوئے
ہوائیں چلنے لگی اور قبائیں کھلنے لگی
کئی چھپے ہوئے منظر نظر کی نذر ہوئے
(احسن سلیمان ۔تتہ پانی ،آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
مگر وہ اِس پہ تھے مُصر کہ دوں حسابِ زندگی
میں چیختا رہا مُجھے نہیں مِلی! نہیں ملی!
ہمارا کون تھا وہاں؟ جو آ کے ڈُھونڈتا ہمیں
ہماری لاش ایک سرد خانے میں پَڑی رہی!
کہ آنکھ نَم تھی اِس لیے تو دیکھ نہ سکے تھے ہم
ہمارے درمیان صرف قہقہے کی دُوری تھی!
میںسبز پیڑ تھا کبھی خزاں میں بھی نہ سُوکھتا
اگر وہ مجھ سے ٹیک لگ کے بیٹھنا نہ چھوڑتی!
مجھے تووقت نے سکھا دیا ہے وقت کاٹنا
وگرنہ تیرے بعد تو گھڑی بھی چَل نہیں سکی!
میںآئینے کی مِثل تھا، چَٹخ کے ریت ہو گیا
وہ بُھربُھری سی خاک تھی، ہوا کے سنگ اُڑ گئی!
(محمد طہٰ ابراہیم۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
چراغ جلنے لگے تو ہوا نہیں دیتا
فقیر ہوں میں کبھی بد دعا نہیں دیتا
تو کیا اسی لیے دنیا نہیں توازن میں؟
وہ جرم دیکھ کے فوراً سزا نہیں دیتا
تُو ایک بار تو کہتا کہ کاش ایساہو
میں آسمان زمیں سے ملا نہیں دیتا
ضرور لطف کا پہلوہے میرے جلنے میں
وگرنہ اٹھ کے مجھے وہ بجھا نہیں دیتا
یہ کتنا واضح اشارہ ہے بخت ڈھلنے کا!
میں بھیک دوں تو بھکاری دعا نہیں دیتا
میں خالی ہاتھ کبھی لوٹتا نہیں مقدؔاد
مجھے خوشی کے علاوہ وہ کیا نہیں دیتا
(مقدؔاد احسن ۔ تاندلیانوالہ)
۔۔۔
غزل
سنو،قریب سے دیکھو ذرا بتاؤ مجھے
میں اس کی آنکھ میں کھویا ہوں ڈھونڈ لاؤ مجھے
پھر اس کے بعد میں دنیا بھلا کے بیٹھ گیا
لکھا تھا اس نے مری جان بھول جاؤ مجھے
تمہارے ہاتھ بلندی کو چھو رہے ہیں ابھی
میں گر رہا ہوں مرے دوستو! اٹھاؤ مجھے
تمھارے درد کا چہرے سے جائزہ لے لوں
تم اپنا ہاتھ دکھاؤ گے، مت دکھاؤ مجھے
سلیقہ مند! کتابیں سمیٹنا کیسا؟
ذرا پسند نہیں ہے یہ رکھ رکھاؤ مجھے
میں نظم تھوڑی ہوں جو چپکے چپکے بات کرو
میں گیت ہوں! سو ذرا کُھل کے گنگناؤ مجھے
ہوس بغیر کبھی حوصلہ کرو عارفؔ
بِنا چھوئے بھی کبھی تو گلے لگاؤ مجھے
(عارف نظیر۔ کراچی)
۔۔۔
’’ٹیڈی‘‘
اس کی گود میں سر رکھوں تو
(کیا بتلاؤں کیا ہوتا ہے)
سر کا درد چلا جاتا ہے
آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں
ہونٹوں پر اک ہنسی ابھر کر
چہرے پر بھی چھا جاتی ہے
یعنی غم کو کھا جاتی ہے
اس کی گود میں بیٹھا ٹیڈی
اکثر مجھ سے لڑ پڑتا ہے
یوں کہتا ہے’’حد ہوتی ہے‘‘
پیار جتانے والے لڑکے!
پیار جتانے آجاتے ہو
تم گودی پر بھار رہے ہو!
میرا کیوں حق مار رہے ہو؟
(شہزاد مہدی۔ اسکردو،گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
سوچا ہے تُو نے جیسا ،ویسا نہیں ہوں میں
ساتھی ہوں میں تو سچ کا ،جھوٹا نہیں ہوں میں
چکر دیا ہے تُو نے یہ جانتا ہوں میں
اتنا بھی دوست میرے بھولا نہیں ہوں میں
تُو نے بسایا دل میں غیروں کو ساتھ ساتھ
عاشق بنا جو تیرا پہلا نہیں ہوں میں
کٹ جائے عمر ساری تیرے ہی پیار میں
میں پیار کا سمندر، دریا نہیں ہوں میں
(احمد مسعود قریشی۔ ملتان)
غزل
کب میری مدد کا کوئی سامان کرے ہو
تم لوگ تماشے کو فقط کان کرے ہو
بیزاری و مکّاری، انا، کینہ، کراہت
سب دور رہو، تم مِرا نقصان کرے ہو
اے کاش کوئی پوچھے ستم گر سے کہ صاحب
کیوں اپنے پریشاں کو پریشان کرے ہو
دنیاوی فوائد کے تعاقب میں تم انسان
نقصان پہ نقصان پہ نقصان کرے ہو
تدبیر لڑاؤ نا ملاقات کی صادرؔ
کب ہم سے ملاقات کا امکان کرے ہو
(آصف خان صادر۔ بنوں)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.