ہم اپنی گفتگو کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں، اظہار یا استفسار۔ ہم دوسروں کو کچھ بتا رہے ہوتے ہیں، یا کسی سے کچھ پوچھ رہے ہوتے ہیں۔
سوالات کے ذریعے ہی ہم اپنے تصورات کو واضح کرتے اور کسی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کر پاتے ہیں۔ سوال کو شعور کا پہلا اور آخری ہتھیار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سوال ہوگا تو مکالمہ ہوگا، مکالمہ ہوگا تو کسی نئے سماجی شعور کے امکانات ہوں گے۔ سوال فرد کی قابلیت کا عکاس ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کے بارے میں آگہی کے لیے ہمارا ذہن سوالات اٹھانا شروع کر دیتا ہے، اور ہم اس پیاس کو بجھانے کے لیے اس کا اظہار کرتے ہیں۔
صحافی کا تعلق چوں کہ حالات حاضرہ اور اس سے جڑے معاملات سے ہے، لہٰذا اسے مختلف سوالات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بہت سے امور کے بارے میں پوچھا جانا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ دھندلکوں میں پڑی چیزوں کی وضاحت درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے یہ امور کسی فرد کے اختیارات یا ذمہ داریوں میں آتے ہیں یا پھر وہ اس مسئلے پر کچھ ثبوت اور ایسی معلومات رکھتا ہے، جو کہ لوگوں کو نہیں پتا۔ یہ تمام چیزیں ایک نامہ نگار یا صحافی کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس سے سوال کرے، لیکن اس سوال کو بہت سے اخلاقی ضابطوں اور معاشرتی پیمانوں کا پابند ہونا چاہیے۔ جس میں اسے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کا انداز جابرانہ اور حاکمانہ ہو، کیوں کہ صحافی کو یہ حق کسی طور نہیں کہ وہ تفتیشی افسران کے انداز میں اس سے پوچھ گچھ کرے کہ گویا وہ کوئی ملزم ہو۔ سوال اجتماعی امور سے متعلق ہونا چاہیے۔ اگر کسی کا ذاتی انٹرویو کیا جا رہا ہے، تب بھی بہت شایستہ انداز میں اس سے ذاتی سوالات کرنے کی اجازت لینا چاہیے اور اس کے جواب نہ دینے کے حق کا بھی احترام کرنا چاہیے۔
جواب کے لیے درخواست تو کی جاتی ہے،لیکن مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے سوالات کے جواب میں دانستہ بات کو اِدھر اُدھر کر دیا جاتا ہے، کیوں کہ بہت سے لوگ براہ راست سوال کو روکنے کے بہ جائے ایسا کرتے ہیں۔ دوسری طرف جب کسی سوال پر بنا کسی عار کے جواب دینے والا جواب دے دے، لیکن اس سوال پر ملنے والے جواب کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی تنازع یا مسئلہ کھڑا ہوجائے، جس کے بعد سوال پوچھنے والے صحافی کو مطعون یا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ دراصل اس کی وجہ سے یہ آگ لگی۔ نہ وہ یہ سوال کرتا اور نہ ہی یہ تمام صورت حال پیدا ہوتی۔۔۔! یہ نہایت عجیب وغریب صورت حال ہے، کیا ایک عام شہری کی حیثیت سے کسی کو سوال پوچھنے کے حق سے اس طرح روکا جا سکتا ہے۔۔۔؟ کیا یہ جواز ایک صحافی کو کسی استفسار سے روک سکتا ہے کہ اس کے جواب نے اتنا بڑا تنازع پیدا کر دیا، جب کہ اس نے تو صرف ایک چیز جاننے کی کوشش کی۔۔۔ یا کسی چیز کو بے نقاب کیا۔ سوال پوچھنے والے کو ذمہ دار قرار دینا ایسا امر نہیں کہ جیسے کسی مرض کی تشخیص کرنے والے معالج کو اس کا الزام دیا جانے لگے کہ اگر یہ اس کی تفتیش نہ کرتا تو پتا ہی نہ چلتا! یعنی مرض کے ہونے سے زیادہ اس کا پتا چلنا برا سمجھا جائے۔ اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا کہ ایک صحافی نے اپنے سوال پوچھنے کے حق کو ہی استعمال کیا ہے۔
جواب دینے والے کو مکمل اختیار تھا کہ وہ اس کا جواب دینے سے انکار کر دیتا، لیکن اس نے نہ صرف یہ جواب دیا بلکہ وہ اس کے بعد بھی اس پر قائم ہے۔ اس کے جواب کو تو حق اظہار اور اختلاف رائے کے حق کے طور پر لینا چاہیے۔ اس لیے سوال پوچھنے والے پر الزامات دھرنے کے بہ جائے سماج کے عدم برداشت کا کوئی علاج کرنا چاہیے، نہ کہ اس غیرعلمی سوچ کا پرچار کریں کہ دراصل یہ سوال پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے تھا! جب کہ سوال کے ذریعے کسی بھی پہلو کی وضاحت ہوئی یا کسی کا موقف واضح ہوا۔ ایسی صورت میں جب کسی سوال کے جواب میںکسی نئی بحث کا آغاز ہو یا کسی کے خیالات کے بارے میں پتا چلے، مگر اس کے بعد تنقید کا یہ انداز اختیار کیا جائے کہ یہ سوال تو پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے تھا، جب کہ سوال پوچھنے والے نے تو صرف اپنا حق استفسار استعمال کیا۔ اسے کس طرح الزام دیا جا سکتا ہے۔ بات تو اس کے ذریعے سامنے آنے والی بات یا موقف پر کی جانی چاہیے کہ اس نے ایسا کیوں کہا اور سماج میں اس کی سہار کیوں کر موجود نہیں۔ دراصل معاشرے کے مخصوص طبقے کی یہ سوچ کچھ اسی طرح کی ہے جو چاہتے ہیں کہ خلق خدا آنکھیں میچے رہے اور کوئی سوال لوگوں کی موندی آنکھوں کو نہ کھول دے۔ وہ اگر الجھنوں، ابہام اور دھندلکوں کی دبیز تہہ میں پڑے ہیں تو انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے۔
سوال پوچھنے کا حق حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر سوال سے ہی بہت سی معلومات ملتی ہیں، اور جہل کا خاتمہ ہوتا ہے، بہت سے غیرمناسب اور غیرمنطقی سوالات اس کے برعکس کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ یہ سوالات بعض اوقات افراد کے درمیان نزاعی صورت حال پیدا کرنے کے سوا کوئی کام نہیں کرتے۔ اس کی پہلی صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ دانستہ ایسے نازک مسئلے پر آگ لگانے کی کوشش کی جائے، جس سے فقط سستی شہرت حاصل کرنا مقصود ہو، بعض اوقات سوال پوچھنے والے کے الفاظ، لہجہ اور انداز ہی جواب کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔ یا سوال کی بُنت ایسی ہوتی ہے، جس میں پہلے ہی ایک چیز طے کر لی ہوکہ یہ معاملہ ایسا ہے، اب یہ بتائیے کہ فلاں چیز کیوں کر ہے؟ اس سے سوال پوچھنے والے کی جانب داری واضح ہے یا پھر وہ من چاہا جواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ بھونڈے سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں، جیسے کسی حادثے اور دہشت گردی میں زخمیوں سے یہ پوچھا جانا کہ آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ یا کسی چیز کا بہت زیادہ قبل ازوقت اپنے تئیں کوئی نتیجہ اخذ کیے بیٹھنا کہ یہ ایسا ہوگا وغیرہ۔ یہاں تو سوال پوچھنا قابل تنقید ہو سکتا ہے، لیکن کوئی ایسا معاملہ جو سیدھا سا سوال ہو اور اسی طرح اس کا جواب واضح اور عیاں ہو، اس کے باوجود کہا جائے کہ نہیں یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا، اس سے سماج میں انتشار پھیلا۔ یہ قطعی غیرصحت مندانہ رویہ ہے۔ یہاں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اس سوال کے پوچھے جانے سے پہلے اس موضوع پر مبہم صورت حال معاشرے کے لیے باعث انتشار نہیں تھی؟ سوالات تو پوچھے جاتے ہیں اور پوچھے جانے چاہئیں۔ کسی بھی سوال پر روک لگا کر معاشرے کو گٹھن زدہ بنانا مسئلے کا کوئی حل نہیں، بلکہ معاشرے کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ مزید سوالات اٹھائے اور پھر اس کے جواب پر مشتعل ہونے کے بہ جائے خندہ پیشانی سے اختلافانہ رائے کو برداشت کرنے کا ظرف پیدا کرے اور مکالمے سے اس کا مقابلہ کرے۔
صحافت کا سماجی ذمہ داری کا نظریہ غیر ذمہ دارانہ سوالات سے روکتا ہے، لیکن ذرایع ابلاغ اور صحافیوں کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے فقدان کی وجہ سے غیر ذمہ دارانہ سوالات بھی پوچھ لیے جاتے ہیں۔ جیسے ایسے سوالات جن کے بارے میں قطعی دو رائے نہیں ہوتیں کہ اس کا جواب کیا آنا ہے۔ بولنے والی شخصیت، موضوع اور سماج کی حساسیت اس کا تقاضا کرتی ہے کہ بہت سنبھل کر سوال کیے جائیں، تاکہ معاشرے میں بے چینی اور اشتعال نہ پھیلے، کسی بھی طبقے اور گروہ کی دل آزاری نہ ہو، کیوں کہ آزادی اظہار کی بڑی سے بڑی آزادی بھی کبھی اس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔
اگر سوال کسی مطبوعہ ذریعہ ابلاغ کے لیے کیا جا رہا ہے، تو اسے متن سے حذف کیا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کسی پروگرام کے لیے گفتگو براہ راست نہ ہو تو، اس کی بھی کتر بیونت آسان ہے، لیکن اگر برقی ذرایع ابلاغ میں گفتگو کا سلسلہ براہ راست ہو، کوئی پریس کانفرنس یا تقریب براہ راست نشر کی جا رہی ہو، تب صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے درمیان پوچھے جانے والے سوال کا جواب اگر صحافی نہ بھی شایع یا نشر کرے، وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ سماجی ویب سائٹس کے توسط سے اس طرح کی چیزوں کو اور بھی فروغ ملا ہے۔ کسی گڑبڑ پھیلانے والے جواب کو اسی صورت میں شایع اور نشر ہونے سے روکا جا سکتا ہے کہ جب وہ براہ راست نہ ہو۔ دوسری طرف خلقت میں پھیلنے سے روکنے کی بھی واحد صورت یہ ہے کہ یہ سوال جواب کسی علیحدہ روبرو نشست میں چل رہے ہوں۔ بصورت دیگر سوالات میں احتیاط برتنی چاہیے۔
مجموعی طور پر ہمارے ہاں خبروں کی سطح پر مختلف چھوٹے بڑے واقعات اور معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائے جانے کا رجحان نہیں۔ کوئی تازہ خبر ایک دم سے بھر پور جگہ لیتی ہے، لیکن جوں ہی وقت کی گَرد پڑتی ہے، فوراً نئی خبریں اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔ خبروں کے منطقی انجام تک پہنچنے کی آگاہی سوالات کی ہی مرہون منت ہے، مگر اکثر صحافی تازہ ترین خبر پر ہی زیادہ توجہ دیتے نظر آتے ہیں۔
جاننے کے حق کے حوالے سے اگر ہم اپنے مجموعی طور پر بڑے بڑے واقعات کا جائزہ لیں تو ہماری تاریخ کا کتنا ہی بڑا واقعہ کیوں نہ ہو وہ ’’نوٹس لے لیا، رپورٹ طلب کرلی، تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی‘‘ سے آگے کبھی شاذ ہی بڑھ پاتا ہے۔ اگر کوئی منطقی انجام بھی ہو تو اسے اتنے دھندلکوں میں چھپا دیا جاتا ہے کہ سوالات اٹھائے ہی نہیں جاتے۔ دوسری طرف برقی ذرایع ابلاغ میں جوں ہی کسی تازہ ترین خبر کا نقارہ بجتا ہے اور نامہ نگار کسی وقوعے کی تفصیلات دے رہا ہوتا ہے تو اس سے اسٹوڈیو میں بیٹھا میزبان جو سوال کرتا ہے، وہ نہایت بھونڈے اور بعض اوقات نہایت مضحکہ خیز اور بچکانہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سوال پوچھے جانے کے لیے بھی واضح مہارت لازم امر ہے۔ ایک اچھا اور باخبر صحافی ہی کسی ایسی صورت حال میں اچھے سوالات کے ذریعے اپنی معلومات پوری کر سکتا ہے۔ وہ جانتاہے کہ اس خبر کو کن سوالوں کے ذریعہ ہم جہت بنایا جاسکتا ہے۔ یوں ایک کام یاب صحافی بے دار ذہن کے ساتھ بروقت معلومات حاصل کرتا ہے۔
٭سوالات۔۔۔ کلیدِ جمہوریت
سوالات کو معاشرے کی زندگی کہا جاتا ہے۔ اگر سوالات نہ اٹھیں تو اس کا مطلب ہے کہ افراد زندگی سے پرے ہو رہے ہیں۔ کسی سے دوستی کرنا ہو۔۔۔ کوئی نیا رشتہ قایم کرنا ہو۔۔۔ کسی کو ملازمت دینا ہو، ہر راہ سوالات کے جواب کے بعد ہی چنی جاتی ہے۔۔۔ دوران تدریس طلبا کے سوالات صرف انہیں ہی نہیں بلکہ بعض اوقات اساتذہ کو بھی فکر کی نئی راہیں دکھاتا ہے۔ تعلیمی سلسلے میں سوالات کے اسی سلسلے کو امتحان کہا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جتنے سوالات اٹھائے جائیں گے، وہ معاشرہ اُتنا ہی زندہ اور متحرک کہلائے گا۔ اجتماعی سطح پر یہ جمہور کے شعور کی خبر دیتا ہے۔ وہ اپنے حقوق کے لیے سوال اٹھاتے ہیں اور بالادست لوگوں کو جوابدہی پر مجبور کرتے ہیں۔ سیاسی سطح پر اس فکر کی موجودگی اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر سوالات اٹھائے جانے بند ہو جائیں تو با اختیار لوگوں کی بے لگام آزادی نچلے طبقوں کے استحصال کی انتہا پر پہنچا دے گی۔
٭ ’’خبردار۔۔۔ یہ سوال نہ کرنا!‘‘
دنیا کے بہت سے جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی بہت سی چیزوں کے بارے میں سوال اٹھانے پر پابندی ہے۔ کہیں سرکار کے کسی اقدام کے حوالے سے نہیں پوچھا جا سکتا۔ کہیں کسی مذہبی معاملے پر سوال اٹھانے کی ممانعت ہے۔ کہیں امور ریاست، نظریہ ریاست اور ریاست کی تاریخ پر سوال اٹھانا منع ہوتے ہیں۔ یہی نہیں جمہوریت کے باوجود بہت سے جمہوری ممالک میں بھی سوال اٹھانے کے لیے بہت سی چیزیں بدستور اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر شجر ممنوعہ رہ جاتی ہیں۔ کچھ کو ’’حساسیت‘‘ کا پہناوا دیا جاتا ہے اور کسی کو ’’نزاکت‘‘ کا پیرہن۔۔۔ کچھ ’’مداخلت‘‘ کہہ کر رد کی جاتی ہیں اور ’’مداخلت‘‘ کے مرتکب لوگوں سے سختی سے ’’نمٹا‘‘ بھی جاتا ہے۔ معلوم اور نامعلوم قوتیں سوال پوچھنے اور سوال اٹھانے کی پاداش میں اسے بھیانک انجام سے دوچار کرتی ہیں۔ کسی پردہ نشیں کا نام بھی ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کے جامے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں دفاعی اخراجات مکمل اور جزوی طور پر راز رکھے جاتے ہیں۔ مختلف ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں، جس کی گہرائی میں اُترنے نہیں دیا جاتا۔ کسی مسئلے کے ایسے سِرے کو پکڑنے پر پہرہ ہے، جس سے بہت سی الجھنیں سلجھ جانے کا اندیشہ ہو اور ڈھول کا پول کھل جائے۔ اَسرار کے دبیز پردوں کے پیچھے دبی ہوئی کوئی دستاویز جو ایسا کچھ کرنے جا رہی ہو، جس سے رکھوالوں کی رکھ والی لرزہ براندام ہو۔۔۔ اختیار والوں کی حکم پر چوٹ پڑتی ہو۔۔۔ یا کسی حادثے کی وجہ، کسی تجویز کا محرک اور کسی واقعے کا ذمہ دارسے متعلق بھی ایسی معلومات ہوتی ہیں، جن سے متعلق طاقت وَر قوتیں نہیں چاہتیں کوئی جان پائے۔
٭سماجی ذرایع ابلاغ۔۔۔۔اَن کہے سوالات کی زنبیل
قارئین، سامعین اور ناظرین کو یہ شکایت ہے کہ ان کے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی چینل کسی معاملے پر بعض اوقات بہت سادہ سے سوالات اٹھانے پر کیوں گریزاں ہیں، چناں چہ وہ اپنے ذریعہ ابلاغ کو ہتھیار بناتے ہوئے سماجی ذرایع ابلاغ پر اس حوالے سے لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہیں اور اب فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ جیسے سماجی ذرایع ابلاغ کے توسط سے اٹھائے جانے والے سوالات کی بازگشت عام ذرایع ابلاغ پر بھی سنائی دیتی ہے۔ یعنی سماجی ذرایع ابلاغ اَن کہے سوالات کی ایک بہت بڑی زنبیل بن چکا ہے۔ کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں، جو اس سطح پر موضوع نہ بنے۔ بالخصوص کسی بھی معاملے کے نئے پہلو وا کرنے اور تشنہ پہلوئوں پر نئے سوالات کے حوالے سے یہ بہت اہم جانا جا رہا ہے۔ اس طرح اَن چھوئے سوالات کا دائرہ روز بہ روز سکڑتا جا رہا ہے اور سماجی ذرایع ابلاغ پر روزانہ اور ہر لمحہ جاری رہنے والی گفتگو میں ہر وقت نت نئے سوالات اٹھائے جاتے ہیں، یوں معاشرے کے سوالات کسی نہ کسی سطح پر سفر کرتے ہوئے اپنے منطقی انجام تک پہنچتے ہیں۔
٭ مخصوص سوالات پر قدغن۔۔۔
ہمارے ہاں صحافیوں کے سخت سوالات پر معاشرے میں سرگرم مختلف فشاری گروہوں کی جانب سے تشدد کیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مختلف نام وَر شخصیات بھی سخت سوالات پر منہ بناتی ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ صرف ان کی مرضی کے سوالات پوچھے جائیں۔ بہت سی پریس کانفرنسوں میں بھی پیشگی ’’ہدایات‘‘ دے دی جاتی ہیں کہ سوالات کا رخ کس جانب زیادہ رکھنا ہے اور خبردار! اس قسم کا سوال نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کوئی ’’بہادری‘‘ دکھائے تو پھر اسے اس جہاد کی قیمت بھی چُکانا پڑتی ہے۔ آئے روز پریس کانفرنسوں میں تیکھے سوال پوچھے جانے پر صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی نہیں دنیا بھر کی طرح ہمارے ہاں بھی بہت سے صحافی نئے نئے سوالات کی کرید میں اپنے جیون کو گھائو لگا بیٹھے۔
٭عام زندگی میں سوالات
ہماری نجی زندگی میں بھی گفتگو سوال جواب سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد کسی چیز پر اظہار خیال، تبصرہ، اتفاق اور اختلاف کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے۔ نئے ملنے والے دوست احباب ظاہر ہے اپنے مخاطب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، مخاطب سے شناسائی نئی ہو یا بہت دن بعد روبرو آئے ہوں، تاہم یہ سوالات بھی حدود وقیود کے پابند ہیں۔ سوالات پوچھے جانے کا انحصار دو اشخاص کے درمیان استوار تکلف اور بے تکلفی پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عورت سے اس کی عمر اور مرد سے اس کی تنخواہ سے متعلق سوال نہیں کرنا چاہیے، لیکن اگر کوئی بہت قریبی فرد ہو تو وہ اس بارے میں بھی پوچھ سکتا ہے، لیکن بہت سے لوگ پہلی ملاقات میں ہی ذاتیات کی گہرائی میں اتر کر اپنے مخاطب کو اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہر معاشرے میں مختلف روایات کی بنا پر کچھ نہ کچھ سوالات مناسب نہیں سمجھے جاتے۔ کہیں ذات، گھر اور خاندان، فرقہ و مسلک تو کہیں سیاسی وابستگی کے بارے میں جاننا معیوب ہوسکتا ہے۔