آزادکشمیر میں کاروباری مقصد کیلئے کاشت کئے جانے والے مخصوص درخت سفیدے (Populus) کے انسانی صحت کیلئے مضر اثرات ثابت ہوچکے، یہ بھی مانی ہوئی بات ہے کہ یہ سطح آب میں کمی کا موجب ہوتا ہے، حیرت ہے کہ آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے متعلقہ حکام ان حقائق سے لاعلم ہیں،اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہاں شجر کاری سے متعلق تحقیق و منصوبہ بندی کا شدید فقدان پایا جاتاہے، یہ صورت حال ریاست میں ماحولیات اور انسانی زندگی کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
سفیدے کے نام سے مشہور اس درخت کو تلف کئے جانے کے حوالے سے مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا کے مختلف خطوں کے حکام سنجیدگی سے اقدامات کر رہے ہیں لیکن آزادکشمیر میں کام کرنے والے مختلف محکمہ جات بشمول محکمہ ماحولیات، صحت و جنگلات اس کے بُرے اثرات سے متعلق مکمل طور پر لاعلم ہیں۔
آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ سے 90 کی دہائی کے آغازمیں سفیدے کی شجرکاری کی ابتدا کی گئی۔ اس وقت آزاد کشمیر یونیورسٹی کے زرعی شعبے نے پہلی مرتبہ اس کی شجر کاری کی۔ بعد ازاں سرکاری سطح پر اس درخت کو کوئی خاص پذیرائی نہیں دی گئی لیکن نجی سطح پر لوگوں نے یہ درخت لگانے کا سلسلہ شروع کیا اور اسے کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ محکمہ جنگلات آزاد کشمیر کے مطابق اس خطے کے لوگوں کو سالانہ تیس سے پنتیس کروڑ روپے کی آمدن اس درخت کی لکڑی کی فروخت کرنے سے ہو رہی ہے جس میں سے کچھ حصہ ٹیکسز اور دیگر مدات میں سرکاری خزانے کو بھی جاتا ہے۔ سفیدے کی لکڑی کو سپورٹس مصنوعات، ماچس ، فرنیچر اورمقامی سطح پر ہونے والی تعمیرات میںاستعمال ہونے والی شٹرنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
سفیدے کی شجرکاری کے وقت اس کے ماحولیاتی اثرات کو زیر بحث لایا گیا نہ ہی تین دہائیاں گزرنے کے بعد اس کے ماحول اور صحت پر پڑنے والے اثرات زیر بحث لائے جا سکے ہیں حالانکہ سفیدے کی پیداوار سے پانی کی سطح میں انتہائی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
موسم بہار میں سفیدے کے درختوں پر روئی (Cotton) نما پھول کھلتے ہیں جو پولن الرجی، آنکھوں کی مختلف بیماریوں، زکام، پھیپھڑے اور گلے کے انفیکشن اور جلد کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ درخت جتنا زمین کے اوپر ہوتا ہے اس کی جڑیں اسی قدر زیر زمین پھیلی ہوتی ہیں۔ اگر یہ گھر یا سیوریج لائن کے قریب ہو اور اسے وافر مقدار میں پانی دستیاب ہو تو اس درخت کی جڑیں گھر کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں اور سیوریج لائن کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے ریسرچ سکالر ڈاکٹر رضوان کا کہنا ہے کہ سفیدے کے درخت سے پانی کی سطح میں کمی آتی ہے اور آج سے بیس سال قبل راولاکوٹ شہر اور گردونواح میں کہیں بھی بورنگ کرنے پرتیس سے پچاس فٹ گہرائی پر پانی نکل آتا تھا لیکن آج تین سو فٹ سے پہلے پانی ملنا مشکل ہوتا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ سفیدے کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ اس کے ساتھ سفیدے کے پتے جہاں گرتے ہیں وہ ارد گرد دوسرے پودوں کی افزائش کو روک دیتے ہیں۔اس وجہ سے پودوں میں بہت اچھا کمپیٹیٹر مانا جاتا ہے جو دوسرے پودوں کی افزائش کر روک کر خود پروان چڑھتا ہے۔اس کے علاوہ اس سے گرنے والی روئی پولن الرجی کا سبب بنتی ہے۔ ڈاکٹر رضوان کے مطابق آزاد کشمیر بالخصوص ضلع پونچھ کا موسم اس پودے کی افزائش کیلئے انتہائی موزوں ہے اس لئے یہاں کثرت سے پایا جاتا ہے۔
آزاد کشمیر کے پودوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر ارشد بتاتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں سفیدے کی پانچ اقسام پائی جاتی ہیں جن کے سائنسی نام (Populus alba L, Populus Ciliata wall ex Royle, Populus euphratica Oliv, Populus nigra L, Populus parmirica kom) ہیں ۔ ڈاکٹر ارشدکے مطابق آزاد کشمیر میں زیادہ تعداد میں پایا جانے والے سفیدے (Populus alba L)کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ یہ مغربی آسٹریلیا کے نمی والے علاقوں اور (Murrumbidgee River) کے ساحل کے ساتھ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جہاں انھیں ساحلی نباتات کیلئے خطرہ بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں پائی جانے والی سفیدے کی دوسری بڑی قسم کے سفیدے کی ہے جو سات سے دس سال میں تیار ہو جاتا ہے اور ارد گرد کی زمین سے سارے کا سارا پانی کھینچ لاتاہے۔
راولاکوٹ کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے حمید کامران بتاتے ہیں کہ وہ سفیدے کی پولن الرجی سے ہر سال متاثر ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر کے اطراف میں سفیدے کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
اس وجہ سے سفیدے کی روئی ان کے صحن میں جمع رہتی ہے اور اس سے ان کی آنکھوں میں شدید خارش اور سانس لینے میں مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ علاج کیلئے جب ہسپتال جاتا ہوں تو ماسک اور عینک پہننے کی تلقین کی جاتی ہے۔ بعض ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ بہار کے آغاز پر میں یہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جاؤ ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں بہار کے آغاز میں آنکھوں کی بیماری اور گلے کی خرابی کی بیماری عام ہوتی ہے ۔
سفیدے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر طب ڈاکٹر شبیر (سابق ڈائریکٹر EPA )کا کہنا ہے کہ عوام کو احتیاطی تدابیر میں چہرے کے ماسک استعمال کرنے چاہئیں تاکہ روئی گلے سے اندر نہ جا سکے اور صبح وشام غیر ضروری باہر نکلنے سے گریز کیا جانا چاہئیے۔ڈاکٹر شبیر کا کہنا ہے کہ سفیدے کی یہ روئی مادہ درختوں سے زیادہ بنتی ہے۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ محکمہ جنگلات مادہ درختوں کو تلف کرے ۔
تراڑ کھل سے تعلق رکھنے والے سردار عاصم بتاتے ہیں کہ ان کے گھر کے نزدیک نمی زدہ علاقہ تھا جہاں ہر وقت کیچڑ رہتا تھا اس کیچڑ سے بچنے کیلئے کسی کے مشورے پر سفیدے کے درخت لگائے اور دو تین سال میں وہ جگہ مکمل خشک ہو گئی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب سے ان کے علاقے میں سفیدے کی درختوں کی کثرت ہوئی وہاںموجود پانی کے چشموں میں پانی کی مقدار بہت کم رہ گئی ہے۔
اس حوالے سے آزاد کشمیر کے ڈائریکٹر ماحولیات شفیق عباسی کا کہنا ہے کہ سفیدے کے حوالے سے شعبہ ماحولیات کو آج تک کوئی شکایت موصول نہ ہوئی اس لئے اس بارے میں انوائرنمنٹل اسٹڈی نہیں کی گئی۔ہم کسی چیز کی اسٹڈی اس وقت کرتے ہیں جب مقامی سطح سے شکایت موصول ہو یا معاملہ میڈیا میں آئے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم کسی ایسے معاملے پر تو کام نہیں کر سکتے جس کی شکایت اسلام آباد یا باہر بیٹھا کوئی شخص کرے۔
جب تک مقامی لوگوں کی جانب سے شکایت موصول نہیں ہوتی ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ اسے کاروباری مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ لوگوں کو فائدہ دیتا ہے اور عوامی سطح پر اس کے نقصانات کی کوئی شکایت آزاد کشمیر کے محکمہ ماحولیات کو موصول نہیں ہوئی۔ آج پہلی مرتبہ سفیدے کے اثرات کے حوالے سے بات کی جارہی ہے۔
محکمہ جنگلات آزادکشمیر کے سیکرٹری ظہور گیلانی کاکہنا ہے کہ سرکاری سطح پر سفیدے کی افزائش بہت کم کی جاتی ہے کیونکہ جہاں اس کے فائدے ہیں وہیں یہ پانی کی سطح میں کمی کا موجب بنتا ہے اور اس کی روئی بھی نقصان دہ ہے۔ محکمہ جنگلات کے ایک سابق آفیسر کا کہنا تھا کہ سفیدے کی شجرکاری سے جہاں کئی لوگوں کو ذاتی حیثیت میں فائدہ ہوا وہیں حکومت آزاد کشمیر کو بھی فارمز (لکڑی کی ترسیل اور فروخت کے دوران محکمہ جنگلات فارم 25کے نام سے ایک اجازت نامہ جاری کرتا ہے جس میں لکڑی کی مالیت پر مخصوص فیس وصول کی جاتی ہے)کی وصولی اور دیگر مدات میں کچھ فائدہ ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر کے عوام کو سفیدے کی فروخت سے سالانہ 30 سے 35 کروڑ روپے کی آمدن ہوتی ہے۔ یہ آمدن ریاستی سطح پر نہیں بلکہ نجی سطح پر ہوتی ہے۔تاہم حکومت کو بھی ٹیکس کی مد میں اس سے کافی آمدن آ جاتی ہے۔
آزاد کشمیر میں ماحولیات اور دیگر شعبہ جات سفیدے کے اس درخت کے صرف کاروباری پہلو سے واقف ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں اس درخت کے مضر اثرات کے باعث اس کی کاشت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر(جموں وکشمیر) ہائی کورٹ نے سال 2014ء میں سفیدے کی کاشت اور کاروبار پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ بعد ازاں پندرہ مئی 2015ء کو ایک درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ نے سفیدے کے قریباً دو کروڑ درخت تلف کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنر صاحبان کو ایک سال کا وقت دیا تھا، جس پر جزوی عملدرآمد کرتے ہوئے ضلع پلوامہ اور کولگام میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چھ لاکھ کے قریب درخت تلف کئے گئے، آسٹریلیا میں بھی سفیدے کی مذکورہ قسم کو تلف کرنے کے حوالے سے سنجیدگی سے غور و خوض کیا جا رہا ہے جبکہ آزادکشمیر کے پونچھ ڈویژن ، میرپورڈویژن اور دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر سفیدے کی شجر کاری سے متعلق حکومتی سطح پر کسی قسم کی پالیسی واضح نہیں۔
ماہرین کے مطابق روئی(پولن) کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ مادہ درخت ہیں تاہم محکمہ جنگلات کی جانب سے تحقیق نہ ہونے کے باعث عوام میں یہ آگاہی موجود نہیں ہے کہ مادہ درخت کون سا ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ کے اوائل میں درختوں پر اگنے والے شگوفوں کو تلف کرتے ہوئے اور درختوں کی شاخ تراشی کے ذریعے بھی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے تاہم مکمل طور پر ماحولیاتی اثرات سے بچنے کیلئے درختوں کو ہی تلف کیا جانا چاہیے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سفیدے کی کاشت والے اضلاع خاص طور پر پونچھ ڈویژن میں پانی کی فراہمی کیلئے قدرتی چشمے اور نجی سطح پر کروائی گئی بورنگ ہی کلیدی ذرائع کے طورپر موجود ہیں، سرکاری سطح پر واٹر سپلائی سکیم کی تعمیر سے متعلق تاحال کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی ہے، سفیدے کے درخت کی کاروباری سطح پر بڑے پیمانے پر ہونے والی کاشت کے باعث پانی کی سطح انتہائی نیچے چلی جانے کے سبب پانی کی قلت مستقبل کے اہم خطرات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے بھی سفیدے کی کاشت کی حوصلہ شکنی اور متبادل پانی کی سکیموں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔
The post سفیدہ appeared first on ایکسپریس اردو.