اس سال موسم سرما نے جس طرح دنیا پر قہر برسایا ہے، اس کے بعد امریکا، یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک تو برفانی جہنم بنے، ساتھ ہی ایشیائی ممالک جاپان، چین، کوریا، انڈیا، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی اس خوف ناک سرد لہر کی لپیٹ میں آگئیں۔
ایسی برف باری کئی عشروں پہلے کبھی دیکھی گئی ہوگی، لیکن یہ طے ہے کہ اس سرد لہر نے امیر و غریب تمام ممالک کو ناقابل بیان پریشانیوں میں ڈال دیا۔ نہ جانے کتنی جانیں ضائع ہوئیں، کتنے لوگ بھوک سے مرگئے، کتنے بے گھر ٹھٹھرتی ہوئی سردی کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے۔ لوگوں کو کھانا پینا نہیں مل سکا۔ تجارتی اداروں میں کام نہیں ہوسکا۔ مزدور، مزدوری سے محروم رہے تو محنت کشوں کو محنت کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ سرد ممالک میں تو سردی کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ اس موسم کے عادی ہیں، لیکن وہ بھی اتنے شدید موسم کو برداشت نہیں کرسکے۔ تعلیمی اداروں میں تدریس کا عمل روکنا پڑا۔ دوست احباب ذرائع آمدورفت میں خلل کے باعث ایک دوسرے کو دیکھنے یا ایک دوسرے سے ملنے بھی نہ جاسکے۔
دوسری جانب ہمارے ملک پاکستان کے کچھ علاقوں میں سردی زیادہ پڑتی ہے، باقی ہمارے متعدد علاقوں میں موسم معتدل رہتا ہے، مگر اس بار جیسی شدید سردی پڑی، اس نے پاکستانیوں کو بھی پریشان کردیا۔
شدید سردی کی یہی لہر کہاں سے آگئی۔ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ کیا یہ اچانک ہوا یہ ہمارے ماہرین پہلے سے اس کے بارے میں جانتے تھے؟ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ اس کی ذمے دار قطبی ہوائوں کے شدید اور غیرمعمولی جھکڑ ہیں جنہوں دنیا کے بیشتر ممالک کو سفید برف کی چادر اڑھادی۔ ماہرین کا شروع سے ہی یہ کہنا تھا کہ سردی کی یہ لہر گذشتہ چالیس برسوں میں شدید ترین ہے جس میں درجۂ حرارت منفی 60درجے سینٹی گریڈ تک گرسکتا ہے۔
امریکا میں آنے والی اس شدید ترین سرد لہر نے درجۂ حرارت انتہائی حد تک گرادیا جس کے بعد متعدد اموات ہوئیں۔ کاروباری مراکز بند کردیے گئے اور اسکول، کالج و دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ہنگامی چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا۔ امریکا اور برطانیہ میں سیکڑوں پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ اس شدید ترین سرد موسم کے باعث نہ جانے کتنے ہی لوگ بے گھر ہوگئے اور مختلف مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ موسم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے تیل کی پیداوار کو وقتی طور پر روکنا پڑا۔ ماہرین موسمیات نے سردی کی اس شدید لہر کو “polar vortex” کا نام دیا ہے اور ذرائع ابلاغ اسے “polar pig” کہہ کر پکار رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ “polar vortex” آخر کیا ہے جس نے ساری دنیا پر سرد قہر برسادیا ہے۔
ایک پولر وورٹیکس کو پولر سائیکلون بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک وسیع پیمانے کا مستقل سائیکلون ہے جو کرۂ ارض کے جغرافیائی قطبین میں سے کسی ایک قطب کے قریب موجود ہوتا ہے۔ زمین پر قطبی چکر یا تو زمین کی بالائی تہہ پر ہوتے ہیں یا درمیانی تہہ پر۔یہ قطبی بلندیوں کو گھیرے رہتے ہیں اور قطبی فرنٹ میں موجود رہتے ہیں۔ یہ سرد تہہ والے کم دبائو والے مقامات سردی میں مضبوط ہوجاتے ہیں اور گرمی میں کم زور پڑجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خط استوا اور قطبین کے درجۂ حرارت میں فرق پر انحصار کرتے ہیں۔ عام طور سے یہ ایک ہزار کلومیٹر یعنی 620میل سے کم کا چکر لگاتے ہیں جس میں ہوا گھڑی کی سوئیوں کے مخالف انداز سے گھومتی ہے، لیکن یہ کام شمالی نصف کرے میں ہوتا ہے اور اس طرح یہ طوفان یعنی پولر وورٹیکس بنتا ہے۔
دوسری طرف دوسرے سائیکلون انہی کے اثرات سے بنتے ہیں۔ شمالی نصف کرے میں Arctic vortex کے دو مراکز ہیں، ایک بفن آئی لینڈ کے قریب اور دوسرا شمال مغربی سائبیریا کے بالائی حصے میں۔ جنوبی نصف کرے میں یہ روز آئس شیلف کے کنارے پر 160مغربی طول کے قریب رہتا ہے۔ جب پولر وورٹیکس زیادہ شدید ہوجاتا ہے تو مغربی ہوائیں بھی شدت اختیار کرلیتی ہیں۔ لیکن جب پولر سائیکلون کم زور ہوتا ہے تو شدید قسم کی سرد ہوائیں چل پڑتی ہیں۔ پولر وورٹیکس میں اوزون میں کمی ہوتی ہے، خاص طور سے جنوبی نصف کرے پر اور یہ موسم بہار میں زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال یہ پولر وورٹیکس ہی تھا جو امریکا، یورپ، ایشیائی ملکوں اور مشرق وسطیٰ میں شدید سردی کا سبب بنا۔
شکاگو میں نصف سے زیادہ پروازیں منسوخ کرنی پڑیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایندھن سپلائز تک منجمد ہوگئی تھیں اور عملہ طیاروں کو تیل فراہم نہیں کرسکا۔ شکاگو میں دوپہر کا درجۂ حرارت منفی 24درجے سینٹی گریڈ تھا۔ تیز اور طوفانی ہوائوں کی سردی مکینوں کی ہڈیوں میں گودا تک جمائے دے رہی تھی۔
ٹیکساس سے شمالی ڈکوٹا اور کینیڈا تک تمام آئل فیلڈز میں شدید سردی کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ تیل کے کنوئوں میں تکنیکی مسائل کی وجہ سے کام مکمل طور پر بند ہوگیا۔
اناج اور مویشیوں کی نقل و حمل کا کام بھی شدید متاثر ہوا جس سے لوگوں کو گوشت کی فراہمی بند ہوگئی۔ اناج اور گوشت کی پیکنگ کرنے والے متعدد اداروں میں بھی کام نہ ہوسکا۔ پھر اس سردی نے گیہوں کی فصلیں بھی تباہ کرڈالیں۔
کلیو لینڈ (اوہیو) میں درجۂ حرارت منفی 19ڈگری سینٹی گریڈ ہوگیا تھا جس نے بے گھر لوگوں کو پناہ کی تلاش میں بھٹکنے پر مجبور کردیا۔
امریکی محکمہ موسمیات نے مغربی اور مرکزی نارتھ ڈکوٹا کے لوگوں کو خبردار کیا کہ درجۂ حرارت منفی 51درجے سینٹی گریڈ تک جانے کا خطرہ ہے۔
سردی کی یہ خطرناک اور شدید ترین لہر صرف امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے دنیا کے دوسرے حصوں کو بھی متاثر کیا۔ الماتے (قزاقستان) میں درجۂ حرارت منفی 22درجے سینٹی گریڈ تک گرگیا۔ منگولیا میں یہ منفی 23درجے سینٹی گریڈ تک گرا اور سائبیریا کے علاقے Irkutsk میں یہ منفی 33 درجے سینٹی گریڈ تک گرگیا۔ انگلینڈ میں بھی صورت حال امریکا سے مختلف نہیں تھی۔ وہاں بھی برف نے تمام کاروباری اور دیگر سرگرمیاں منجمد کرکے رکھ دیں۔ کوریا میں بھی جگہ جگہ برف کے ڈھیر لگ گئے۔
مصر میں پہلی بار ایسی برف باری ہوئی کہ اہرام مصر جو ہمیشہ سے سرخ اور زرد نظر آتے تھے، انہوں نے بھی دودھیا برف کی چادر اوڑھ لی۔ شام، فلسطین اور دیگر عرب ریاستوں میں بھی یہی صورت حال رہی۔ امریکا میں طوفانی برف باری اور شدید سردی کی لہر نے صرف ایئر ٹریفک کو ہی متاثر نہیں کیا، بلکہ ریلوے نظام بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اس شدید طوفان کی وجہ سے نیوانگلینڈ کے مختلف حصوں میں سڑکوں پر دو فٹ موٹی برف کی تہہ جم گئی۔ پھر ماہرین موسمیات مسلسل یہی کہتے رہے کہ یہ سرد لہر پورے موسم سرما میں برقرار رہے گی۔
٭منجمد نیاگرا آبشار
اس شدید ترین موسم سرما نے جہاں دنیا پر سرد قہر برسایا، وہیں کچھ حسین مناظر بھی اس موسم کی وجہ سے دیکھنے میں آئے۔ نیاگرا آبشار، دنیا کی وہ حسین ترین آبشار ہے جو اپنے بلندی سے گرتے پانی کی وجہ سے ساری دنیا کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لوگ بڑے شوق سے صرف اس کا تیز و تند پانی دیکھنے ہی تو آتے ہیں، مگر اس بار تو یہ آبشار بھی جم گئی اور اس کی ٹھوس برف پر شوقین لوگوں نے خوب اسکیٹنگ کی اور کھیل تماشے کیے۔ منجمد نیاگرا آبشار کو اگر اس موسم سرما کا منفرد تحفہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
٭جرمنی میں برف کی چادر اوڑھے درخت
جرمنی کے مختلف شہروں میں برف باری نے بہت حسین مناظر تخلیق کرڈالے۔ کئی پارک اور باغ ایسے تھے جن میں درختوں اور پیڑپودوں نے برف کی چادر اوڑھ لی اور یہ چادر اس حد تک پختہ اور ٹھوس ہوگئی تھی کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ برف کے درخت ہیں۔ ان درختوں کو دیکھ کر اچھا تو محسوس ہوا مگر لوگ جلد اس صورت حال سے اکتانے لگے، کیوں کہ وہ سرسبز درختوں اور پیڑپودوں کے عادی ہیں، سفید درختوں کے نہیں۔
٭چین میں منجمد جھیل پر تفریح
چین کی جھیلیں ہر سال ہی موسم سرما میں جم جاتی ہیں اور ان کی برف اس حد تک ٹھوس اور سخت ہوجاتی ہے کہ اس پر لوگ خوب تفریح کرتے ہیں، مختلف کھیل کھیلتے ہیں اور گاڑیاں تک چلاتے ہیں۔ بعض لوگ تو اس پختہ جھیل پر کھڑے ہوکر پتنگ بازی بھی کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس جھیل میں سوراخ کرکے اس سے مچھلیاں بھی پکڑتے ہیں، مگر اس بار وہ مچھلی نہیں پکڑسکے، کیوں کہ سردی کی شدت کی وجہ سے برف کی یہ تہہ خاصی موٹی ہوگئی تھی اور مچھلیاں زیادہ گہرائی میں چلی گئی تھیں۔