(قسط نمبر 15)
2013 کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ہی عمران خان کوئی اٹھارہ فٹ بلند اسٹیج سے نیچے گر پڑے تھے جس کی وجہ سے اُن کی کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی، اُن کی پارٹی لیڈر شپ اور لند ن میں اُن کے بیٹوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ عمران خان لند ن علاج کے لیے آئیں مگر اُنہوں نے شوکت خانم ہسپتال سے علاج کروایا اور حیرت انگیز طور پر بہت جلد اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے بلکہ زیادہ متحرک انداز میں سامنے آئے۔
2008 سے 2013 کے انتخابات تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت باوجود میثاق جمہوریت ایک دوسرے پر کرپشن کے شدید الزامات عائد کرتے ہوئے کوئی کسی کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لُوٹی ہوئی دولت نکالنے کی بڑھک مارتا رہا توکوئی پنجاب کے منصوبوں میں کمیشن لینے کے دعویٰ کرتا رہا، جب کہ پرانے مقدمات جو قائم کئے گئے تھے اُن پر بھی ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد ہوتے رہے اور انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ویسے ہی دو نوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر روز اوّل ہی سے عائد کرتی رہی ہیں۔
2013 کے انتخابات کے دوران ہی اِن سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کئے تھے ا ب جہاں تک تعلق پی ٹی آئی کا تھا تو اس ماحول اور دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر الزامات دھر رہے تھے تو تحریک ِ انصاف کرپشن کے خلاف نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ میدان میں آئی جس کی قیادت عمران خان جیسی عالمی شہرت کی حامل شخصیت کر رہی تھی۔
یہ تمام عوامل تھے کہ 2013 کے عام انتخابات میں جہاں مسلم لیگ ن نے یعنی کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے32.17% ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں، پیپلز پارٹی نے 15.23% ووٹ حاصل کر کے 33 جنرل نشستیں حاصل کیں،اور تحریک ِ انصاف نے مجموعی طور پر پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ یعنی 16.92% ووٹ لیے مگر اُس کی قومی اسمبلی میں 28 جنرل نشستیں تھیں، یوں انتخابات 2013 کے نتائج کی بنیاد پر پاکستان کے عوام میں مقبولیت کے اعتبار سے اب تحریک انصاف اِن ووٹوں کے تناسب سے دوسرے نمبرکی قومی جماعت تھی۔
جب کہ پی ٹی آئی نے فوراً ہی انتخابات میں خصوصاً پنجاب میں دھاندلی کروانے کے الزامات ن لیگ پر عائد کر دئیے اور پہلے چار انتخابی حلقے کھولنے کامطالبہ کر دیا۔ پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی اب مقبولیت کے اعتبار سے ایک بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی جس نے فوراً ہی نمبر ون پر آنے والی مسلم لیگ ن کو چیلنج کر دیا، اگرچہ جب بھی مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی اُسے سیاسی میدان میں حزب اختلاف کی پیپلزپارٹی کا سامنا رہا۔
جس سے ن لیگ نے ہمیشہ اختلافات دشمنی کی حد تک بڑھائے، پھر نواز شریف کی مہم جُو طبیعت ایسی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی اُن کے معاملات بطو ر وزیر اعظم ہمیشہ ہی بہتر نہیں رہے لیکن اس بار اُسے حزب اختلاف میں پیپلزپارٹی سے زیادہ مخالفت کا سامنا تحریک انصاف سے تھا جس نے ن لیگ اور پی پی پی دونوں کو ایک ساتھ چیلنج کر دیا تھا، یہ نئی جماعت تھی اس لیے اس کا احتجاج اور مخالفت شدید اور سیاسی اقدار سے قدرے ہٹی ہوئی تھی، پھر بطور نئی سیاسی جماعت یہ اقتدار میں بھی پہلے نہیں آئی تھی۔
اِس لیے جب پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی پر کرپشن کے الزامات عائد کئے تو عوام کی زیادہ توجہ بھی حاصل کی اور اس کے جواب میں مخالف دونوں بڑی جماعتیں کرپشن کاکوئی الزام پی ٹی آئی پر عائد نہ کر سکتی تھیں، یوں 2013 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو ایک ایسی نئی طرز کی مخالفت کا سامنا تھا جو اس سے پہلے ن لیگ نے نہیں دیکھی تھی۔
سیاسی فہم اور تجر بے کی بنیاد پر اس بدلتی ہوئی صورتحال نے پی پی پی جو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف میں تھی اُسے اور مسلم لیگ ن کو ایک کر دیا، جس کے منفی اثرات پی پی پی اور مسلم ن کے خصوصاً نوجوان ووٹ بنک پر مرتب ہونے لگے جس کا اندازہ اِن جماعتوں کواگرچہ تھا لیکن اُس وقت نیب کے مقدمات کے اعتبار سے یہ مفاہمت اِن دونوں پارٹیوں کی قیادت کے حق میں تھی۔
مسلم لیگ ن کی بڑی سیاسی غلطی یہ بھی تھی کہ جب پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی کے صرف چار انتخابی حلقے کھولنے یعنی اِن پر تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا تھا تو مسلم لیگ کے سعد رفیق سیمت کچھ رہنماؤں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ ن لیگ کی قومی اسمبلی میں 126 جنرل نشستیں ہیں اس لیے جن چار حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کر رہی ہے اِس پر کامیاب ہو نے والے مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی کے چاروں ارکان استعفٰی دے کر دو بار ہ انتخابات لڑتے ہیں یوں پی ٹی آئی کا اعتراض ختم ہو جائے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
جس کے سبب مسلم لیگ ن سیاسی طور پر بڑے خسارے میں رہی، بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس بار ایک تو1999 کے بعد تقریباً پندرہ سال بعد نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تھے اس لیے وہ شاید اسٹیبشلمنٹ سے مفاہمت کا رویہ رکھیں گے مگر ایسا نہیں ہوا، اُنہوں نے اگرچہ روایتی انداز میں وزارت داخلہ تو چوہدری نثار علی خان کو ہی دی مگر وزارت خزانہ اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو دی اور وزات خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا اور اِن دونوں شعبوں میں بعض اہم ترین نوعیت کے فیصلے اُنہوں نے ازخود کئے اور اِن فیصلوں کے اثرات سامنے آنے پر حیرت ہوئی۔
پا ک بھارت تعلقا ت کے لحاظ سے بھی اور دہشت گردی کے اعتبار سے بھی کچھ ایسی ہی صورتحال رہی، جہاں تک تعلق دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکی تعلق کا تھا تو نوازشریف کے اقتدار میں آنے سے دو سال قبل 2 مئی 2011 کو امریکی سی آئی اے اسپیشل ایکٹو فورس نے ایبٹ آباد میں آپریشن نیپچون اسیپرے میں اسامہ بن لادن سمیت 54 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جن میں سے اسامہ بن لادن کی بیوی سمیت 33 عرب باشندے شامل تھے۔
اس کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کی امداد بھی روک لی گئی تھی، 20 تا 23 اکتوبر 2014 میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس اورامریکہ میں قیام کے دورران انہوں نے صدر اوبامہ سے ملاقات کی اور وائس آف امریکہ کے مطابق 2011 کے واقعہ کے بعد روکی گئی 1.6 بلین ڈالر کی امداد پاکستان کے لیے بحال کردی گئی اور پاکستان کی درخواست پر عارضی طور پر پاک افغان سرحد پر پاکستانی علاقوں میں ڈراؤن حملوں کو بھی روکنے کا یقین دلایا۔
نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد 26 مئی 2014 میں نریندر مودی کی جانب سے بطور بھارتی وزیر اعظم اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جس پر نوازشریف نے دہلی جا کر اس تقریب میں شرکت کی اور یوں وہ پہلے پاکستانی وزیر اعظم تھے جنہوں نے ایسی بھارتی تقریب میں شرکت کی تھی اور پھر جب وہ اور مودی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک تھے تو خود نوازشریف نریندر مودی کی نشست کے قریب چل کر گئے اور سرگوشی کے انداز میں مختصر سی گفتگو کی جس کے دوران نریندر مودی نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا کہ کوئی لپ ریڈنگ نہ کر سکے۔
یہاں عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات جو اگر چہ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی تھے مگر پی ٹی آئی نے14 اگست سے مارچ اور پھر اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا جس سے نواز شریف حکومت کی مقبولیت میں بھی کمی آئی اور پی ٹی آئی کے موقف کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی، لیکن ن لیگ کے مطابق اس دھرنے سے ملک کی معیشت کو ساڑھے چا رسو ارب روپے کا نقصان پہنچا اور اسی کی وجہ سے چینی صدر کا دور ملتوی ہوا جس سے سی پیک کے منصوبے تاخیر کا شکار ہوئے،بھارتی خفیہ اداروں کی آشیر باد سے 2013 کے آخر تک دہشت گردی کے 92 بڑے واقعات میں 877 افراد جان بحق اور1529 زخمی یا معذور ہو ئے تھے مگر 2014 میں پھر دہشت گردی بڑھی اور دہشت گردی کے 2099 واقعات میں 5308 افراد جان بحق اور 4569 زخمی اور معذور ہوئے۔
16 دسمبر2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کا ایک بڑا اور دلخراش حملہ ہوا، جس میں دہشت گردوں نے پاک بھارت جنگ دسمبر 1971 پر ہتھیار ڈالنے کے دن کی مناسبت کو بھی مد نظر رکھا تھا۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں سات دہشت گرد ہلاک ہوئے جب کہ149 معصوم طالب علم اور اِن کے اساتذہ شہید ہوئے، یہ سانحہ تھا کہ جس کے بعد یہ طے کر لیا گیا کہ دشمن کی جانب سے ملک کے اندر جاری اس دہشت گردی کے خلاف مکمل فتح تک جنگ لڑی جائے گی اور پاکستان اس راستے میں کسی ملک یا طاقت کی پرواہ نہیںکر ے گا۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ قومی سطح پر یہ مطالبہ ہوا کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
جس کے لیے ملک میں اندرونی سیکورٹی تحفظ کے لیے ایک جامع پالیسی اور گائیڈلائن تیار کی جائے جس کے تحت دہشت گردی کے انسداد کے لیے تمام محکموں اور اداروں میں اصلاحات کی جائیں، یوں وزارتِ داخلہ نے تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مشاورت کے بعد 24 دسمبر2014 کو ایک نیشنل ایکشن پلان منظور کیا، وزیر اعظم نے وزارتِ داخلہ کو ہدایت دی کہ نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی اور اس پر عملد ر آمد کا پورا نظام بنایا جائے، یوں یہ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تریب پایا جس کے نکات یوں ہیں۔
نمبر1۔ دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سزائے موت ہو گی۔
نمبر 2 ۔ خصوصی عدالتوں کا قیام، یہ خصوصی عدالتیں فوج کی نگرانی میں ہونگی اور اِن کا دورانیہ دو سال کا ہو گا۔
نمبر 3 ۔ مسلح افراد اور گروپوں کو ملک میں کام نہیں کر نے دیا جائے گا۔
نمبر4 ۔ NACTA دی اینٹی ٹیررازم انسٹی ٹیوٹ وانسداد دہشت گردی کے اداروں کو مستحکم کیا جائے گا۔
نمبر5 ۔ایسے لٹریچر،اخبارات، رسائل جو نفرت،انتہا پسندی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دیں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔
نمبر6 ۔دہشت گردوںکو خار دار تاروں کی باڑ اور دیگر طریقوں سے روکا جائے گا۔
نمبر7 ۔اس کی یقین دہانی کرائی جائے گی کہ جن تنظیموں کو ختم کیا گیا ہے وہ دوبارہ وجود میں نہ آئیں۔
نمبر 8 ۔انسداد دہشت گردی کی فورس بنائی جائے گی جواپنے فرائض نہایت خلوص جذبہ اور وفاداری سے انجام دینے والے اہلکا روں پر مشتمل ہو گی اور اِن کو جہاں ضرورت ہو گی تعینات کیا جائے گا۔
نمبر 9 ۔ مذہبی تنگ نظری کے خلاف اقدامات کئے جائیں گے۔
نمبر10 ۔مذہبی مجالس کی رجسٹریشن ہو گی ۔
نمبر11 ۔ پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کو پُرجوش دکھانے کی پابندی ہو گی۔
نمبر12 ۔فاٹا کے علا قے میں ا نتظامی اصلاحات کے ساتھ علاقے کو ترقی دی جائے گی اور اندرون ملک بے گھر ہو نے والوں کی بحالی اور آباد کاری کی جائے گی۔
نمبر 13۔دہشت گردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے گا۔
نمبر14۔انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ایسے استعمال کو روکنے کے اقد امات کئے جائیں گے جن سے دہشت گردی کو فروغ ملے ۔
نمبر15۔ پنجاب میں مسلح کاروائیوں کو قطعی برادشت نہیں کیا جائے گا۔
نمبر16۔کراچی میں جاری آپر یشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
نمبر17۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کو پورے اختیارات حاصل ہو نگے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے پوری ذمہ داری سے سیاسی مفاہمت کرے۔
نمبر 18۔ فرقہ واریت سے متعلق دہشت گردی سے قواعد و ضواط کے مطابق نبٹاجائے گا۔
نمبر 19۔ افغان مہاجرین کے ساتھ معاملا ت طے کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنائی جا رہی ہے جس کا آغاز تمام مہاجرین کی رجسٹریشن سے کیا جا رہا ہے۔
نمبر 20۔ جرائم کے عدالتی نظام کرئمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحا ت کی جائیں گی اور اِس کو دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔
اگرچہ نواز شریف کی حکومت نے فوراً اس نیشنل ایکشن کمیشن کی حمایت کی لیکن بعد میں خصوصاً اس کی ایکسٹینشن پر سندھ کی صوبائی حکومت کو اور پھر پارلیمنٹ میں بھی اس پر اعتراضات ہو تے رہے، پھر 2015 کا سال بھی دہشت گردی کے اعتبار سے بہتر نہیں رہا، اس سال ملک میں دہشت گردی کے 1097 واقعات ہوئے جن میں3503 افراد جان بحق اور 2617 زخمی ہوئے۔
اِس دوران ایک جانب تو نواز شریف بھارت کے ساتھ اپنے طور پر تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششیں کرتے رہے تو دوسری جانب بہت سے حلقو ں میں فکر مندی تھی کہ ملک حالت جنگ میں ہے نیشنل ایکشن پلان بھی آچکا تھا تو ایسی صورت میں خارجہ پالیسی کے تمام امور پر بھی مشاورت اور خفیہ اطلاعات پر توجہ کی ضرورت تھی جارج بش امریکہ کے آخری صدر تھے جنہوں نے مارچ 2006 میں جب بھارت اور افغانستان کا دورہ کیا تو پاکستا ن بھی آئے تھے، 2009 میں باراک اوبامہ صدر ہوئے تو 2010 سے 2015 تک افغانستان کے تین دورے کئے اور بھارت کے دو دورے کئے مگر پاکستا ن کا کو ئی دورہ نہیں کیا۔
نواز شریف کے دورِ اقتدار میں 25 اور 26 جولائی 2014 ء کو صدر اوبامہ نے افغانستا ن کا دو روزہ دورہ کیا، حامد کرزئی سے ملاقات کی، طویل المدت اسٹرٹیجک تعاون اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بات چیت ہوئی، افغانستان میں مو جود امریکی فوجیوں سے ملاقاتیں کیں،25 سے 27 جنوری 2015 کو صدر اوبامہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا، وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور وہ پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے بھات کے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں شرکت کی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کیا، اسی عرصے میں نوازشریف کی کوشش رہی کہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دیا جائے، اگرچہ اکتوبر2014 میں کنٹرول لائن پر فوجوں کی فائرنگ گولہ باری 20 سویلین کے جان بحق ہو نے کی وجہ سے تلخی پیدا ہوئی تھی اور نواز شریف حکومت نے اس کا الزام بھارت پر عائد کیا تھا مگر اب بھارت سے تعلقات بہت بہتر ہو رہے تھے اور اس کے لیے نوازشریف، وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزارت خارجہ کا قلمدان بھی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رہے تھے، 2015 میں ہارٹ آف ایشیا کانفرس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کے آغاز کی بات چیت ہوئی، 2015 ہی میںایک صحافی نے انہی دنوں انکشاف کیا کہ سارک کانفرنس 2015 کے دوران مودی نوازشریف خفیہ ملا قات ہوئی۔
اور پھر 25 دسمبر2015 ہی کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے روس اور افغانستان کے دورے سے واپسی پر اچانک پاکستان کا دورہ کیا اور نجی حیثیت میں نوازشریف کے خاندان کی لاہور جاتی امرا میں شادی کی تقریب میںشرکت کی۔ اُنہوں اس موقع پر نواز شریف کو سالگرہ کی مبار ک باد بھی دی حالانکہ یہی دن پاکستان میں قومی سطح پر سرکاری تعطیل کے ساتھ بھر پور انداز میں منایا جاتا ہے اور نہ صرف کراچی میں عموماً وزیر اعلیٰ گورنر مزار ِ قائد پر حاضر ہوتے ہیں، اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاوس ایوان صدر میں بھی تقریبات ہوتی ہیں، پورے ملک میں ہر کوئی قائد اعظم سے تجدیدوفا کرتا ہے مگر اُس روز نواز شریف اور مودی کی جاتی امرا کی اچانک اور حیران کن ملاقات اتنی اہمیت اختیار کر گئی کہ قومی اور بین الا قوامی میڈیا میں یہی خبر گرم رہی واضح رہے کہ اس ملاقات کے بارے میں نواز شریف کی براہ راست مودی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی جس میں نواز شریف نے اُنہیں خاندان میں ہو نے والی شادی میں شرکت کی دعوت دی تھی ،اور اس بے تکلف دعوت اور دوستی کا نریندر مودی نے بعض جگوں پر ذکر بھی کیا۔
دوسری جانب سے یہ خفیہ اطلاعات بھی تھیں کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کر رہا ہے اور افغانستان اور ایران کی سر زمین بھی استعمال کی جا رہی ہے، یوں اگر نواز شریف پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر یا کم سے کم کابینہ سے منظوری کے ساتھ پاک بھارت تعلقات کے اعتبار سے معاملات طے کرتے تو شائد اُن کے حوالے سے بدگمانیاں جنم نہ لیتیں اور اپوزیشن کی جانب سے شدید نوعیت کے الزمات عائد نہ کئے جاتے پھر ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ بلوچستان سے بھارتی نیوی کا اعلیٰ افسر جاسوس کلبھوشن یادیو 25 مارچ2016 کو گرفتار کر لیا گیا،اس کے چار دن بعد29 مارچ کو کلبھوشن یادیو کی اعترافِ جرم کی چھ منٹ دورانیے کی ویڈیو فلم پوری دنیا کے میڈیا نے دکھا دی۔
بھارت کی جانب سے متواتر دھمکیاں دی جاتی رہیں تو ساتھ ہی پاکستان نے ایک جانب پاک افغان سرحد پر باڑ لگا نے کا کام تیز رفتاری سے شروع کر دیا تو دوسری جانب امریکہ کی مدد کی تاکہ وہ افغانستان میں مذاکرات کی بنیا دوں پر امن قائم کر سکے اور اپنی خواہش کے مطابق یہاں سے فوجیں نکال لے، یہی وہ دور ہے جب آپر یشن ضربِ عضب شروع کیا گیا، اگر چہ محمد نواز شریف کو وزیر اعظم بنتے ہی مسائل کا سامنا تھا اور اُنھیںاور مسلم لیگ ن کو پہلی بارکرپشن کے الزامات پر نہ صرف شدید تنقید اور احتجاج کا سامنا تھا بلکہ اس کے نتیجے میں اُن کی مقبولیت میں بھی کمی آرہی تھی جس کو ن لیگ کے ماہر ین قدرے کامیابی سے میڈیا مہم کے ذریعے روک بھی رہے تھے مگر شومئیِ قسمت کہ 3 اپریل 2016 کوجرمن اخبارSudeutsche Zeitung نے پانامہ لیک کی دستاویزات کا انکشاف کر دیا۔
اس میں1970 سے لیکر تاحال دنیا کے تقریباً200 ملکوں کے لیڈران اور اہم لوگوں کی ناجائر دولت کی تفصیلات سے متعلق 214000 کاغذات اور فائلیں تھیں اور شریف خاندان کا ذکر بھی تھا، اِس کے منظر عام پر آتے ہی کرپشن کے وہ الزامات جو پہلے ہی پی ٹی آئی کی جانب سے عائد کئے جا رہے تھے اِن پر عوام کی جانب سے یقین اتنا بڑھ گیا کہ اب 95% عام لوگ ہی نہیں بلکہ ن لیگ کے حامیوں نے عام سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ ٹھیک ہے اُنہوں نے اگر کھایا ہے تو کھلایا بھی ہے۔
اسی دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کی جانب سے جاری تحریک بھی زور پکڑ گئی اور 8 جولائی2016 کو نوجوان کشمیر ی حریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اتنا شدید احتجاج ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کے تمام دس اضلاع میں بھارتی فوج نے کر فیو نافذ کر دیا اور یہاں بھارتی فوجیوں کے ٹھکانوں پر حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 18 بھارتی فو جی ہلاک ہوئے، لیکن اس کا تمام تر الزام بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان پر عائد کیا۔
22 ستمبر2016 کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ا قوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور کشمیر میں بھارت کی جانب سے ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پا مالی کی مذمت کی اور اقوام متحدہ سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں تحقیقات کے لیے فیکٹ فائینڈنگ مشن بھیجنے کا مطالبہ کیا مگر اُنہوں نے پاکستان میں گرفتار بھارتی دہشت گرد اور جاسوس کلبھو شن یادیو کا نام نہیں لیا جس کی اُن سے توقع کی جا رہی تھی اور اس انداز پر ملک میں اُن پر شدید تنقید ہوئی مگر ایک حقیقت جو بہت واضح تھی وہ یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن پر قیادت کے اعتبار سے اُن کی گرفت بہت مضبوط رہی اور شائد پاکستان کی پوری تا ریخ میں نوازشریف کے مقابلے میں کسی بھی لیڈر کی اپنی پارٹی پر اتنی مضبو ط گرفت نہیں رہی۔
ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے مقبول ترین لیڈر رہے ہیں مگر دنیا نے دیکھا کہ اُن کی پھانسی کے بعد جب لوگوں نے خود سوزی بھی کی تھی تو اِن کی جماعت کے کئی بڑے لیڈر اُن کی پالیسیوں اور قیادت سے منحرف ہو گئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے پھر پارٹی لیڈر شپ سے انکلز یا اولڈ گارڈز سے جان چھڑائی ، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب میاں نواز شریف پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے حوالے مقدمات قائم ہوئے تو بطور وزیر اعظم اُنہوںقومی اسمبلی کے فلور پر اپنی جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں جو بتایا یا ریڈیو ٹی وی پر قوم سے خطاب میں آمدنیوں اور اثاثوں سے متعلق جو بیان کیا یاکسی اور فورم پر اس سے متعلق جو کہا اُسے عدالت میں ثابت نہ کر سکے، اور صرف قطر کے ایک شہزادے کا خط پیش کیا جو اُن کے موقف کو درست ثابت نہ کر سکا۔
اسکے بعد وہ عدالت کی طرف 28 جولائی 2017 ء سے وزیر اعظم نہیں رہے، اور پھر اُن کا رویہ کافی جارحانہ ہو گیا، 12 مئی کو ایک اور لیک ایک مشہور انگریزی اخبار کے حوالے سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ایک انٹرویو کی صورت سامنے آئی جس میں پا کستان کے بارے میں کہا گیا کہ 2008 کے ممبئی کے دہشت گردی کے واقعہ میں پاکستان ملوث تھا بعد میں مسلم لیگ ن کے ترجمان نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کو توڑ مڑو کر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے بعد بھی جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہو گئے تو جون 2018 تک مسلم لیگ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات زیادہ بہتر دکھائی نہیں دئیے، 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ ن کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے یہ متواتر کو شش رہی کہ ن لیگ حکومت کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات خوشگوار ہوں کیونکہ ملک کو چاروں جانب سے سلامتی کے خطرات لا حق ہیں، پارٹی لیڈر شپ میں انہیں نواز شریف کی بیٹی کی طرف سے سینئر اراکین سے بھی زیادہ اہمیت دینے پر بھی اعتراضات رہے جن کا وہ بہت سے مواقع پر اظہار بھی کرتے رہے۔
یوں الیکشن 2018 سے قبل یہ صورتحال تھی جس میں پی پی پی نے تحریکِ انصاف کی جانب سے دھرنے کے دوران اور بھی بہت سے مواقع پر ن لیگ کو سپورٹ کیا جس کی وجہ سے پنجاب میں پی پی پی کے ووٹ بنک کو اور بھی نقصان پہنچا مگر پیپلز پارٹی کا موقف تھا کہ ن لیگ کی حکومت کو جمہوریت کے اصولوں کے مطابق اپنی حکومت کی پانچ سالہ مد ت پوری کر نی چاہیے۔ نواز شریف کے دورحکومت میں ہی نیشنل ایکشن پلان کے تحت افواجِ پاکستان نے وفاقی اور چاروں صوبوں کے اداروں کے محکموں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلا ف پہلے آپریشن ضربِ عضب اور پھر آپریشن ردِالفساد کیا اور دہشت گردی پر 95% تک کنٹرول کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔
اور پا کستان اس پوزیشن میں آگیا کہ اُس نے دعویٰ کر دیا کہ دنیا کہ وہ ممالک بشمول افغانستان، عراق، شام ،لیبیا، پاکستا ن وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کو اپنے ہاں شکست دی ہے، اگرچہ 27 نومبر2019 کو جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ جا ری رہا جو چند دنوں میں پو را ہو جائے گا اور فوج کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ اس کے بعد پاک ایران سرحد پر باڑلگائی جا ئے گی، یوں پاک بھارت سرحد پر عرصے سے باڑ ہے۔
یہی صورت ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول کی ہے اب پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ مکمل ہو رہی ہے اور اس کے فوراً بعد پاک، ایران سرحد پر جب باڑ مکمل ہو جائے گی تو پھر بہتر نگرانی کے عمل سے یہ یقینی ہو گا کہ نہ تو کوئی دہشت گرد، ان تینوں ملکوں سے پاکستان میں داخل ہو سکے گا اور نہ ہی پاکستان پر اِن ملکوں کی جانب سے الزام دیا جا سکے گا کہ یہاں سے کو ئی سرحد پارکر کے گیا۔
جہاں تک تعلق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے نقصان کا ہے تو پا کستان اکنامک سروے 2016-17 کے مطابق اورنو ماہی مدت کے اعداد وشمار کی بنیاد پر جو نقصان براہ راست پہنچا ہے اُس کا تخمینہ 123.13 بلین امریکی ڈالر اور پاکستانی کرنسی میں 10373.93 ارب روپے ہے۔
اس ماحول میں جولائی 2018 میں عام انتخابات ہوئے ان انتخابات میں ووٹ ٹرن آوٹ 51.6% رہا، پاکستان تحریک انصاف نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 31.82% تناسب کے اعتبار 16903702 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 116جنرل نشستیں حاصل کیں، یوں پی ٹی آئی کے ووٹ بنک میں 14.90% کا اضافہ ہوا اورگذشتہ انتخابات کے مقابلے میں 114 نشستیں زیادہ حاصل کیں۔
مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 64 نشستیں حاصل کیں یعنی پہلے کے مقابلے میں 84 نشستیں کم ملیں، اسی طرح کل ڈالے گئے ووٹوں 32.77% کے مقابلے 24.35% ووٹ ملے، یوں مقبولیت میں ووٹ کے تناسب کے اعتبار سے 8.42% کی کمی واقع ہوئی اور مسلم لیگ ن کواِن انتخابات میں کل 12934589 ووٹ ملے۔ پی پی پی نے الیکشن 2018 میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 6924356 یعنی 12.94% ووٹ حاصل کئے جو گذشتہ انتخا بات کے مقابلے میں2.29% کم تھے لیکن پی پی پی نے اس بار قومی اسمبلی کی12 نشستیں زیادہ حاصل کیں اور اِن کی کل جنرل نشستیں 54 تھیں عمران خان نے کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کی تھی اور ساتھ ہی انتخابات میں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانات بنانے کا پروگرام بھی دیا تھا۔
اقتدار میں آنے کے لیے عمران خان کے پاس مطلوبہ اکثریت سے ذرا کم نشستیں تھیں یو ں آزاد امیدواروں و دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل کیا اور الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے الیکٹ ایبل کو بھی پارٹی ٹکٹ دے کر بہرحال اکثریت حاصل کی اور جب کڑے احتسا ب کا عمل شروع کیا تو اس کے مقابلے میں اپوزشن خصوصاً مسلم لیگ ن اور پی پی پی کھڑی ہو گئیں کیونکہ تحریکِ انصاف پہلی مرتبہ حکومت میں آئی اس لیے بہت سی پالیسیوں میں ناتجربہ کار ہی ہے پھر بیوروکریسی تعاون نہیں کر رہی اور کرپشن زدہ معاشرتی رویوں اور رجحانات کی وجہ سے بھی پارٹی کے منشوری وعدوں کو نقصان پہنچا ہے۔
اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اکھٹا ہو گئیں، اگرچہ عمران خان نے بطور لیڈر خارجی محاذ پر مثالی کامیابیاں حاصل کیں اور خصوصاً ستمبر 2019 میں اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اُنہوں نے کشمیریوں کے حق آزادی کے لیے عالمی برادری کا جس طرح ضمیر جھنجھوڑا اور جس طرح ناموسِ رسالت ؐ پر بے باک انداز میں خطاب کیا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے مگر ساتھ ہی بھارت نے پاکستان دشمنی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مالی سال 2018-19 کا بجٹ مسلم لیگ ن نے اپنے پانچ سالہ دور میں چھٹا قومی بجٹ دیا تھا۔
ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا حالانکہ اس پر پی ٹی آئی نے اعتراض کیا تھا اور تجویز دی تھی کہ جون 2018 میں مسلم لیگ آئندہ تین مہینوں کا عبوری بجٹ دے اور الیکشن کے بعد اگست میں نئی حکومت اپنا نیا بجٹ دے مگر ایسا نہیں ہوا اور ایک الیکشن دوست بجٹ دیا گیا جس کو 30 جون 2019 تک پاکستان تحریک انصاف کی حکو مت نے بھگتا اور پھر بھاری قرضوں میں جکڑی ہوئی صورتحال میں قومی بجٹ 2019-20 دیا گیا تو اس میں بھی آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا، چند ٹیکنوکریٹ لیے گئے لیکن مہنگائی اور معیشت کے استحکام کے لیے گئے سخت فیصلوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت میںقدرے کمی واقع ہوئی ہے ۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان اور نریندر مودی کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی جسے مودی نے رد کر دیا، واضح رہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 1989 کے بعد سے آزادی کشمیر کی تحریک کچھ سست ہو گئی تھی مگر 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اس تحریک میں ایک نئی روح آگئی اور مقبوضہ کشمیرمیں اب تک ہزاروں کشمیری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں اور ہزاروں بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، اس جبر وتشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ 14 فروری2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جموں سری نگر نیشنل ہائی وے پر بھارتی سنٹرل ریزرو پولیس کے ایک ٹرک پر لیتھ پورا ضلع پلوامہ پر ایک کشمیری خودکش نوجوان نے حملہ کر دیا۔
جس کے نتیجے میں 46 سپاہی ہلاک ہو گئے، بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور کہا کہ وہ پاکستا ن پر سرجیکل اٹیک کرے گا، 26 فروری 2019 کو بھارت نے ایک ڈارمہ کیا اور بالاکورٹ کے مقا م پر بھارتی طیاروں نے مصنوعی کاروائی میں دو تین درختوں کو نقصان پہنچایا اور پر وپیگنڈا کیا کہ اُس نے یہاں قائم دہشت گردوں کا کیمپ تباہ کر دیا جس پر پاکستان نے عالمی میڈیا کے صحافیوں کو علاقے میں دورہ کروا کر پول کھول دیا اور یہ انتباہ کر دیا کہ اب بھارت پاکستان کے جواب کا انتظار کرے۔ اور پھر 27 فروری کو پاک فضائیہ کے طیاروں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ٹھکانوں کے قرب و جوار کو نشانہ بنایا جس کا مقصد یہ یاد کروانا تھا کہ فوجی ٹھکانے بھی ہماری زد میں تھے لیکن انہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس حملے کے جواب میں بھارتی جیٹ پاکستانی ہملہ آور طیاروں کو مار گرانے کے لئے میدان میں آئے لیکن خود پاک فضائیہ کا نشانہ بن گئے۔پاک فضائیہ نے بھارت کا ایک مگ21-اور ایک ایس یو 30- طیارہ مار گرایا، جبکہ بھارتی دفائی نظام اس قدر دباؤ میں آگیا کہ انہوں نے اپنا ایک ہیلی کاپٹر خود ہی مار گرایا۔ ایک طیارہ جو پاکستانی علاقے میں گرا، اس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتارکر لیا اور دو روز بعد اُسے بھارت کے حوالے کر دیا، جب کہ ایک طیارہ اور ایک ہیلی کاپٹر بھارتی علاقے میں گرا، یہاں تک بھی کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارتی آرمی چیف اور سینئر فوجی جنرل موجود تھے وہاں پہلے پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے نشانہ طے کیا۔
اطلاع کی اور اس مقام سے کوئی چند میٹر دور خالی جگہ پر نشانہ لگائے اور بتایا کہ آپ ہمارے نشانے پر تھے اور اگر ہم چاہتے تو آپ کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ واضح رہے کہ 1971 کے بعد بھارت نے پہلی مرتبہ پاکستان کی سرزمین پر فضائی حملہ کیا تھا۔ پھر بھارت نے اقوم متحدہ کی تمام قراردادوں اور خود بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی دھجیاں اڑادیں اور ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے 5 اگست 2019 سے پور ے مقبوضہ جموں وکشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ جس کو چار ماہ ہونے والے ہیں۔
جب کہ پاکستان میں 27 اکتوبر سے پہلے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور پھر اسلام آباد کا دھرنا، عمران خان کے استعفٰی اور فوری نئے الیکشن کے مطالبات کئے جا رہے تھے ، اور بقول مولانا فضل الرحمن اسلام آباد سے یہ دھرنا اس یقین دہانی پر ختم کیا گیا ہے کہ اس مطالبے یا اس کے برابر کے وزن پر چند روز میں فیصلہ کیا جائے گا، اور ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پہلے شاہراہوں کو بند کرنے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا، اب اے پی سی کی میٹنگ کے بعد پھر اپوزیشن کے احتجاج کا نیا مرحلہ شروع ہوگا ملکی سیاست کچھ بھی ہو، اپوزیشن نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر پوری قوم کے ساتھ یکساں موقف اختیار کیا ہوا ہے ۔
اس تمام تر تناظر میں دیکھیں تویہ دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے مسلسل جنگوں یا جنگ کے ماحول میں رہا ہے۔ آزادی کے فوراً بعد 1947-48 میں کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت سے جنگ کرنا پڑی کیونکہ بھارت نے قانون آزدی ِہند 18 جولائی 1947 کا لحا ظ کئے بغیر مسلم اکثریت کی ریاست جموں و کشمیر جس کے تمام چھ کے چھ راستے پاکستان سے گزرتے ہیں۔
اس پر راجہ ہری سنگھ کو دباؤ میں لا کر اس کا غیرقانونی الحاق بھارت سے کروایا تھا جس کے نتیجے میں یہ جنگ ہوئی اور پاکستان نے تقریباً آدھا کشمیر جنگ کی بنیاد پر لڑ کر آزاد کروایا اور جنگ بندی بھی بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں قرارداد کی منظوری سے کروائی کہ ریاست جموں وکشمیر میں رائے شماری کروائی جائے،اور عوام اپنی مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کے حق میں ووٹ دیں گے۔
لیکن پھر بھارت نے عیاری سے کام لیا، اور اس کے بعد پاکستان سرد جنگ کی بنیاد پر امریکہ، برطانیہ کا اتحادی رہا اور سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں میں شامل رہا اور اِن ڈائریکٹ اس سرد جنگ میں شامل رہا، البتہ 1972 سے 1977 تک پاکستان غیرجانبدار ملک رہا اور اس کی خارجہ پالیسی متوازن رہی، اس کے بعد جلد ہی پاکستان کو افغانستان میںسوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد فرنٹ لائن کا ملک بننا پڑا پھر افغانستان کی خانہ جنگی کی وجہ سے بھی پاکستا ن کوایک جنگ زدہ ماحول کا سامنا رہا اور نائن الیون کے بعد سے پہلے 2007-8 تک یوٹرن لے کر جنگ کی تباہی اور بربادی برداشت کی اور پھر دہشت گردی کا شدید شکار ہوا۔
ساتھ ہی ساتھ بھارت کی جانب سے سیاچن کی جنگ اور پھر کارگل کی لڑائی اور پھر 16 دسمبر1914 کے سانحہ کے بعد پاکستان نے فیصلہ کن انداز میں ہر طرح سے اور ہر طرف سے بہت کامیاب طریقوں سے جنگ کی جس کو محاورۃً چومکھی لڑائی یا جنگ کہتے ہیںاور پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ ابہام زدہ ،غیر اعلانیہ ، اور فتھ جرنیشن وار فیئرکی حامل جنگ اپنے ملک کے دفاعی محاذ پر 90 فیصد سے زیادہ جیت چکا ہے، اور جو 10 فیصد بقیہ حصہ ہے وہ فتح کے استحکام کا ہے۔
جس کو ہم نے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنا ہے، یہ جنگ اپنی نوعیت کی الگ اور دنیا کے ذہین و فطین ماہرین کی جانب سے ترتیب دی گئی جنگ ہے اور عالمی جنگ ہے، پاکستان جو بدقستمی سے اس جنگ کے آغاز پر ہی اس کا شکار ہوا اب یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اس جنگ میں کسی کا اتحادی نہیں بنے گا اور صرف اپنے ملک اور اپنے ملک کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔اب جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو 2017 میں عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکہ2.4 کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے، افغانستان میں جنگ پر امریکہ نے 2008 تک 188 ارب ڈالر خرچ کئے تھے۔
2009 سے 2019 تک دس برسوں میں مزید 787 ارب ڈالر خرچ کئے، یوں 2001 سے 2019 تک امریکہ افغانستان میں جنگ پر کل 975 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اور تقریباً 2400 امریکی یہاں مارے جا چکے ہیں، لیکن امریکہ امریکہ ہے، اردو کی ایک ضرب المثل ہے کہ’’ مرغی کو تکلے کا گھاؤ کافی ‘‘ تکلا چرخہ کاتنے والی کے پاس ہوتا ہے، یہ ایک پتلی ڈنڈی کے سرے پر شیونگ بلیڈ کا ٹکڑا بندھا ہوتا ہے جس سے دھاگہ کاتنے والی دھاگے کا سرا کاٹتی ہے، اقتصادی مالیاتی اعتبار سے پاکستان کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے۔
ا ب پاکستان کا بڑا مسئلہ اس عجیب اور ابہام زدہ جنگ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ معاشی اقتصادی استحکام کو حاصل کرنا اور دہشت گردی کی وجہ سے جن شعبوں میں پاکستان کوشدید نقصان پہنچا ہے اُس کو جلد پورا کرنا ہے۔
The post دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بڑا معرکہ اور سیاسی بحران appeared first on ایکسپریس اردو.