ریاست ہائے متحدہ امریکا کے یکے از بانیان اور امریکا کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن یوں تو امریکی تاریخ میں کئی جہت سے اہم حیثیت کے حامل ہیں لیکن دو موضوعات ان کے متعلق ایسے ہیں جن پر عیسائی دنیا مخمصے کا شکار اب سے نہیں بلکہ دو ڈھائی سو سال سے ہے کہ ان واقعات کو کیا معنی دیے جائیں۔ ایک ہے تھامس جیفرسن کی بائبل اور دوسرا موضوع ہے تھامس جیفرسن کا قرآن۔
قارئین کا چونک جانا قرین قیاس ہے۔ جیفرسن کی زندگی کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص اس کی حیات مستعار کے یہ گوشے جان کر چونک جاتا ہے اور ہر دو واقعات کے موقع پر آگے کے لیے ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں اس کی دل چسپی بڑھ جاتی ہے۔جیفرسن کی بائبل کا احوال ہم گذشتہ مضمون میں لکھ چکے اب ان کے قرآنی نسخہ پر کچھ بات کرتے ہیں، کیوںکہ یہ سوال جسے جیفرسن کے سوانح نگار ’’ایک مشکل سوال ‘‘ قرار دے کر اس کے درست جواب سے پہلو تہی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا تھامس جیفرسن پر مطالعہ ٔ قرآن نے کوئی اثر ڈالا تھا؟
راقم کے خیال میں اس کا جواب معلوم کرنے کے لیے جیفرسن کی تیار کردہ بائبل اور اس سے متعلق خود جیفرسن کے تبصروں کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے، جس کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جیفرسن کی سوچ پر قرآن پاک کہاں کہاں اثرانداز ہوا۔
تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس واقعے کی بدولت کسی مورخ یا محقق کے لیے اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ اسلام امریکا میں اس ریاست کے بالکل ابتدائی دور سے موجود ہے۔ ایک امریکی قلم کار لکھتا ہے کہ امریکی جمہوریہ کے ابتدائی ایام میں یہاں اسلام کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا میں مذہبی تنوع کی تاریخ اس سے زیادہ گہری اور پیچیدہ ہے جتنی لوگ (خصوصاً امریکی عوام ) جانتے ہیں۔اس موضوع پر مطالعہ کرنے والوں کو یہ چیز خصوصیت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ بعض ایسے مقامات جہاں جیفرسن کے قرآنی نسخے کا ذکر ہے وہاں خصوصیت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ نسخہ ’’امریکا کے اعلان آزادی لکھنے سے گیارہ سال پہلے‘‘ جیفرسن نے خریدا تھا۔ زیرنظر تحریر میں ہم جائزہ لیں گے کہ جیفرسن کی سوچ پر مطالعہ قرآن کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور ان اثرات کی موجودگی کس کس رنگ میں ظاہر ہوئی۔
تاریخی طور پر ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام نارتھ امریکا میں کئی سو سال سے موجود ہے۔ اٹھارھویں صدی عیسوی میں قرآن کا انگریزی ترجمہ برطانیہ کے پروٹیسٹنٹ اور اس کی امریکی کالونیوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گیا تھا۔ اس کا مطالعہ کرنے والوں میں سے ایک تھامس جیفر سن تھے۔جیفرسن کے ذاتی قرآنی نسخے نے2019ء کے اوائل میں توجہ حاصل کی جب کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون راشدہ طلیب نے اعلان کیا کہ وہ تقریب حلف برداری میں اپنا حلف اس نسخہ پر دیں گی۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ کانگریس کے کسی ممبر نے صدیوں پرانے نسخہ قرآنی پر حلف دینے کی بات کی، کیتھ الیسن وہ پہلے کانگریس رکن تھے جنہوں نے2007ء میں ایسا کیا۔ اس نسخہ قرآنی کا استعمال امریکہ میں اسلام کی طویل اور اہم تاریخ کے خاکے کو اجاگر کرتا ہے۔
راشدہ طلیب کہتی ہیں کہ ایسا کرنا میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیوںکہ بہت سے امریکی اس قسم کا احساس رکھتے ہیں کہ جیسے اسلام امریکا میں کچھ عرصہ پہلے ہی درآمد ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان امریکا میں بالکل آغاز سے موجود ہیں اور امریکا کے لگ بھگ چار بانی راہ نما کانگریس کے موجودہ ارکان سے زیادہ اسلام کے بارے میں جانتے تھے۔
جیفرسن کے زیر مطالعہ ترجمہ قرآن کانگریس لائبریری میں کیسے پہنچا اس بابت بتایا جاتا ہے کہ 1781ء میں جب امریکا اور برطانیہ کے مابین جنگ ہوئی، تو برطانوی فوجیوں نے لائبریری کی عمارت جلا کر خاک کر دی۔ یوں تین ہزار قیمتی کتابیں بھی راکھ ہوئیں۔ تب جیفرسن نے لائبریری کو اپنے کتب خانے میں سے تقریباً ساڑھے چھے ہزار کتب واجبی قیمت پر فروخت کر دیں، تاکہ وہ نئے سرے سے اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔ ان کتابوں میں ایک قرآن پاک کا دو جلدوں پر مشتمل انگریزی ترجمہ کا وہ نسخہ بھی تھا جو جیفرسن نے 1765ء میں 22 سال کی عمر میں خریدا تھا۔
آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کی پروفیسر اور کتاب ’’تھامس جیفرسن کا قرآن اسلام اور بانیان ‘‘(Thomas Jefferson’s Quran – Islam and the Founders)کی مصنفہ ڈینیز اے اسپیل برگ لکھتی ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں قرآن کو برطانیہ اور نارتھ امریکا کے پروٹیسٹینٹ فرقے میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے مطالعہ میں بڑے پیمانے پر دل چسپی لی، کیوںکہ لوگ اسے ایک قانون کی کتاب کے طور پر لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ مسلمانوں کو سمجھ سکیں گے جن سے وہ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ میں میل جول رکھے ہوئے تھے۔1765ء میں جب جیفرسن نے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے قرآن کا نسخہ حاصل کیا تو اس کی وجہ عثمانی قانون کے سمجھنے میں اس کی دل چسپی بتائی جاتی ہے۔
تاہم اس مطالعہ نے ان کے عقائد و نظریات پر بھی واضح اثر ڈالا۔ ایک مضمون نگار لکھتا ہے ’’ہوسکتا ہے کہ اس (مطالعہ قرآن ) کا ورجینیا کے مذہبی آزادی کے قانون کے لیے جیفرسن کے ارادے میں دخل بھی ہو جو کہ یہودی اور غیر یہودی، عیسائی اور مسلمانوں (جنہیں جیفرسن نے Mahometanکا نام دیا ہے)، ہندو اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے عبادت کے حق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، جیسا کہ جیفرسن نے اپنی سوانح عمری میں لکھا تھا۔‘‘مورخین کے مطابق جیفرسن نے قانون پڑھنے والے نوجوان طالب علم کے طور پر ’’اسلام کے عالمی نظامِ قانون پر پڑنے والے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ‘‘ قرآن کا نسخہ خریدا تھا۔ یہ گویا کہ ایک اعتراف ہے اس بات کا کہ دنیا کے دیگر قوانین نے اسلامی قانون کے اثرات کو قبول کیا ہے ۔مورخین کے اس قول کو سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغرب کے تعلیمی نصاب میں اسلامی علوم کے دخل اور ان کی اہمیت اور اعلیٰ مقام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ بعض مورخوں کا گمان یہ بھی ہے کہ اس وقت جیفرسن اور یورپ کے بہت سے لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ اسلام افریقہ کے ان علاقوں میں بھی کتنی دور تک پھیل چکا ہے جو عثمانی سلطنت کے زیرنگیں نہیں ہیں۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ نارتھ امریکا کے بہت سے غلاموں کا مذہب وہی ہے جس کا یہ لوگ مطالعہ کر رہے تھے۔
کوئی مسلمان کہیں موجود ہو تو وہ اپنے مخصوص طریقہ عبادت سے ہی گویا اعلان کردیتا ہے کہ میں مسلمان ہوں، اور جب کسی جگہ ہزارہا مسلمان موجود ہوں خواہ معاشرتی و معاشی لحاظ سے کسی بھی سطح پر ہوں اس مقام اور اس دور کے متعلق کوئی کہے کہ آس پاس والوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارے درمیان مسلمان بھی موجود ہیں بایں طور کہ وہ قرآن کا انہماک کے ساتھ مطالعہ بھی کررہے ہوں قابل فہم نہیں۔ سطور بالا میں ہم اسپیل برگ کا بیان لکھ آئے ہیں کہ نارتھ امریکا کے لوگ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ کے مسلمانوں سے میل جول رکھے ہوئے تھے۔ مزید برآں بعض محققین تخمینہ لگاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جنوبی امریکا لائے گئے غلام مرد و عورتوں میں سے بیس فی صد مسلمان تھے۔
جارج سیل کا ترجمہ قرآن:
جیفرسن کا قرآنی نسخہ جارج سیل نامی برطانوی وکیل کا ترجمہ تھا جو اس نے1734ء میں کیا تھا۔ یہ براہ راست عربی سے کیا گیا پہلا انگریزی کا ترجمہ تھا جو اپنی اشاعت کے 150سال بعد تک انگریزی تراجم میں نمایاں مقام کا حامل رہا۔ اس سے پہلے جو انگریزی ترجمہ دست یاب تھا وہ فرانسیسی زبان سے انگریزی میں منتقل ہوا تھا اور1649ء میں شائع ہوا۔
ترجمہ کے ساتھ 200 صفحات کے طویل ابتدائی تعارف میں سیل نے اس ترجمہ کا مقصد یہ بتایا کہ اس طرح پروٹیسٹنٹ عیسائی قرآن کو سمجھ کر اس کے خلاف بحث کر سکیں گے۔
اسپیل برگ کہتی ہیں کہ سیل کا یہ ترجمہ نظریاتی طور پر مشنری تبدیلیوں کا ایک ہتھیار تھا۔ ان کے مطابق سچ یہ ہے کہ عربی سے براہ راست پہلا انگریزی ترجمہ کرنے والے جارج سیل کو اینگلیکن مشنری سوسائٹی کی طرف سے اسپانسر کیا گیا تھا۔ جنوری 2019ء میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ ایک مضمون میں بھی اس بات پر زور دیا گیا کہ1734۱ء کے اس ترجمہ قرآن کی بنیاد اسلام سے کسی قسم کی محبت نہیں تھی، بلکہ مسلم علاقوں میں عیسائی مشنری کوششوں کے باعث تھی۔قانونی کتاب کی حیثیت سے قرآن پاک کے مطالعہ میں جیفرسن کو جارج سیل کے کیے ہوئے نئے ترجمہ سے کافی مدد ملی ۔ سیل کے اس ترجمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ قرآنی تراجم کی ابتدائی کوششوں کے مقابلے میں تیکنیکی طور پر اعلیٰ تھا بلکہ اس حساسیت و نزاکت کے ساتھ کیا گیا تھا جو خود جیفرسن کے ابھرتے ہوئے رویہ سے مختلف نہیں تھی۔ جیفرسن کا خریدا ہوا ورژن اس وقت کا بیسٹ سیلر تھا۔
تاریخی موضوع پر امریکا کا ڈیجیٹل کیبل اینڈ سیٹلائیٹ ٹی وی ’’ہسٹری(History) ‘‘ اس بات پر زور دیتا ہے کہ مورخین امریکا کے تیسرے صدر کے مقدس کتاب قرآن کے حصول کو ان کی مختلف مذاہب سے متعلق تجسس سے منسوب کرتے ہیں۔
سعودی آرامکو ورلڈ میگزین کے جولائی /اگست 2011ء کے شمارے میں شائع شدہ Sebastian R. Prange کے مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ جدید کے تبصرہ نگار جیفرسن کے قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے واقعہ کو بربری ممالک (آج کے مراکش، تیونس، الجزائر اور لیبیا) کے ساتھ تنازع سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے 1780 ء کی دہائی کا واقعہ بتاتے ہیں۔ حالاںکہ جیسا کہ ہم اوپر درج کر آئے ہیں کہ جیفرسن کے قرآنی نسخہ کی خریداری کا واقعہ1765ء کا ہے جب جیفرسن نوجوان اور ورجینیا کے کالج آف ولیم اینڈ میری میں قانون کے طالب علم تھے۔ یہ تجزیہ محض مذہبی تعصب کے زیر اثر روا رکھا گیا، جیسا کہ خود مضمون نگار نے اس خیال کو ردّ کیا ہے، نیزمنصف مزاج عیسائی مورخین اس بات پر زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیفرسن بربری ممالک کے بحری قزاقوں کے معاملے کو مذہبی زاویے سے نہیں ، معاشی پس منظر میں دیکھ رہے تھے۔
جیفرسن کی قرآن پاک میں دل چسپی :
آرامکو ورلڈ میگزین کے مطابق جیفرسن کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں جیفرسن کی دل چسپی کسی نظیر کے بغیر نہیں تھی۔ اس زمانے میں تقابلی قانون پر بہترین کام جرمن دانش ور سیموئیل وان پفن دروف کی ’قانونِ فطرت و اقوام ‘ (The Law of Nature and Nation) کے نام سے کتاب کی صورت میں موجود تھا جس سے جیفرسن نے کافی اثر لیا۔ خود جیفرسن کی قانونی تحاریر میں کسی اور سے زیادہ اس کتاب کا حوالہ دکھائی دیتا ہے۔ وان پفن دروف نے اپنی اس کتاب میں اسلام اور قرآن کے کافی حوالہ جات مہیا کیے ہیں اور مختلف مواقع پر اختلافی رائے زنی بھی کی تاہم بعض مقامات پر قرآن پاک کے قانونی فیصلوں کے حوالوں کو تائیدی انداز میں بھی بیان کیا۔ جیفرسن کی مشہور سوانح کا مصنف، کیون ہائیس Kevin Hayesلکھتا ہے: ’’اپنے وکالتی علم کو ہر ممکن حد تک وسیع کرنے کی خواہش کے دوران جیفرسن نے قرآن کو اپنی توجہ کا مستحق پایا۔‘‘
جیفرسن پر قرآن پاک کے اثرات :
جیسا کہ ہم سابق مضمون میں لکھ آئے ہیں کہ جیفرسن نے بائبل میں سے جو مضامین رد کر کے اپنی نئی بائبل ترتیب دی ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر یہودیت سے متاثر ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان میں سے کئی باتوں کا تعلق یہودیت سے قطعی نہیں بنتا ، تاہم اس قضیہ میں قدرے تفصیل ہے۔ جیفرسن نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو روحانی پیشوا یا کسی قسم کی مافوق الفطرت خدائی طاقت (یعنی معجزات) کا حامل انسان (بالفاظ دیگر نبی و رسول) ماننے میں پس و پیش کیا ہے، اس سے ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ وہ یہودی نظریات سے متاثر ہوئے ہیں، اور انہوں نے لگے لپٹے الفاظ و دانش ورانہ انداز سے اس کا انکار کیا اور انہیں محض ایک انسان لیکن انتہائی اعلیٰ و قابل تقلید کردار کی حامل شخصیت کے طور پر مانا۔
اب یہاں جیفرسن اسلام اور یہودیت دونوں سے بہ یک وقت متاثر ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ چوںکہ آزاد سوچ کے مالک تھے، اس لیے خود اپنے مذہب کی غیرفطری پابندیوں و جکڑ بندیوں سے بیزار تھے، مطالعہ کی کثرت نے انہیں اپنے علم و دانش پر غیرضروری حد تک پُراعتماد بنادیا تھا۔ اس چیز نے جیفرسن کو اپنی عقلی قبولیت کی بنیاد پر نظریات اختیارو ترک کردینے والا بنادیا۔ چناںچہ اپنے مطالعہ قرآن کے دوران جیفرسن نے کئی عقائد کی اصلاح کی وہیں کچھ باتوں میں وہ یہودیت سے متاثر ہوئے۔ مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کا انکار کہ وہ خدا نہیں بلکہ ایک انسان تھے، یہ حقیقت قرآن سے حاصل کی لیکن دیگر نظریات میں قرآن کے بالکل مخالف سمت میں نکل گئے مثلاً یہود کی پیروی میں انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدائش کا انکار کیا، یا عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی پیشوائیت یعنی نبوت و رسالت کا انکار۔ حالاںکہ ان دونوں باتوں پر قرآن پاک میں زور دیا گیا ہے۔
راقم کی رائے میں اگر جیفرسن مکمل طور پر یہودیت سے متاثر ہوتے تو عیسیٰ علیہ السلام کو اعلیٰ کردار کی حامل شخصیت کے طور پر بھی قبول نہ کرتے۔ یہاں جیفرسن کو دنیائے عیسائیت میں کسی قدر قابل قبول حیثیت حاصل ہونے میں قرآن پاک کا مطالعہ بنیادی عنصر ہے جس نے قطعی انداز میں عیسیٰ علیہ السلام کی کسی قسم کی خدائی حیثیت کا انکار کرتے ہوئے ان کی بشریت کے ساتھ ان کی رسالت اور اس اعلیٰ و ارفع فضیلت کا ذکر بھی کیا جس کے جیفرسن معترف تھے۔
جیفرسن نے جن عقائد و واقعات کو ’اپنی‘ بائبل میں شامل نہ کرکے انہیں ’کچرا ‘ قرار دیا ہے ان میں سے بیشتر وہ نظریات ہیں جن کا قرآن پاک میں ردّ آیا ہے جیسے عقیدۂ تثلیث، یا قرآن سے جس کی تائید نہیں ہوتی جیسے قیامت عیسیٰ جسے ایسٹر کے تہوار سے یادگار بنایا گیا ہے۔
پولوس سے متعلق جیفرسن جس موقف کا اظہار کرتے ہیں وہ ہمیشہ سے مسلمان محققین کا موقف رہا ہے۔ یہاں بھی وہ یہودیت و عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام سے متاثر ہوئے ہیں، بلکہ پولوس کا قرآن پاک میں کسی قسم کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جیفرسن نے قرآن کے علاوہ بھی مسلمان محقق علماء کی بعض کتابیں عیسائیت کے حوالے سے پڑھی ہیں تبھی پولوس کے بارے میں ان کی رائے اختیار کی، کیوںکہ یہودی تو پولوس پر اس طرح کا تبصرہ کرنے سے رہے۔ الغرض تھامس جیفرسن کی سوچ پر اور ان کے کام پر قرآن پاک کا مطالعہ اثرانداز ہوا جس کا اثر بالخصوص بائبل کی ترتیبِ نو کی شکل میں ظاہر ہوا۔ قارئین کے لیے یہ واقعہ بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امریکا کی تاریخ میں وائٹ ہاؤس میں کسی مسلمان مہمان کے اعزاز میں پہلا افطار تھامس جیفرسن نے1805ء میں دیا۔ یہ مہمان ایک تیونسی سفارت کار سلیمان ملیملی تھے۔نیز یہ بھی ایک تاریخی اتفاق ہے کہ 1786ء میں کسی بھی بیرونی طاقت سے امریکا کا پہلا معاہدہ مسلمان ملک مراکش کے ساتھ ہوا۔ اس معاہدے میں جیفرسن نے اہم کردار ادا کیا۔
The post تھامس جیفرسن کے نظریات پر مطالعۂ قرآن کے واضح اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.