( قسط نمبر14)
ساٹھ کی دہائی میںہم ٹاٹ اسکول میں غالباً دوسری یا تیسری جماعت میں تھے۔ ہماری اردو کی کتاب میں ایک کہانی ’’چین کے طوطوں کا پیغام ،،کے عنوان سے ہوا کرتی تھی جو کچھ اس طرح سے تھی، کہ ایک تاجر چین جانے لگتا ہے تو روانگی سے قبل گھر کے ہر فرد سب سے پو چھتا ہے کہ اُس کے لیے چین سے کیا تحفہ لاؤں۔ سب بچے بڑے اپنی اپنی فرمائشیں بتا تے ہیں۔ آخر میں وہ اپنے طوطے کے پنجرے کے پاس جا تا ہے اور پوچھتا ہے کہ طوطے تمارے لیے کیا لاؤں۔ تو طوطا تاجر کو کہتا کہ چین کے طو طوں کو میرا پیغام دنیا کہ تمارا ایک ساتھی بہت دور پنجر ے میں بند زندگی گذار رہا ہے۔ تاجر چین جا تا ہے اپنا سامان وہاں فروخت کر تا ہے اور اپنے ملک کے لیے وہا ں سے تجارتی سامان خریدتا ہے۔ بچوں بڑوں کی فرمائشوں کے مطابق اُن کے لیے بھی چیزیں خریدتا ہے۔
ایک دن وہ کسی باغ کے قریب سے گذر رہا ہوتا ہے تو ایک درخت پر طوطوں کا جھنڈ نظر آتا ہے۔ وہ درخت کے نیچے جا کربلند آواز میں اپنے طو طے کا پیغام سناتا ہے تو ایک دم ایک طوطا درخت سے اُس کے سامنے گر کر مر جا تا ہے۔ وہ تاجر گھر پہنچتا ہے تو یہ قصہ طو طے کو سناتا ہے۔ یہ سُنتے ہی طو طا بھی پنجرے میں گر کر مر جا تا ہے۔ تاجر کو بڑا افسوس ہو تا ہے۔
وہ مردہ طو طے کو پنجرے سے نکال کر باہر پھینکتا تو طوطا اُڑ کر درخت پر جا بیٹھتا ہے۔ تا جر حیر ت سے اُ س سے پو چھتا ہے یہ کیا؟ اس پر طوطا کہتا ہے یہ چین کے طو طوں کا پیغا م تھا۔ مجھے آ زادی کا یہ انوکھا پیغام اُس چھو ٹی سی عمر میں بھی اچھا لگا تھا اور آج بھی دل کو بھاتا ہے۔ اُس زمانے میں پانچویں جماعت تک لکھنے کے لیے پن استعمال کر نے کی اجازت نہیں ہوتی تھی نڑ کی قلم اور تختی، سیلٹ اور سلیٹی اور چوتھی اور پانچوایں جماعتوں میں کاپیوں پر نب والے ہولڈر استعما ل کرائے جاتے تھے۔
جی کی نب انگریزی کے لیے اور زیڈ نب اردو کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جب چھٹی جماعت میں پہنچے تو روشنائی والے پن استعمال کرنے لگے۔ مقامی پن تو ملتے ہی تھے، اُسی زمانے میں کوئٹہ میں چین کے کنسنگ اور ونسنگ برانڈ کے پن چار ساڑھے چار روپے اور اتنی ہی قیمت پر پکنک جرابیں ملنے لگیں۔ یہ دونوں چیزیں اپنی کار کردگی کے اعتبار سے لا جواب تھیں۔ بعد میں ہمیں بھی پارکر ،شیفرد اور واٹر مین جیسے مہنگے پن کا شوق ہوا جو اب تک درجن کے قریب میرے پاس ہیں لیکن چین کے پنوں کی کارکردگی ان مہنگے پنوں سے کسی طور بی کم تر نہ تھی۔ 1974 میں ہم نے میٹرک پاس کر لیا تو اُس زمانے میں صدر ایوب اور صدر یحٰی خان کی جانب سے کیمو نسٹ لٹریچر پر عائد پابندیاں ختم ہو چکیں تھیں اور سوویت یونین اور چین کا چھپا ہوا کیمو نسٹ لٹریچر واجبی سی قیمت پر عام فروخت ہو تا تھا۔
اِن میں عام رسالے کے سائز کا روسی ماہنامہ طلوع پچاس پیسے اور آج کے اخبارات میں شامل سنڈے میگزن کے سائز کا چینی ما ہنامہ چین با تصویر ایک روپے کا ملتا تھا۔ اِن رسالوں میں اِن دونوں ملک کے بارے میں دلچسپ معلومات کیمونسٹ پر وپگنڈے کے ساتھ ملتی تھیں۔
مذہبی گھرانو ں میں عموماً اَن دونوں رسالوں کا داخلہ بند تھا حالانکہ اِن میں مذاہب کے بارے میں کو ئی ذکر نہیں ہو تا تھا۔ یوں چین کے بار ے بنیادی معلوما ت ہمیں اس طرح مشاہدے اور مطالعے سے نوجوانی میں ہی ہو گئیں تھیں۔ بار ہا ہمیں پاکستان چین تعلقات کے حوالے لکھنے اور مختلف فورمز پر بولنے کا موقع ملا۔ دیکھا جائے تو چین کا عالمی کردار سیکو رٹی کو نسل کے باقی چار ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں امریکہ ،بر طانیہ ،فراس اور روس سے مختلف رہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین اپریل 2020 ء کے مطابق اپنی 1402233440 آبادی کے ساتھ بالحاظ آبادی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے چین، روس کینیڈااور امریکہ کے بعد اپنے 9596961 مربع کلو میٹر کی وسعت کے ساتھ دنیا کا چو تھا بڑا ملک ہے۔ چین اقتصادی ترقی کے عالمی معیار گلوبل جی ڈی پی پرامریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور فوجی تعداد اور قوت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
تسلیم شدہ ایٹمی قوت کے لحا ظ سے چین امریکہ ، روس ، بر طانیہ اور فرانس کے بعد دنیا کی اعلانیہ پانچویں ایٹمی قو ت بنا۔ 1997 میںسیمول پی ہنٹینگٹن نے اپنی مشہور ِ زمانہ کتاب تہذیبوں کا تصادمThe Clash of Civilizations and the Remaking of the World Order by Samuel P Huntington شائع کی اور اس کتاب کے ٹائٹل پر درمیان میں دیوارِ چین کی تصویر دی اور دنیا میںسرد جنگ کے بعد ممکنہ طور پر تہذیبوں کے تصادم میں مضبو ط اور قدیم تہذیب کے طور پر چین اور اس کی تہذ یب کا ذکر کیا۔
اسی طرح مائیکل ہارٹ نے جب دی ہنڈرڈ کے نام سے انسانی تاریخ کی 100 شخصیات کا ذکر کیا تو اِ س میں نمبر5 پر چینی مصلح فلاسفر کنفوشس ہے جو551 قبل مسیح چین میں پیدا ہوا، اس کے بعد ساتویں نمبر پر چینی شخصیت تسائی لون کی ہے جو105 ء میں پیدا ہوا اورشہنشاہ ہوتی کے عہد میں اس نے کا غذ ایجاد کیا۔ پھر 17 ویں تاریخ ساز شخصیت شی ہوانگ تی کی ہے جس کا عہد 259 قبل مسیح سے 210 قبل مسیح کا تھا یہ چین میں چاؤ سلطنت یا خاندان کا وہ شہنشاہ تھا جس نے وسیع چین کو متحد کیا تاریخ انسانی کی 73 ویں شخصیت لاؤ تسو کو قراردیا ہے یہ چوتھی صدی قبل مسیح میں تھا اور اس نے اپنے افکار پر انسانی معاشرے اور اطاعت کے حوالے کتاب لکھی اور اس کے ماننے والے کنفیوشس ازم کی طرح تسو ازم پر عمل کرتے ہیں۔ 85 نمبر پر سوئی وین تی جس کا اصل نام یانگ چین تھا یہ 541 تا604 رہا یہ چین کا وہ عظیم بادشاہ تھا جس نے چین جیسے وسیع ملک کو صدیوں بعد دوبارہ متحد کیا۔
سوئی وین تی نے عظیم نہر تعمیر کروائی زراعت اور صنعت کو ترقی دی اس نے آج کی بیوروکریسی کا انداز اپنے عہد میں متعارف کرایا۔ وہ آ ج کے سی ایس ایس کی طرح مقابلے کے امتحان میں کامیاب امیدواروں کو خصوصی تربیت کے بعد انتظا می شعبوں میں تعینات کرتا تھا۔ 92 نمبر پر 371 قبل مسیح سے 289 قبل مسیح تک کی اہم تاریخی شخصیت چینی فلسفی مین سیس آتا ہے۔ مین سیس کنفیوشس کا سب سے اہم جا نشین تھا مگر اس تاریخ ساز شخصیت سے تین درجے اُوپر یعنی 89 نمبر پر عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماوزے تنگ ہیں جن کو مائیکل ہارٹ نے آج کی جدید دنیا میں تاریخ ساز شخصیت قرار دیا ہے۔ ہر قوم کی ثقافت رنگ ،نسل ،زبان وادب ،اخلاقی اقدار و عقائد، موسیقی ،لباس ، فنون، پکوان، رسم و رواج، اور اخلاقی اقدار پسند و ناپسند اور دیگر کئی چیز یں پر مشتمل ہوتی ہے۔
کسی خطے میں آباد قوم اپنی سماجی زندگی میں اس ثقافت کو نسل در نسل اپنا تی ہے۔ پھر صدیوں اپنے اقتدار و حکومت کے ساتھ تاریخ رقم کر تی ہے تو وہ کسی علاقے یا خطے کی تہذیب کہلاتی ہے۔ لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ صدیوں بعض اوقات ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کسی قدرتی یا غیر قدرتی آفت کی وجہ سے صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے اور بعض دفعہ ایسی کسی پرانی تہذیب کے آثار قدیمہ دریافت کر لیے جا تے ہیں جیسے ہمارے ہاں موہنجو داڑو اور ہڑپا کے تقریباً پا نچ ہزار سال قدیم آثار موجود ہیں۔ ان آثار قدیمہ پر ہمیں فخر تو ہے مگر اس تہذیب سے ہمارا کو ئی ثقافتی تعلق نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکسلا کی گندھارا، تہذیب کے آثار قدیمہ جو تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانی تہذیب ہے اس کے قدرے مدہم ثقافتی اثرات ہماری ثقافت پر دکھائی دیتے ہیں۔
مگر دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں تہذیبیں ایک دوسرے سے ہم آغوش اور ہم آہنگ ہو تے ہوئے زمانے کے تسلسل کے ساتھ ہزاروں بر س پرانی تہذیب بن کی شکل میں ڈھل گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے۔ چین دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں انسانی زندگی کے آثار قبل از تاریخ ہزاروں برس ہی نہیں لاکھوں برس پرانے ہیں۔ آرکیالو جی سا ئنسی علوم کی وہ شاخ ہے جس میں ایسی قدیم تہذیبوں کا مطالعہ مشاہدہ اور تحقیق کی جا تی ہے۔ شہا دتوں کی بنیاد پر ان کی قدامت کا درست انداز میں تعین کیا جاتا ہے یوں اس شعبے کے ماہر ین کے مطابق چین کے ابتدائی باشندے جو ،ہومو ایرکٹس ، یعنی اُس نسل سے تھے جن کو ابتدائی انسان یا انسانوں سے ملتی جھلتی مخلوق قرار دیا جاتا ہے اس کے شواہد چین میں بیجنگ کے نزدیک زہوکوڈیان نامی غار سے ملے۔ یہ فاسل سوا دو ملین سال یعنی ساڑھے بائیس لاکھ سال پرانے ہیں۔
پھر چین ہی کے علاقوں سے تین سے ساڑھے پانچ لاکھ سال پرانے پتھر کی بنائی ہو ئی اشیا اور جانوروں کی ہڈیاں ملیں ہیں جو سائنسی ریسرچ کی بنیاد پر،،ہوموایرکٹس،، مخلوق سے جوڑی جاتی ہیں۔ اب جہاں تک تعلق انسانی نسل کا ہے تو چین سے انسانی آبادی کی شہادت ،،لیوجیانگ،، سے ملنے والی انسانی سر کی ایسی ہڈی ہے جو سائنسی ریسرچ کے مطابق 67000 سال پرانی ہے۔ اسی طرح چین کے علاقے ،،ڈمنا ٹوکاوا،، سے ایک جزوی انسانی ڈھانچہ ملا ہے جو اٹھارہ ہزار سال پرانا ہے۔ چین کی پہلی قدیم بادشاہت یا سلطنت کے بارے میں ثبوت چین کے صوبے ارلیٹوجو ہنین کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے بعد ملے۔ یہ سلطنت ژیا کہلاتی تھی اور اس کا تعلق تانبے کے زمانے سے تھا۔
پھر تاریخی اعتبار سے چین کی پہلی مستند سلطنت شانگ کے نام سے تھی جو دریائے پیلو کے کنارے مشرقی چین میں اٹھارویںصدی قبل مسیح سے بارویں صدی قبل مسیح تک رہی۔ بعد میں ژاؤ نے مغرب کی طرف سے حملہ کر کے شانگ سلطنت کو ختم کردیا اور بارویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی قبل مسیح تک ژاؤ سلطنت رہی۔ متحدہ چین کی پہلی اوٹن بادشاہت یا سلطنت کا دور 221 قبل مسیح سے شروع ہوا مگر یہ زیادہ عرصے نہ چل سکی کیونکہ یہ قانون کی سختی سے پاسداری کرتے تھے جس کے نتیجے میں بغاوت پھیلنا شروع ہو گئی اور پھر206 قبل مسیح میں ہن ،یا ہان سلطنت قائم ہوگئی۔ یہ عظیم بادشاہت 220 ء سن عیسوی تک قائم رہی۔ پھر چین میںایک خلفشار کا دور رہا چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں سوئی وین لی نے صدیوں بعد چین کو تاریک دورسے نکالااور580 تک چین ایک وسیع اور متحد ملک بنا۔ تانگ اور سونت بادشاہوں کے ماتحت یہ چین کا سنہری دور کہلاتا ہے۔
ساتویں صدی عیسوی سے چودویں صدی عیسوی تک ٹیکنالوجی ، ادب اور آرٹ کے علاوہ دیگر شعبوں میں چین بتدریج دنیا کی سب سے ترقی یافتہ اقوام میں شمار ہوتا تھا۔ 1271 ء میں عظیم منگول رہنما قبلائی خان نے یوان بادشاہت کا آغاز کیا جو سرنگ بادشاہت کے زیر اثر رہی۔ ژو یوان ژینگ نامی کسان نے1368 ء میں منگولوں کو باہرنکال دیا اور منگ سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1644 ء جو قائم رہی۔ پھر منچو کی بنائی ہوئی رونگ بادشاہت 1911 تک قائم رہی جسے بعد میں لوئی نے ختم کیا۔ یوں عموماً رونگ باشاہت کو چین کی آخری بادشاہت کہا جا تا ہے۔
چین نے تاریخی اعتبار سے نہ صرف اپنے عہد میں سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں بہت سی ایجادات اور دریافتوں کی بنیاد پر چین کو دنیا کی ممتاز اور ترقی یافتہ تہذیب اور ملک بنا دیا بلکہ اِن ایجادات اور دریافتوں کی وجہ سے پوری دنیا کے انسانوں نے تہذیب کے ارتقائی مراحل طے کیے اور چین کے علم و تحقیق سے استفادہ کیا۔ چین نے اپنی تابناک تاریخ میں جو ایجادات اور دریافتیں کیں اُن میں اہم ترین یوں ہیں ایثیائی ایباس ،بلاسٹ بھٹی ، بلاک پرنٹ میکنگ، پرنٹنگ ٹیکنالوجی، تانبہ، گولائی کی پیمائش کا آلہ، ،گھڑی،کمپاس یعنی قطب نما، کراس بو، پنکھے، آتش بازی، سالڈ فیول راکٹ، مچھلی کے شکار کی بنسی، بارود، بم، ہارٹ ایئر بیلون، پتنگ، وارنش، ماچس،کاغذ، کاغذ ی کرنسی نوٹ، پیراشوٹ، تیل کے کنوئیں، پسٹن والا پمپ، امدادی نقشے، بیج بونے والا ڈرل، زلزلہ پیما، ریشم، رکاب، سپنشن برج( معلق پل) ،ٹائلٹ پیپر، ٹوٹھ برش ، چھتری، وال پیپر ، ادویاتی اور جراحی کے حوالے سے چین کی ٹیکنالوجی کا ذکر کچھ یوں ہے۔
چینیوں ہی نے سب سے پہلے ریاضی کو آرکیٹکچر اور جیوگرافی میں استعمال کیا، چینی ریاضی دان زونگ زہی نے پائی یعنی عشاریہ کی ساتویںمقدار تک کی قیمت معلوم کرلی، چینی اعشاری اعداد کے نظام کو چودھویں صدی عیسوی قبل مسیح استعمال کر رہے تھے، پارسکل کی مثلث جسے چین میں یانگ ہوئی کی مثلث کہتے ہیں چیا ہزین یانگ ہوئی،زاؤشی،جی اور لیو جوہز یہ نے پارسکل کی پیدائش سے پانچ سو سال قبل دریافت کر لی تھی۔ ادویاتی نباتات روایتی ادویات اور جراحی جس میں چین بہت ترقی یافتہ تھااب گذشتہ کچھ دہائیوں سے چین میںاسے ثانوی علاج کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔فوجی ایجادات جیسا کہ کراس بو اور گرڈ سائٹ بورکاب خود کار کراس بو،منجیق، زہریلی گیس جو خشک سرسوں کو جلانے سے پیدا ہوتی ہے آنسو گیس،جو باریک لائم کو جلا کر بنائی جا تی ہے۔
جنگوں میں استعمال ہو نے والے امدادی نقشے ،انسان بردار پتنگ،آگ والے نیزے،راکٹ،جلنے والا با رود، بم ، اور پرانی تانبے کی مشین گن یہ تمام سب سے پہلے چین نے ایجاد کیا۔ ان ایجادات اور دریافتوں میں سے کاغذ ،بارود ،چھاپہ خانہ اور ریشم اپنے عہد کی آپ مثال تھے اور ان بنیادوں پر حاصل برتری نے چین کو صدیوں تک علمی، تحقیقی ،عسکری و فوجی اقتصادی صنعتی تجارتی اعتبار سے پوری دنیا میںممتاز اور ترقی یافتہ بنایا۔ دیوار چین دوہزار سال سے چین کی پہچان ہے جس کو 200 قبل مسیح چین کے بادشا ہ چن شی ہوانگ نے شروع کیا تھا۔
یہ دیوار 1500 میل لمبی 20 سے 30 فٹ چوڑی اور بارہ سے پچاس فٹ تک اُونچی ہے۔ ہر دوسو گز پر پہریداروں کی پنا ہ گاہیں ہیں اس دیوار کی تعمیر کی مشہور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ چین کی شمالی سرحد پر اس لیے تعمیر کی گئی کہ منگولوں کے حملوں کے لیے چین کا تحفظ یقینی ہو جائے لیکن اس کی تعمیر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ چین میں ریشم کی دریافت ہو ئی تھی اور دنیا بھر میں صرف چین ہی ریشمی کپڑا تیار کر تا تھا اور پوری دنیا میں بڑے بڑے شہنشاہ بادشاہ اور امرا اپنی بادشاہت اور امارت کو دکھانے کے لیے یہ قیمتی ر یشمی کپڑا پہنا کرتے تھے جو صرف چین میں تیار ہو تا اور چینی تاجر ہی اس ریشمی کپڑے کو پوری دنیا میں فروخت کرتے یوں تصور کیا جا سکتا ہے کہ ریشمی کپڑے پر اجارہ اداری کی وجہ سے چین کو صدیوں تک کتنا فائدہ پہنچا اور چین نے ا س اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے بھی دیوار چین کو استعمال کیا۔
صدیوں تک جو شخص بھی چین سے با ہر جا تا تو اس دیوار کی چوکیوں پرتعینات محافظ اُ س کی تلاشی لیتے تھے پھر یورپ سے دو پادری عیسایت کی تبلیغ کے لیے چین آئے اور کئی برس یہاں قیام کیا اور واپسی پر اپنے عصا کو کھوکھلا کر کے اِن کے اندر ریشم کے کیڑے چھپا کر چین سے باہر لے گئے اور ریشم کا راز دنیا کو معلوم ہو گیا۔
جغرافیائی اور موسمیاتی اعتبار سے چین بہت زیادہ تنوع رکھتا ہے اور اس کے علاقے ایک دوسرے سے جغرافیائی ساخت کے لحاظ سے بھی بہت مختلف ہیں۔ مغرب کی طر ف سطح مرتضع اور پہاڑ ہیں جب کہ مشرق کی جانب میدان ہیں۔ بڑے دریا بشمول ینگنز دریا جو مرکزی دریا ہے دریائے ہوانگ ہی،اور آمور دریا مغرب سے مشرق کی طرف بہتے ہیں اور بعض اوقات اِن کا رخ جنوب کی طرف بھی ہو جاتا ہے جیسا کہ دریائے میکونگ اور برہما پترا۔ زیادہ چینی دریا بحرِاقیانوس میں گر تے ہیں۔ مشرق کی طرف دریائے پیلو کے کناروں اورمشرقی چینی دریاکے کناروںپر زرخیز مٹی کے وسیع میدان ہیں اندرونی منگو لیا سطح مرتفع جو شمال کی جانب ہے چراگاہیں ہیں جنوبی چین میں پہاڑوں اور کم بلند پہاڑوں کی کثرت ہے مرکز سے مشرق کی طرف چین کے دو بڑے دریا یعنی بو آنگ ہی اور ینگنز دریا کے ڈیلٹا ہیں۔
چین کی زیادہ تر زرخیز زمینیں انہی دو دریاؤں کے کناروں پر واقع ہیں۔ دوسرے مشہور دریاؤں میں پرل دریا،میکانگ برہما پتر اور آمور دریا شامل ہیںاس علافے کو تاریخی پس منظر میںدیکھیں تو اسی کے ساتھ میانمار،لاؤس ،تھائی لینڈ ،کمبوڈیا،اور ویتنام اہم ہیں،مغرب کی طرف چین کے زرخیز میدان جب کہ جنوب کی جانب چونے کے پتھر وں پر مشتمل بلند زرخیز میدان ہیں اور پھر دنیا کا بلند ترین پہاڑ کوہ ہمالیہ بھی اسی جانب واقع ہے، چین کے شمال مغرب میں اُونچی سطح مرتضح ہے جو بنجر اور صحرائی ہے یہ تاکلاماکن اور صحرائے گوبی کا علاقہ ہے جو مزید پھیل رہا ہے۔
چین کے موسموں میں بھی بڑا فرق پا یا جاتا ہے شمالی زون جس میں بیجنگ بھی شامل ہے اس پورے علاقے میں بہت سردی ہو تی ہے اور اِسے آرکیٹک نوعیت کا علاقہ کہا جا تا ہے درمیانی علاقہ جس میں شنگھائی آتا ہے معتدل علاقہ ہے جنوبی علاقے میں گوانگ زاؤ ہے جو استوائی نوعیت کا علاقہ ہے طویل خشک سالی اور زراعت میں پرانے طریقوں کی وجہ سے موسم بہار میں آندھیوں کا چلنا معمول بن گیا ہے یہ آندھیاں نہ صرف جنوبی چین اور تائیوان تک جاتی ہیں بلکہ امریکہ کے مغربی ساحل تک پہنچتی ہیں۔
پانی سے کٹا ؤ اور آبادی پر کنٹرول دو ایسے مسائل ہیں جن پر چین باقی دنیا سے مختلف زاویہ نظر رکھتا ہے چین میں آخری مر دم شماری یکم نومبر 2010 میں ہوئی تھی اوراب اس سال نومبر2020 میں مردم شماری ہو گی یوں اب تک چین کی آبادی کے تمام تخمینے 2010 کی مردم شماری ہی کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں اس وقت چین کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ سے زیادہ ہے اور چین اب بھی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تسلیم کیا جا تا مگر آبادی میں سالا نہ شرح اضافہ کے اعتبار سے دنیا بھرمیں 159 نمبر پر ہے۔
چین کی معاشرتی سماجی ساخت جو اِ س وقت دنیا کے سامنے اس کے پس منظرمیں ہزاروں لاکھوں برسوںکا تہذیبی ارتقائی عمل شامل ہے۔ چین غالباً اس اعتبار سے بھی دنیا کا نمبر ایک ملک ہے جہاں سیلابوں ،،زلزوں اور قحط وباؤں کی اور جنگوں سے کروڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ 757 ء سے 763 ء چین این لوشان بغاوت میں تین کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہو ئے 1340 ء یانگ بادشاہت کی جنگوں میں بھی تقریبا تین کروڑ افراد ہلاک ہو ئے۔
اس کے بعد کوئنگ بادشاہت فگ یا فنگ بادشاہت کو شکست دی یہ جنگیں 1616 ء سے 1662 ء تک جاری رہیں اور اس دوران ڈھائی کروڑ افراد ہلاک ہو ئے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کی وجہ عموماً چین کی اندرونی جنگیں رہیں یا پھر چین نے اپنی آزادی و خودی مختاری کے لے مزاحمت کی جنگیں لڑیں۔ پھر اگر چین کو ایشیائی ہمسایہ ملکوں سے جنگیں کرنی پڑیں تو وہ بھی عموماً دفاعی نوعیت کی تھیں، یوں چین نے نہ تو دنیا کی اقوام اور ملکوں کے خلاف جارحیت اور نہ چین نے عالمی سطح پر تاریخ میں فتوحات کرتے ہوئے نام پیدا کیا۔ ہنی بال ، سائرس اعظم، سکندراعظم ، جولیس سیزر،چنگزخان، ہلاکوخان ،قبلائی خان ، امیر تیمور ،نیپو لین بو نا پاٹ اور ہٹلر جیسے فاتحین نے پوری دنیا فتح کر نے کے خواب دیکھے تھے لیکن چین نے ایسا نہیں کیا۔
اٹھاویں صدی عیسوی تک چین اپنی ٹیکنالوجی اور عسکری قوت کے لحاظ سے ایشیا میں تو ایک مضبو ط پوزیشن رکھتا تھا مگر اب اس کے مقابلے میں یورپ کہیں آگے آگیا تھا اور وہ نو آبادیاتی نظام جو اہل یورپ نے سولہویں صدی سے شروع کیا تھا وہ اب پور ی دنیا کو اپنی گر فت میں لے کر چین کی سرحدوں پر پہنچ چکا تھا۔ اب چین اور ہند چینی کے پورے خطے میں پرتگال ، نیدر لینڈ ، اسپین، فرانس اور بر طانیہ سبھی پہنچنے لگے تھے بر طانیہ کے پاس نزدیک سونے کی چڑیا بر صغیر تھا پھر اس کی بحریہ دنیا کی مضبو ط ترین بحریہ تھی اور اس بنیاد پر اسے اُ س وقت سپر پاور تسلیم کیا جا تا تھا یوں بر طانیہ سمیت ان یورپی ممالک کی تجارتی کمپنیاں یہاں وارد ہو ئیں۔ برطانیہ نے یہاںکی تجارت اور پیداور کو فروغ دیا اور افیون یہاں کھلے عام استعمال اور فروخت ہو نے لگی۔
ساتھ ہی یہاں عیسائی مشنری سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں۔ یہاں دو جنگیں ہو ئیں جن کو افیون جنگوں کا نام دیا جاتا ہے۔، اس کی وجہ سے چین کی بادشاہت مسائل کا شکار ہوئی اور اُس کا قبضہ کمزور ہونے لگا جس کے نتیجے میں تائی پنگ کی خانی جنگی ہو ئی۔ ڈوگن کی بغاوت میں بھی ایک کروڑ بیس لاکھ کے قریب چینی ہلاک ہو ئے۔ 1900 میں باکسر کی بغاوت ہوئی اس نے مزید تباہی پھیلائی اگر چہ ملکہ سی شی نے باغیوں کی درپردہ امداد جاری رکھی اور بظاہر اُس نے بیرونی افواج کی مدد کی کہ اس بغاوت کو کچلا جائے بعد ازاں باکسر ز کو آٹھ غیر ملکی افواج نے شکست دی اور 20 ہزار ٹن چاندی بطور تاوان ِجنگ وصول کیا۔
اب ہند چینی کے علاقوں کی طرح چین بھی نو آبادیاتی نظام میں جکڑا جا چکا تھا اور یہاں بھی ہند ستان کی طرح تقسیم کر و اور حکومت کر و کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ اب چین میں بھی بظاہر جمہوریت کو نافذالعمل کیا جا رہا تھا۔ چین کی نام نہاد یا کمزور آخری بادشاہت Qing قنگ تھی جس کا آخری بادشاہ Puyi پوئی 7 فروری1906 میں پیدا ہوا تھا جو بچہ تھا۔ پہلے 1908 ء میں منگولیا میں پناہ لیئے رہا پھر 1912 ء میں اُس کی بادشاہت ختم ہو گئی اس کی وفات 17 اکتو بر 1967 میں بیجنگ میں ہوئی۔
یکم جنوری 1912 کو چین میں گوا مینتانگ یعنی نشنلسٹ پارٹی سن یت سین کو بادشاہت کے خاتمے اور نقلاب اور جمہوریت کی آمد پر صوبائی گور نر بنا یا گیا تاہم ایک سابق قنگ جنرل یو آن شیکائی جو انقلاب کے لیے نا موزوں سمجھا گیا تھا اُس نے سن یت سین کو ایک طرف کرکے خود صدارت سنبھا ل لی۔ یوآن نے خود کو نئی حکومت کا باد شاہ منوانے کی کو شش کی تاہم چینی سلطنت پر مکمل طور پر قبضہ کر نے سے پہلے ہی وہ اپنی طبعی مو ت مر گیا یوآن شیکائی کی موت کے بعد چین سیاسی لحاظ سے تقسیم ہو چکا تھا لیکن اُس وقت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی گئی مگر کٹ پتلی حکومت بیجنگ میں مو جود تھی تھی۔
لیکن حقیقت میں چین کے مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ 1920 کے اختتام پر گواومینتانگ ،،نشنلشٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کے زیرِانتظام ملک کو متحدہ کیا اور دارالحکومت کو نانجنگ منتقل کیا اور سیاسی رہنمائی کے نظام کو نافذ کر نا شروع کیا یہ نظام سن یت سین کے سیاسی ترقی کے پروگرام کی در میانی صورت تھی جس کے مطابق چین کو بتدریج ایک جدید اور جمہوری ریاست بنانا تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک کے عرصے میں 1917 کو روس میں اشتراکی انقلاب آیا اور پھر آنے والے برسوں خصوصاً 1925 کے بعد سے اسٹالن نے جس طرح طاقت کے بھر پور استعمال سے کیمو نزم کا نظام نافذ العمل کیا اور اُسے کا میا ب کر کے دکھا یا اس کا بھر پور اثرمشرقی یورپ ہند چینی ممالک اور سب سے زیادہ چین اور اس کے اجتماعی سیاسی سماجی شعور پر ہوا اور اس میں قیادت کا اہم کردار چیرمین ماو زے تنگ کا تھا۔
ماوزے تنگ ایک چینی مارکسی،عسکری ،سیاسی شخصیت تھے جنہوںنے مارکیسٹ لینینسٹ اشتراکی نظرایات کو اپنایا چین کی آزادی خود مختاری کے لیے خود پہلے طویل گوریلا جنگ لڑی اور پھر یکم اکتوبر 1949 کو چین کی آزادی اور خود مختاری کے بعد عالمی برادری میں چین کو مستحکم اور مضبو ط مقام دلوانے کے لیے ایک طویل صبر آزما جدو جہد مر تے دم تک جاری رکھی۔ اُنہوں نے اپنی وفات سے پانچ سال قبل عالمی برادری میں چین کو اُس کا مقام دلوا یا وہ 1949 سے 1976 تک چین کی کیمو نسٹ پارٹی کے چیرمین رہے جبکہ 1959 تک عوامی جمہوریہ چین کے صدر بھی رہے۔ ماوزے تنگ دنیا کی جد ید تاریخ کی مو ثر ترین شخصیات میں شمار کئے جا تے ہیں۔ ٹائم میگزین نے اُن کو 20 ویں صدی کی 100 موثر ترین شخصیات شمار کیا ،اُنہوں نے زندگی میں چار شادیاں کیں اور اُن کی دس اولادیں تھیں اُن کو آخری عمر میں راعشہ یعنی پارکنسن کی بیماری لاحق ہو گئی تھی عملی زندگی میں وہ شاعر، مصنف، فلسفی، گوریلا کمانڈر، پیپلز لبریشن آرمی کے کمانڈر انچیف اور سیاست دان رہے۔
شروع کے دور میں پیکنگ یونیورسٹی سے بھی وابستہ رہے چینی انقلاب کی جنگ جسے خانہ جنگی بھی کہا جا تا بھی لڑی اور دوسری چین جاپان جنگ میں بھی کمانڈ کی وہ1911 میں Xinhai Revolution ایکسنہائی انقلاب ا ورپھر اس کے بعد 1919 کیMay Fourth Movement تحریک سے شدید طور پر متاثر ہو ئے پھر بیجنگ یو نیورسٹی میں ملازمت کے دوران کیمو نسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بنے 1927 سے تحریک میں شامل ہوئے
خانہ جنگی اور ریڈ آرمی اور چینی کمو نسٹ پارٹی کی قیادت کی لانگ مارچ کیا پھر کچھ عرصہ یو نائنٹیڈ فرنٹ سے اتحاد کیا 1937 سے1945تک جاپان چین جنگ میں حصہ لیا اورر پھر انقلابی جنگ جسے خانہ جنگی بھی کہا گیا اس میں میں ماوزے تنگ نے قیادت کرتے ہو ئے یکم اکتوبر 1949 کو نیشنل گورنمنٹ کو شکست دیکر عوامی جمہوریہ چین کو آزاد ملک بنایا تو ساتھ ہی مغربی قوتوں نے تائیوان اور دیگر علاقوں کی بنیاد پر تائیوان کی حکومت کو چین کی نمائند گی اور جمہوریت کے ساتھ جمہوریہ چین کے نام سے تسلیم کیا۔ واضح رہے کہ اکتوبر 1945 میں اقوام متحدہ کے قیام پر جو 51 بنیادی ممبران تھے اُن میں چین نہ صرف شامل تھا بلکہ اُسے ویٹو پاور بھی دیا گیا تھا اور جب یکم اکتوبر 1949 کو مین لینڈ کے ساتھ ماوزے تنگ کی قیادت میں چین آزاد ہو کر عوامی جمہوریہ چین بنا تو مغربی قوتوں نے تائیوان کی بنیاد پر اسے جمہوریہ چین قرارد یکر ویٹو پاور اُس کے پاس رہنے دیا اور ماوزے تنگ کا چین اقوام متحدہ کی رکنیت سے محروم رہا۔ (جاری ہے)
The post اقوام متحدہ میں چین کا رویہ باقی عالمی طاقتوں سے مختلف رہا appeared first on ایکسپریس اردو.