قسط نمبر 72
حنیف بھائی برسات کا طوفان بنے ہوئے تھے، اُن کی آنکھوں سے رنج و غم و ملال ساون کی جھڑی کی طرح بہہ رہے تھے۔ انہیں آہ و زاری روا تھی کہ بابا جی حضور نے انہیں انتہائی لاڈ پیار سے پالا تھا، ان کی ہر خواہش پوری کی تھی، وہ انہیں دوبارہ زندگی کی طرف لائے تھے، نہ صرف یہ بل کہ انہوں نے ان کی تلخ نوائی کو برداشت کیا تھا اور ہمیشہ ان کی گستاخی کو بھی درگزر کیا اور انہیں معصوم بچہ سمجھتے ہوئے معاف کیا تھا۔ وہ خود تو ان کی ہر تلخ بات کو خندہ جبیں سے سہتے تھے لیکن اگر کوئی حنیف بھائی سے گستاخی کا سوچتا بھی تو اسے بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔
فقیر کو تو اس کا تجربہ بھی تھا کہ جب اُس نے حنیف بھائی سے بدتمیزی کی تو اسے پابندِ زنجیر کیا گیا۔ فقیر اس کا بھی عینی شاہد ہے کہ بابا جی حضور اپنے اس دعوے میں کامل صادق تھے کہ انہوں نے حنیف بھائی کو ماں کی طرح پالا پوسا ہے، اور پھر حنیف بھائی کی زندگی کے سب سے بڑے خواب اُس ماہ وش سے جیون بندھن میں بندھنے کو بھی شرمندۂ تعبیر کیا تھا اور یہ سارے امور بہ حُسن و خوبی و اہتمام سر انجام دینے کے بعد بابا جی اس دنیائے ناپائیدار سے رخصت ہوئے تھے۔ اور بابا جی حضور نے ان کے لیے کیا کِیا تھا! فقیر آپ کو آگے بتائے گا۔
حنیف بھائی کا سنبھلنا مشکل ہوگیا تھا اور ان کی حالت دیکھ کر وہ ماہ وش بھی انتہائی آزردہ تھی۔ آخر لوہار بابا نے انہیں فقیر سے علاحدہ کیا اور پھر خود ان کا سہارا بنے۔ انہیں کچھ قرار آیا اور وہ گفت گُو کے قابل ہوئے تو فقیر سے بابا جی حضور کی رخصتی کی تفصیل معلوم کی، جو فقیر نے مختصر اُن کے گوش گزار کی۔
ان کا سب سے بڑا شکوہ کہ انہیں فقیر نے بروقت اطلاع کیوں نہیں دی تو فقیر نے بابا جی حضور کا خط انہیں دیتے ہوئے بتایا کہ یہ بھی بابا جی کا حکم تھا کہ آپ کو اس کی اطلاع نہیں دی جائے اور بس یہ خط آپ تک پہنچا دیا جائے سو فقیر یہ آپ کے حوالے کر رہا ہے۔ حنیف بھائی کے ہاتھ سے وہ خط اس ماہ وش نے اچک لیا تھا اور پھر تو منظر ہی بدل گیا۔ چوں کہ وہ خط بابا جی نے فقیر سے ہی رقم کرایا تھا تو فقیر اس کے مندرجات سے آگاہ تھا۔
بابا جی حضور نے انہیں نیک زندگی گزارنے اور اپنے سسرال سے انتہائی ادب و احترام کا درس دیتے ہوئے انہیں وصیت کی تھی کہ وہ کسی بھی حالت میں اپنی ساس سسر کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے، ان کی تلخ نوائی کو بھی برداشت کریں گے اور انہیں حقیقی ماں باپ سمجھتے ہوئے ان کے سامنے اُف بھی نہیں کہیں گے۔
بابا جی حضور نے انہیں اس ماہ وش سے انتہائی حسنِ سلوک کی تلقین کی تھی اور تنبہہ بھی کہ اگر انہوں نے ان کی حکم عدولی کی تو وہ روزِ قیامت ان کا گریبان پکڑیں گے، اس کے ساتھ انہوں نے حنیف بھائی کے لیے خطیر رقم بھی ایک صاحب کے پاس امانتاً رکھوائی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ ان سے یہ خط دکھا کر وصول کرلیں، کسی پر بار نہ بنیں اور اس رقم سے ایمان داری سے اپنا کاروبار کریں تو رب تعالٰی برکت عطا فرمائے گا اور انہیں کسی کا بھی محتاج نہیں رکھے گا۔
انہوں نے انہیں انتہائی تلقین کی تھی کہ وہ اپنی آمدن کا ایک حصہ روزانہ کی بنیاد پر نادار خلقِ خدا کے لیے رکھیں۔ دیگر باتیں فقیر آپ کو بتانے سے قاصر ہے۔ بابا جی حضور کا خط جو وہ ماہ وش بہ آواز بلند پڑھ رہی تھی، سُن کر حنیف بھائی پر پھر دورہ پڑا جو پہلے سے زیادہ اذیّت ناک تھا، لوہار بابا کے ساتھ فقیر اور وہ ماہ وش بھی انہیں سنبھالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے حال سے باہر ہی نہیں آرہے تھے، آخر لوہار بابا نے فقیر اور اس ماہ وش کو کمرے سے باہر نکلنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی ہم دونوں باہر آگئے۔
اندر کیا ہوا فقیر نہیں جانتا۔ باہر نکل کر اس ماہ وش نے مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے کہا: بابا جی تو رہے نہیں، اب تم بھی ہمارے ساتھ چلو، یہاں کیا کروگے ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے اس کی جانب دیکھا اور کہا: مجھے بابا جی حضور ہی لوہار بابا کے پاس چھوڑ گئے ہیں، اب وہی میرے سرپرست ہیں، انہیں چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ فقیر کی باتیں اس کے لیے ویسے ہی اجنبی تھیں اب تو حیرت بھی اس میں شامل تھی۔
خاصی دیر ہوچکی تھی کہ لوہار بابا نے ہمیں اندر بلایا، حنیف بھائی سنبھل چکے تھے۔ ماہ وش کو پیاس لگی تو اس نے فقیر سے پانی مانگا، فقیر نے گھڑے سے پیتل کے گلاس میں پانی نکال کر اسے دیا، اس نے ابھی اسے لب سے لگایا ہی تھا کہ وہ بولی: کیا پانی میں عرق گلاب ملایا ہوا ہے! اس سے پہلے کہ فقیر کچھ کہتا لوہار بابا بول پڑے: بیٹا کچھ ملایا ولایا نہیں ہے بس یہ آپ لوگوں کے آنے کی برکت ہے جو خُوش بُودار ہوگیا ہے، بس پی لو اسے اور شکر ربّی ادا کرو۔ اس نے بابا جی کی جانب دیکھا اور پانی پینے کے بعد تو وہ بابا جی سے بہ ضد تھی کہ اسے بتایا جائے کہ اس پانی میں کیا ملایا گیا ہے جو اتنا فرحت بخش ہے لیکن بابا جی مسکراتے ہوئے اپنی پہلی کہی بات ہی دہراتے رہے۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔ !
حنیف بھائی نے لوہار بابا سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ بابا جی حضور کی لحد پر فاتحہ خوانی کے لیے چلیں اور بابا جی نے ان کی بات مان لی تھی۔ کار وہ ماہ وش چلا رہی تھی ، حنیف بھائی نے بے حد اصرار کیا کہ بابا جی آگے بیٹھیں لیکن انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پچھلی نشست پر بیٹھ گئے۔ ہم سب خاموشی سے بابا جی حضور کی جائے آرام کی جانب رواں تھے۔ مخبر صادق و امین، راحت عاشقین، رحمۃ اللعالمینؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ قبر کو صرف مٹی کا ڈھیر مت سمجھو، یہ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنّم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔‘‘ پھر ہم سب جنّت کے باغ میں پہنچے سامنے کچی قبر میں بابا جی حضور محو آرام تھے۔
رنگ و خوش بُو کے، حُسن و خوبی کے
تم سے تھے، جتنے استعارے تھے
اب فقیر کہے بنا نہیں رہ سکتا کہ تھے نہیں جناب ! بہ فضلِ ربّی اب تک ہیں اور رہیں گے۔ حنیف بھائی پھر سے برسات بنے اور بابا جی حضور کی قبر اطہر سے لپٹ گئے، تھوڑی دیر بعد اس کے پہلو میں وہ سو چکے تھے۔ فقیر، بابا جی اور ماہ وش خاموش بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے چاروں اُور قبریں تھیں، کچھ تازہ بنی ہوئیں جن پر گلاب کی پتّیاں مرجھائی ہوئی پڑی تھیں اور زیادہ تر کے آثار ہی رہ گئے تھے۔
انسان کا انجام دیکھنا ہو تو قبرستان سے بہتر جگہ کوئی ہے ہی نہیں، وہ جو خلق خدا پر قہر بنے ہوئے تھے اب ان کی قبروں پر آوارہ کتّے لوٹتے رہتے ہیں اور فقیر کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ بعض کی تو ہڈیاں بھی بھنبھوڑتے ہیں اور کچھ ایسی بھی قبریں ہوتی ہیں جن کے قریب بھی نہیں بھٹکتے جی! آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرتا ہے، دیکھیے! کیا یاد آیا
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تُونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
لیکن کہنے دیجیے ناں کہ اُس سے کیا پوچھنا کہ انسان کو خود جاننا چاہیے ناں۔ کچھ قبریں تو زندہ بھی ہوتی ہیں جی، اب اس پر کیا بات کریں، جائیے قبرستان اور خود مشاہدہ کیجیے ناں۔
موت اُس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
حنیف بھائی کو بابا جی حضور کی قبرِ راحت سے لپٹے سوئے ہوئے خاصی دیر ہوچکی تھی۔ ماہ وش کو تشویش ہوئی تو اس نے بابا جی سے پوچھا، بابا جی مسکرائے اور اسے تسلی دی، لیکن زبانی تسلی سے کیا ہوتا ہے جی۔ حنیف ٹھیک تو ہیں ناں! اس مرتبہ اس نے فقیر سے پوچھا تھا۔ ہوں گے ٹھیک پتا نہیں، سنتے ہی وہ بے قرار ہوگئی۔
بابا جی نے اسے پھر تسلی دی اور صبر سے انتظار کا کہا، پھر شاید اس نے خود پر قابو پالیا تھا۔ حنیف بھائی جاگ گئے تھے تو اُسے کچھ سکون ملا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے مُسکراتے ہوئے، کبھی دیکھے ہیں ایسے نین کہ نم ہوں اور مسکراتے ہوں جی! ہمارے قریب آکر بیٹھ گئے تھے کہ فقیر نے ان سے پوچھا: ہاں جی! حنیف بھائی تو بابا جی حضور بھی آپ کو چھوڑ کر چلے گئے ؟ وہ مجھ سے لپٹ گئے تھے، میں غلط سمجھا تھا میرے بھائی وہ ہمارے ساتھ ہی ہیں، بس وہ اتنا ہی کہہ سکے تھے۔
یہ سن کر اس ماہ وش کو تسلی تو ہوئی تھی لیکن اس کی حیرانی میں اضافہ بھی ہوا تھا۔ پھر بابا جی نے انہیں تسلی دیتے ہوئے واپس اپنے گھر جانے کا کہا تھا لیکن وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر بہ ضد تھے۔ بابا جی نے انہیں تنبیہ کی تھی کہ وہ آئندہ اس طرح کی ضد نہیں کریں گے اور اگر انہوں نے اور جب مناسب سمجھا مجھے ان کے گھر صرف ملاقات کے لیے ضرور بھیجیں گے۔ انہوں نے ہمیں اپنے ٹھکانے تک چھوڑنے کی پیش کش بھی کی تھی، بابا جی نے اسے بھی رد کرتے ہوئے انہیں اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔
فقیر نے آپ کو بتایا تو تھا ناں کہ ایک درویش کی کرامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تسلیم کا پیکر ہوتا ہے، اندیشہ ہائے گوناں گوں سے ناآشنا، رب کی ساری زمین اس کا گھر ہے جی! ہم پہلے تو قبرستان میں گھومتے رہے اور پھر باہر نکل آئے۔ بابا جی میرے سوالوں کو سُلجھاتے اور کبھی اور الجھاتے چلے جارہے تھے۔ ایک بستی سے گزرتے ہوئے ہمیں دور ایک جگہ کچھ لوگ نظر آئے۔ خالی میدان تھا وہ اور اس میں ایک بڑے پختہ کمرے کے باہر مرد و زن کا ہجوم۔ فقیر نے بابا جی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بابا جی نے فرمایا: جلدی کیا ہے چل کے دیکھ لیتے ہیں بیٹا۔ تین لوگ مالائیں پہنے کھڑے تھے، کمرے میں کون تھا یہ نظر نہیں آرہا تھا۔
ان تین لوگوں میں سے ایک کو فقیر پہچان گیا تھا وہ ہماری بستی میں ہی رہتا تھا، میں نے بابا جی سے اس کا بتایا تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ہمارے قریب پہنچتے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا، بابا جی اور پابند زنجیر گیسو دراز فقیر کو دیکھ کر ہجوم ہماری طرف متوجہ ہوا، اس سے پہلے کہ بابا جی ان سے بات کرتے پانچ لوگ ہمارے سامنے آن کھڑے ہوئے، ان میں سے ایک تنومند ادھیڑ عمر جو ان کا بڑا تھا، نے پہلے تو بابا جی اور پھر میری طرف قہر آلود نظروں سے دیکھا، فقیر تو ہے ہی بے صبرا جی! اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے کچھ کہتا میں اس سے مخاطب تھا: کیا دیکھ رہا ہے تُو، پہچانتا نہیں کیا فقیر کو، یہ کیا پاکھنڈ مچایا ہوا ہے تُونے، کیوں باز نہیں آجاتا اپنی خصلت سے، کیوں معصوموں کو گم راہ کرتا اور ان کے خون پسینے کی کمائی بھی لُوٹ رہا ہے، چل اب سیدھی طرح سے اپنی راہ لے۔
فقیر نہ جانے کس رو میں یہ سب کہتا رہا، بابا کھڑے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ اس نے فقیر کو تو نظر انداز کیا اور بابا جی سے بولا: سرکار ہم بھی مرشد والے ہیں، آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔ بابا جی نے اسے خاموشی سے ایک نظر دیکھا، اس سے پہلے کہ بابا جی کچھ کہتے ان میں جو ہماری بستی کا رہنے والا تھا آگے بڑھا اور بابا جی کے پاؤں پکڑ کر بیٹھ گیا، مجھے معاف کردیں سرکار! میں نے اسے بتا دیا تھا کہ آپ کے سامنے نہ آئے لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور آپ کے سامنے آگیا، اس سے جو سلوک کرنا ہو کریں، بس مجھے معاف کردیں، میں آئندہ اس کے پاس بھی نہیں آؤں گا۔
آس پاس کے لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے، بابا جی ان لوگوں سے مخاطب ہوئے: کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو، کیا تم لوگ خدا کو بھول بیٹھے ہو، وہی ہے بس سب کا مددگار، وہی ہے کارساز و نگہہ بان، وہی ہے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے والا، وہی ہے جو ہر شے اور کام پر قادر ہے، اس کی مرضی کے بنا تو پتّا بھی نہیں ہل سکتا، وہ کبھی سوتا نہیں، ہر وقت ہر جگہ اپنی ہر مخلوق کو دیکھتا اور ان کی ہر بات سنتا ہے، وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے، بس اس سے لو لگاؤ، اسی سے مدد مانگو، اسی کے سامنے اپنا سر جھکاؤ، کوئی انسان کسی کو کیا دے گا، وہ تو خود محتاج و بے بس ہے، بس آج اور ابھی مجھ سے وعدہ کرو کہ صرف رب تعالٰی کے سامنے اپنی ہر مراد رکھو گے اور جلدی نہیں مچاؤ گے، صبر سے رہو گے اور اپنی جائز اور روا خواہش کے پورے ہونے کے لیے بس اس ذات باری تعالٰی پر یقین رکھو گے اور میں لوہار تم سب کو اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ تم سب کی حاجات پوری ہوں گی انشاء اﷲ۔
مجمع میں سکوت تھا، پھر ان میں سے بعض نے بابا جی کے پاؤں چُھونے کی کوشش کی تو بابا جی نے سختی سے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا: میں بھی تم جیسا ہی ہوں، بے بس و بے کس و محتاج، میں بھی انسان ہوں، بس اپنے پالن ہار سے لو لگاؤ، بس اسے ہی اپنا کارساز سمجھو۔ لوگ منتشر ہوگئے تھے بس اکّا دکّا ہی رہ گئے تب بابا جی اس نوسرباز سے مخاطب ہوئے: اب بتاؤ تم کون سے مرشد والے ہو ؟ کیا اُس نے ہی یہ سکھایا ہے کہ خلق خدا کو گم راہ کرو، ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کھیسے کو بھرو، حرام کھاؤ اور حرام کاری کرو، یہی سکھایا ہے تمہیں تمہارے مرشد نے، بولو۔ بابا جی کا لہجہ دوٹوک تھا، وہ اپنے ساتھیوں سمیت زمین پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا۔
اس کا کوئی جواب نہ سن کر بابا جی نے اسے اپنا فیصلہ سنادیا: تمہارے پاس سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے، اپنا سامان اٹھاؤ اور جاؤ اور سنو کسی اور جگہ پھر سے یہ مکروہ دھندا شروع کرنے کا سوچنا بھی مت، کام کاج کرو اور اپنا پیٹ رزق حلال سے بھرو، اگر تم نے ان باتوں پر عمل نہ کیا تو اپنے نقصان کے خود ذمّے دار ہوگے۔ بابا جی نے فقیر کا ہاتھ پکڑا اور ہم اپنی راہ لگ گئے۔ فقیر نے دور جاکر مڑ کر ان سب کو دیکھا تھا جو بُت بنے وہیں کھڑے ہمیں جاتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ راستے میں بابا جی نے فقیر کو چھیڑا: بیٹا جی! تم سے میں بہت خائف ہوگیا ہوں۔ میں نے پوچھا کیوں بابا جی، تو ہنس کر بولے تم جس لہجے میں اس سے بات کر رہے تھے تو لگا تھا کہ اب تو کسی کی خیر نہیں ہے۔ پتا نہیں کیسے اور کیوں بلا سوچے سمجھے بس بولتا چلا گیا میں بابا جی۔
وہ پورا دن حنیف بھائی کی نذر ہوگیا تھا اور وقت عصر کی ابتدا ہوچکی تھی کہ بابا جی نے فقیر سے کہا: تم گھر جاؤ میں کچھ دیر بعد آؤں گا۔ فقیر نے پہلی مرتبہ ان سے پوچھ لیا کہاں جاتے ہیں آپ روزانہ ؟ جواب تو کوئی نہیں دیا بس اتنا فرمایا: ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا! کہتے ہوئے بابا جی اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.