غزل
مجھے شعور بھی خواہش کا داغ لگنے لگا
جہاں بھی دل کو لگایا ، دماغ لگنے لگا
تلاش اتنا کیا روشنی کو جنگل میں
تھکن کے بعد اندھیرا چراغ لگنے لگا
کمال درجہ کی شفافیت تھی آنکھوں میں
خود اپنا عکس مجھے ان میں داغ لگنے لگا
پلک پرندہ تھا ، لب پھول اور زلف شجر
وہ چہرہ پہلی نظر میں ہی باغ لگنے لگا
تو سامنے تھا مگر کوئی اور لگ رہا تھا
پسِ خلائے محبت سراغ لگنے لگا
(علی شیران۔ شور کوٹ، جھنگ)
۔۔۔
غزل
در و دیوار ایسے دیکھتے ہیں
غذا کو جیسے بھوکے دیکھتے ہیں
میں اپنے سر پہ پتھر مارتا ہوں
مجھے حیرت سے شیشے دیکھتے ہیں
اُسے دیکھیں تو گونگے بولتے ہیں
اُْسے سن لیں تو اندھے دیکھتے ہیں
ہماری بے بسی پہ بارہا ہم
تری تصویر ہنستے دیکھتے ہیں
ترے چہرے کو آنکھیں مانگتی ہیں
ترے سر کو یہ شانے دیکھتے ہیں
لگی ہے آگ میری آستیں کو
بڑی حسرت سے اپنے دیکھتے ہیں
بْلاتا ہے تجھے چشموں کا پانی
تجھے گاؤں کے رستے دیکھتے ہیں
اب اِن آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے ہم
تری آنکھوں کے دیکھے ، دیکھتے ہیں
پتا ہے وہ نہیں مانے گی ویسیؔ
مگر ماتھا رگڑ کے دیکھتے ہیں!
(اویس احمد ویسی۔زیارت معصوم)
۔۔۔
غزل
جھوٹا ہے، جانتا ہوں، مگر اس کے باوجود
رونق لگائے رکھتا ہے اک خواب کا وجود
اس نے کتاب کھول کے رکھ دی ہے شیلف میں
میری قبائے وصل کو کب مل سکا وجود
اس بات سے ہی دیکھ لیں قربت ہمارے بیچ
پہنا ہے میں نے روح پہ اس شخص کا وجود
پھر میں کروں نہ ناز کیوں اپنی بڑائی پر
یزداں نے اپنے ہاتھ سے سینچا مرا وجود
اس میں ہر ایک بات ہے پر بولتا نہیں
پایا ہے میرے یار نے تصویر سا وجود
کیسے کرے گا سامنا دنیا کا اب کمال
ذلت کی گہری کھائی میں پھینکا گیا وجود
(عاجز کمال رانا۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
جستجو کے کسی جہان میں ہے
دل پرندہ ابھی اڑان میں ہے
میں اُسے دیکھتا ہوں وہ مجھ کو
صرف آئینہ درمیان میں ہے
اُس کا چہرہ ہے اب بھی آنکھوں میں
اْس کی آواز اب بھی کان میں ہے
پاس ہوگا کہ فیل کیسے کہوں
دل محبت کے امتحان میں ہے
کاش ہوتی وہ حکمرانوں میں
ایک خوبی جو باغبان میں ہے
مار سکتا ہوں، مر بھی سکتا ہوں
آخری تیر بس کمان میں ہے
ہے عجب علم کی دکاں داری
بِک رہا ہے مگر دکان میں ہے
مجھ پہ طاری ہیں وحشتیں کیفی
خواہشِ وصل جسم و جان میں ہے
(محمودکیفی۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
زمامِ وقت کی گردش کو ٹالتا جائے
وہ اک نظر مری کھڑکی پہ ڈالتا جائے
مرے وجود میں اترے ہر ایک نشتر کو
اب آگیا ہے تو آکر نکالتا جائے
بس اک نظر یونہی سگریٹ کو ہاتھ میں تھامے
مری کتاب کے صفحے کھنگالتا جانے
کبھی کبھی مجھے دیکھے شریر نظروں سے
کبھی کبھی تو مرا دَم نکالتا جائے
کسی کسی کو یہ لہجہ نصیب ہوتا ہے
کہ لفظ لفظ نگینوں میں ڈھالتا جائے
یہ لوگ اس پہ ہی ایمان وار کرتے ہیں
جو ٹھوکروں پہ بھی خود کو سنبھالتا جائے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
بدن کی آنچ سے جب دل پگھلنے لگتا ہے
لہو میں شعلہ سا اک رقص کرنے لگتا ہے
بہارِ حسن پہ اترا مگر خیال رہے
یہ رنگ چند دنوں میں اترنے لگتا ہے
یہی نہیں ہے کہ صحرا کو پیاس لگتی ہے
کبھی کبھی کوئی دریا ترسنے لگتا ہے
توازن ایسا کہ دل ڈوبنے لگے جس دم
نظر میں آس کا منظر ابھرنے لگتا ہے
انا پسند ضرورت کے رستوں پر جاذب
تنے ہوئے کسی رسے پہ چلنے لگتا ہے
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
فقط دو چار سانسوں کے سہارے پر پڑا تھا
میں اک ارض تنفس کے کنارے پر پڑا تھا
ہمارے چل رہے تھے ہجر سے اچھے مراسم
وگرنہ وصل تو اک استخارے پر پڑا تھا
محبت کی تمہارے بعد کوشش رائیگاں تھی
خسارہ ہی مجھے پیہم خسارے پر پڑا تھا
مرا ہر عضو ٹھنڈے موسموں تک آگیا پر
یہ دل اب بھی کہیں عزمی شرارے پر پڑا تھا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
وہی کافی ہیں دو گلاب مجھے
تو نے بھیجے تھے جو گلاب مجھے
چند کانٹے بھی ساتھ آتے ہیں
بھیجتا ہے وہ گو گلاب مجھے
اور کیا مانگوں میں جنم دن پر
آج تحفے میں دو گلاب مجھے
تیری خوشبو کے پیچھے پاگل ہوں
یار تم بھی تو ہو گلاب مجھے
ایک تتلی نے کی ہے سرگوشی
اپنی بانہوں میں لو گلاب مجھے
خط میں لکھا تھا ایک مالی نے
اب چمن میں نہ رو گلاب مجھے
(ناہیداختربلوچ۔ ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
کرنے والا ہوں اک غزل ایجاد
میر بولیں گے مرحبا شہزاد
جس کا اپنا ضمیر مردہ ہے
وہ بھی کہتا ہے ملک زندہ باد
دس کتابیں ہی چھوڑ کر جاتے
کتنے کمبخت تھے مرے اجداد
سب امیدوں کا خون کر کے کہا
جا پرندے تجھے کِیا آزاد
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
ایک دن روک لی گئی امداد
(شہزاد مہدی۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
اس قدر مسئلے کھڑے ہوئے ہیں
کہ مرے رونگٹے کھڑے ہوئے ہیں
اُس نے مجھ سے کہا’’سنو‘‘ اور پھر۔۔
کان دیوار کے کھڑے ہوئے ہیں
شام کوان کے ساتھ بیٹھک ہے
اور ہم صبح سے کھڑے ہوئے ہیں
اس کو چھو کر ہوا جو آئی تو
احتراماً دیے کھڑے ہوئے ہیں
ہر کٹھن وقت میں حمید رضا
ایک پرچم تلے کھڑے ہوئے ہیں
(حمید رضا۔ اسکردو، بلتستان)
۔۔۔
غزل
میں سورج کو بھی دیکھو آئینہ اس دم دکھاتا ہوں
تیرے چہرے پہ بکھرے بال میں جس دم ہٹاتا ہوں
محبت تو نے جو دی ہے مجھے اک درد کی دولت
یہ وہ اندھی کمائی ہے جو رو رو کر لٹاتا ہوں
میں حسن یار کا گھائل مصور ہو گیا ہوں کیا
خیالوں میں کبھی آنکھیں کبھی وہ لب بناتا ہوں
شب ہجراں تڑپتا ہے، بہلتا ہی نہیں یہ دل
میں اس معصوم بچے کو تھپکتا ہوں مناتا ہوں
میری سوچیں مقید ہیں کسی اک حور کے ہاتھوں
کہ اس کی سوچ غالب ہے میں سب کچھ بھول جاتا ہوں
(عامر معان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
تمھارا فوٹو سجایا ہوا ہے کمرے میں
چراغِ ہجر جلایا ہوا ہے کمرے میں
خطوط لکھنے جلانے میں وقت کٹتا ہے
بس اپنا کام بنایا ہوا ہے کمرے میں
یہ دل ہے یادِ نشاطِ وصال میں گْم صم
تِرا خیال سا چھایا ہوا ہے کمرے میں
بلک رہا ہوں کہ آنکھوں سے اشک جاری ہیں
نظر کو چھت سے لگایا ہوا ہے کمرے میں
بہت سے لوگ مجھے گھر پہ ملنے آتے ہیں
پر اپنا آپ چھپایا ہوا ہے کمرے میں
کتابیں، پھول، تراشے، گلاس، سگرٹ، مے
بس ایک میلا لگایا ہوا ہے کمرے میں
میں فکر مند تھا تاخیرِ موت پر فیصل
اب ایک سایہ سا آیا ہوا ہے کمرے میں
(فیصل امام رضوی)
۔۔۔
غزل
زخم سینے کے اگر ہم سے دکھائے جاتے
دیپ کچھ ایسے اندھیروں میں جلائے جاتے
ہیچ پھر تجھ کو بھی آدم کا وہ قصہ لگتا
بزم سے ان کی اگر تم بھی اٹھائے جاتے
لاکھ کوشش کی بھلانے کی اسے ہم نے مگر
نقش گہرے تھے کہاں ہم سے مٹائے جاتے
کاش ملتی یہ خبر ہم کو کہ توآئے گا
ہم تری راہوں میں پلکوں کو بچھائے جاتے
(ندیم دائم۔ ہری پور)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.