جو انسان کا شُکر گزار نہ ہو، اور انسان ہی کیا! چرند کا، پرند کا، شجر کا، حجر کا، پُھول کا، پھل کا، ندی، دریا، جھیل کا، سمندر کا، بہار کا، سرد کا، گرم کا، صحرا کا، نخلستان کا، اور اب بس آپ سوچتے چلے جائیں، یہ فہرست تو کبھی ختم ہونے کی نہیں، جی ہم سب ختم ہوجائیں گے، ہماری سوچ کی حد ہوجائے گی، لیکن یہ کبھی ختم نہیں ہونے کی کہ اسی لیے تو کہا ہے خالق نے کہ تم آخر کس کس نعمت کا انکار کروگے، نہیں کرسکتے، کر ہی نہیں سکتے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ جو انسان کا شُکر گزار نہ ہو، اور انسان ہی کیا! وہ ان سب کے بنانے والے، پالنے اور پوسنے والے رب رحیم کا کیا شکر گزار ہوگا! جو مخلوق سے محبّت نہ کرے، وہ خالق سے کیسے کرسکتا ہے ۔۔۔۔ ! جو خلق سے بے زار ہو اور خالق کا طلب گار، عجب ہے یہ تو، محبوب کے پاؤں کی تو دُھول بھی معتبر ہوتی اور معطر و سرشار کرتی ہے، محب تو محبوب کی ہر ادا پر نثار اور اس کی بے اعتنائی سے بھی پیار کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان مصوّر سے عقیدت و عشق کا دعویٰ کرے اور اس کی بنائی ہوئی تصویروں کو، چلتی پھرتی سانس لیتی تصویروں کو نیست و نابود کرتا پھرے، ان میں نقص نکالے، ان سے دامن بچائے، انہیں حقیر سمجھے، کیا خالق کی بنائی ہوئی مخلوق کی توہین ان کے مصوّر کی توہین نہیں ہے!
لیکن رنگ بہ رنگی دنیا ہے یہ اور نت نئے انسان ۔۔۔۔۔ اور صاحبو انسان بھی کیا! ہر اک دوسرے سے جُدا، دنیا بھر کے کسی بھی انسان کے ہاتھ اور پاؤں کی لکیریں اک دوجے سے نہیں ملتیں، جانتے ہیں ناں آپ۔ دیکھیے کیا یاد آیا
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
لیکن دل نہ بھی ملے، آدمی تو ہے وہ بھی اور واجب تکریم۔
وادی مہران کے سوہنے شاہ سائیں لطیف جو ایک ٹیلے پر بیٹھ کر گیان کیا کرتے تھے، نے کہا ہے ناں: ’’ سانپ دیکھنے میں بہت خوب صورت ہوتے ہیں لیکن ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر بھرا ہوتا ہے۔‘‘ بہت سے ملتے ہیں یہاں۔ کچھ انس بھی اس خصلت کے ہوتے ہیں جی! میرا ایک دیوانہ سجن بیلی کہا کرتا ہے: خوب صورت شکل میں سب درندے بن گئے ہیں جی! ہم گم راہ ہوئے، ہمیں تو اپنے اصل کو، اپنے شرف کو پہچاننا چاہیے ناں۔ کوئی درندہ بن گیا تو کیا ہم بھی اس کی طرح ہوجائیں یا اسے پھر سے انسان بننے پر اکسائیں، اسے اس کے شرف کی طرف رستہ دکھائیں۔ لیجیے کیا یاد آگیا ہے جی!
وہ ایک باشرف انسان جو اپنے انسان ہونے کا سچّا دعوے دار تھا، ایک دریا کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ اسے ایک بچھو نظر آیا جو دریا سے باہر آنے کی کوشش کررہا تھا۔ جیسے وہ کنارے لگتا تو کوئی لہر پھر سے اُسے کنارے سے جدا کردیتی، وہ اسے بہت دیر تک دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنے اردگرد دیکھا کہ اسے کوئی ٹہنی نظر آئے جس سے وہ اس بچھو کو باہر نکال سکے، لیکن اتفاق ایسا کہ اسے کوئی ٹہنی نظر نہیں آئی، اس نے اپنا ہاتھ بچھو کو نکالنے کے لیے دریا میں ڈالا ہی تھا کہ بچو نے اسے ڈس لیا، تکلیف کی شدّت اس کے چہرے سے عیاں تھی لیکن اس نے اپنا ارادہ نہیں بدلا اور پھر سے کوشش کی لیکن نہیں۔
اُس نے اسے پھر ڈس لیا تھا، افضل اور اسفل کی جنگ فلک دیکھ رہا تھا کہ جیت کس کی ہوگی، آخر چھٹی کوشش میں وہ اس بچھو کو باہر نکالنے میں کام یاب ہوچکا تھا، تکلیف کے ساتھ ایک آسودگی بھی اس کے چہرے پر رقص کر رہی تھی۔ یہ سارا منظر ایک اور مسافر بھی دیکھ رہا تھا اس نے اسے آکر کہا: کیا ضرورت تھی تمہیں اس موذی کو نکالنے کی، تم نے اس کے ساتھ نیکی کرنا چاہی اور کی بھی اور اس نے تمہیں اتنی مرتبہ ڈسا، لیکن تم بہت بے وقوف ہو، باز نہیں آئے۔ تو وہ اصل باشرف انسان مسکرایا اور کہا: مجھے اس کے ڈسنے کی عادت نے ہی تو اسے بچانے پر اکسایا تھا۔ مسافر نے حیرت سے پوچھا: وہ کیسے؟ تب اس اصل نے بتایا کہ جب وہ مجھے ڈس رہا تھا تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اپنی بُری عادت سے باز نہیں آرہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیسے باز آجاؤں۔
نہ جانے کیا بکے جا رہا ہوں میں، سمع خراشی کی معذرت۔
مجھ سے ایک دن اُس نے پوچھا: ’’تم نے جگنو دیکھا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں …! بہت سے جگنو، چمکتے ہوئے، جنگل کی رات، ہُو کا عالم، چہار سُو سنّاٹا، سر جھکائے اشجار، سرسراتی ہوا، آسماں میں بدلیوں سے چھپن چھپائی کھیلتا آفتاب اور جگنو۔
پھر میں نے اس سے کہا: میں نے تو بیر بہوٹی بھی دیکھی ہے۔
’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
تم نے نہیں دیکھی بیر بہوٹی؟
’’نہیں تو‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔ تب میں نے اسے بتایا: برسات برس کر تھم گئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا مسکرا رہی تھی۔ میں اپنی جیپ چلاتا ہُوا گاؤں کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا دونوں طرف درخت اور سناٹا۔ تب مجھے چائے کی طلب ہوئی۔ بہت دور نکل گیا تھا میں کہ ایک چھپّر ہوٹل نظر آیا میں نے گاڑی سڑک سے نیچے اتاری اور ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔
’’ صاحب چارپائی گیلی ہے۔‘‘ کوئی بات نہیں، میں نے کہا۔ چائے مل جائے گی؟ تب اس نے آواز دی ’’خانے چائے بنا۔‘‘ ایک نوجوان چھپر کے پیچھے سے برآمد ہوا۔ ایک نظر مجھ پر ڈالی اور چائے بنانے لگا۔
آپ اس طوفان میں اکیلے کہاں سے آرہے ہیں؟
میں نے مسکرا کر اسے دیکھا، میں تمہیں اکیلا نظر آرہا ہوں۔۔۔ ؟
تو وہ حیرت سے بولا: ’’آپ اکیلے ہی تو ہیں۔‘‘
دو فرشتے تو میرے کاندھے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تب وہ بہت ہنسا، میں نے چائے پی تو وہ پیسے لینے سے انکاری ہوگیا۔ میں نے کہا، لے لو تو کہنے لگا: ’’آپ دعا کریں بس‘‘ عجیب آدمی تھا وہ، کم رہ گئے ایسے لوگ، لیکن یقیناً اب بھی ہیں، دنیا کبھی ایثار کیش باشرف انسانوں سے خالی نہیں رہی۔
مجھے چائے دے کر وہ نوجوان پھر چھپّر کے پیچھے چلا گیا تو تجسس مجھے اس کے پاس لے گیا۔ میں نے پہلی مرتبہ اتنی ساری بِیر بہوٹیاں ایک ساتھ دیکھیں … نرم و نازک، لال سُرخ اور مخمل کی طرح ریشمی۔ وہ نوجوان انہیں دیکھ رہا تھا، میں نے ایک اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ لی اور فوراً ہی اسے نیچے رکھ دیا تو وہ مسکرایا۔
’’صاب یہ تو بہت معصوم ہیں، کاٹتی نہیں ہیں۔‘‘ میں نے کہا اچھا!
’’ صاب انہیں ماچس کی ڈبیا میں بند کرکے دوں؟ گھر جاکر بوتل میں ڈال لینا۔‘‘
میں نے کہا کیوں ۔۔۔۔ ؟
’’ بہت خوب صورت لگیں گی۔‘‘
تب مجھے کہنا پڑا، کیا ضروری ہے خوب صورتی کو قید کردیا جائے! وہ یہاں خوب صورت لگ رہی ہیں۔ بوتل میں اداس ہوجائیں گی اور پھر ایک دن مرجائیں گی، نہیں نہیں، انہیں یہیں رہنے دو، ابھی میں نے ایک اٹھائی تھی تو اس نے مجھ سے کہا تھا: آپ کیسے انسان ہیں، میری ہم جولیوں سے جدا کردیا مجھے، تب مجھے اسے رکھنا پڑا اور معذرت کرنا پڑی۔ وہ میری باتیں سن کر پریشان ہو رہا تھا۔
میں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ایک سفر، زندگی کی طرح طویل تنہا سڑک، یادیں اور باتیں، آنسو اور قہقہے ۔۔۔۔۔ میری ساری زندگی اسی طرح گزرگئی۔ مجھے یہ سب کچھ میرے بابوں نے بتایا تھا، ایسے ویسے بابے نہیں جیسے آج کل کے ہیں، کھاؤ پِیر، اپنے نفس کے پُجاری، معصوم خلق خدا کو گم راہ کرنے والے، عیّار و مکار۔ وہ تو دانش مند تھے، باشرف تھے، ہاں ایسے انسان جو لوگوں کی خدمت پر معمور، وہ گاتے تھے۔
ناچتے تھے، مصیبت میں سب کے ساتھ کھڑے ہوجاتے اور خلق خدا کے ہر پل کام آتے، تعصب، نہیں بالکل بھی نہیں! تعصب تو انہیں چُھو کر بھی نہیں گزرا تھا، وہ ہر انسان کو بس انسان سمجھتے تھے، کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون ہے، ہندو، مسلم، سکھ، مسیحی، نہیں ، کبھی نہیں، بے ریا اور بے لوث۔ وہ اگر نہ ہوتے تو میں نہ جانے کس گڑھے میں پڑا ہوتا۔ وہ تو میں اب بھی گر جاتا ہوں لیکن انھوں نے ایسا چمتکار کیا کہ گڑھے میں گرنے سے بچانے والے پیدا کردیے۔ ورنہ تو میں نے دلدل میں دھنسنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
میں خود کو ہی اہم سمجھتا ہوں۔ کوئی مجھ سے محبت سے پیش آئے تو اس کے خلوص کی قدر نہیں کرتا، بل کہ اسے اپنا حق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ میں اسے نعمت نہیں، اپنا استحقاق سمجھ بیٹھتا ہوں۔ یہی کچھ کیا ہے میں نے۔ میں ہر خوش بُو کو بوتل میں بند کردینا چاہتا ہوں، جب کہ خوش بُو تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔
میں خود جینا چاہتا ہوں، اس لیے کسی کو جیتے دیکھ کر کسی کو ہنستے دیکھ کر مجھ پر غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ میں خود پر کبھی غور نہیں کرتا کہ تنگ دلی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا ہوں، میں دوسروں کی ٹوہ میں لگا رہتا ہوں۔ میں اپنی خامیوں، جنھیں میں چُھپانے کے لیے اتنی محنت کر رہا ہوں، اس سے بہت ہی کم محنت میں ان سے نجات حاصل کرسکتا تھا۔
لیکن نہیں! میں تو خود کو بیمار ہی نہیں سمجھتا تو علاج کیسا! کتنا سفاک ہوگیا ہوں میں۔ اس اندھے کا کیا علاج جو قدم قدم پر ٹھوکر کھائے اور خود کو اندھا ماننے سے انکار کردے۔ مجھے اتنی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ زبان سے نہیں روح کی گہرائی سے نکلی ہوئی بات سفر کرتی، خوش بُو پھیلاتی، لوگوں کو مہکاتی اور روح میں اتر جاتی ہے۔ میں خود کو بڑا فصیح البیان سمجھ بیٹھا ہوں۔ مجھے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب کرم ہے، توفیق ہے یہ جو میری آنکھ میں آنسو ہیں، یہ لطف و کرم ہے، یہ جو میرے ارد گرد بہار ہے عنایت ہے، میں سوچتا ہی نہیں، میں رب کا نہیں اپنی ذات کا پجاری بن گیا، خود کو پُوج رہا ہوں، خود نمائی، خود ستائی اور خود فریبی کا شکار ہوگیا ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ میری چرب زبانی سے زندگی کی پستیاں ختم نہیں ہوسکتیں، مجھے خود بدلنا ہے، خود کو بیمار سمجھوں گا تب ہی تو میرا علاج ہوگا، لیکن میں دوسروں کو بیمار سمجھ بیٹھا ہوں۔ مجھے ہر ایک سازش کرتا نظر آتا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے ہر آنکھ میری نگرانی کررہی ہے۔ میں ایک عجیب چکر میں گھوم رہا ہوں اور سمجھ ہی نہیں پارہا۔ مجھے سمجھ لینا چاہیے کہ زندگی ایک درخت ہے جسے سانس کی آری مسلسل کاٹ رہی ہے۔ ہاں میں ایک دن نہیں رہوں گا، مجھے تو یہ کرنا چاہیے کہ میں نہ رہوں میری باتیں رہیں، میری خوش بُو رہے، میرا خلوص رہے۔ میں جسم کو بچانے کے چکر میں اپنی روح کو مار چکا ہوں، میں بہت خسارے میں ہوں اور رب سے کہتا بھی نہیں کہ مجھے اس مرض سے نجات دے دے۔
بہت لمبی سڑک تھی وہ ۔۔۔۔ اور میں یہی سوچ رہا تھا۔ پھر میں ان کے پاس پہنچا۔ دوست کے پاس، جن سے میں ہر بات کرسکتا تھا، ہر بات دریافت کرسکتا تھا۔ ہاں پھر میں نے سنا، ان کے دہن سے پھول جھڑے جی! مجھے یاد ہے، بہت اچھی طرح یاد ہے۔
’’دوست اور دشمن انسان کی اپنی پسند اور ناپسند کے مظاہر ہیں۔ محبت اور نفرت انسان کے اپنے مزاج کے حصے ہیں، جو انسان سراپا محبت ہو اسے دنیا میں کوئی انسان قابل نفرت نظر نہیں آتا۔ محبت بھری آنکھ کو محبوب چہرے کا ملنا فطری ہے۔ اپنی نظریں نظارے کو حُسن بخشتی ہیں۔ اپنا دل ہی سرِِ دل براں ہے۔
اپنا ذائقہ خوراک کو لذیذ بناتا ہے۔ اپنی حقیقت کو دریافت کرو تو کائنات کی حقیقتیں آشکار ہوجائیں گی۔ خود آگہی، خدا آگہی۔ اپنی سماعت کی اصلاح کرو تو آوازِ دوست مل جائے گی۔ نظر عطا کرنے والا نظاروں میں جلوہ گر ہے، ہم جس کے لیے ہیں وہی ہمارے لیے ہے۔ دنیا یا آخرت، جسم یا روح، ظلمات یا نور ۔۔۔۔۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے۔ آسمان سے نور آتا ہے۔ روٹی زمین سے پیدا ہوتی ہے۔ زمین و آسمان کا رشتہ ہمارے دم سے ہے۔ انکار و اقرار ہمارے اپنے نام ہیں۔ بلندی اور پستی ہمارے اپنے مقامات ہیں۔ ہم خود ہی گُم ہوگئے تو اس میں کسی کا کیا دوش!‘‘
نہ جانے کیا کہنا چاہ رہا تھا، کیا کہہ گیا ہوں میں۔
دیکھا ہی نہ ہو جس نے کبھی خاک سے آگے
کیا اس کو نظر آئے گا افلاک سے آگے
شامل تو ہیں ہم قافلۂ ہوش و خرد میں
جانا ہے مگر منزلِ ادراک سے آگے
چلیے جی!
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے
The post رنگ بہ رنگی دنیا، نت نئے انسان appeared first on ایکسپریس اردو.