Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سر فلپ انتھنی ہوپکنز

$
0
0

اگرچہ مختلف کرداروں سے مل کر ایک فلم یا ڈرامہ بنتا ہے، لیکن عمومی طور پر کسی بھی فلم یا ڈرامہ میں سب سے زیادہ اہمیت ہیرو اور ہیروئن کی ہوتی ہے۔

لوگ انہیں پسند کرتے ہیں، ان کو دیکھنا چاہتے ہیں، انہیں سننا چاہتے ہیں، اسی لئے شوبز کی دنیا سے لگاؤ رکھنے والے افراد کی اکثریت ہیرو یا ہیروئن ہی بننا چاہتے ہیں، دوسری طرف ولن یا دیگر کرداروں کو وہ اہمیت نہیں ملتی، جو کسی ہیرو یا ہیروئن کو ملتی ہے، لیکن فنِ اداکاری کو اپنے عروج تک پہنچانے والے بعض اداکار  ہیرو نہ ہوتے ہوئے بھی مقبولیت سمیت ہر میدان میں سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔

ایسے ہی اداکاروں میں ایک نام سر فلپ انتھنی ہوپکنز کا ہے، وہ نہ صرف ایک بہترین اداکار بلکہ ہدایت کار، منظر نویس، فلم ساز اور نغمہ ساز بھی ہیں۔ لیجنڈری اداکار نے اپنے ہر کردار کو اپنے اندر سمو کر نبھایا، نیلی آنکھیں جھپکائے بغیر ڈائیلاگ بولنے والے اداکار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مقدار کے بجائے ہمیشہ معیار کو ترجیح دی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جس فلم (The Silence of the Lambs) میں انہیں بہترین اداکاری پر آسکر سے نوازا گیا، اس میں وہ صرف 24.52 منٹ سکرین پر رہے۔ اداکاری کے بارے میں سر انتھنی ہوپکنز کا کہنا ہے کہ ’’اداکاری ایک آبدوز ہے‘‘،اس سے مراد یہ ہے کہ جس قدر آپ خو د کو پوشیدہ رکھ کر اپنے کردار کو غالب لے آئیں گے اسی قدر آپ کی کارگردگی بہتر ہوگی۔

82 سالہ سر فلپ انتھنی ہوپکنز 31 دسمبر 1937ء کو  مارگم، پورٹ ٹالبوٹ، ویلز(برطانیہ) میں ایک نانبائی کے گھر پیدا ہوئے۔ اپنے والد کے بارے میں انتھنی کہتے ہیں کہ ’’ میرے والد کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا، جب بھی مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ میں خاص یا دوسروں سے مختلف ہوں، میں اپنے والد کے بارے میں سوچتا ہوں اور مجھے ان کے ہاتھ یاد آ جاتے ہیں، ان کے سخت اور زخمی ہاتھ‘‘ ہوپکنز کو بچپن سے ہی آرٹ خصوصاً پینٹنگ اور پیانو بجانے کا بہت شوق تھا، یہی وجہ تھی کہ سکول کا زمانہ ان کے لئے اچھا نہ تھا، رچرڈ ہوپکنز(والد) چاہتے تھے کہ انتھنی پڑھائی میں دلچسپی لے لیکن وہ آرٹ میں ڈوبے رہتے تھے۔

اس امر کا اظہار انتھنی نے 2002ء میں دیئے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں یوں کیا کہ ’’ میں ایک سست رو طالب علم تھا، جس کی وجہ سے میرا مذاق بھی اڑایا جاتا اور میں احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا‘‘ والدین کے اصرار پر انتھنی نے کسی طرح گرتے پڑتے ابتدائی تعلیم مکمل کی اور پھر گریجوایشن کے لئے وہ رائل ویلش کالج آف میوزک اینڈ ڈرامہ، کارڈف چلے گئے، جہاں 1957 میں انہوں نے اپنی ڈگری مکمل کی۔ گریجویشن کے بعد ہوپکنز نے برطانوی فوج کو جوائن کر لیا، جہاں انہوں نے دو سال تک خدمات سرانجام دیں، لیکن بچپن سے آرٹ میں دلچسپی رکھنے والے انتھنی خود کو زیادہ دیر تک اپنے آپ سے جدا نہ رکھ سکے اور فوج کی ملازمت چھوڑ کر وہ لندن چلے گئے۔

جہاں انہوں نے اداکاری کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنے کے لئے رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں داخلہ لے لیا۔ انتھنی ہوپکنز نے تین شادیاں کیں، جن میں سے پہلی پیٹرونیلا بارکر(1966ء سے 1972ء) دوسری جینیفر لٹن (1973ء سے 2002ء) جبکہ تیسری اور تاحال آخری شادی (2003ء) سٹیلا ارورا سے کی۔

رائل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ، لندن میں تربیت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سوانسی شہر کے ایک تھیٹر (پیلس) میں باقاعدہ کام کرنا شروع کر دیا، یوں ہوپکنز کی شوبز کی دنیا میں انٹری تھیٹر سے ہوئی، جو برطانیہ میں شوبز کی سب سے مقبول صنف تصور کی جاتی ہے۔ 1964ء میں انتھنی نے اپنا پہلا تھیٹر پلے (رائل کورٹ تھیٹر میں)کیا، جو شکسپیئر کے ناول ’’Julius Caesar‘‘ سے ماخوذ تھا۔ اسی دوران 1965ء میں لیجنڈ اداکار سر لارنس اولیویر کی ہوپکنز پر نظر ٹھہر گئی، جنہوں نے مستقبل کے لیجنڈ اداکار کو لندن کے رائل نیشنل تھیٹر میں شمولیت کی پیشکش کر ڈالی۔

جسے انتھنی نے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہوئے قبول کیا، یوں ہالی وڈ سٹار، سر لارنس کی باقاعدہ شاگردی میں چلے گئے، جہاں ایک موقع پر سر لارنس کو اپنڈکس کا مسئلہ ہوا تو ان کی جگہ پر ہوپکنز کو کردار ادا کرنے کا کہا گیا، جس کا وہ انکار تو نہ کر سکے لیکن سٹیج پر جانے سے قبل وہ بہت گھبرائے ہوئے تھے، جس کو دیکھتے ہوئے سرلارنس نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان الفاظ میں ہمت بندھائی کہ ’’تمھاری گھبراہٹ ایک باطل کے سوا کچھ بھی نہیں، تم اس وجہ سے پریشان ہو کہ لوگ تمھارے بارے میں کیا سوچیں گے۔

حالاں کہ تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، لہذا اپنے ذہن کو جھٹکو اور سٹیج پر چڑھ جاؤ‘‘ انتھنی نے اس نصیحت کو یوں اپنے پلے سے باندھا کہ پھر وہ کبھی کسی بھی پلیٹ فارم پر گھبرائے نہیں، انہوں نے  سٹیج پر دن رات کام کیا اور بہت نام کمایا، اسی سٹیج سے بعدازاں انہیں فلم کی پیش کش ہوئی۔ انتھنی کی پہلی فلم ’’The White Bus‘‘ تھی، جس میں انہیں نہایت مختصر  کردار دیا گیا، لیکن آئندہ برس بننے والی فلم ’’The Lion in Winter‘‘ میں انتھنی کو مرکزی کردار میں لے لیا گیا، جس کے بعد 1969ء میں بننے والی فلم ’’Hamlet‘‘ جو شیکسپیئر کے ڈرامہ ہملٹ پر مبنی تھی، نے ہوپکنز کو فلمی دنیا میں اچھی پہچان دلا دی، یوں پھر ایک ایسا وقت بھی آیا، جب 1998ء میں سر انتھنی ہوپکنز مہنگے ترین برطانوی اداکار بن گئے۔

تھیٹر اور فلم کے ساتھ سٹائلش انہوں نے ٹی وی شائقین کو بھی خود سے دور نہیں رکھا، 1965ء میں انہوں نے پہلی ٹی وی سیریل ’’The Man in Room 17‘‘ کے نام سے کی، ٹی وی سے اداکار کو اس قدر لگاؤ ہوا کہ 80سال کو پہنچتے ہوئے بھی انہوں نے اسے فراموش نہیں کیا، جس کا واضح ثبوت ان کا آخری ٹی وی پروگرام ’’King Lear‘‘ ہے، جو انہوں نے 2018ء میں کیا۔

سر فلپ انتھنی ہوپکنز کی اداکاری کے سٹائل کی بات کی جائے تو اس ضمن میں وہ خود بتاتے ہیں کہ ’’جب میں ایک بار کسی کردار کو ادا کرنے کی حامی بھر لوں تو پھر اس کردار کو اس کے عروج تک پہنچانے کے لئے مجھے جتنی بھی تیاری کرنا پڑے، میں پیچھے نہیں ہٹتا، سکرپٹ کو اس کی روح کے مطابق بنانے کے لئے میں لائنز کو 2سو بار تک دہرانے سے بھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا‘‘ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اداکاری کر رہے ہوتے ہیں تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں، یعنی ان کا سٹائل بالکل فطری محسوس ہوتا ہے۔

ہوپکنز مزید کہتے ہیں کہ ’’جب ایک بار میں کسی سین کو سرانجام دے لیتا ہوں تو پھر اس کا سکرپٹ بھلا دیتا ہوں یعنی وہ لائنز جو میں بول چکا ہوں ذہن میں نہیں رکھتا تاکہ اگلے سین کو اس کی ضرورت کے مطابق کر سکوں‘‘ انتھنی کی پانچ فلمیں ڈائریکٹ کرنے والے رچرڈ اٹینبرا کہتے ہیں کہ ’’الفاظ کی ادائیگی کی خوبصورتی جو ہم نے ہوپکنز کی دیکھی وہ شائد کسی اور کی نہ دیکھ سکیں، آپ جب ہوپکنز کو سنتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یہ الفاظ انہوں نے پہلے کبھی نہیں بولے، یہ ایک حیرت انگیز قابلیت ہے‘‘ سین عکس بند کرواتے ایسا بہت کم ہوا ہے کہ انتھنی اپنی لائنز بھول گئے ہوں، کیوں کہ وہ اپنی یاداشت کا ہمیشہ دل سے خیال رکھتے تھے۔ سین میں شاعری ہو یا تقریر وہ ایک ہی بار اسے ریکارڈ کروا دیتے تھے جیسے کہ فلم ’’Amistad‘‘ میں انہوں نے ایک موقع پر جو تقریر کی وہ ایک ہی بار میں ریکارڈ کروائی گئی ہے۔

اسی طرح ہوپکنز کو نقالی(Mimicry) کا بھی استاد کہا جاتا ہے، کسی بھی کردار کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے جو وہ نقالی کرتے، اسے دیکھ کر لوگ عش عش کر اٹھتے۔ اسی طرح کسی کی آواز کی نقالی (جیسے کہ انہیں فلم ’’Spartacus‘‘ میں اپنے استاد لارنس کی آواز کی نقالی کرنا پڑی) بھی شائد ان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔

فلم، ٹی وی اور تھیٹر:۔

سر انتھنی ہوپکنز کی پہلی فلم 1967ء میں ’’The White Bus‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی، جس میں ان کو ایک مختصر کردار دیا گیا، یہ فلم اپنے وقت کے معروف ڈائریکٹر لنڈسے اینڈرسن نے بنائی، جس کا دورانیہ صرف 46 منٹ تھا، جس کے بعد اگلے ہی سال یعنی 1968ء میں فلم ’’The Lion in Winter‘‘میں صلاحیتوں سے مالا مالاداکار کو مرکزی کردار مل گیا۔ یہ فلم صرف 4 ملین ڈالر سے بنی لیکن باکس آفس پر اس کی کمائی لاگت سے تقریباً 6 گنا تھی۔ 1969ء میں ہدایت کار ٹونی رچڑسن نے شکیسپئر کے ڈرامہ ہیملٹ پر اسی نام سے فلم بنائی تو ان کی پہلی نظر انتھنی پر پڑی، اس فلم کو شائقین کی طرف سے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔

1980ء میں منفرد اداکاری سے اپنی پہچان بنانے والے اداکار کو فلم ’’The Elephant Man‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انتھنی کو شہرت کی سیڑھی پر چڑھا دیا، جس کے بعد انہوں نے ’’The Silence of the Lambs ‘‘، ’’The Remains of the Day‘‘، ’’The Bounty‘‘، ’’Shadowlands‘‘، ’’Howards End‘‘، ’’Bram Stoker’s Dracula، ’’Nixon‘‘، ’’Amistad ‘‘، ’’Hannibal {‘‘ ’’The World’s Fastest Indian‘‘، ’’The Mask of Zorro‘‘، ’’The Good Father‘‘’’The Rite‘‘، ’’Noah‘‘، ’’The Two Popes ‘‘، ’’Thor‘‘، ’’Red 2‘‘ اور ’’ Mission Impossible2‘‘جیسی شہرہ آفاق فلموں میں اپنی اداکاری کا ایسا جادو چلایا کہ دنیا ان کے سحر میں گرفتار ہو گئی۔

ہوپکنز نے مجموعی طور پر 82 فلموں میں کام کیا۔ انتھنی ہاپکنز کی ٹی وی پر پہلی ڈرامہ سیریز ’’The Man in Room 17‘‘ تھی، جسے شائقین نے بے حد پسند کیا۔ معروف آرٹسٹ نے کل 41 ٹی وی ڈرامہ و فلم میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلائے۔ شوبز کی دنیا میں انتھنی کی انٹری تھیٹر سے ہوئی اور ان کا پہلا تھیٹر پلے’’Julius Caesar‘‘ تھا، انہوں نے 20تھیٹر پلے میں کام کیا۔ فلم، ٹی وی اور تھیٹر کے علاوہ وہ موسیقی کا ذائقہ بھی چکھ چکے ہیں۔ 2016ء میں انتھنی نے ایک میوزک ویڈیو بنائی۔

جس کی صلاحیتوں کا اک جہاں معترف

خداداد صلاحیتوں سے مالا مال لیجنڈری اداکار سر انتھنی ہوپکنز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیائے شوبز کا شائد ہی کوئی ایسا بڑا ایوارڈ ہو، جس سے انہیں نہ نوازا گیا ہو۔ فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز آسکر کے لئے انہیں پانچ بار نامزد کیا گیا اور 1992ء میں ایک بار وہ اسے اپنے نام بھی کر چکے ہیں۔

انتھنی کو ملنے والے ایوارڈز میں اہم ترین برٹش اکیڈمی فلم، کریٹکس چوائس، گولڈن گلوب، گولڈن رسبیری، ہالی وڈ فلم فیسٹیول، جیوپیٹر، ایم ٹی وی، او ایف ٹی اے، آن لائن فلم کریٹیکس سوسائٹی، پیپلز چوائس، پرائم ٹائم ایمی، سیٹلائٹ، سیٹورن، ایس اے جی، بوسٹن سوسائٹی آف فلم کریٹیکس، شکاگو فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن،کریٹیکس چوائس،کینساس سٹی فلم کریٹیکس سرکل، لندن کریٹیکس سرکل فلم، لاس اینجلس فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن، نیشنل بورڈ آف ریویو، نیویارک فلم کریٹیکس سرکل، ساؤتھ ایسٹرن فلم کریٹیکس ایسوسی ایشن، ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، شوویسٹ کنونشن، یو ایس ایفلم فیسٹیول، نیوزی لینڈ سکرین، یوگا، ٹونٹی ٹونٹی، مووی گائیڈ اور ویسٹرن ہیریٹیج ایوارڈز سمیت دیگر شامل ہیں۔

ان کے علاوہ 1988ء میں انتھنی کو یونیورسٹی آف ویلز کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لٹریچر اور 1993ء میں ملکہ برطانیہ الزبتھ2 کی جانب سے ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ کئی دہائیوں پر مشتمل کیرئیر کے حامل بہترین اداکار کو 2003ء میں واک آف فیم میں بھی شامل کیا جا چکا ہے۔

 

The post سر فلپ انتھنی ہوپکنز appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles