’’کہنے کو دو قدم کا فاصلہ ہے لیکن عمر کٹ جاتی ہے، فاصلہ نہیں کٹتا۔ ہم چل رہے ہیں مسلسل۔ صبح کو چلتے ہیں، شام کو چلتے ہیں، خوابوں میں سفر کرتے ہیں، ہم ہی کیا، ہمارے ساتھ راستے بھی سفر میں ہیں۔ منزل ملے، تو منزل سفر میں ہوتی ہے۔ یہ کائنات بھی مسافر ہے۔ ہر شے راہی ہے، ہر شے سفر میں ہے۔ نامعلوم سفر، بے خبر مسافر، ناآشنا منزلیں، کوئی وجود ہمیشہ ایک جگہ نہیں رہ سکتا۔ سفر ہی سفر ہے۔ سفر کا آغاز سفر سے ہوا اور سفر کا انجام ایک نئے سفر سے ہوگا۔ مسافرت بے بس ہے، مسافت کے سامنے۔‘‘
ہم سب ہمہ تن گوش تھے تب وہ بولے: ’’پرندے اُڑتے چلے جاتے ہیں، فضائیں ختم نہیں ہوتیں۔ مچھلیاں تیرتی چلی جاتی ہیں، سمندر ختم نہیں ہوتا۔ یہ سفر کب سے ہے، نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم! بسیں، گاڑیاں، خلائی اور فضائی گاڑیاں، جہاز ہوائی اور بحری سب متحرک ہیں۔ لوگ آ رہے ہیں، لوگ جا رہے ہیں۔ آنسوؤں سے الوداع ہے۔ خوشی کے ساتھ خوش آمدید ہے۔ جانے والے بھی مسافر اور بھیجنے والے بھی مسافر۔ سب مسافر ہیں۔ ہمیشہ سفر ہی سفر۔‘‘
جیون گیلری میں ہم سب تصویروں کی طرح لٹک رہے ہیں۔ یہ جو دنیا ہے میرے رب کی بنائی ہوئی، چلتی پھرتی، جیتی جاگتی تصویروں سے مزیّن۔ جسے میرے رب نے بہت پیار سے کہا ہے کہ میں نے تو ہر تصویر بہت خُوب صورت بنائی ہے۔ بہت ہی عمدہ اور حسِین۔
میں روزنامہ جسارت سے فیچر رائٹر وابستہ تو ہوگیا تھا، لیکن دفتر نہیں جایا کرتا تھا اور اپنا فیچر بھیج دیا کرتا تھا۔ پھر ہفت روزہ فرائیڈ اسپیشل میں زندگی کے نام سے میں نے عام آدمی کی حقیقی کہانیاں لکھنا شروع کیں اور پابندی سے دفتر آنے لگا۔ اس بات کو اب تقریباً چھبیس برس سے زیادہ ہوگئے۔ ہمارے دفتر کے برابر والی بلڈنگ میں ماہ نامہ سب رنگ کا دفتر تھا، جہاں میں برادر بزرگ شکیل عادل زادہ سے نیاز حاصل کرنے جایا کرتا تھا۔ میری اور احفاظ بھائی کی پہلی ملاقات وہیں ہوئی تھی۔ مجھے وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے، میں نے انہیں بتایا تھا کہ میں عبداللطیف ابُوشامل ہوں۔
احفاظ بھائی نے مجھے بہ غور دیکھا، میرے شانوں پر بکھرے گیسو، پرانی جینز اور ٹی شرٹ میں وہ مجھے چند لمحے دیکھتے رہے اور پھر سینے سے لگا کر بس اتنا کہا: ’’آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، آپ تو نوجوان ہیں، میں تو آپ کو کوئی عمر رسیدہ مذہبی انسان سمجھ بیٹھا تھا۔‘‘ ہم دونوں بہت ہنسے اور پھر وہ ملاقات دوستی میں ڈھل گئی۔ میں بھول جاتا تھا اور وہ مجھے یاد دلاتے تھے۔ تم نے اس آدمی کی کہانی لکھی۔ میں رات کو بہت دیر تک رویا۔
وہ میری بہت سی باتوں سے نالاں تھے۔ اکثر کہتے تم اپنا حلیہ درست کرو۔ میں کسی دن تمہیں حجام کے پاس لے چلوں گا اور تمہارے بال خود کٹوا دوں گا اور میں ہنس دیتا۔ کبھی کہتے یہ تم نے لُنڈے سے کتنی جینز خرید لی ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتیں۔ عجیب آدمی ہو تم، وہ خود بھی سگریٹ پیتے تھے لیکن میری سگریٹ نوشی سے بہت نالاں تھے۔
تم باز نہیں آؤ گے اپنی حرکتوں سے۔ بہت خودسر ہو تم، میرے کاموں پر ان کی پیار بھری تنقید جاری رہتی۔ تم آخر ہو کیا، ہر وقت چائے سگریٹ پیتے رہتے ہو۔ میں نے تمہیں کھانا کھاتے ہوئے نہیں دیکھا اور میں ہنس کر کہتا: یہ جو آپ مجھے جوان کہتے ہیں۔ میرے اندر ایک بوڑھا انسان رہتا ہے آپ ہلکان نہ ہوں، میں نے اپنی زندگی گزار لی ہے۔ یہ تو اضافی جی رہا ہوں۔ تو بہت پیار کیا بہت۔ مجھے آج بھی یاد ہے ان کا جملہ۔ ’’تم یہ بات میرے سامنے کبھی مت کرنا، تم مجھے اپنے بھائی کی طرح عزیز ہو۔‘‘ اور ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے ان سے وعدہ کرلیا کہ آیندہ ایسی بات نہیں کروں گا۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے بہت اچھی طرح جب انہیں کہیں سے معلوم ہوگیا کہ میں تین مرتبہ دل کی سرجری کروا چکا ہوں۔ اس دن تو انھوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں نے ایک نیا رُوپ دیکھا اُن کا، وہ پیار سے بھرا ہوا آدمی غُصّے سے کانپ رہا تھا۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا بولو! کیوں نہیں بتایا تھا۔ میں خاموش تھا اور وہ غُصّے میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے، بہت غُصّے میں تھے وہ، پھر ایک عجیب سی بات کہی، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ اُن کی باتیں میں کبھی نہیں بُھول سکتا، کبھی نہیں۔
زندگی گزرتی چلی جاتی ہے۔ برف کی طرح پگھلتی چلی جاتی ہے۔ سب مایا ہے۔ سب چلتی پھرتی چھایا ہے۔ سب مایا ہے۔ مجھے جرم حق گوئی میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور میں سینٹرل جیل میں قید تھا۔ میری رہائی کے لیے پوری احتجاجی تحریک انہوں نے منظّم کی، نہ جانے ان پر کیا گزری۔ رہا ہو کر آیا تو بہت دیر تک مجھے سینے سے لگائے کھڑے رہے، کیسے رہے تم اتنے دن وہاں! کھانا کیسا ملتا تھا، بہت تکلیف ہوئی ناں تمہیں، میں سو نہیں سکا اتنے دن۔ میں ہنس دیا اور کہا: کچھ بھی نہیں ہوا احفاظ بھائی، سب ٹھیک رہا، بس آپ کی ڈانٹ نہیں سُن سکا۔ بہت پیار کیا انھوں نے مجھے۔ ہاں وہ مجھے واقعی اپنے حقیقی بھائی کی طرح چاہتے تھے۔ باکمال انسان۔
وہ صحافت کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ مُجسّم تاریخ، بہت نام ور لوگوں کے ساتھ رہے وہ۔ نہ جانے کتنے قصے یاد تھے انھیں اور نادر تصاویر، کتب اور مجسمے جمع کرنے کا جنون۔ فلمیں دیکھتے تھے اور بہت ہی خوب صورت انداز میں بیان کرتے تھے۔
وہ کارِ عشق میں مبتلا تھے۔ اپنے لیے بھی کوئی لمحہ پس انداز نہ کرسکے۔ آزاد صحافت سے اُن کی وابستگی دیدنی تھی۔ بے غرض انسان۔ انھوں نے آزاد صحافت سے عشق کیا تھا۔ ہر لمحہ، ہر وقت وہ اس کے گُن گاتے۔ اس کے اُتار چڑھاؤ ان کے سامنے تھے۔ بلا کے وفادار اور زندگی کو اپنے عشق پر قربان کردینے والے۔ انہیں پوری صحافتی تاریخ ازبر تھی۔ خُوش گفتار، ہنس مُکھ اور بَلا کی یاد داشت۔ انھوں نے اپنی زندگی اسی مقصد کے حصول میں کھپا دی۔ ایک کمٹمنٹ کے ساتھ جیے۔ انھوں نے کبھی کسی کو زحمت نہیں دی۔ کبھی نہیں۔ وہ ہنستے کھیلتے چلے گئے۔ نادر و نایاب انسان۔ بے مثال اور بے غرض انسان۔ وہ واقعی درِِ نایاب تھے۔ ہاں وہ جئے اور سر اٹھا کے جئے۔ قابل رشک زندگی تھی اُن کی۔
کبھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے لکھنا۔ کیسے لکھیں، کیا لکھیں، الفاظ یوں دُور بھاگتے ہیں جیسے ہم کوئی کوڑھی ہوں۔ الفاظ کا ایک تقدس ہوتا ہے، یوں ہی تو نہیں ہوتا کہ بس قلم اٹھایا اور صفحات کا پیٹ بھر دیا۔ لیکن کبھی اس کا الٹ ہوجاتا ہے لفظ قطار باندھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ لکھ ڈالو لیکن ۔۔۔۔۔۔ لکھاری روٹھ جاتا ہے، اس لیے کہ کیفیت کو کیسے بیان کیا جائے، بیان کیا جاسکتا ہے کیا کیفیات کو، نہیں کوئی لفظ نہیں کفالت کرتا کسی کیفیت کو بیان کرنے کی، وہ تو صرف محسوس ہی کی جاسکتی ہے۔
لکھاری بھی کیا لکھے، کیسے لکھے اور کس کے لیے لکھے، اندر قبرستان بن جائے تو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تہی دامن ہیں تو ایسے میں سوائے خموشی۔ کچھ چارہ نہیں ہوتا بس بے چراغ، گُلوں سے محروم ہوتا ہے۔ ہم سب اپنی قبر خود اٹھائے گھوم رہے ہیں، جہاں موت نے دبوچا وہیں پیوند خاک ہوگئے۔ قبر تو انسان کو پکارتی رہتی ہے آؤ، آؤ! کب میری کوکھ بھرو گے لیکن اتنی منحوس آواز ہم آخر کیوں سنیں۔ زندگی کے ساتھ تو موت کا پہرہ لگا ہوا ہے، ہم سوجاتے ہیں وہ جاگتی ہے، کوئی بچ کے نہیں نکل سکتا اس سے، کوئی بھی نہیں۔ زردار ہو یا بے زر، توانا ہو یا کم زور، عقل کا پُتلا ہو یا مُجسّم حماقت، زاہد و عابد ہو یا خدا بے زار، مجلسی ہو یا مردم بے زار، بے حس موت کچھ بھی نہیں دیکھتی اپنا کام کر گزرتی ہے۔ ایک لمحہ آگے نہ پیچھے، مہلت عمل پوری ہوئی تو بس دیر نہیں لگاتی لے اُڑتی ہے۔
موت، زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جو آیا ہے وہ جائے گا، کوئی بھی تو نہیں رہتا سدا اس مسافر خانے میں۔ لیکن جو لوگ موت کی راہ خود منتخب کرلیں وہ زندہ رہتے ہیں، امر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ جوہر ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔ جو اپنے لیے نہیں، دوسروں کے لیے جئیں وہ کب مرتے ہیں، مرتے تو وہ ہیں جو بس اپنے لیے جی رہے ہوں۔
عجب آزاد مرد تھا وہ، جسے احفاظ الرحمن کہتے ہیں۔ وہ جس نے اپنے بے کس و بے بس، مظلوم، معصوم، پسے ہوئے اور ناتواں لوگوں کے باوقار جینے کو اپنا شعار بنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔ ہاں وہ ندیم باصفا تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں وہ گزر گئے، اتنا کریہہ جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے، اک زندہ و جاوید ہیرو کو کون مار سکتا ہے! آج ثابت ہوگیا احفاظ الرحمن امر ہوگئے۔
عجیب ہے یہ دنیا اور عجیب تر ہیں اس کے باسی۔ لیکن اسی انبوہ کثیر میں کچھ سرپھرے نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسے نمایاں کہ پھر جدھر دیکھیے وہی نظر آتے ہیں، ایسے سرپھرے کہ کوئی بھی ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔ کہلاتے وہ گم راہ ہیں، اور اسی لیے قدامت پسندوں کی نظر میں راندۂ درگاہ ہوتے ہیں، لیکن راست باز تو وہی ہوتے ہیں۔
عجیب لوگ ہوتے ہیں ایسے لوگ، زمین کا نمک۔ ایسے جو انسانیت کو اپنا کنبہ کہتے ہیں، ان کا مذہب تکریم انسانیت ہوتا اور وہ ان کے حقوق کے پرچم بردار ہوتے ہیں۔ وہ سمندر ہوتے ہیں، محبتوں کا سمندر، ان کی لغت میں قوم، مذہب، قبیلہ، خطہ نہیں ہوتا۔ عالم گیر حقوق انسانی کے علم بردار۔ یہ جو خود فراموشی ہے، یہ ویسے ہی نہیں مل جاتی، بہت کچھ بل کہ اپنا سب کچھ قربان کردینے کے صلے میں ملتی ہے، ہر کس و ناکس کو نہیں کہ یہی تو جوہرِِ انسانیت ہے کہ جب تک خود کو فراموش نہ کیا جائے، کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔ صوفیاء اس منزل کو ’’نفی ذات‘‘ کہتے ہیں اور یہی مطلوب ہوتا ہے۔
لوگوں نے آوازے کسے، طعنے دیے، فتوے جڑے، وہ سخت جاں ہنستا رہا، ہنستا رہا اور بس اپنی طے کردہ منزل کے راستے پر، خارزار راستے پر چلتا رہا، چلتا رہا۔ آبلہ پائی جیسا لفظ تو ان کی کفالت ہی نہیں کرتا، وہ تو مجسم مصلوب تھے، سنگ زنی میں بھی رقصاں، اور سنگ کا کیا صاحب! وہ تو پتھر ہیں سو اچھالا گیا پتھر کہیں سے بھی مضروب کرسکتا ہے، اپنی سُولی آپ اٹھائے ہوئے مصلوب ’’ سرِ بازار می رقصم‘‘ کا گیت گاتے، بس اپنے راستے پر رقص بسمل کرتے ہوئے رواں دواں۔ عجیب سرشار لوگ ہوتے ہیں ایسے سرپھرے لوگ، زمین کا نمک۔۔۔۔۔۔۔! مظلوم کے حق میں نغمہ سرا، اور آپ تو جانتے ہی ہیں ناں جب کوئی مظلوم کے حق میں نغمہ سرا ہو، تو حُسین بنتا ہے اور پھر اُس کے قبیلے کے لوگ نوک سناں پر بھی مظلوم کا ساتھ دیتے ہوتے نغمہ سرا ہوتے ہیں، عجیب قبیلہ ہے یہ، اچھا تو آپ جانتے ہیں یہ سب کچھ! تو پھر یہ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ جب بھی اور جہاں بھی اور کوئی بھی کسی بھی مظلوم کا ساتھ دے گا، انہیں گلے لگائے گا، انہیں زمین سے اٹھائے گا اور اپنا حق مانگنے نہیں، چھیننے پر اکسائے گا تو وہ زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار تو ہوگا ہی، یہ دوسری بات کہ ان دیوتاؤں کے نام الگ الگ ہوں گے، ہر دور میں بدلتے ہوئے نام، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے، کوئی مذہبی، کوئی ریاستی اور کوئی ۔۔۔۔۔ !
پھر انجام کیا ہوتا ہے، اس کے سوا کیا :
ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا
میں دیوتاؤں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں
احفاظ الرحمن نے اپنی ایک راہ چنی اور اپنے قبیلے کی لاج ہی نہیں اس میں نئی روایتوں کو بھی جنم دیا۔ جب بھی، جہاں بھی کسی ظالم نے چاہے وہ کسی بھی نقاب میں ہو، مظلوموں کے حقوق کو غصب کیا وہاں وہ اس کے مقابل آئے۔ ڈر، خوف، لالچ تو اس سے خود خوف زدہ تھے کہ وہ تھے ہی ایسے۔
وہ ایک نغمۂ شوریدہ تھے، جس کی لے میں بڑے بڑے سورما لڑکھڑا کر گرتے دیکھے گئے۔ وہ ایک زلزلہ تھے، جس نے ان ایوانوں کو تہہ و بالا کیا جس میں انسانوں کو بہ زور جبر غلام بنانے کے منصوبے بنائے جاتے تھے۔ وہ ایک ایسا منہ زور طوفان تھے، جس کی زد میں آئے ہوئے ظالم خزاں رسیدہ پتّوں کی طرح اُڑ جایا کرتے تھے۔ وہ ایک شمشیر براں تھے، جس نے ظالموں کے وجود کو گھائل کر رکھا تھا۔ جہاں جبر تھا وہاں اس کے مقابل احفاظ بھائی تھے۔ جہاں ناانصافی تھی وہاں اس کے سامنے سینہ سپر تھے۔ احفاظ بھائی ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے جرم میں زمینی خداؤں کے عتاب کا شکار رہے۔ کیا یہ اُن کے اخلاص، ایثار اور انسان دوستی کا مظہر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ؟
بھگت سنگھ نے کہا تھا: ’’ لوگوں کو موت سے خوف زدہ کرنے سے بہتر ہے کہ ان کو جینے کا حوصلہ سکھایا جائے، اس لیے کہ انسان ہر مُشکل میں جی کر اس عہد تک پہنچا ہے۔‘‘ بلاشبہہ احفاظ بھائی نے ایسا ہی کیا۔
وہ ایک درویش تھے، جی ہاں ایک ملامتی صوفی! میں انہیں درویش خدا مست کہوں تو آپ کی پیشانی شکن آلود ہوجائے گی، تو ہونے دیں۔ مولانا جلال الدین پیرِ رومی نے کہا تھا: ’’ اگر میرا علم مجھے انسان سے مُحبّت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ‘‘ کیا اس کے بعد بھی آپ کو اُن کی درویشی کی دلیل چاہیے؟ کیا آپ انکار کرسکتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں سے پیار کیا، ان کے لیے مار کھائی، جیلوں میں گئے۔ وہ صلہ ستائش کی تمنا سے یک سر محروم تھے، وہ بے نیاز انسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ انسان کی تکریم، ان کے حقوق کی جنگ جس جنگ جُو نے بے جگری سے لڑی، وہ احفاظ الرحمن کہلائے۔
صاحبو! کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ ہم میں نہیں رہے، لیکن ذرا سا رُک جائیے! ذرا دم لیجیے! مرتے تو ہم جیسے ہیں، دھرتی کا بوجھ کہ خس کم جہاں پاک۔ احفاظ بھائی جیسے کہاں مرتے ہیں، وہ تو مرتے ہوئے کو جینے پر اکساتے ہیں۔
کبیر داس جی نے کہا تھا: ’’جب میں دنیا میں آیا تو میں رو رہا تھا، اور لوگ ہنس رہے تھے۔ اب میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں کہ جب میں جاؤں تو ہنستا ہوا جاؤں اور لوگ میرے لیے روئیں۔‘‘
وہ حقوق انسانی کی مجاہدانہ داستان تھے اور صاحبو! داستانیں تو امر ہوتی ہیں، داستان بھی کبھی ختم ہوئی ہے کیا۔۔۔۔ ! ان کی جلائی ہوئی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی، اس کی جلائی ہوئی شمعیں ہمیشہ روشن رہیں گی اور مظلوم اس کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے ہر ظالم کا تعاقب کرتے رہیں گے۔
ہمارے بہتے ہوئے گرم آنسو آپ کی سچائی اور جدوجہد کی گواہی ہیں احفاظ بھائی! سلام آپ پر! آپ ہم سب کو اداس اور اشک بار چھوڑ کر چلے گئے۔ لیکن مجھے تو اب بھی ایسا لگ رہا ہے، جیسے وہ کہیں اِدھر اُدھر سے نکل آئیں گے اور کہیں گے: ’’تم انسان بن جاؤ۔ بہت خودسر ہو تم۔ میں تمہیں ٹھیک کردوں گا۔‘‘
اپنے آنسو اپنے احفاظ بھائی کے نام کرتے ہوئے اب رخصت ہو رہا ہوں۔
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اﷲ کا۔
بہت اداس تھا منظر چراغ بجھنے کا
لپٹ کے رو دیا، میں بھی ہوا کے جھونکے سے
The post ایک ملامتی صُوفی میرے احفاظ بھائی appeared first on ایکسپریس اردو.