بلاشبہ جماعت اسلامی وہ سیاسی پارٹی ہے جو اقتدار کے بغیر بھی ملکی سیاست اور معاشرت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انتخابات میں بھلے ہی جماعت اسلامی کو زیادہ نشستیں نہ ملیں، اقتدار نہ ملے لیکن بڑے بڑے جلسے اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ عوام میں اثر رکھتی ہے، لوگ اس کو ووٹ نہیں دیتے لیکن ہمدردیاں ضرور رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن ایک پُرخلوص، قابل، سیاسی و معاشرتی فہم و فراست رکھنے والے اور تہذیب و شائستگی سے مرقع شخصیت ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ کمال ہے کہ وہ کسی جلسے میں تقریر، ٹی وی ٹاک شو میں گفتگو یا اخبار میں بیان دے رہے ہوں تو سننے، دیکھنے اور پڑھنے والا ایک بار رکتا ضرور ہے۔ اپنے اٹل موقف کی وجہ سے کئی بار انہیں مختلف مکاتب فکر اور حکومت کی مخالفت کا سامنا بھی رہا لیکن وہ اپنے اصولوں کے راستے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے ان کی زندگی کے سفر اور موجودہ ملکی صورتحال کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کے لئے ایک طویل نشست کا اہتمام کیا جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: بچپن کہاں اور کیسے گزرا، تقسیم ہند سے قبل اور بعد کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سید منور حسن: (مسکرا کر دو مختلف اشعار کا ایک ایک مصرعہ پڑھا)
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
__________________
میں جھک جھک کے ڈھونڈتا ہوں جوانی کدھر گئی
میرا بچپن دہلی کی گلیوں میں گزرا، چھوٹے تھے مگر تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ ہم نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس حوالے سے یہ بتاؤں کہ جو لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ کہیں لگا ہی نہیں تو بھائی ہم نے خود دہلی کی گلیوں میں یہ نعرے لگائے ہیں۔ ہم سب بچے شام کو ٹولیوں کی صورت میں نکلتے تھے اور یہی نعرہ لگاتے تھے۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ اور یہ نعرہ ہمارے بڑوں نے ہی ہمیں سکھایا تھا۔ 47ء کے فسادات میں جہاں ہم رہتے تھے، وہاں قتل عام ہوا۔ اس لیے تن کے کپڑوں سے ہم وہاں سے نکلے تھے، حالاں کہ مسلم لیگ کا وہاں بڑا اثر تھا اور ہماری والدہ اس پورے سیکٹر کی صدر تھیں۔47ء کے دسمبر میں ہی ہم پاکستان آگئے تھے۔ پرانا قلعہ نامی ایک معروف جگہ تھی جو لوگ پاکستان جانا چاہتے تھے، وہ وہاں پہنچ جاتے اور ٹرینیں انہیں پاکستان لے آتیں۔ تو ہم جب پرانا قلعہ پہنچے تو جو ٹرین گئی تھی، وہ امرتسر میں پوری کٹ گئی۔ سکھوں نے قتل عام کیا تو اس کے بعد ٹرینیں بند ہو گئیں تو ہزاروں لوگوں کے ساتھ ایک ماہ سے زائد ہم وہاں ہی رہے۔
بہرحال ایک ماہ بعد پرانا قلعہ سے ہم لاہور آئے اور دو چار ہفتے یہاں رہ کر کراچی چلے گئے۔ مہاجر لٹے پٹے وہاں گئے تھے لیکن کراچی کی مقامی آبادی، جن میں اکثریت غریبوں کی تھی، نے مہاجروں کا بہت اچھا خیرمقدم کیا تھا۔ کراچی میں تقسیم سے قبل زیادہ تر بڑے لوگ اور گھر ہندوئوں کے ہی تھے، جس وجہ سے ایک بار فساد بھی ہو گیا تھا، مسلمانوں نے ہندوئوں پر حملہ کر دیا، انہیں کوٹھیوں سے نکال باہر کیا۔ پھر قائداعظمؒ نے براہ راست اس معاملہ میں مداخلت کی اور انہوں نے کہا کہ جو لوگ چیزیں لوٹ کر لے گئے ہیں، وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تمام چیزیں ایک مخصوص جگہ پر واپس کر دیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں کارروائی کرنے کے لیے تیار ہوں جس پر پھر لوگوں نے چھوٹی چھوٹی پلیٹیں تک واپس کر دیں۔ اس وقت قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی کہ مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ردعمل میں ویسا ہی سلوک کریں۔ یہ بات 48ء کے شروع کی ہے۔
ایکسپریس: کمیونسٹ تنظیم این ایس ایف سے جمعیت میں کیسے شمولیت ہوئی، نظریات میں تبدلی کی وجہ کیا بنی؟
سید منور حسن: اس وقت کراچی میں طلبہ کی تنظیمیں بنیں، جس میں این ایس ایف اور جمعیت بھی تھی۔ میرا پہلا رابطہ ہی این ایس ایف سے ہوا، جو اصلاً نظریاتی بنیادوں پر تھا۔ اس زمانے میں غیر نظریاتی لوگ نہیں ہوا کرتے تھے۔ لٹریچر پڑھتے تھے، تقسیم کیا کرتے تھے اور اس لٹریچر پر بحث بھی ہوا کرتی تھی۔1958ء میں مارشل لاء لگا تو طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی، میں اس وقت کالج میں تھا۔ تو ان حالات میں این ایس ایف نے سٹوڈنٹ سرکل کے نام سے ایک انڈر گرائونڈ آرگنائزیشن بنائی، جس کا مقصد یہ تھا کہ ہم خالی نہ بیٹھیں اورکچھ کام کرتے رہیں۔ سینئر لوگوں کی موجودگی کے باوجود سٹوڈنٹ سرکل کا بھی مجھے ہی صدر بنایا گیا۔ پھر اس آرگنائزیشن کا ایک اجلاس ہوا جس میں یہ طے پایا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے لوگ فارغ بیٹھے ہیں تو ان کے باصلاحیت لوگوں سے رابطہ کرکے انہیں اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں، میں نے یہ کام کیا اور جمعیت کے لوگوں سے رابطے کے لئے روزانہ تین سے چار گھنٹے میں لگاتا اور مسجد میں جا کر نماز بھی پڑھتا تھا۔
جمعیت کے لوگ جتنا اسلام جانتے تھے، وہ مجھے بتاتے تھے اور ہمیں جتنا کمیونزم کا علم تھا، ہم وہ انہیں بتاتے تھے لیکن یہ سب کچھ بہت دوستانہ ماحول میں ہوتا، بحث بھی ہوتی تھی۔ اچھا برا تاثر یہ ہے کہ اس وقت اس رابطے کو دو یا تین ماہ گزرے ہوں گے تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی تبدیلی آرہی ہے۔ انہوں نے مجھے مولانا مودودیؒ کی ایک دو کتابیں بھی پڑھنے کو دیں لیکن کتابیں تو میں نے شروع میں نہیں پڑھیں لیکن روزانہ بحث و مباحثہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں اندر سے تبدیل ہو رہا ہوں، میرا کمیونزم کے حوالے سے موقف اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا ان کا تھا۔ پھر مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات‘‘ کو میں نے سرسری سا پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں اس ماحول میں رہتے ہوئے میں اس کو توجہ سے نہیں پڑھ سکتا کیوں کہ اس میں ساری انقلابیت تھی، تو میں اپنے بڑے بھائی جو اس وقت نوشہرہ میں رہتے تھے، ان کے پاس چلا گیا جہاں میں نے اس کتاب کو 17 بار پڑھا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ این ایس ایف چھوڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہونا ہے تو اس طریقے سے میرا پہلا پیار بھی نظریاتی اور دوسرا بھی نظریاتی تھا۔
ایکسپریس: پاکستان کے ابتر حالات کا ذمہ دار کون ہے، عوام یا حکمران؟ ان حالات میں کوئی بہتری آئے گی یا ایسے ہی چلتا رہے گا؟
سید منور حسن: دیکھیں! پاکستان نے تو چل کر دکھایا ہے، باوجود اس کے کہ ہم سب نے اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی ہیں اور کوشش کی کہ یہ نہ چل سکے، اس کے دو ٹکڑے بھی کر دیئے۔ میرے خیال میں حکمرانوں اور فوجیوں نے مل کر کوشش کی کہ پاکستان نہ چلے لیکن پاکستان چل رہا ہے اور اپنی جگہ موجود ہے۔ حب الوطنی دنیا بھر میں ہے، لوگ اپنے وطن سے محبت کرتے ہی ہیں لیکن جتنی محبت پاکستانی اپنے ملک سے کرتے ہیں آپ کو اس کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک کو قیادت ایسی میسر نہیں آئی کہ جو حقیقت میں وہ کام کرے جو اس وطن عزیز کے لیے ضروری ہے۔2014ء میں ہی امریکیوں کے اس خطے سے جانے سے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان مضبوط اور قوی ہوگا اور جن مقاصد کے لیے یہ ملک بنا تھا یعنی لا الٰہ الا اللہ اس کو فروغ بھی حاصل ہوگا۔
ایکسپریس:کراچی کے امن کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے، سیاسی جماعتیں، گینگ وار یا کوئی تیسری طاقت؟
سید منور حسن: کسی بھی اچھے یا برے کام میں بعد میں بہت سے لوگ شامل ہو جاتے ہیں، لیکن ساری خرابی کی بنیاد اور جڑ ایم کیو ایم ہے۔ یہ بھتہ خوری کا سارا کاروبار ایم کیو ایم نے شروع کیا ہے۔ بوری بند نعشیں پہلے کبھی کسی کے تصور میں نہیں تھا، یہ ایم کیو ایم نے ایجاد کیا ہے اور ’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘‘ اس نعرے کو ایم کیو ایم نے اپنے قائد کے حوالے سے فروغ دیا ہے۔ لہذا کراچی کا امن اس وقت تک واپس نہیں لایا جا سکتا جب تک ایم کیو ایم وہاں پر موجود ہے اور ایم کیو ایم کی سرپرستی پیپلزپارٹی بھی کر رہی ہے، فوج بھی کرتی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی یہ کام کرتی ہیں کیوں کہ حکومتیں ایم کیو ایم سے بلیک میل ہو جاتی ہیں۔
ایکسپریس:کہا جاتا ہے کہ کراچی میں ہر جماعت کا عسکری ونگ ہے، کیا جماعت اسلامی کا بھی ہے اور اگر نہیں تو پھر آپ وہاں Survive کیسے کر رہے ہیں؟
سید منور حسن: میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی درست نہیں کہ ہر جماعت کے عسکری ونگز ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مختلف جماعتوں کے لیڈرز کراچی میں ہیں جن کی حفاظت کے لیے ان کی نفری ہوتی ہے لیکن جماعت اسلامی میں وہ بھی نہیں ہے۔ میں تو کراچی میں چلتا پھرتا ہوں، کوئی ایسی بات نہیں۔ دیکھیں یہ بات بھی ہے کہ عام طور پر وہ بڑے لوگ ہی مارے گئے جن کے پاس بندوق تھی۔ تو بندوق مارنے کا کام کرتی ہے، بچانے کا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں غلو ہے کہ تمام پارٹیوں کے عسکری ونگز ہیں۔
ایکسپریس:کراچی میں امن کے لیے پھر کیا فوج یہاں اتاری جائے؟
سید منور حسن: دیکھیں! اس بات کو تو پوری دنیا نے اپنے تجربے سے تسلیم کر لیا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر اور حکمرانی سویلینز کا کام ہے اور انہیں ہی کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے گھر میں باورچی کام ٹھیک نہیں کرتا، کھانا اچھا نہیں بناتا تو آپ باورچی ہی بدلیں گے، اس کی جگہ کسی درزی کو تو نہیں لائیں گے، تو اس لیے سول سوسائٹی کو کنٹرول کرنے اور لاء اینڈ آرڈر کے لیے کام تو سویلین ہی کو کرنا ہے، فوج کا یہ کام نہیں کیونکہ فوج کی یہ ٹریننگ ہی نہیں ہے۔ آپریشن کبھی بھی کسی مسئلہ کا علاج نہیں ہے لیکن یہ ٹھیک ہے کہ جس طرح سرجری کرنا پڑتی ہے جب حالات بہت ناگزیر ہو جائیں اور حکومت بے بس ہو تو ایسی صورت میں ایک یا دو، چار روز کے لیے آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ملٹری آپریشن سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ نصیر اللہ بابر نے کیا تھا لیکن اس کے نتائج سب کو معلوم ہیں۔ بلوچستان میں پانچواں اس وقت آپریشن چل رہا ہے۔ اس کے نتائج بھی معلوم ہیں۔ ملٹری آپریشن مشرقی پاکستان میں بھی کیا تھا اور 90 ہزار آپریشن کرنے والوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے تھے تو اس لیے اگر ہم اپنے تجربات سے بھی نہیں سیکھتے تو مجھے نہیں پتہ پھر کہاں سے سیکھیں گے؟ حکومت کا پورا سیٹ اپ ہے لیکن وہ اپنے حصے کا کام نہیں کرتا۔ ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر اور دہشت گردی کا خاتمہ ان کی ترجیح نہیں ہے۔
ایکسپریس: جماعت اسلامی کے انتخابی جلسے بڑے لیکن انتخابات میں کامیابی کے نتائج مختلف ہوتے ہیں، کیوں؟
سید منور حسن: اسی لیے تو ملک کے حالات خراب ہیں۔ آج اگر آٹھ ماہ بعد بھی حالات کی خرابی کا رونا رویا جا رہا ہے تو یہی بات ہے کہ جماعت اسلامی کو لوگ ووٹ نہیں دیتے۔ لوگ کرپشن کا علاج کرنا چاہتے ہیں کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر۔ ظالم کو ووٹ دیتے ہیں کہ ظلم کچھ کم کرے۔ تو اس ساری صورتحال میں جماعت اسلامی تو یہی کر سکتی ہے کہ بڑے جلسے کرے، لوگوں کو بتائے، انہیں سمجھائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیانتدار قیادت ملک میں آئے۔
ایکسپریس: الیکشن کی بات ہو رہی ہے تو عام انتخابات سے قبل اپریل میں آپ نے بیان دیا تھا کہ اگر دھاندلی ہوئی تو لاکھوں افراد سڑکوں پر ہوں گے۔ کیا ایسا ہوا؟۔ اور دوسرا یہ کہ عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے کراچی میں بائیکاٹ خود کیا یا کسی کے کہنے پر مصلحتاً خاموشی اختیار کی گئی؟
سید منور حسن: پہلی بات تو یہ واضح کر لی جائے کہ جماعت اسلامی سے کوئی کچھ کروا نہیں سکتا، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایس پی آر کا پریس ریلیز میرے بارے میں جاری ہوا ہے۔ یہ بندوقوں کے سامنے کھڑے ہو جانا اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے حوالے سے جماعت اسلامی کا جو کردار ہے، اس کا ثبوت ہے۔ یہ دیکھ لیں جماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ کو بھی فوجی عدالت نے موت کی سزا دی تھی جو مولانا نے بھگتی لیکن وہ پھانسی نہیں دے سکے تھے۔ اس لیے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ جماعت اسلامی سے کوئی اور کام کروا سکے۔ دوسری بات جو الیکشن میں دھاندلی کی تھی تو اس میں عرض ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے پہلے الیکشن تھے جس میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں نے دھاندلی کا واویلا مچایا۔ دونوں نے دھرنے دیئے، احتجاج کیا اور عدالت بھی گئے۔ اس سے ہماری بات تو درست ثابت ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ احتجاجوں میں شریک بھی ہوئے۔ اب جو کسر رہ گئی ہے، وہ یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جو سڑکوں پر آئے ، وہ ایک تحریک بن جائیں۔ وہ سینہ تان کر نکلیں اور ہار نہ مانیں۔ آج کرپشن کا لفظ بہت چھوٹا رہ گیا ہے اور یہ لوگ ازخود چیزوں کو خونی انقلاب کی طرف لے جا رہے ہیں… اس لیے تنگ آمد بجنگ آمد… اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں بیروزگاری میں جو اضافہ ہوگا تو لوگ گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے۔
ایکسپریس: طالبان سے مذاکرات کیوں اور کیسے؟
سید منور حسن: دیکھیں! یہ ایشو کئی ماہ بعد اٹھانا تو بے معنی بات ہے۔ جب سب پارٹیوں نے متفقہ طور پر پہ کہہ دیا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں تو اس کی دلیل بھی واضح تھی۔ پانچ چھ گھنٹے کی طویل بحث کے نتیجے میں جو سوالات ہو سکتے تھے، وہ بھی اس کے اندر آگئے تھے۔ سب پارٹیوں نے متفقہ طور پر مذاکرات کی بات کہی اور کہا کہ ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال کیا جائے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے بے حسی اورعدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ حالات کی ابتری کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کل فون (گزشتہ ہفتے جب انٹرویو کیا گیا) آیا کہ حالات ایسے ہو گئے ہیں، بیٹھ کر بات کرنا ہے تو میں نے کہا کہ اب کیا بات کرنا ہے جب تمام پارٹیوں نے اتفاق رائے سے حکومت کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا ہے، ہم نے پہلے بھی بات کی ہے، مگر افسوس ہمیں مذاکرات کا معلوم ہی نہیں۔ آپ کہہ رہے ہیں مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن ہمیں تو پتہ ہی نہیں۔ طالبان سے مذاکرات ایک مقبول موضوع ہے، جس کے حق اور مخالفت میں لوگ ہیں اور اگر آپ مذاکرات کر رہے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے۔ ہوا کے اندر تیر نہیں چلانے چاہیں۔ کوئی نہیں جانتا طالبان سے مذاکرات کا مطلب کیا ہے، لہذا آپ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں تو شائد لوگوں کو بات سمجھ آ سکے۔ بیان بازی سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
ایکسپریس:طالبان کے مختلف گروپس ہیں اور وہ ایک دوسرے کے خلاف بھی ہیں، جیسے گزشتہ دنوں طالبان کے دو گروپ آپس میں لڑ پڑے جس سے کئی جانیں گئیں۔ تو ایسی صورت حال میں حکومت کس سے مذاکرات کرے؟
سید منور حسن: پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلے پانچ ماہ میں آپ نے کیا کیا ہے؟ اور اگر آپ مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے تو یہ سوال نہ کریں۔ کیا کریں اور کس سے کریں؟ یہ تو آپ پہلے بیٹھ کر آپس میں بات کرتے۔ ہم سے بھی حکمرانوں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں، وہ ہم سے پوچھتے کہ کہاں سے شروع کریں تو ہم بتاتے کہ کہاں سے شروع کرنا ہے۔ پھرمولانا سمیع الحق کو کیوں مقرر کیا گیا تھا۔ طالبان سے مذاکرات میں حکومت کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے مذاکرات کے لئے مولانا سمیع الحق کو ٹاسک دیا اور کہا کہ وہ ہر وقت حاضر ہیں، جو مدد چاہے ملے گی لیکن مولانا کہتے ہیں کہ ان کا فون تک نہیں سنا جا رہا، کوئی جواب ہی نہیں دیتا۔ حکومت نے مذاکرات کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بااختیار لوگ کام کریں، بے اختیار کچھ نہیں کر سکتے۔ مقتدر اور حکمران لوگ جس میں فوج بھی شامل ہے، ان سب کو پتہ ہے کس سے مذاکرات کرنا ہیں، کتنے گروپ ہیں؟۔ ایک گروپ کے پیچھے 6-6 گروپ ہیں۔ آپ اگر ایک گروپ سے مذاکرات کرتے ہیں تو 6 خود بخود چل کر آجائیں گے۔ حکومت کی غیر سنجیدگی نے ہی ایسے سوالات پیدا کیے اور دہشت گردی میں اضافہ کیا۔
ایکسپریس: مذاکرات کے بات ہونے کے باوجود طالبان کی طرف سے حالیہ حملوں میں تیزی کیوں آئی؟
سید منور حسن: میرے خیال میں دہشت گردی کی حالیہ لہر طالبان کی طرف سے ممکنہ مذاکرات میں اپنی پوزیشن کو مستحکم بنانے کی کوشش ہے۔
ایکسپریس: مذاکرات کے بجائے اگر ملٹری آپریشن کی راہ اختیار کی جاتی ہے، خصوصاً شمالی وزیرستان میں تو جماعت اسلامی کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
سید منور حسن:گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں جو جیٹ طیاروں نے حملے کئے ہیں وہ کیا ہیں، اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ آپریشن شروع ہو چکا ہے لیکن خیال رہے کہ یہ آپریشن سوات، بونیر، جنوبی وزیرستان جیسا نہیں ہوگا۔ شمالی وزیرستان بارود کا ڈھیر ہے، آپ اس پر گولیاں برسائیں گے تو اس میں لگی آگ اتنی دور تک پھیل جائے گی کہ جس پر قابو پانا مشکل ہو گا۔ اور یہ بات آپ یا میں اتنی نہیں جانتے جتنی حکومت اور فوج جانتی ہے۔ آپریشن سے لڑائی پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ زیادہ بہادری کی صورت میں آگے بزدلی ہاتھ باندھے کھڑی ہو جاتی ہے اور ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ آپریشن سے طالبان کی سرگرمیوں کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے اس سے بچنا چاہیے اور اس میں کسی احساس شکست کو جنم بھی نہیں دینا چاہیے۔
ایکسپریس: فوج اور طالبان میں لڑائی کی شروعات کس طرف سے ہوئی؟
سید منور حسن: یہ انتظامی مسئلہ ہے، جس میں جاننا مشکل ہے کہ پہل کس طرف سے ہوئی۔ سلالہ سانحہ کے بارے میں کیا سب نہیں جانتے کس نے پہل کی لیکن امریکہ نہیں مانتا۔
ایکسپریس: دنیا کی اقدار اور ترجیحات بدل رہی ہیں، کوئی ملک دنیا سے کٹ کرزندہ نہیں رہ سکتا، لیکن پاک انڈیا ہمسائے ہو کر بھی ایک دوسرے سے سات سمندر دور ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھارت میں شیوسینا اور پاکستان میں جماعت اسلامی کو قرار دیا جاتا ہے، اس تاثر میں کتنی صداقت ہے؟
سید منور حسن: جتنا قریب بھارت اور پاکستان ہے یعنی سارا بارڈر ساتھ ہے تو اس سے زیادہ اور کیا ہوگا؟۔ اس سے آگے تو پھر اکھنڈ بھارت یا وسیع تر پاکستان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ آزاد قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے دست نگر یا غلام یا اس کی ماتحتی میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ بھارت کے ساتھ کشمیر سے شروع ہو کر آبی جارحیت تک پہنچتا ہے۔ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی پھیل رہی ہے، وہ اسلحہ تقسیم کر رہا ہے، پیسہ بانٹ رہا ہے، ہمیں غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے تو ہم ان تمام چیزوں کو کیسے نظرانداز کریں؟۔ امریکہ اس خطے میں بھارت کو بڑا بنانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ایسا ہوگا نہیں۔ افغانستان میں امریکہ نے بھارت کو بڑا بنانے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے دنوں ملا عمر کی طرف سے میرے پاس افغانستان سے ایک وفد آیا ۔
میں نے ان سے گفتگو کے دوران پوچھا کہ معاشی اور انتظامی دائرے کے اندر وہاں تو بھارت کے اثرات بہت بڑھ گئے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ تو بھارت کو ہندئوں کا ملک کہتے ہیں، ہم تو انہیں مشرک کہتے ہیں اور مشرکوں کے بارے میں ہمارا جو رویہ ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تھوڑا سا امریکہ پیچھے ہوگا تو بھارت کا وہاں سے نام و نشان مٹ جائے گا۔ کشمیریوں کی آزادی کے معاملہ کو سرفہرست رکھا جائے۔ بھارت نے بڑے پیمانے پر جو دریائوں کا رخ موڑا ہے، بند باندھے ہیں پاکستان کو ریگستان بنانے کی جو کارروائیاں کی ہیں، سب سے پہلے ان مسائل کو اجاگر کیا جائے بجائے اس کے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے، لہٰذا گلے لگا لیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے یہ مسائل حل کئے جائیں پھر چاہے حکمرانوں کی خواہشات پوری ہوں،میاں نوازشریف کی چینی بھارت جائے اور وہاں سے پیاز آئیں۔ سو جوتے اور سو پیاز کھانے پڑیں تو ہم اس کو بھی برداشت کر لیں گے لیکن صرف اپنی تجارت اور فائدے کے لیے پورے ملک کو استعمال کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔
ایکسپریس: بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سید منور حسن: دیکھیے! بنگلہ دیش میں بھی بھارت کا ہی نام آتا ہے۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ سب بھارت کے ایما پر اور اس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل میں نے کہیں پڑھا کہ بنگال میں شہری سڑکوں پر آئے ہیں تو حسینہ کی کوششوں سے بھارت کی فورسز کے لوگ آئے اور انہوں نے احتجاجیوں کو قتل کیا۔ حسینہ واجد کی وجہ سے بھارت کا بنگال میں عمل دخل زیادہ ہوا اور مغربی دنیا بھی یہی چاہتی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت اپنی مقبولیت کھو چکی تھی تو اس کے پاس آخری کارڈ یہی بچا تھا کہ وہ اس طرح کی کارروائیاں کرے تو جنگی جرائم کی فائلیں کھولی گئیں تاکہ اپنی کونسلر سے اپنی پارٹی کو جتوایا جا سکے ۔ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوئیں یہ وہی بہتر بتا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کارڈ چلا ہوا کارتوس ہی ثابت ہوا، لیکن مغرب اور بھارت کی پشت پناہی سے حسینہ واجد نے ظلم کی ایک نئی رات کا آغاز کیا جو طویل ہوتی جا رہی ہے اور اب اپوزیشن نے 18 پارٹیوں پر مشتمل الائنس بنایا ہے جو بہت بڑا احتجاج ہے اور میرے خیال میں حکومت اس کا سامنا نہیں کر سکے گی۔ حکومت کے وزیر کریمنل کیسز میں ملوث ہیں، یہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی لیکن اقوام متحدہ کو اس ساری صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
بنگلہ دیش کے موجودہ حالات میں پاکستان نے افسوس کن کردار ادا کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے نے بنگلہ دیش کے نمائندے کو کہا ’’ہمارا موقف مداخلت کا نہیں ہے۔ ہم سب چیزوں کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہماری پالیسی ہے، اس کے علاوہ اگر کچھ ہوا ہے تو غلط فہمی ہے۔‘‘ اب یہ غیر ضروری طور پر معذرت خواہانہ رویہ اپنایا گیا۔ لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ اگر یہ معاملہ بنگلہ دیش کا اندرونی ہے تو وہاں کی عدالتوں میں مسلسل پاکستانی فوج کا نام کیوں لیا جاتا ہے۔ پھر پاکستان بھی تو احتجاج کرے کہ آپ اپنے ملک میں جو مرضی کریں لیکن پاکستانی فوج کا نام نہ لیں، لیکن حکمران اس پر بھی احتجاج نہیں کرتے۔ اسمبلی نے قرارداد پاس کی، درست ہے مگر دفتر خارجہ کو بھی کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس معاملے میں ہمیں تو فوج سے بھی گلہ ہے کہ جن کی خاطر مر رہے ہیں لوگ اور ’’وہ رہے وضو کرتے‘‘ والی بات ہے۔ چالیس سال بعد یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا قصور کیا ہے؟ انہوں نے البدر بنائی تھی؟ البدر کس نے بنائی تھی، سب کو پتہ ہے تو جن لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے وہ تو سہولت سے نکل آئے اور جنہوں نے نہیں ڈالے وہ آج تک مر رہے ہیں۔
ایکسپریس:کے پی کے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا کہیں گے؟ مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جس کے دعوے کئے گئے تھے؟
سید منور حسن: خیبر پختونخوا کا بنیادی مسئلہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنا وفاق کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے ہی روز مرکزی حکومت، صوبائی حکومت کو بلاتی اور ان سے بات کرتی اور دہشت گردی کے حوالے سے پالیسی بناتی، اپنے حصے کا کام خود کرنے کی یقین دہانی کراتی۔ فنڈنگ کرتی اور صوبے کو اس کا کام دیتی اور دونوں اتفاق رائے سے دہشت گردی کا معاملہ حل کرتے۔ یہی معاملہ مرکزی حکومت کو بلوچستان میں کرنا چاہیے تھا، لیکن افسوس! ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے صوبائی حکومت کے پی کے کی کہاں کھڑی ہے سوائے اس کے کہ آئے روز دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس پر بیانات اور ہسپتالوں کے دورے ہوتے ہیں، اگلے روز پھر وہی سب کچھ شروع ہو جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ کے پی کے کی حکومت نے بعض سنجیدہ مسائل پر توجہ دی ہے۔ یہ واحد حکومت ہے جس نے پہلی بار ٹیکس فری بجٹ دیا۔
ایکسپریس:کے پی کے میں جماعت اسلامی کا تحریک انصاف سے الحاق نظریاتی ہم آہنگی ہے یا اقتدار کی مجبوری کیوں کہ باقی صوبوں میں آپ اکٹھے نہیں؟
سید منور حسن: ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے جو ہمارے نظریات سے مختلف ہو یا نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ نہ ہو۔ اس بات میں باہمی مشورے کا بھی عمل دخل ہے۔ نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کا نظریہ مضبوط ہے اور ہم بھی اس میں کوئی ضعف پیدا نہیں ہونے دیں گے۔ کوئی کمی یا کمزوری نظر آئے گی حکومت میں تو اس طرف توجہ دلا کر اسے درست کریں گے۔ اور دیگر صوبوں یا مرکز میں کچھ ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کے لئے اکٹھا ہوا جائے۔
ایکسپریس:ن لیگ کی حکومت کے گزشتہ 7 ماہ کیسے گزرے اور یہ حکومت مستقبل میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟
سید منور حسن: 7 ماہ کہاں گزرے ہیں یہ تو گزر ہی نہیں رہے۔ نہ کھانے کو میسر ہے نہ پینے کو میسر ہے۔ جان، مال عزت آبرو سب دائو پر لگا ہے۔ دیکھیں حکومت بنتی ہی اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے۔ باقی کام تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ تعلیم کے لیے کوئی سیٹ اپ بنا سکتے ہیں، مل جل کر کاروبار کر سکتے ہیں، لیکن لاء اینڈ آرڈر، میں اور آپ نہیں کر سکتے، یہ صرف حکومت کا کام ہے۔ اب اگر یہ حکومت نہیں کرتی تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر جی ایچ کیو پر حملے ہو رہے ہیں تو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ صورتحال کس قدر خراب ہو چکی ہے۔ افسوس! حکومت کا کام عوام کا دکھ بانٹنا نہیں ہے بلکہ اس کی ترحیحات مال بٹورنا ہے اور اس عمل کو اپنے رشتہ داروں تک پھیلانا ہے۔
ایکسپریس:بلدیاتی الیکشن میں تاخیر کی وجہ کیا ہے، جماعت اسلامی کسی سے اتحاد کرے گی یا سولوفلائٹ کی جائے گی؟
سید منور حسن: بلدیاتی انتخابات سے سیاسی حکومتیں ہمیشہ خوفزدہ ہوتی ہیں۔ اب بھی جو انتخابات التوا کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں یہ ڈر ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی صورت میں ہزاروں لوگ منتخب ہو کر نیچے آجائیں گے۔ عوام سے ان کا ہی رابطہ ہوگا تو ہمیں کون پوچھے گا؟ ہمارے فنڈز بھی تقسیم ہو جائیں گے۔ یہ ہے وہ سیاسی مخمصہ جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ دوسری اہم چیز یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں اس سے ڈر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ پہلا ریفلیکشن یہ آہی جائے گا کہ پنجاب میں ن لیگ ہار گئی یا پیپلزپارٹی سندھ میں ہار گئی۔ اس تاثر کو، جو اعداد و شمار کے مطابق ہوگا، سے بچنے کے لیے بلدیاتی الیکشن کو ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اپریل یا مئی سے پہلے سندھ اور پنجاب میں انتخابات ہونے کی توقع نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کراچی اور پشاور میں تحریک انصاف سے اتفاق رائے ہو گیا ہے، دیگر علاقوں کے حوالے سے بھی بات چیت چل رہی ہے اور معاملہ کافی حد تک طے ہو گئے ہیں۔ باقاعدہ اعلان بھی جلد ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی چل رہی ہے کہ ایک ہی نشان پر الیکشن لڑا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک پارٹی کے نشان پر الیکشن لڑا جائے۔ ابھی تک جو معاملات طے ہوئے ہیں ان کے مطابق جس پارٹی کا چیئرمین نامزد ہوگا اسی کا پرچم اور نشان دونوں پارٹیاں اس حلقہ میں استعمال کریں گی۔ یعنی جماعت اسلامی کا چیئرمین ایک حلقے میں نامزد ہوا تو تحریک انصاف بھی اسی حلقہ میں ہماری جماعت کا پرچم اور نشان استعمال کرے گی اور دوسرے میں اگر تحریک انصاف کا چیئرمین ہوگا تو ہم ان کا نشان استعمال کریں گے۔
ایکسپریس: طلبہ یونین کے حوالے سے جب بھی بات ہوتی ہے تو جمعیت کا منفی تاثر کیوں ابھرتا ہے؟
سید منور حسن: اس لیے کہ جمعیت کے علاوہ کوئی اور ہے ہی نہیں۔ طلبہ تنظیموں پر مکمل پابندی ہے سوائے جمعیت کے، کیوں کہ جمعیت نظریاتی تحریک ہے جسے پابندیاں لگانے سے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ جمعیت کے بارے میں جو منفی تاثر آتا ہے تو ان الزامات کا کوئی منطقی انجام کیوں نہیں ہوتا؟ مثال کے طور پر پنجاب یونیورسٹی میں شور مچا کہ ہاسٹل میں جمعیت والوں سے کچھ غلط لوگ پکڑے گئے۔ بھائی اگر پکڑے گئے تو وہ کہاں ہیں، ان کو سامنے لائیں۔ جمعیت کے لوگوں پر تو کوئی الزام ثابت نہیں ہوا البتہ وائس چانسلر کے بارے میں باتیں چل رہی ہیں اور ان کے خلاف لوگ عدالتوں تک پہنچ گئے ہیں۔ لہٰذا جمعیت نے تو ہمیشہ تعلیمی اداروں میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی سب کو بھلی لگتی ہے اور ان کے لیے یہی بہتر ہے، اسی لیے ایسا کیا جا رہے۔
سید منور حسن کی زندگی کے سفر کی مختصر کہانی
سید منور حسن کی پیدائش1941ء میں دہلی کی ہے۔ قیام پاکستان کے صرف 4 ماہ بعد ان کا خاندان پہلے لاہور پہنچا، جہاں تین، چار ہفتے رہنے کے بعد وہ کراچی آ گئے۔ پرائمری کلیٹن روڈ سکول، مڈل گورنمنٹ سکول جیل روڈ اور میٹرک کی تعلیم گورنمنٹ سیکنڈری سکول ناظم آباد سے حاصل کی۔1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے پہلا ایم اے سوشیالوجی میں کیا اور پھر 1966ء میں اسی جامعہ سے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ امیر جماعت اسلامی کالج میگزین کے ایڈیٹر اور بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے۔ 1959ء میں کمیونسٹ طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر ہو کر 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوگئے اورجلد ہی جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن بنادیے گئے۔
بعد ازاں 1964ء میں جمعیت کے مرکزی صدر (ناظم اعلی) بنے اور مسلسل تین بار اس عہدے پر منتخب ہوتے رہے۔ 1963 ء میں وہ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ سید منورحسن 1967ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ 1977ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور ریکارڈ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔ اپریل2009ء میں ارکان جماعت نے کثرت رائے سے سید منور حسن کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا اور 5 اپریل کو انہوں نے باقاعدہ طور پر امارت کی ذمہ داری کاحلف اٹھایا۔ امیر جماعت اسلامی انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیںکہ پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ان کی تقاریر کو بڑے شوق سے سنتی اور پسند کرتی ہے۔