کتابوں کی ریل پیل ہے۔ ایک کے بعد ایک کتاب۔ رسم اجرا، ریڈنگ سیشنز۔ خبریں۔ مگر اِس گہماگہمی میں خال خال ہی کوئی ایسی کتاب سامنے آتی ہے، جو اشاعت کے موضوع بحث بن جائے۔ مباحث کو جنم دے۔ سوالات اٹھائے۔ گذشتہ برس ایک ایسی ہی کتاب شایع ہوئی۔ عنوان تھا؛ What’s wrong with Pakistan?، اور مصنف تھے؛ بابر ایاز!
اِس ریاست کے مصائب، سماج کے رویوں اور شدت پسند رجحانات کا مدلل انداز میں تجزیہ کرنے والی اِس کتاب کا خاصا چرچا ہوا۔ پاک و ہند کے سنجیدہ سیاسی مبصرین نے اسے سراہا۔ قارئین نے پسند کیا۔ مصنف کے موقف سے اختلاف کرنے والوں نے بھی اِسے قابل قدر جانا۔ گذشتہ دنوں کراچی لٹریچر فیسٹول میں نان۔فکشن کیٹیگری میں یہ کتاب شارٹ لسٹ ہوئی۔ پیس ایوارڈ کے شعبے میں سیکنڈ پرائز کی حق دار ٹھہری۔
پاکستان کو درپیش مسائل کا متوازن انداز میں تجزیہ کرنے والے بابر ایاز نے صحافتی اور سیاسی میدان میں ایک بھرپور زندگی گزاری۔ خاصا بھاری بھرکم ’’پروفائل‘‘ ہے۔ اوائل میں طلبا سیاست میں نام پیدا کیا۔ سکھر کے جمہوریت پسند طلبا کو ایک پلیٹ فورم پر اکٹھا کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن کی حیثیت سے انڈرگرائونڈ کام کرتے رہے۔ انگریزی صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد کئی بڑے اخبارات کے نیوز رومز میں نظر آئے۔ جہاں بزنس رپورٹنگ کی، وہیں سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی جم کر لکھا۔ بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں مضامین لکھتے رہے۔ عملی صحافت سے علیحدگی کے بعد ایک پبلک ریلیشنز کی کنسلٹنگ فرم قائم کی، اُسے اوج پر پہنچایا۔گذشتہ کئی برسوں سے کالم لکھ رہے ہیں۔ جو انگریزی اور اردو اخبارات کے علاوہ ایک سندھی اخبار میں بھی شایع ہوتے ہیں۔ سیاحت کا شوق ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی سیر کر چکے ہیں۔ متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں مقالات بھی پڑھے۔
گذشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی۔ اِس کتاب کے علاوہ اُن کے حالات و خیالات بھی زیر بحث آئے۔ تو آئیے، اِس تذکرے کا آغاز کرتے ہیں:
سیاسی شعور والدہ سے وراثت میں ملا
ابتدائی دنوں کی یادیں
زندہ دلوں کے شہر لاہور میں تقسیم ہند کے دو برس بعد بابر ایاز نے آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، شہزادہ ایاز فن و ادب کی دنیا کے آدمی تھے۔ شعبۂ صحافت سے وابستہ رہے۔ افسانے، انشائیے لکھے۔ انجمن رائٹرز گلڈ سے رشتہ رہا۔ بمبئی فلم انڈسٹری میں خاصا وقت گزرا۔ تقسیم کے بعد لاہور کے ایک سنیما کی دیکھ ریکھ کرتے رہے۔ پھر سکھر میں ایک سنیما خرید لیا۔ گھرانا وہاں منتقل ہوگیا۔ اِسی شہر میں بابر صاحب نے شعور کی آنکھ کھولی۔ والدہ کا مزاج بھی ادبی تھا۔ سیاست میں بھی وہ خاصی متحرک رہیں۔ ایوب دور تک مسلم لیگ کی میونسپل کمیٹی کی رکن رہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتیں۔ سیاسی شعور والدہ ہی سے وراثت میں ملا۔ مطالعے کا شوق تو ماحول میں رچا بسا تھا۔ والد کی دیکھا دیکھی کتابوں سے دوستی ہوئی۔ انگریزی فکشن سے آغاز کیا۔ کالج میں قدم رکھنے کے بعد اردو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔
دو بہنوں، تین بھائیوں میں اُن کا نمبر چوتھا ہے۔ بچپن میں بیڈمنٹن اور ہاکی کا تجربہ کیا۔ کالج کی بیڈمنٹن ٹیم کے کپتان رہے۔ کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے، مگر اُس سے باہر کر دیے گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹیم اُن کی بیٹنگ کر رہی تھی۔ سوچا، آج تو ہمارے بلے باز میدان میں جمے رہیں گے، فیلڈنگ کی نوبت نہیں آئے گی، کیوں ناں فلم دیکھ لی جائے۔ فلم دیکھ کر لوٹے، تو پتا چلا کہ فیلڈنگ کا مرحلہ آگیا تھا۔ اُن کی ڈھونڈ پڑی، جب عقدہ کھلا کہ وہ سنیما میں تھے، تو فوراً ٹیم سے باہر کا راستہ دِکھا دیا گیا۔
نصابی کتب زیادہ نہیں بھاتی تھیں۔ شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوا کرتا۔ سینٹ میریز ہائی اسکول، سکھر سے 65ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر آرٹس کی جانب آگئے۔ گورنمنٹ کالج سکھر سے بارہویں کا مرحلہ طے کیا۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے۔ کالج کی کلچرل اور ڈیبیٹنگ سوسائٹی کے سیکریٹری تھے۔ 71ء میں سندھ یونیورسٹی کے سکھر کیمپس سے پولیٹیکل سائنس میں، فرسٹ ڈویژن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔
سندھی مہاجر تقسیم، حکومتی چال
طلبا سیاست کے دن
جھکائو ان کا ترقی پسندوں کی جانب تھا۔ ون یونٹ کے خلاف تھے، تاہم کسی جماعت سے وابستگی نہیں تھی کہ اُن دنوں سکھر میں اِس نوع کی کوئی تنظیم نہیں ہوا کرتی تھی۔ باقاعدہ طلبا سیاست کی طرف مارچ 67ء میں آئے۔ اُن دنوں انٹر کالج میں ہوا کرتے تھے۔ ایک صبح خبر ملی کہ ون یونٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبا کو جام شورو میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اُنھوں نے فوراً طلبا کو اکٹھا کیا۔ کالج بند کروایا۔ جلوس لے کر ڈگری کالج پہنچے۔ وہاں سے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کا رخ کیا۔ اپنے مطالبات پیش کیے۔
اس دن کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سکھر کی سطح پر طلبا کی ایکشن کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد میں سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوگئے۔ اُسی زمانے میں یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح حکومت نے سندھی اور مہاجروں میں خلیج پیدا کی۔ کہتے ہیں،’’وہاں کے ڈپٹی کمشنر نے اردو بولنے والے چند طلبا کو بلوایا، اور ہمارے متعلق اُن سے کہا؛ یہ تو سندھیوں کے ایجنٹ ہیں، آپ غلط ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، ان سے الگ ہوجائیں۔ اس طرح انھوں نے ایکشن کمیٹی تڑوا دی۔ جو اردو اسپیکنگ لڑکے رائٹ ونگ کے تھے، وہ چلے گئے، مگر جو لیفٹ ونگ کے تھے، وہ ہمارے ساتھ رہے۔ اِس وقت سندھ میں اِس قسم کی کوئی تقسیم نہیں تھی۔ حکومت نے اپنے مفادات کے لیے یہ خلیج پیدا کی۔‘‘
حکومت مخالف سرگرمیوں کے دوران گرفتار بھی ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی تک اسٹوڈنٹ پولیٹکس میں متحرک رہے۔
مارکسی تربیت آج بھی کام آرہی ہے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی اور علیحدگی کا قصّہ
کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اُن دنوں انڈرگرائونڈ کام کر رہی تھی۔ طلبا سرگرمیوں کے طفیل بابر ایاز سکھر کے کمیونسٹوں کے رابطے میں آگئے۔ 68ء میں اُنھیں پارٹی کا رکن بننے کی پیش کش ہوئی، جسے اُنھوں نے قبول کیا۔
اُس وقت معروف شاعر، حسن حمیدی اور مزدور لیڈر، ڈاکٹر اعزاز نظیر کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں عہدے دار تھے۔ جلد ہی بابر ایاز کا شمار متحرک کارکنوں میں ہونے لگا۔ کمیونسٹ پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے پلیٹ فورم سے عملی سیاست کیا کرتی تھی۔ نیپ کی سرگرمیوں میں بھی انھوں نے بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ اس کی نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ خیرپور ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری کا بھی عہدہ سنبھالا۔
معاش کی تلاش کراچی لے آئی۔ یہاں بھی پارٹی کے لیے کام کرتے رہے۔ جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف ہوئی، کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، تو اُنھوں نے پندرہ سو روپے کی ملازمت چھوڑ کر سیاست کو کُل وقتی مصروفیت بنا لیا۔ ڈیڑھ سو روپے اِس کام کے عوض ملا کرتے، مگر نظریاتی جدوجہد تھی، سو خوش تھے۔
جب ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ پر پابندی لگی، تو ’’عوامی ادبی انجمن‘‘ تشکیل دی گئی۔ بابر صاحب ادبی ذوق رکھتے تھے، اُن دنوں افسانے بھی لکھ رہے تھے۔ تو یار دوستوں نے کراچی میں اس تنظیم کو فعال کرنے کی ذمے داری انھیں سونپ دی۔ اِس کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔ نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔
74ء میں وہ دھیرے دھیرے کمیونسٹ پارٹی سے دُور ہونے لگے، اور دُوری علیحدگی میں تبدیل ہوگئی۔ کہتے ہیں،’’پارٹی کہتی تھی کہ بلوچستان میں جاری عسکری جدوجہد کی حمایت کی جائے۔ میں اور کچھ ساتھی اِسے دُرست نہیں سمجھتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ جدوجہد کام یاب نہیں ہوگی۔ پھر اور بھی معاملات تھے۔ اصل میں کمیونسٹ پارٹیوں میں ’ڈیموکریٹک سینٹرل ازم‘ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ یہاں کے علاوہ سوویت یونین میں بھی آیا کہ جمہوری فکر ختم ہوگئی، اور صرف مرکزیت رہ گئی۔ اُن ہی وجوہات کی وجہ سے ہم الگ ہوگئے۔‘‘
نظریاتی اختلاف اپنی جگہ، مگر پارٹی سے وابستگی کے ثمرات بھی بیان کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، پارٹی کے طریقۂ کار نے مطالعے کی عادت پختہ کی۔ سوچنے اور تجزیہ کرنے کا ڈھنگ سِکھایا۔ ’’میں مارکس ازم کو مذہب نہیں سمجھتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ مارکس ازم نے مجھے سیاسیات اور معاشرے کو سمجھنے کا فہم عطا کیا۔ اور یہ تربیت بعد میں بھی میرے کام آئی۔‘‘
محکمۂ پولیس اور سفارشیوں کی بھرتیاں
پیشہ ورانہ سفر کی ابتدائی یادیں
بابر صاحب حکومتی اداروں کو استحصال کا آلۂ کار خیال کرتے تھے۔ سرکاری ملازمت کی خواہش نہیں تھی، مگر والد کے حکم پر بادل نخواستہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دینا پڑا۔ امتحان کراچی میں ہوا کرتا تھا، خوش تھے کہ روشنیوں کا شہر گھومنے کا موقع مل جائے گا۔ اتفاق سے امتحان میں پاس ہوگئے۔ محکمۂ پولیس کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ پولیس میں جانا اُنھیں قطعی گوارا نہیں تھا۔ والد کو منا لیا۔ فیصلہ کیا کہ یا تو پڑھائیں گے، یا پیشۂ صحافت اختیار کریں گے۔
شعبۂ تدریس میں ایک امکان پیدا ہوا تھا۔ 72ء میں دہلی کالج، کراچی کے پرنسپل نے اُنھیں ملازمت کی پیش کش کی۔ اُنھوں نے ہامی بھر لی۔ غلطی یہ کی کہ اپائنٹمنٹ لیٹر کا تقاضا کرنے کے بجائے سامان لینے سیدھے سکھر چلے گئے۔ جس روز لوٹنا تھا، ریڈیو سے حفیظ پیرزادہ کا بیان نشر ہوا کہ تمام اداروں کو نیشنلائز کر دیا گیا ہے، اب امیدواروں کو انٹرویوز کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ بہ خوشی اِس مرحلے سے گزرے کہ اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا تھا، خود پر اعتماد تھا، مگر ان کی جگہ سفارشیوں کو منتخب کر لیا گیا۔ دل برداشتہ ہو کر تدریس میں جانے کا خیال تج دیا۔
اور ایجینسیاں میرے پیچھے لگ گئیں
نوواستی پریس ایجینسی کا زمانہ
کراچی آنے کے بعد وہ فری لانسر کی حیثیت سے مختلف اخبارات اور جرائد میں لکھنے لگے تھے۔ ’’مارننگ نیوز‘‘، ’’آئوٹ لک‘‘ اور ’’ہیرالڈ‘‘ میں مضامین شایع ہوتے، تو کچھ پیسے ہاتھ آجاتے۔ ایک روز میکسم گورکی کے لازوال ناول ’’ماں‘‘ پر بننے والی فلم دیکھنے کے لیے ڈرگ روڈ پر ’’فرینڈ شپ ہائوس‘‘ جانا ہوا۔ وہاں سوویت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے عہدے دار سے ملاقات ہوئی۔ وہ صاحب فلسطین اسرائیل مسئلے پر اُن کا ایک مضمون پڑھ چکے تھے۔ جب پتا چلا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہیں، تو ’’نوواستی پریس ایجینسی‘‘ کے لیے کام کرنے کی پیش کش کرڈالی۔ ڈیڑھ ہزار روپے تن خواہ تھی۔ ایک برس سوویت پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھتے رہے۔
بابر ایاز کے مطابق اُس زمانے میں بھارتیوں کے مانند روسیوں کو بھی بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ سوویت پریس سے وابستگی کی وجہ سے ایجینسیاں اُن کے پیچھے لگ گئیں۔ ان ہی دنوں بھٹو صاحب نے بلوچستان حکومت کو برطرف کردیا۔ ان دو عوامل کی وجہ سے انھوں نے وہ ملازمت چھوڑ دی۔ اب بے روزگاری کا زمانہ شروع ہوا۔
صحافتی شب و روز
73-74 میں وہ ’’پی پی آئی‘‘ کے میگزین ’’اکنامک آئوٹ لک‘‘ سے بہ طور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر منسلک ہوگئے۔ مارکسٹ ہونے کی وجہ سے اقتصادی نظام کی خاصی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، اس لیے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
تین برس بعد ’’ڈیلی سن‘‘ کا حصہ بن گئے۔ تھے تو رپورٹر، مگر اقتصادی اور سیاسی موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔ 79ء میں وہ اخبار بند ہوگیا، مگر وہ شناخت بنا چکے تھے۔ فوراً ’’بزنس ریکارڈر‘‘ سے پیش کش ہوگئی۔ چند برس بعد ’’ڈان‘‘ کا حصہ بن گئے، جہاں سینیر صحافی، ایس جی ایم بدرالدین کی سرپرستی میں کام کرنے کا موقع ملا، جن کا تذکرہ وہ بہت احترام سے کرتے ہیں۔ 82ء تا 88ء ’’ڈان‘‘ کے اقتصادی صفحات سے منسلک رہے۔ انویسٹی گیٹنگ رپورٹنگ کا سلسلہ شروع کیا، جسے بہت سراہا گیا۔ ساتھ ہی ادبی، سیاسی اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔
بین الاقوامی اخبارات وجرائد کے لیے بھی اُسی زمانے میں لکھنا شروع کیا۔ فرانسیسی پرچے ’’ایفرک ایشیا‘‘ میں تحریریں شایع ہوا کرتیں۔ فیچر سروس ’’ڈیپتھ نیوز‘‘ کے لیے مضامین لکھے۔ ہندوستان کے معروف اخبار ’’ہندو‘‘ اور اُس کے میگزین ’’فرنٹ لائن‘‘ میں تحریریں چھپتی رہیں۔ الغرض صحافت کو وہ، اور صحافت اُنھیں راس آگئی۔
بہ ظاہر سب کچھ ٹھیک جارہا تھا، مگر پھر ایک ایسی صورت حال نے جنم لیا کہ وہ صحافت کو خیرباد کہنے کی بابت سوچنے لگے۔
کہانی صحافت سے علیحدگی کی
اُنھوں نے پسند کی شادی کی تھی۔ بے روزگاری کے زمانے میں رشتۂ ازدواج میں بندھے۔ اُن کی زوجہ، نجمہ بابر خود بھی صحافت سے وابستہ تھیں۔ نظریات دونوں کے یک ساں۔ لوگ اِس جوڑے کی مثال دیا کرتے۔ کہتے ہیں،’’وہ باکمال عورت تھیں۔ ہماری آئیڈیالوجی ایک تھی، یہی وجہ ہے کہ میری بے روزگاری کے باوجود اُنھوں نے مجھ سے شادی کی۔ اُن کا 96ء میں انتقال ہوا۔ اُن کے تذکرے کے بغیر میں نامکمل ہوں۔‘‘
78ء میں خدا نے اُنھیں بیٹے سے نوازا، جس کا نام آدرش رکھا گیا۔ اس وقت تو بابر صاحب اور نجمہ صاحبہ نے اپنا صحافتی سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، مگر 86ء میں دوسرے بیٹے، امر کی پیدایش کے بعد محسوس ہونے لگا کہ اب دونوں میں سے کسی ایک کو اِس شعبے سے کنارہ کش ہونا پڑے گا۔ اُس زمانے میں آج جیسی تن خواہیں نہیں ہوا کرتی تھیں، یہ فکر دامن گیر تھی کہ کسی ایک نے ملازمت چھوڑ دی، تو گزارہ کیسے ہوگا۔ بابر صاحب کے مطابق، جس ادارے سے وہ منسلک تھے، وہاں تن خواہ میں بڑھوتی کا امکان نہیں تھا۔ بس، اِسی مسئلے نے نئے راستے پر چلنے کا حوصلہ دیا۔
“Mediators”: پاکستان کی پہلی پبلک ریلیشنگ فرم
پی آر فرم کا تصور دنیا بھر میں عام تھا، مگر بابر ایاز کے مطابق اس وقت تک پاکستان میں اِس نوع کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ زیادہ سے زیادہ ایک ’’پی آر او‘‘ ہوا کرتا تھا۔ ’’مجھے محسوس ہوا کہ ملٹی نیشنل اور بڑی مقامی کمپنیوں اور ذرایع ابلاغ کے درمیان خاصا فاصلہ ہے، جسے ایک پی آر فرم پُر کرسکتی ہے۔ تو اِس میدان میں طبع آزمائی کا فیصلہ کیا۔ “Mediators” کی بنیاد رکھی، جو اُس وقت پاکستان کی پہلی پی آر فرم تھی۔ بدرالدین صاحب، جو ریٹائر ہوچکے تھے، اُن سے چیئرمین بننے کی درخواست کی، جسے اُنھوں نے قبول کیا۔‘‘
کام تو شروع کر دیا، مگر ابھی یہ تصور نیا نیا تھا۔ اندیشے تھے۔ پھر صحافت کے پُرتجسس تجربات اُنھیں پکارتے رہتے۔ ایسے میں کاروباری دنیا سے منسلک ایک صاحب، نواب اصغر سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا خیال تھا، بابر صاحب جلد اِس سرگرمی سے بھاگ جائیں گے۔ جواب میں اُنھوں نے کہا: ’’اگر مجھے چھے اداروں کا اکائونٹ مل جائے، تو میں یہ کام جاری رکھوں گا۔‘‘
نواب صاحب کے توسط سے چند اداروں نے اِس بات پر رضامندی ظاہر کر دی کہ “Mediators” کی ٹیم اُن کے ہاں آکر پریزنٹیشن دے۔ کوشش اُن کی کام یاب رہی۔ یوں اِس سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر دیگر ادارے بھی رابطہ کرنے لگے۔
93ء میں مشہور امریکی پی آر کمپنی، Burson·Marsteller سے اُن کے ادارے کا الحاق ہوگیا۔
گذشتہ 25 برس سے یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ آج “Mediators” کا شمار پاکستان کی تین بڑی پی آر فرمز میں ہوتا ہے۔ کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں اِس کی خدمات سے استفادہ کر رہی ہیں۔
کافی عرصے تک وہ اِس کے مینیجنگ ڈائریکٹر رہے، مگر جب لکھنے لکھانے کی خواہش ستانے لگی، تو ذمے داریاں اپنی دوسری بیگم، ڈاکٹر سمیعہ بابر کو سونپ دیں۔ اُنھیں چیف ایگزیکٹو بنایا، اور خود چیئرمین ہو گئے۔
اب کتاب لکھنے کے لیے تیار تھے، مگر اِس سے پہلے ذرا کالم نگاری کا تذکرہ ہوجائے۔
کالم نگار کے روپ میں تجزیہ کار
عملی سیاست تو 25 برس قبل چھوڑ دی، مگر اندر کے صحافی کو خاموش بیٹھنا گوارا نہیں تھا، سو کالم نگاری کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’گلف نیوز‘‘ میں اُن کے کالم چھپا کرتے تھے، جو سنڈیکیٹ ہو کر ’’دی نیشن‘‘ میں بھی آنے لگے۔ پھر ’’دی نیوز‘‘ میں کالم نگاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ’’ڈان‘‘ اور ’’نیوز لائن‘‘ کے لیے بھی وقفے وقفے سے لکھتے رہے۔
پانچ چھے برس قبل اردو میں کالم نگاری شروع کی۔ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں اُن کا کالم چھپنے لگا۔ کالم کا سندھی روپ ’’عوامی آواز‘‘ میں شایع ہوتا۔ ہفتہ وار انگریزی کالم ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ میں آتا ہے۔
کیا ہمارے کالم نگار معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے؟ جب یہ سوال کیا گیا، تو کہنے لگے،’’میں کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں میں فرق کرتا ہوں۔ تجزیہ کار کے کاندھوں پر بھاری بوجھ ہوتا ہے۔ اُسے منطق اور دلائل سے بات کرنی ہوتی ہے۔ کالم نگار اپنی دل کی بات کہتے ہیں۔ اِس طرز کی اپنی جگہ ہے، مگر میرا مزاج تجزیہ کاری کی جانب ہے۔‘‘
یعنی بابر صاحب کالم نگار کے روپ میں تجزیہ کار ہیں۔ اس میدان میں وہ آئی اے رحمان اور خالد احمد کو سراہتے ہیں۔ بابر ستار کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔
What’s wrong with Pakistan?
کتاب کے محرکات پر ایک نظر
بچپن میں جب وہ شیکسپئر کو پڑھا کرتے، تو خود سے کہتے؛ اِس انگریز ادیب نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ برسوں بعد پاکستان نامی ایک ریاست ہوگی، اور اُس کے ایک چھوٹے سے شہر کے اسکول میں اُس کے ڈرامے پڑھائے جائیں گے۔
’’کتاب انسان کو زندہ رکھتی ہے‘‘، اِسی احساس نے کتاب لکھنے کی جوت جگائی۔ کئی عشروں بعد جب قلم تھاما، تو یہی خیال پیش نظر تھا کہ ایسا موضوع چُنا جائے، جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہو۔ ایک واقعے نے بھی راہ کا تعین کیا۔ بتاتے ہیں:
’’پاکستان کی گولڈن جوبلی منائی جارہی تھی۔ اُن دنوں میری ملاقات بی بی سی کے ایک نمایندے سے ہوئی۔ اُن کے ایک سوال کے جواب میں مَیں نے ازراہ مذاق کہا کہ اِس خطے کے مسلمان جمہوریت سے بھاگتے ہیں۔ ہم نے ہندوستان میں آٹھ سو برس حکومت کی، مگر جب انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان میں جمہوریت کا تصور پروان چڑھنے لگا، تو ہم اپنی علیحدہ گروہی شناخت پر اصرار کرنے لگے۔ یعنی اپنی باری کھیل لی، دوسرے کی باری آئی، تو کہہ دیا کہ ہم الگ قوم ہیں۔ اُنھوں نے میرا تبصرہ بی بی سی کے لیے ریکارڈ کر لیا۔ اُس وقت تو میں نے یہ بات کہہ دی، مگر پھر اس پر سوچنا شروع کیا۔ غور کیا کہ اِس کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ کیوں ہمارے ہاں انتہا پسندی بڑھی۔ کیوں ہم اِس مقام پر پہنچے۔ تو اپنی کتاب میں مَیں نے ان ہی سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘
بابر ایاز کے مطابق مارکس اور ایڈم اسمتھ کا سیاسی نظریہ الگ تھا، مگر اُن میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے کہ دونوں نے اِس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی کہ معاشرہ جو رویہ اپناتا ہے، جن رجحانات کی پیروی کرتا ہے، اُن کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ ’’میں نے بھی اِن ہی خطوط پر سوچنا شروع کیا۔ تحقیق کی۔ مواد اکٹھا ہوتا رہا۔‘‘
جون 2013 میں کتاب شایع ہوئی۔ پاکستان میں ماہ اگست اور ہندوستان میں ماہ ستمبر میں اِس کی تقریب رونمائی ہوئی۔
ایک تقریر ذہن بدلنے کے لیے کافی نہیں تھی!
اُن کی تصنیف زیر بحث آئی، تو پہلے اُس خیال پر بات ہوئی، جو اُنھوں نے کتاب میں پیش کیا۔ کچھ حلقوں کے نزدیک جو متنازع بھی ٹھہرا، یعنی تحریک پاکستان میں عوام کی شمولیت کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا۔ اِس ضمن میں کہتے ہیں،’’دراصل جب اِس تحریک کو عوام کی تائید نہیں حاصل ہوئی، 37ء کے انتخابات میں شکست ہوگئی، تو عوام کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا گیا۔ جب تک مقصد حاصل نہیں ہوا تھا، قائد اعظم بھی مذہبی تقریریں کرتے رہے۔ جب ملک بن گیا، تو سوچا گیا کہ مقصد حاصل ہوگیا، اب راستہ تبدیل کیا جائے۔
قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947 کی تقریر کی، جسے لوگ اُن کی سیکولر فکر کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مگر اُس ایک تقریر سے راستہ تبدیل نہیں ہوسکا۔ دراصل ایک تقریر تحریک کا دھارا، لوگوں کا ذہن، بدلنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ پھر پاکستان کی جو رولنگ کلاس تھی، اُنھیں لگا کہ یہ نعرہ تو بہت کام کی چیز ہے۔ اُنھوں نے پاکستان میں بسنے والی مختلف قومیتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے یہ کہا؛ ہم سب مسلمان ہیں، ایک قوم ہیں۔ اس سے حکومت کرنے والا گروہ مضبوط ہوتا گیا، اور دیگر طبقات کم زور ہوتے گئے۔ ہم نے بنگلادیش کو کالونی بنانے کی کوشش کی۔ وہ اکثریت میں تھے، مگر ہم نے اُنھیں حکومت نہیں دی۔ میں نے کبھی ’فال آف ڈھاکا‘ نہیں لکھا، ہمیشہ اُسے ’بنگلادیش لیبریٹڈ‘ لکھا ہے۔‘‘
بابر ایاز کے مطابق ہمارے ہاں مذہب کی بنیاد پر قوانین بنے۔ مذہب کا اثر براہ راست پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر پڑا۔ دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوئے، نتیجتاً پاکستان کی اکانومی متاثرہوئی۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ جب تک مذہب کو سیاست سے جدا نہیں کیا جائے گا، پاکستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ یہی موضوعات کتاب میں اٹھے گئے ہیں۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ کتاب کا نام میں نے بہت Provoking رکھا۔ میں نے کہا؛ یہ میں نے اپنے پاکستانی بھائیوں کو جگانے کے لیے کیا۔ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پہلا قدم یہی ہے کہ جو غلط ہے، اس کا تعین کیا جائے۔
ہماری سیاسی جماعتیں، مکالمے کی ضرورت اور ایک فارمولا
جہاں وہ مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں، وہیں ایک حل بھی پیش کرتے ہیں: ’’ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے جو پالیسیاں اپنائیں، وہ غلط تھیں۔ جب تک یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ دوسرے ممالک میں گڑبڑ کرنے کے لیے عسکری تنظیموں کی تشکیل غلط فیصلہ تھا، بات آگے نہیں بڑھے گی۔ تو پہلے آفیشلی یہ بات مان لیں۔ اب سوال ہے کہ اِس غلطی کو ٹھیک کیسے کیا جائے۔ یہ راتوں رات نہیں ہوگا۔ انقلابی صورت حال تو ہے نہیں۔ کوئی کمال اتاترک نہیں آئے گا۔ اِس کے لیے آپ اسٹریٹجی بناتے ہیں۔ قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہوئے غلطیاں دُرست کرتے ہیں۔ ساتھ ہی مذہب کو سیاست سے جدا کیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کے کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔‘‘
مراحل تو اُنھوں نے بیان کر دیے، مگر کیا یہ فارمولا قابل عمل بھی ہے؟
اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،’’یہ قابل عمل ہے۔ اگر پاکستانیوں کی اکثریت مذہبی حکومت چاہتی، تو وہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتی۔ مگر اُنھیں کبھی دس فی صد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ اگرآپ عوام کے شب و روز کا جائزہ لیں، تو اپنی ذاتی زندگی میں وہ مذہبی ہیں، مگر عام زندگی میں اُن کا مزاج سیکولر ہے۔ اب آپ بڑی سیاسی جماعتوں کو دیکھیں، زیادہ تر کا جھکائو سیکولر ازم کی جانب ہے۔ مسلم لیگ ن میں بھی آدھے اِدھر ہیں، تو آدھے اُدھر۔ بس، وہ کھل کر یہ بات نہیں کہہ پاتے۔ دراصل ہمارے ہاں بہت زیادتی ہوئی۔ 80 کی دہائی میں ضیا الحق نے سیاسی اسلام کو عسکری اسلام بنا دیا۔ پھر گذشتہ آٹھ سو برس میں اسلام اور جدید طرز زندگی کے موضوع پر کوئی بھرپور مکالمہ نہیں ہوا۔‘‘
کیا مذہبی مکالمے کا امکان موجود ہے؟ بابر ایاز کے بہ قول،’’ماحول تو نہیں ہے، مگر ہمیں ایسا ماحول بنانا پڑے گا۔ یہی ہماری کوشش ہونی چاہیے۔ دراصل جب آپ کے پاس استدلال نہ ہو، موقف کم زور ہو، تو آپ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔‘‘
یہی سیاسی جماعتیں، جو آج شدید تنقید کی زد میں ہیں، کس طرح تبدیلی لاسکتی ہیں؟
اِس بابت بابر ایاز کہتے ہیں،’’اگر ہم ذہن بنا لیں، آہستہ آہستہ تبدیلی کی طرف چلنے لگیں، تو امکان نظر آنے لگے گا۔ کچھ تبدیلیاں آئی بھی ہیں۔ مثلاً آئین میں غیرمسلموں کا ووٹ الگ کر دیا گیا تھا، مشرف نے Separate Electorate کو ختم کر کے مخلوط کر دیا۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں نے مخلوط ووٹنگ کو قائم رکھا۔ تو اِس قسم کی Incremental تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔‘‘
امریکی ہمارے پاس نہیں آئے تھے، ہم خود ان کے پاس چلے گئے
جب سوال ہوا کہ کیا پاکستان کے لیے امریکا سے جان چھڑانا ممکن ہے، تو کہنے لگے،’’فی الحال تو یہ ممکن نہیں۔ امریکا بہت بڑی طاقت ہے۔ پھر آپ کی اکیس فی صد برآمدات کی کھپت امریکا میں ہوتی ہے۔ وہاں سے فارن کرنسی آتی ہے، امداد ملتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ آپ اُن سے ایمان داری پر مبنی رشتہ قائم کریں۔ اُنھیں بتا دیں کہ فلاں فلاں کام ہم نہیں کرسکتے۔ المیہ یہ ہے کہ پہلے امریکی ہمارے پاس نہیں آئے تھے۔ ہم خود ان کے پاس چلے گئے کہ ہم اِس علاقے میں سوشلزم کو روکنے کے لیے آپ کی مدد کریں گے۔ دستاویز موجود ہیں۔ بہ قول شاعر: ’سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھائے جائے!‘ پاکستان اور امریکا دونوں کا یہی معاملہ تھا۔ پاکستان چاہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ امداد لے، کیوں کہ اُسے ہندوستان کا خوف تھا۔ امریکا مدد دے رہا تھا کہ آپ سوشلزم کو روکیں گے۔‘‘
جتنے امریکی ذمے دار، اتنے ہی سعودی قصور وار!
اپنی کتاب میں اُنھوں نے سعودی عرب کے کردار پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اِس بابت استفسار کیا، تو کہنے لگے،’’جب 79ء میں ایران میں انقلاب آگیا، تو سعودی حکومت ڈر گئی۔ اُس نے پاکستان میں رجعت پھیلانی شروع کر دی۔ اِس سے پہلے جب افغانستان میں ترہ کئی انقلاب آیا، سوشلسٹ حکومت آگئی، تو سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ ضیا الحق نے اُسے ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اِس فیصلے کی وجہ سے پورے ملک میں اسلحہ پھیل گیا۔ آج ملک پھٹا جارہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے جتنے ذمے دار امریکی ہیں، اتنے ہی سعودی قصور وار ہیں۔ آج جو فرقہ وارانہ جنگ ہے، یہ بھی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار ہے۔‘‘
پنجاب کی رولنگ کلاس اور ہندوستان سے تعلقات
وہ خواہش مند ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں۔ ’’پاک و ہند کی سوا ارب آبادی تاریخ کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ بڑے مسائل ہیں۔ دونوں ملکوں میں ترقی کی بہت گنجایش ہے۔ ہندوستان پھر بھی آگے بڑھ رہا ہے، ہم پیچھے جارہے ہیں۔ ہر وقت یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہماری مشکلات میں ہندوستان کا ہاتھ ہے۔‘‘
میاں صاحب کی حکومت سے کچھ پُرامید نظر آتے ہیں، جس کا ایک بنیادی سبب ہے۔ ’’دراصل پنجاب کی رولنگ کلاس بدل گئی ہے۔ پاکستان کا ’بگ بزنس‘ پنجاب کی رولنگ کلاس ہی ہے۔ اس کے مفاد میں ہے کہ ہندوستان سے تعلقات بہتر ہوں، تو وہ اداروں پر زور ڈالتی ہے۔‘‘
مارکس واشنگٹن میں۔۔۔
بابر ایاز کے مطابق مستقبل میں لیفٹ کے نظریات کی تجدید کا امکان تو ہے، مگر ٭٭اُنھیں سوشلزم کے نام سے نہیں پکارا جائے گا۔ ’’سوشلزم کا مقصد عدم مساوات کو ختم کرنا تھا۔ اب کیپٹلسٹ ممالک کی حکومتیں اِس مسئلے پر بات کر رہی ہیں۔ عدم مساوات ختم کرنے کے لیے جو بھی اقدامات کیے جائیں گے، یہ وہی ہوں گے، جن کی سوشلسٹ حمایت کرتے تھے۔ مگر یہ سب پرانے طرز پر نہیں ہو گا۔ میں ستمبر 2012 میں امریکا گیا تھا۔ وہاں صدارتی امیدواروں کے مباحثے سنے، جن کی بنیاد پر میں نے ایک مضمون لکھا کہ اوباما انتخابات جیتے گا، اور مارکس واشنگٹن پہنچ جائے گا۔ اُس وقت ایک امیدوار ’بگ بزنس‘ کو سپورٹ کر رہا تھا، دوسرا عوام کی بات کر رہا تھا۔ کیپیٹل ازم میں بہت لچک ہے۔ مساوات کا نظام اب سوشلزم کے نام پر یہ نہیں آئے گا۔ یہ ایشوز کی بنیاد پر رائج ہوگا۔‘‘
کیا ہماری معیشت کم زور ہے؟
پاکستان کی معیشت کو جتنا خستہ حال تصور کیا جاتا ہے، بابر ایاز کے مطابق وہ اتنی خستہ حال نہیں۔ ’’پاکستان میں جتنی بڑی ریئل اکانومی ہے، اتنی بڑی بلیک اکانومی ہے۔ حکومت غریب ہے، مگر عوام کے پاس بہت پَیسا ہے۔ سب سے پہلے اس بلیک اکانومی کو ’اکانومک نیٹ‘ میں لانا ہوگا۔ اِس کے لیے بہت سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ ٹیکس ریٹ کم ہونا چاہیے، مگر چھوڑنا کسی کو نہیں چاہیے۔‘‘
سیاسی تنہائی
پاکستان کی سیاسی تنہائی ختم کرنے کے لیے وہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں،’’یہ ناگزیر سب سے پہلے تو ہمیں یہ اعلان کرنا ہوگا کہ ہمیں دنیا کے کسی دوسرے ملک کے معاملات سے غرض نہیں۔ ہم اپنا ملک سنبھالیں گے، اِس وقت ہمارے لیے یہی اہم ہے۔ نہ ہم ہندوستان میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی کشمیر میں۔ ہمیں بس اپنے ملک سے غرض ہے۔‘‘
کیا روشن خیال حلقوں کا مستقبل تاریک ہے؟
روشن خیال حلقے، اُن کے مطابق پاکستان میں موجود ضرور ہیں، مگر یہ بکھرے ہوئے ہیں، اُن کے ایک جانے ہونے، تحریک بننے کا تو امکان نظر نہیں آتا، تاہم اُنھیں نظرانداز کرنے کے قائل نہیں۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ روشن خیال سوچ آگے بڑھے گی، کیوں کہ تاریخ دائروں میں نہیں چلتی، وہ آگے کی سمت بڑھتی ہے۔ یہ عالم گیریت کا دور ہے۔ دنیا کے کا جائزہ لیا جائے، تو ہمیں ہر معاشرے میں ایک جانب وہ لوگ دکھائی دیں گے، جو قدیم اقدار کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، دوسری طرف اکیسویں صدی کی اپنی قدریں ہیں۔ وقت کا دھارا ہے۔ مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کلچر، زبان، رہن سہن بدل رہا ہے۔ دنیا کے تمام خطوں میں رجعت پسند اس پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہر مذہب میں جدید اور قدیم اقدار میں تصادم نظر آتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ ہوا کہ رجعت پسندوں نے اسلحہ اٹھا لیا، جس کی وجہ سے یہ نظروں میں آگئے۔‘‘
جب سوال ہوا کہ کون غالب آئے گا، تو کہنے لگے،’’یہ تو واضح ہے۔ تاریخ تو آگے بڑھتی ہے۔ یہ رجعت پسند رخنہ تو ڈال سکتے ہیں، مگر یہ روشن خیالی کو روک نہیں سکتے۔ جب یہ بیراج نہیں بنا سکے، تو ڈیم کیا بنائیں گے۔
لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟
ہندوستان میں کسی نے اُن سے پوچھا؛ How do you write?، تو کہنے لگے،’’میں سمجھتا ہوں کہ لکھنے والے کو اپنی قومی، مذہبی، سماجی اور لسانی شناخت سے بُلند ہو کر ایک انسان کی حیثیت سے لکھنا چاہیے۔ اور اس کی تحریر کی اہمیت جانچنے کا ایک سادہ سا ’لٹمس ٹیسٹ‘ ہے۔ یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ وہ لکھ رہا ہے، وہ عوام کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ یہی نقطہ نظرلکھتے ہوئے میں پیش نظر رکھتا ہوں۔‘‘
ہم اپنے بچوں کو غلط تاریخ پڑھا رہے ہیں
سیاسی اسلام کو عسکری اسلام بنانے کا آغاز، اُن کے بہ قول، 48ء میں ہوا، جب پاکستان نے قبائلیوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا، اور اسے کشمیر روانہ کر دیا۔’’65ء میں ہم نے پھر یہی کیا۔ اس پر ہندوستان نے کہا کہ اگر ہمیں لڑنا ہی ہے، تو ہم اپنی مرضی کے محاذ پر لڑیں گے، اُنھوں نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ ہم آج تک بچوں کو غلط تاریخ پڑھا رہے ہیں کہ ہندوستان نے حملہ کیا تھا، حالاں کہ پہلے ہم نے گڑبڑ شروع کی تھی۔ اب تو سابق جرنیلوں نے بھی لکھ دیا ہے۔
پھر آپ نے کہا، ہم جیت گئے تھے۔ یہ بھی غلط تھا۔ آپ محمد بن قاسم کی حمایت کرتے ہیں، راجا داہر کو غلط قرار دیتے ہیں۔محمودغزنوی نے ہندوستان پر کس لیے سترہ حملہ کیے؟ یہ حملے لوٹ مار کے لیے کیے گئے تھے۔ اگر آپ بچوں کو ہر بات غلط پڑھائیں گے، ہندوستان پر حملہ کرنے والے ہر شخص کو دُرست قرار دیں گے۔ تو کل جو حملہ آور آئے گا، اُسے بھی قوم درست قرار دے گی۔ ‘‘
تذکرہ من پسند شعرا اور ادیبوں کا۔۔۔
فیض اور غالب کے وہ مداح ہیں۔ افسانہ نگاروں میں بیدی اور منٹو کا نام لیتے ہیں۔ ’’آگ کا دریا‘‘ پڑھ کر بہت محظوظ ہوئے۔ بیرونی ادب میں ڈورلس لیسنگ، مارکیز اور اورحان پامک کا نام لیتے ہیں۔ کسی زمانے میں اُنھوں نے جم کر افسانے لکھے، مگر اُنھیں کتابی صورت دینے کا امکان نہیں کہ لگ بھگ سب ہی اب گم ہوچکے ہیں۔ آج کل راج موہن گاندھی کی کتاب ’’اورنگ زیب ٹو مائونٹ بیٹن‘‘ مطالعے میں ہے ۔ مذاہب سے متعلق کتب عام طور سے مطالعے میں رہتی ہیں۔
پہلی شادی 74ء اور دوسری 97ء میں ہوئی۔ چار بچے ہیں، آدرش، امر، سارہ اور مائرہ، جن سے وہ بہت محبت کرتے ہیں۔ مصروف آدمی ہیں، مگر گھر والوں کو، چاروں بچوں کو بھرپور وقت دیتے ہیں۔ شفیق مزاج والد ہیں۔ پرانے گانے شوق سے سُنتے ہیں۔ آرٹ فلمیں اچھی لگتی ہیں۔ نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔