میکسم گورکی کا شاہ کار ’’ماں‘‘ پڑھیے، پھر جارج آرویل کے ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کا مطالعہ کیجیے، پہلی کتاب پڑھ کر آپ کو پتا چلے گا کہ روس میں کمیونسٹ انقلاب کیوں آیا اور دوسری بتائے گی کہ کیوں گیا۔ یہ تخلیقات ہمیں ’’جب لال لال لہرائے گا، تب ہوش ٹھکانے آئے گا‘‘ کے فضا میں لہراتے نعرے سُن کر یاد آئیں۔
روس وہ پہلا ملک تھا جہاں لال لال لہرایا تھا، پھر ہوش ٹھکانے آیا تھا۔ ابھی کوئی دو سال قبل روس میں برپا ہونے والے انقلاب کو سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ادھر یہ انقلاب اَڑا اَڑا دھم ہوا، ادھر اس کی ڈوریوں سے بندھی ریاست سوویت یونین نئی نویلی بیوہ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹ بکھری۔ اس انقلاب کی یاد کیا آئی ساتھ یادوں کی برأت چلی آئی۔
پہلی یاد سرخ سویرے کی تھی، جس کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ جب بھی پوپھٹے ہی آنکھیں مچ مچا کر آسمان کی طرف دیکھا، وہی داغ داغ سویرا اور شب گزیدہ سحر کا منظر تھا۔ ناامید ہوگئے، اور پچھلی گلی میں جاکر اطلاع کردی کہ کچھ دن اور مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سرخ سویرا آیا کہ آیا، انتظار میں جاگتی آنکھیں جاگ جاگ کر سرخ انگارہ ہوگئیں، سرخ سویرے کو آنا تھا نہ آیا۔ ویسے ہمارے ایک زاہدِ شب بیدار دوست بتاتے ہیں، ’’میاں! سرخ سویرا کئی بار آیا۔
ہم نے خود دیکھا ایمان سے اور دیکھ کر ایسے ڈرے کہ دروازے پر لگی نام کی تختی سے حاجی کا سابقہ کھرچ کر کامریڈ لکھ دیا۔ سوچ لیا کہ داڑھی کی تراش خراش چھوڑ دیں گے اور پھر ہماری ریش مبارک جو شکل اختیار کرے گی اسے مارکس کی محبت کے ثبوت کے طور پر پیش کریں گے۔
ابھی ہم خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ دیکھا سرخ سویرا الٹے پاؤں واپس جارہا ہے۔ پوچھا بھیے! کیا ہوا، کہاں چلے؟ جواب ملا، ارے جاؤں نہ تو کیا کروں، جو میرے انتظار میں تھے، جنھیں میرا استقبال کرنا تھا، ان میں سے زیادہ تر رات سرخی میں ڈوب کر اس کا خمار لیے سو رہے ہیں۔ ‘‘
اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ سرخ سویرا بددل ہوکر نہیں آیا۔
سرخ سویرے کی طرح ایک سرخ سلام بھی ہوا کرتا تھا۔ سلام اگرچہ سبز ہے، یعنی اسلامی رواج ہے اور سلام کرتے ہوئے دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے، لیکن بائیں بازو کے ہتھے چڑھ کے اس کی رنگت بدل گئی۔ ایک سلام کیا، حضرت غلام احمد پرویز نے تو پورا سرخ اسلام پیش کردیا تھا۔
بہ ہر حال، ایک زمانے میں سرخ سلام سے دیواریں رنگی ہوتی تھیں۔ اب کراچی کی دیواروں پر تو یہ نعرے کالے جادو کے اشتہارات اور مردانہ کم زوری کے شرطیہ علاج کی تحریروں کے پیچھے کہیں کھوچکے ہیں، باقی شہروں کی خبر نہیں۔
ہمارے کمیونسٹوں کے پاس جس طرح ’’ریڈسلیوٹ‘‘ کا نعم البدل نہیں تھا اور انھیں ’’رجعت پسندوں‘‘ کا سلام اچک لینا پڑا، اسی طرح ان کے پاس اپنے مقتولوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئی اصطلاح نہ تھی، سو اسلامی روایت سے شہادت اور شہید پر ہاتھ صاف کیے گئے۔ یوں تو شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن لیکن جن دنوں کا ذکر ہے ان دنوں مومنوں کی شہادت پر پابندی تھی اور ایک مذہبی جماعت کے بانی پھانسی سے بال بال بچے تھے، اس جماعت کے بال بچے بھی خیریت سے تھے۔ شہادت انھیں مطلوب ہوگئی جنہیں جنت کی آس بھی نہیں تھی۔ چناں چہ حسن ناصر اور نذیر عباسی کو حراست میں لے کر منزل مقصود تک پہنچا دیا گیا، اور جام ساقی جیسے کتنے ہی سرخے برسوں کال کوٹھریوں کے اندھیرے میں سرخ سویرا ڈھونڈتے رہے۔
خیر ہوئی کہ اس وقت تک ہمارے سرخوں نے دیگر اسلامی اصطلاحات کا رخ نہیں کیا تھا، ورنہ افغانستان پر سوویت یلغار جہاد قرار پاتی، نکسل باڑی مجاہدین کہے جاتے، پارٹی کا چیئرمین امیرالمزدور کا خطاب لیے مسند نشیں ہوتا، اور اگر پاکستان میں سرخ انقلاب آجاتا تو ملک کا سربراہ خلیفۃ المحنت کشاں کہلاتا۔ یہ اصطلاحات سرخوں سے تو بچ گئیں، لیکن امریکی سیاہ کاریوں کے کام آگئیں۔
ارے امریکی سے یاد آیا، ایک امریکی سام راج بھی ہوا کرتا تھا۔ بہت دنوں سے اس کا ذکر نہیں سنا، جانے کہاں گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب جماعت اسلامی سمیت پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو امریکا پر غصہ نہیں آیا تھا، نہ جمعہ وار امریکا مخالف بے ضرر اور معصوم سے مظاہرے تھے، نہ ا اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ امریکی پرچم جلنے کے نظارے۔ دراصل اس زمانے میں شہادت کی طرح امریکا کی مخالفت اور مذمت بھی کمیونسٹوں، بائیں بازو یا ترقی پسندوں (جنھیں اس وقت ترقی پسند نہیں تھی، بعد میں انھوں نے بہت ترقی کی) کا فریضہ قرار پائی تھی۔ یہ مخالفت مملکت خداداد پر حملہ تصور کی جاتی تھی، اور کیوں نہ کی جاتی کہ ایک طرف یو ایس ایڈ تھی اور دوسری طرف غریب ریڈ کامریڈ۔
کامریڈ امریکی سام راج کی مختلف ملکوں میں مداخلت کے خلاف احتجاج کرنا فرض عین سمجھتے تھے (مگر اب کوئی ایسا کرے تو تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ توکا قوم پرستانہ مشورہ دیا جاتا ہے)، مداخلت کا مطلب صرف امریکی مداخلت تھی، سوویت یونین کی افغانستان سمیت کسی بھی ملک میں دخل اندازی پر نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی کامریڈ پسند نہیں کرتے تھے۔ وہی بات، شہادت کے لفظ کی طرح مسلمانی کلیہ اپناتے ہوئے قرار دے دیا گیا تھا کہ۔۔۔ ’’سرخے‘‘ ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا۔
سوویت یونین کے زوال کے ساتھ ہی اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے کے مصداق امریکی سام راج بھی شاید نہ رہا کہ اس کے خلاف نعرے معدوم ہوگئے، بل کہ ہوا یوں کہ جیسے کوئی کھلونا ایک بچے کے کھیلنے کے بعد دوسرے کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح یہ نعرے بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو کے ہاتھ پر رکھ دیے گئے، کہ ببلو کھیل چکا، لو منے! اب تم کھیلو، پھر یہ کھیل منے نے کھیلا، بس سام کی جگہ دشمن اسلام کی لفظی تبدیلی کے ساتھ۔ اس دوران ایک روز اکثر کمیونسٹوں کو اچانک پتا چلا کہ ارے ہم تو لبرل ہیں، پھر تو یہ پہچاننا مشکل ہوگیا کہ امریکی بیانیہ پیش کرتا یہ ماضی کا سرخ نوجوان ہے یا وہائٹ ہاؤس کا بزرگ ترجمان۔
اُس وقت کمیونسٹ کا مطلب ملحد، تخریب کار اور غدار لیا جاتا تھا اور طبقاتی تقسیم کا ذکر نظریہ پاکستان پر حملہ ہوا کرتا تھا، جس کا جواب ضرب لگا کر دیا جاتا تھا۔ ایسا کرنے سے امریکی سردار خوش ہوتا تھا اور شاباشی دیتا تھا۔
پاکستان کی خوش نصیبی کہ یہاں کمیونزم اور سوشلزم لانے کا بیڑا سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداروں نے اٹھایا، انھوں نے سوچا کہ مزدوروں اور کسانوں کے ناتواں کاندھے کہاں یہ بوجھ اٹھا پائیں گے، سو جھٹ آگے بڑھ کے سرخ پرچم تھام لیا۔ پھر کسی نے دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ کا نعرہ لگاتے کمیونزم کو علاقائی قوم پرستی میں ضم کردیا تو کوئی سوشلزم کو اسلام کا سابقہ لگا کے کھاگیا۔
ایسے میں جب نظریاتی بحثوں میں سر دھنتے اور ماسکونوازی اور پیکنگ نوازی میں سے کسی کو چُنتے کَھرے سرخوں نے ہوش میں آکے نظر اٹھائی تو سر پر سوویت یونین تو کیا ٹریڈ یونین کا سایہ بھی نہیں تھا، سرخ پرچم لال چنری بنا ہوا میں اڑ چکا تھا، امریکا مخالف نعرے مذہبی جماعتوں نے ہتھیا لیے تھے، سورگ باشی سوویت یونین کی ہمارے ہاں موجود آخری نشانیوں میں سے کلاشنکوف بچی تھی یا پاکستان اسٹیل ملز، اسٹیل مل مر رہی تھی اور کلاشنکوف مار رہی تھی۔ اس مایوس کن صورت حال میں کسی سرخے نے این جی او کی نوکری پکڑی، تو کسی نے ’’موت کا منظر‘‘ اور ’’مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ ‘‘ جیسی کتابیں تھامیں اور مسجد کی راہ لی۔ باقی بچنے والے وہ تھے جو رکھے رکھے دانش ور بن چکے تھے، اب وہ کمیونسٹ لٹریچر سے فال نکال کر مختلف ممالک میں سرخ انقلاب آوے ہی آوے کی پیش گوئیاں کرتے اور خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔
ہائے وہ بھی کیا دن تھے، لوگ سام راج، کام (ریڈ) راج اور شیخ الاسلام راج کی بحثوں میں الجھے رہتے تھے اور ان کی الجھنیں اور معاملات سلجھانے یونیفارم راج آجاتا تھا۔ سرخے اور سبزے اس حقیقت سے بے خبر ہی رہے کہ اس دیس پر بس یونیفارم راج رہے گا، اور اس سچ سے آشنا نہ ہوسکتے کہ پاکستان سرخ ہے نہ سبز، یہ تو خاکی ہے اور علامہ اقبال فرما ہی چکے ہیں کہ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
The post ہائے وہ سُرخ یادیں appeared first on ایکسپریس اردو.