دنیا میں انسان شروع سے ہی مختلف مشکلات جوجھتا آیا ہے، غاروں کی زندگی سے جدید دنیا تک اس کے لیے بہت سے کٹھن مراحل آئے ہیں۔ کہیں وہ قدرتی آفات کا شکار ہوا ہے، تو کبھی چند منہ زوروں کے جنگی جنون کا خمیازہ پوری انسانیت بھگتنا پڑا ہے۔ اسے ہر بار ایک نئے سفر کے آغاز کے لیے پھر سے جی اْٹھنا ہوتا ہے۔
فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہمیشہ ہی اس نئے سفر کی راہ متعین کی ہے، وقت کے ہر آمر کو للکارا ہے، قدرتی آفات پر مایوس قوم کی ڈھارس بندھائی ہے اور جنگوں میں امن کے نغمے بکھیرے ہیں۔ بغاوت کے بیچ بوئے ہیں اور نت نئے طریقوں سے شعور و آگاہی پھیلائی ہے۔
دنیا کو اس وقت ایک اور طرح کا محاذ درپیش ہے، جسے کوئی قدرتی آفت کہہ رہا ہے تو کسی کا خیال ہے کہ یہ بد اعمالیوں کی سزا ہے اور کچھ اسے سازش ثابت کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے اسٹریٹ پینٹرز نے بھی گلیوں، سڑکوں اور عمارتوں پر کورونا وائرس کے خطرات سے آگاہی اور طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تخلیقی شہ پارے بنائے ہیں۔
ان مصوروں نے اس عالمی بحران میں ایسے شاہ کار تخلیق کیے ہیں، جو دیکھنے میں تو صرف لکیروں اور رنگوں کا امتزاج ہیں، جاذب نظر بھی ہیں لیکن حقیقت میں ’’بولتی تصویریں‘‘ ہیں، جن کا ہر ایک کردار عزم و حوصلے کی داستان بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے اور جو بلند آواز میں پکار کر قوم کو اس موذی مرض کی ہول ناکی بتا رہی ہیں۔
کورونا وائرس عالمی وبا کی صورت میں منہ کھولے انسانوں کو نگل رہا ہے، اپریل کے اختتام تک دنیا بھر میں سوا دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جب کہ 3 لاکھ سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور روز بروز اس تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سائنس دان اس مہلک بیماری کی ویکسین کی تیاری میں مشغول ہیں اور ڈاکٹرز طبی عملے کے ہمراہ اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مریضوں کو موت کے منہ سے نکالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ صحافی پل پل کی خبر دے رہے ہیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن کو موثر بنانے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح تخلیق کار بھی شعور بیدار کرنے کے لیے فن پارے پیش کر رہے ہیں۔ اس وبا سے نمٹنا ہے تو ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسکاٹ لینڈ کے آرٹسٹ نے گلاسکو کی ایک دیوار پر فن پارہ بنایا، جس میں ایک شخص کے پاؤں کو کورونا وائرس جکڑے ہوئے ہیں اور وہ شخص پوری طاقت لگانے کے باوجود کورونا وائرس کی زنجیر توڑ کر اس جان لیوا قید سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پا رہا ہے۔
امریکا کے بعد کورونا وائرس سے سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں، جہاں روزانہ ہزار دو ہزار ہلاکتوں کی وجہ سے اب اجتماعی تدفین کی نوبت آگئی ہے۔ اٹلی کے شہر میلان کے ایک اسپتال کی دیوار پر طبی عملے کو سلام پیش کرنے کے لیے ایک آرٹسٹ نے ایسی نرس کی تصویر بنائی ہے، جو اٹلی کے نقشے کو گود میں لیے ہوئے ہے، یعنی اٹلی کو بچانے والے پیرا میڈیکل اسٹاف ہیں۔
برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے تارکین وطن مسلمان ڈاکٹرز اور طبی عملے کے اس مہلک وائرس کا خود شکار ہو کر جاں بحق ہونے پر سرکاری سطح پر اور پوری قوم کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ آرٹسٹ رچل لسٹ نے ایک دیوار پر محکمہ صحت کو یوں سلام تحسین پیش کیا۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سب سے زیادہ نقصان جس ملک کو پہنچایا ہے، وہ امریکا ہے، جہاں اس مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جب کہ ایک لاکھ سے زائد مصدقہ کیس ہیں۔ لاس اینجلس کی معروف شاہ راہ کی دیوار پر ایک پینٹنگ میں ’’اپنے پروگرام منسوخ کریں انسانیت نہیں‘‘ کا پُر مغز پیغام دیا گیا ہے۔
قدیم تہذیب کے وراث یونان میں 16 سالہ مصور ایس ایف نے کورونا وائرس وبا کے دوران سماجی دوری اور گھر پر محفوظ رہنے کے حوالے سے ایک شاہ راہ پر پینٹنگ کی، جس پر بے اختیار نوجوان مصور کو داد دیے بغیر نہیں رہا جاتا۔
فلسطین نے اسرائیل کے ظلم کے آگے ہار نہ مانی تو بہادر فلسطینیوں کو یہ وائرس کیا ڈرا سکتا ہے؟ غزہ کی ایک بلند عمارت کی دیوار پر مصور کی پینٹنگ میں نرس کو کورونا وائرس کو پھول بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس حوصلہ افزا مصوری کو سب ہی نے پسند کیا۔
کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف ممالک میں جرمنی بھی شامل ہے جہاں ویکسین کا پہلا ٹرائل مکمل بھی ہو گیا ہے اس کے علاوہ وہاں مصور بھی اس وبا میں کے خلاف اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اس حوالے سے دارالحکومت برلن میں ایک دیوار پر یہ فن پارہ بنایا گیا ہے۔
امریکا میں صدر کی پالیسیوں سے نالاں مصور نے سان فرانسکو کی ایک شاہ راہ پر ایک پینٹنگ بنائی ہے، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کورونا وائرس کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ حکمرانوں کی کرتوتوں اور ناقص حکمت عملی پر غصے کا ایک اظہار یہ بھی ہے۔
مونا لیزا کے پورٹریٹ کو مصوری کی دنیا میں چند اعلیٰ شاہ کاروں میں تصور کیا جاتا ہے، اس شاہ کار میں وبا کے باعث مونا لیزا بھی آپ کو حفاظتی ماسک پہنے نظر آ رہی ہیں۔
پڑوسی ملک بھارت میں ایک سڑک پر کورونا وائرس کو یوں ظاہر کیا گیا ہے جیسے وہ سورج مکھی پھول ہوں۔
ایک دیوار پر ایک سادھو کی بھی تصویر بنائی گئی ہے جو تپسیا میں مصروف ہے لیکن پھر بھی ماسک لگائے ہوئے ہے
روم میں ٹی وی بوائے کے نام سے شہرت رکھنے والے ایک آرٹسٹ نے کورونا وائرس کے دوران فضائی آلودگی کو اجاگر کرنے کے لیے ایک پینٹنگ بنائی، جس میں باپ بیٹے ماسک لگائے اسکوٹر پر محو سفر ہیں اور لڑکے نے ایک پوسٹر اْٹھایا ہوا ہے، جس پر ’ہوا کو آلودگی سے پاک کرو‘ لکھا ہوا ہے۔
بیلجیئم کے مصور کا فن پارہ بھی لاجواب ہے، اس میں ایک لڑکی کو ماسک پہنے دکھایا گیا ہے جس کی آنکھیں آنسوؤں اور مستقبل کے اندیشوں سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ حالات کی ایک دل خراش منظر کشی ہے۔
پولینڈ کے اسپتال کی دیوار پر طبی عملے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خوب صورت پینٹنگ کی گئی ہے، جس میں ماسک لگائے ڈاکٹر اور طبی عملے کو مریضوں کو علاج کرنے کے لیے تیار دکھایا گیا ہے، جب کہ اس میں سپرمین ’کریکٹر‘ کو جوان بچے، ضعیف اور خاتون کو اسپتال لاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ہنگری میں ایک پینٹنگ میں نرس کو ’سپر مین‘ کے روپ میں دکھایا گیا ہے اور اس پر ’’اپنے گھروں میں رہیں اور ایک دوسرے کا خیال کریں‘‘ بھی تحریر ہے
کولاراڈو میں مصور نے کورونا وائرس کیخلاف ہراول دستہ بننے والی نرس کو طاقتور، بہادر اور مددگار فرشتے کے روپ میں دکھایا ہے۔
امریکا میں ایک مصور نے چاک کے ذریعے معروف سائنس دان آئن اسٹائن کی تصویر بنائی ہے, جو ماسک لگائے ہوئے ہیں۔ چاک کی مدد سے یہ پینٹنگ ایک اسپتال کی دیوار پر بنائی گئی ہے تاکہ آنے والوں کو ماسک کی اہمیت کا اندازہ ہو۔
ڈبلن میں ایک مصور نے وائرس کو انسانوں کا شکار کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اپنے اس فن پارے میں انہوں نے شوخ رنگ استعمال کیے ہیں۔
The post کورونا وائرس : رنگ اور نقش ونگار کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.