بولی وڈ دنیائے فلم کی دوسری بڑی انڈسٹری سمجھتی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کہ یہاں فلاپ فلم بھی اپنے پیسے پورے کر لیتی ہے، اسی لیے ہر نوجوان خوا اس کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو اگر وہ فلموں کا شیدائی ہے تو وہ بولی وڈ میں قسمت آزمانا چاہتا ہے، لیکن یہاں پر قسمت ہر ایک پر مہربان نہیں ہوتی ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو سال ہا سال سے انڈسٹری میں کام یاب ہونے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں لیکن ان کی ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے اور دوسری طرف ایسے خوش قسمت بھی ہیں جن پر قسمت ایسے مہربان ہوئی کہ وہ راتوں رات سُپرہٹ ہوگئے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے انڈسٹری کی ابتدا سے لے کر اب تک کئی اسٹارز آئے اور چلے گئے۔
ان میں سے کئے ایک نے چند ہٹ فلمیں بھی دیں لیکن آج ان وہ سب گم نام ہیں اور انہیں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن کچھ قسمت کے دھنی ایسے بھی ہیں جنہیں انڈین فلم انڈسٹری کی تاریخ اور انداز بدلنے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ وہ اسٹارز ہیں جنہوں نے ورسٹائلٹی سے بولی وڈ کو ایک نیا رحجان دیا۔ذیل میں چند ایسے ہی عظیم اداکاروں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
بلراج ساہنی: یہ وہ اداکار تھے جنہیں اسٹار ڈم سے کوئی غرض نہ تھی بل کہ ان کا مطمع نظر ہمیشہ ان کا کام ہی رہا ہے۔ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے وہ اچھی طرح ہوم ورک کیا کرتے تھے۔
بمل رائے کی لازوال فلم دو بیگھ زمین میں بلراج ساہنی نے رکشہ ڈرائیور کا رول کیا تھا اور اس کردار کو کرنے سے پہلے انہوں نے پورے دو ہفتوں تک کول کتہ کی سڑکوں پر رکشہ چلایا تھا۔ایک زمانہ ان کے کام کا مداح تھا۔
گرودت: گرودت نے اپنی فلموں میں ہمیشہ سادگی کا عنصر رکھا وہ بھی کردار کی اہمیت سے اچھی طرح واقف ہو تے اور رول میں جان ڈال دیا کرتے تھے۔
ان کی فلمیں پیاسا، کاغذ کے پھول، صاحب بی بی اور غلام اور چودھویں کا چاند ان کی پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی معرکۃ لآرا فلمیں تھیں۔ انہیں انڈسٹری میں ون میں آرمی بھی کہا جاتا تھا وہ بیک وقت پروڈیو سر ، ڈائریکٹر او ر ایکٹر تھے۔
دلیپ کمار: محمد یوسف خان جنہیں دنیا دلیپ کمار کے نام سے جانتی ہے بولی وڈ کی پوری فلمی تاریخ میں ان جیسا دوسرا اداکار اب تک پیدا نہیں ہوسکا۔ انہیں دنیائے فلم میں کلاسک ایکٹر کا مقام حا صل ہے۔ دلیپ کمار نے جب جب جو کردار کیا وہ ہٹ ہو گیا۔ یہاں تک کہ ان پر تنقید کرنے والے بھی انہیں صدی کا عظیم اداکار مانتے ہیں۔
یہاں تک کہ دلیپ کمار کا نام سب سے زیادہ ایوارڈ پانے والے ایکٹر کے طور پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے کم و بیش اپنی ہر فلم میں ایک مختلف اسٹائل اپنایا کیوںکہ وہ بلاشبہہ ورسٹائل ایکٹر ہیں۔ بلاشبہہ دلیپ کمار ایک مکمل انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے ہیں۔
راج کپور: ہندی فلمی دنیا میں راج کپور کو حقیقی شو مین مانا جاتا ہے۔ ان کی مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں تھی بلکہ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی جانے جاتے تھے۔ خاص طور پر روس میں ان کی فلم ’’میرا نام جوکر‘‘ کی نمائش کے بعد ان کے پرستاروں کا ایک بہت بڑا حلقہ پیدا ہو گیا تھا۔
ان کی فلمیں جیسے آوارہ ، شری چار سو بیس، بوٹ پالش اور انداز ان کی فنی صلاحیتوں کا نچوڑ تھیں۔ مشرقی اور مغربی انداز میں بنی ان کی فلموں میں گلیمر کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ ہوتا تھا جسے اس وقت کا فلم بین طبقہ دیکھنا چاہتا تھا۔
دیو آنند: اپنے آخری وقت تک فلموںمیں ہیرو آنے والے دیو آنند کو ایک رومانٹک ہیرو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ نقاد ہمیشہ انہیں سدا بہار ایکٹر کہتے رہے اور یہ سچ بھی ہے کہ دیو آنند اس وقت کے تمام ہیروز میں سب سے زیادہ ہینڈ سم سمجھے جاتے تھے۔
فلموں میں اس وقت بھی ہیرو آتے رہے جب ان کے ہم عصر ایکٹرز نے فلموں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ دیو آنند نے کبھی خود کو بوڑھا نہیں سمجھا۔ انہوں نے اپنی عمر سے کئی چھوٹی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا۔
راجیش کھنہ: کاکا جی کو انڈین فلم انڈسٹری کا پہلا باقاعدہ سپر اسٹار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اپنے فلمی دور میں 73گولڈن جوبلی ہٹ فلمیں دینے والے راجیش کھنہ کو انڈسٹری کا وراسٹائل ایکٹر کہا جاتا تھا۔
سولو ہیرو کے طور پر ان کی فلموں کی تعداد بے شمار ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کئی ملٹی اسٹاررز فلمیں بھی کیں۔ وہ ہر طرح کی فلموں میں پسند کیے جاتے تھے۔
امیتابھ بچن: بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مووی میکنگ کلچر پر راج کرتے ہیں۔ انڈین فلم انڈسٹری سے اینگری ینگ مین کا خطاب پانے والے امیتابھ بچن کو لوگ آج بھی اسی طرح پسند کرتے ہیں، جس طرح ان کے فلمی عروج کے دور میں کیا کرتے تھے۔ کیریر کے آغاز میں چند فلاپ فلمیں دینے والے اس اداکار نے پرکاش مہرہ کی بلاک بسٹر فلم زنجیر سے جو کام یابی اور مقبولیت کا سفر شروع کیا۔
وہ اب تک جاری ہے۔ اپنے چار دہائیوں پر مشتمل کیریر میں امیتابھ نے ہر طرح کے کردار اپنے آپ کو اس مقام تک لا کھڑا کیا ہے، جس کے خواب ہر اداکار دیکھتا ہے۔ وہ نہ صرف اداکار بل کہ انہیں لوگ سپر اسٹار، میگا اسٹار، شہنشاہ، اسٹار آف دی میلینیئم، لیجنڈ، آئی کون وغیرہ کے ناموں سے بھی جانتے ہیں۔
سلمان خان: سلمان خان اک کی نسل کا چہیتا اور پسندیدہ اداکار ہے، حالاںکہ ان پر تنقید کرنے والے ہر ممکن طریقے سے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
2012 میں دبنگ ، باڈی گارڈ، ریڈی اور ایک تھا ٹائیگر جیسی سپر ہٹ فلمیں دے کر اپنے خلاف لابی کرنے والوں کے منہ بند کردیے اب وہ ایک فلم کا معاوضہ ایک کروڑ لے رہا ہے۔ سلمان کے پرستار یہ جانتے ہیں کہ ان کی فلموں کی کامیابی کا راز صرف سلمان کی سحر انگیز شخصیت ہے۔
عامر خان: مسٹر پرفیکشینسٹ کے نام سے جانے والے عامرخان انڈسٹری کے وہ اداکار ہیں، جن کی آنے والی ہر فلم کا انتظار شائقین فلم نہایت بے چینی سے کرتے ہیں، کیوںکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف ایک سال میں ایک فلم ہی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں ان کی فنی خدمات پر پدما شری اور پدما بھوشن ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائم میگزین میں 100بااثر شخصیات میں عامر کا نام بھی شامل کیا گیا۔ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کی بنا پر ان کا موازنہ ہالی وڈ کے سپر اسٹار جونی ڈیپ سے بھی کیا جاتا ہے۔
شاہ رخ خان: شاہ رخ خان دہلی سے ممبئی اپنی قسمت آزمانے اور اپنا پیار پانے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے کیریر کی ابتدا میں بے انتہا محنت کی جب وہ ممبئی آئے تھے، تو ان کے پاس رہنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی تھی اور رات فٹ پاتھ پر سو کر گزارتے تھے۔
آج بائیس سال گزر جانے کے بعد لوگ انہیں انڈسٹری کے بادشاہ کے نام سے جانتے ہیں۔ شاہ رخ خان وہ واحد اداکار ہیں جن کو ملنے والے ایوارڈز کی تعداد دلیپ کمار کے ایوارڈ کی تعداد کے برابر ہے۔ انہیں دنیا کا سب بڑا مووی اسٹار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
مدھو بالا: آج کی نسل کی کئی اداکارائیں مدھو بالا کی کاپی کرنے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس چارم اور گریس تک نہیں پہنچ پائی جو ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔
وہ حسن وذہانت کا شاہ کار تھیں، جب کہ ان کی فنی صلاحیتیں بھی کسی سے چھپی نہ تھیں۔ ہاوڑہ برج، چلتی کا نام گاڑی، مسٹر اینڈ مسز55 اور مغل اعظم ان کی بے مثال اداکاری سے مزین لازوال اور یادگار فلمیں ہیں۔ وہ پہلی انڈین اداکارہ تھیں جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر کام یابی کا مزہ لیا تھا۔
نرگس دت: کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر نرگس نہ ہوتیں تو آر کے بینر کا بھی وجود نہ ہوتا، کیوں کہ اس ادارے کے بینر تلے ابتدا میں جتنی فلمیں بھی بنیں جیسے کہ شری چار سو بیس، آوارہ، مدرانڈیا، انداز اور چوری چوری میں راج کپور کے ساتھ نرگس کی اسکرین کیمسٹری اور ان کی اداکارانہ صلاحیتیں اپنے عروج پر تھیں۔
دلیپ کمار کے ساتھ میلہ اور جوگن بھی کام یاب فلمیں تھی لیکن نرگس کی فنی زندگی کا سارا نچوڑ ان کی فلم مدر انڈیا میں تھا۔ یہ فلم آسکر کے لیے بھی نام زد کی گئی تھی۔
ریکھا: بنگال کی ساحرہ ریکھا کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ آج وہ پچاس سال سے بھی زیادہ عمر کی ہوچکی ہیں لیکن اپنی فٹنیس اور چہرے کی تروتازگی کے باعث تیس سال کی نظر آتی ہیں۔
ریکھا نے کمرشیل فلموں کے ساتھ ساتھ آرٹ فلموں بھی کام کیا۔ خوب صورت، امراؤ جان، آستھا، اجازت، ان کے کیریر کی یاد گار فلمیں ہیں۔ پراسرایت ریکھا کی شخصیت کا وہ حصہ ہے جو انہیں اور پر کشش بناتا ہے۔
زینت امان: بیوٹی کوئن زینت امان کا شمار انڈسٹری کی ان چند اداکاراؤں میں ہوتا ہے ۔
جنہوں نے انڈین فلموں میں روایتی ہیروئین کے امیج کو ختم کیا اور ایک نئے انداز سے فلم کی ہیروئن کو متعارف کرایا۔ اپنی بولڈ پرفارمینس کی بنا پر لوگوں نے انہیں ہمیشہ یاد رکھا۔ قربانی، دھرم ویر، ہرے رام ہرے کرشنا ان کی بولڈ فلموں میں شمار کی جاتی ہیں ۔
مادھوری ڈکشٹ: ان کا موازنہ اکثر اداکارہ مدھو بالا سے کیا جاتا ہے اور انڈسٹری میں دھک دھک گرل کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ مادھوری کی دل موہ لینے والی مسکراہٹ، اس کی جاذب نظر شخصیت دوسری تمام ہیروئنز سے ممتاز کرتی ہے۔
مادھوری وہ واحد اداکارہ جو دیگر ہیروئنز کی نسبت سب سے زیادہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہو چکی ہے اور یہ ایک ریکارڈ ہے۔
کاجول: ایسی بہت ہی کم اداکارائیں ہیں جن کا فلمی کیریر شادی کے بعد بھی ہٹ رہتا ہے اور ان کی مارکیٹ ویلیو کم نہیں ہوتی۔
کاجول کا شمار ایسی ہی ہیروئنز میں ہو تا ہے۔ خاص طور پہ شاہ رخ خان کے ساتھ اس کی ہر فلم نے کام یابی حاصل کی۔ ’’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘‘ کے بعد وہ نوجوان نسل کی پسندیدہ اداکارہ کا درجہ حاصل کر چکی تھی، لیکن کاجول کی شہرت اور کام یابی صرف اس کی فلموں کی مرہون منت نہیں، بل کہ اس کی نرم مزاجی، زندہ دلی، شائستہ اطوار اور شگفتگی اسے ہر دل عزیز شخصیت بناتی ہے۔