بل گیٹس۔۔۔دولت کا استعارہ، بڑھتے گھٹتے ذاتی زر کے انبار کی دنیا میں ان لمحوں کے دوران جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں وہ دنیا کے امیرترین شخص ہیں، اور اقوام عالم کے دس دولت مند ترین افراد کی فہرست میں تو وہ 1987میں شامل ہونے کے بعد اس کا حصہ بن چکے ہیں۔
بل گیٹس کی ایک اور پہچان ان کی انسان دوستی ہے۔ خیرات، غریبوں کی فلاح، مفلسوں کا درد۔۔۔دیوتا سمان۔ ہمارے ہاں بھی اِس ’’دیوتا‘‘ اور اس جیسے مقامی دیوتاؤں کی غریب پروری اور ’’دسترخوانوں‘‘ کے بڑے چرچے ہیں۔ بل گیٹس اور ان جیسے دیگر دیوتاؤں کے نام کی مالا جپنے والے یہ سوچنا اور کہنا بھول جاتے ہیں کہ دیوتا بھینٹ بھی لیتا ہے۔
جہاں تک بل گیٹس کا تعلق ہے تو ان کے زر کی چمک سے روشن چہرے کو دکھی انسانیت کی خدمات مزید منور کررہی ہیں۔ لیکن اس دمکتے چہرے کے پیچھے اور ایک چہرہ بھی چھپا ہے، بہت تاریک، بڑا خوف آئیے، پردہ اٹھا کے دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کی یونی ورسٹی آف ایسیکس میں سماجیات کی استاد اور عالمی ادارۂ صحت کی سابق مشیر لنزی مگوائے (Linsey McGoey) کی کتاب ’’ No Such Thing as a Free Gift‘‘ بلین ٹریلین پتی افراد کی جانب سے خیرات اور عطیات کو اپنے مالی مفادات اور اختیارات کے لیے بہ طور آلہ استعمال کرنے کا حربہ قرار دیتی ہے۔ یہ کتاب راک فیلر کی ’’انسان دوستی‘‘ سے بل گیٹس کی ’’غریب پروری‘‘ تک سرمایہ داروں کی دریا دلی کے پیچھے چھپی سنگ دلی کا احاطہ کیے ہوئے ہے، تاہم اس تصنیف کا بڑا حصہ بل گیٹس کی فلاحی سرگرمیوں کے پیچھے چُھپی حقیقت سامنے لاتا ہے۔
اس کتاب سے باہر بھی مائیکروسوفٹ کے شریک بانی کی بدی کو فروغ دیتی تجارتی سرگرمیوں اور سماجی خدمات کے نام پر کیے جانے والے بیوپار کے حقائق سامنے آتے رہے ہیں، مگر عالمی میڈیا بل گیٹس کی سنہری تصویر میں کوئی سیاہ نکتہ بھی شامل کرنے کو تیار نہیں، سو یہ حقائق چھپا لیے جاتے ہیں، مگر میڈیا کے مرکزی دھارے سے پَرے بہت سی سچائیاں اور ان کہی کہانیاں سامنے لاتے ذرائع ابلاغ ڈھول کا پول کھول ہی دیتے ہیں۔
بل گیٹس کی انسان دوستی ان کا روشن ترین حوالہ ہے۔ وہ نیک مقاصد کے لیے بھاری چندے دینے والے دیالو کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی ’’بِل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن‘‘ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیموں میں شمار ہوتی ہے۔ بل گیٹس اور ان کی اہلیہ میلینڈا نے یہ ادارہ 2000 میں مالیت چالیس بلین ڈالر کی مالیت پر مبنی اثاثوں کے ساتھ قائم کیا تھا۔
اس ادارے کے مرکزی ٹرسٹیوں میں اس جوڑے کے ساتھ ایک اور امریکی سرمایہ دار وارن بفے (Warren Buffett) ہیں۔ اس فاؤنڈیشن کے بنیادی مقاصد میں عالمی سطح پر غربت میں کمی اور حفظان صحت کے لیے اقدامات شامل ہیں، جب کہ امریکا میں تعلیم کے مواقع اور انفارمیشن ٹیکنالوجی تک غریب نوجوانوں کی رسائی بھی اس ادارے کا ہدف تھا۔ یہ فاؤنڈیشن جن اہم اداروں کو مالی عطیات دیتی رہی ہے ان میں GAVI Alliance,WHO, The Global Fund to Fight AIDS,TB and Malaria,PATH, UNICEF AGRA,United Nations Foundation. شامل ہیں۔
بل گیٹس اس قدر دولت مند ہیں کہ وہ اپنی دولت کا 37 فی صد حصہ بھی دان کردیں تو دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہوجائے، مگر انھوں نے براہ راست بھوک اور افلاس مٹانے پر رقم خرچ کرنے کے بہ جائے ایسی کارپوریشنوں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
جن میں سے بہت سی صحت کے وہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں جنھیں سے نبردآزما ہونے کے بل گیٹس دعوے دار ہیں۔ بل گیٹس کا سرمایہ ایسی 69 کمپنیوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے جو امریکا اور کینیڈا میں آلودگی بڑھانے میں سب سے آگے ہیں۔ ان میں ڈاؤ کیمیکل (Dow Chemical) بھی شامل ہے۔ یہ کمپنی اُن ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار میں حصہ دار ہے جن کی ایڈز کے لیے بنی دوائیں اپنی گراں قیمت کے باعث دنیا بھر کے غریب ایڈززدگان کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔
بِل اینڈ میلینڈاگیٹس فاؤنڈیشن (BMG F) نے 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ان مشہور زمانہ آئل فرمز میں کر رکھی ہے جو فضائی آلودگی بڑھانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی کمپنیوں کو مقامی آبادی میں سانس کے امراض بڑھنے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ عالمی میڈیا بل گیٹس کا صرف روشن چہرہ ہی سامنے لاتا ہے، مگر کبھی کبھی کہیں کہیں ان سے جُڑے دیگر حقائق کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ جیسے برطانوی اخبار گارڈین کی ویب سائٹ پر 19مارچ 2015 کو شایع ہونے والی رپورٹ میں مائیکروسوفٹ کے بانی کی طرف سے آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے۔
اب آتے ہیں بل گیٹس اور ان کی فاؤنڈیشن سے جُڑے حساس ترین معاملے کی طرف یعنی پولیو ویکسینیشن۔ بی ایم جی ایف بھارت اور پاکستان میں بچوں کو پولیو ویکسین کی بڑے پیمانے پر جاری مہم کو بھرپور مالی معاونت فراہم کرتی ہے اور فاؤنڈیشن ان دونوں ملکوں سے پولیو کے مکمل خاتمے کو اپنا مقصد باور کراتی ہے۔ اس مہم میں بچوں کو پولیو ویکسین کی دو قسموں میں سے ایک ’’او پی وی‘‘ (Oral Polio vaccine) دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گیٹس فاؤنڈیشن کی کی پولیو ویکسینیشن مہم کے باعث ہزاروں کی تعداد میں ’’اے ایف پی‘‘ (Acute Flaccid paralysis) کے کیسز سامنے آئے۔ اے ایف پی کا مرض جسم میں قوت مدافعت گھٹانے اور معذوری کا سبب بنتا ہے۔
گیٹس فاؤنڈیشن کی طرف سے ڈائن کارپ (DynCorp) میں دو اعشاریہ پانچ ملین ($2.5) ملین کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ عسکری سازوسامان اور خدمات فراہم کرنے والی اس کمپنی کو دھوکادہی، بدانتظامی کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں لوگوں کو غلام بنا کر رکھنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ ڈائن کارپ میں عراق کی جنگ میں بھی امریکا کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ اس کمپنی پر انسانی حقوق پامال کرنے اور افغانستان میں کم عمر لڑکوں کو نسوانی لباس پہنواکر رقص کروانے جیسے مکروہ افعال کے بھی الزامات ہیں۔ اسے بوسنیا میں جنسی غلامی کے دھندے میں بھی ملوث گردنا جاتا ہے۔ بوسنیا میں اس کمپنی کے ملازمین پر ایک بارہ سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کے الزام میں فردجُرم عاید کی گئی تھی۔
’’گولڈن رائس‘‘ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے یا مصنوعی طریقے سے پیدا کیا جانے والا چاول ہے، جسے مصنوعی زرعی اجناس کا کاروبار کرنے والی کارپوریشنز، جیسے Monsanto، فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں، جس کا مقصد مصنوعی طریقے سے پیدا کی جانے والی اجناس کو تیزی سے قابل قبول بنانا ہے۔ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے اُگائی جانے والی فصلیں کسانوں میں بھوک بانٹ رہی ہیں۔ ان کے باعث افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں کسانوں کی بہت بڑی تعداد افلاس سے تنگ آکر خودکشی کر چکی ہے۔
بل گیٹس کے Monsanto میں پانچ لاکھ حصص ہیں، جن کی مالیت 23 ملین ڈالر ہے۔ افریقہ میں بھوک کے خاتمے کی آڑ میں وہاں یہ جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے اگایا جانا والا چاول درحقیقت وہ آلہ ہے جس کی مدد سے امریکی کی زرعی کمپنیوں کے لیے افریقی منڈیاؓں حاصل کی جارہی ہیں۔ قبضے کی اس مہم میں، جس کا پہلا شکار کسان ہورہے ہیں، بل گیٹس امریکا کی زرعی کمپنیوں کے مددگار ہیں۔ افریقی ملک گھانا میں مقبول ترین خبررساں ویب سائٹ ’’نیوزگھانا‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق گیٹس فاؤنڈیشن نے گھانا سمیت افریقہ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں اگانے کے منصوبے کے حق میں مہم چلانے کے لیے 400 سائنس دانوں اور صحافیوں کی معاوضے پر خدمات حاصل کی ہیں۔
جی اے وی آئی (Global Alliance for Vaccines and Immunization) اور بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن، یونیسیف کے ماتحت تیسری دنیا کے ممالک میں چلنے والی ویکسینیشن کی مہم کو مالی اعانت فراہم کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں آزمائشی مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں۔ ب
ھارتی ریاستوں آندھرا پردیش اور گجرات میں قدیم قبائل کے تیس ہزار بچوں پر ایچ پی وی ویکسین (human papillomavirus vaccine) آزمائی گئی، جن میں سے بہت سے بچے بیمار ہوگئے، اور 2010میں ان میں سے سات کی موت واقع ہوگئی، جب کہ متاثرہ بچے بانجھ پن کا شکار بھی ہوگئے۔ کیا بچوں کی یہ حالت محض اتفاق تھا؟ جی نہیں۔بل گیٹس ان لوگوں میں شامل ہیں جو دنیا کی آبادی ’’بہ ہر طور‘‘ گھٹانے کے لیے بڑے پُرجوش ہیں۔
2010 میں امریکا کی میڈیا تنظیم ٹی ای ڈی (ٹیکنالوجی، انٹرٹینمینٹ، ڈیزائن) کے زیراہتمام کیلیفورنیا میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بل گیٹس نے دنیا کی آبادی گھٹانے کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار یوں کیا،’’دنیا کی آبادی اس وقت 6 ارب 8 کروڑ ہے، جو تقریباً 9 بلین ہونے کی طرف گام زن ہے۔ اب اگر ہم نئی ویکسین، حفظان صحت اور تولیدی صحت، کے ساتھ کچھ نیا کریں تو ہم اسے (آبادی) شاید 10سے 15 فی صد تک گھٹا سکتے ہیں۔‘‘ بل گیٹس کے یہ الفاظ وکی پیڈیا کی ذیلی ویب سائٹ وکی میڈیا سمیت کئی سائٹس پر موجود ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ویکسین، حفظان صحت کے شعبے اور تولیدی صحت کے ساتھ ایسا کیا کیا کرنے کا ارادہ ہے یا کیا جارہا ہے جس سے آبادی کم ہوجائے گی؟
عالمی سازشوں پر کئی کتابوں کے مصنف F. William Engdahl، جن کا تعلق امریکا سے ہے، اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’’Bill Gates talks about ‘vaccines to reduce population’‘‘ کی ابتدا بل گیٹس کے آبادی گھٹانے سے متعلق مذکورہ الفاظ سے کرتے ہوئے بڑی تفصیل سے عالمی اُمرا کے کلب اور کارپوریشنوں کی جانب سے افریقہ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایسی فصلیں متعارف کرانے پر روشنی ڈالتے ہیں جو انسانوں اور مویشیوں کے لیے مضر ہیں۔ اس منصوبے کو بل میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بھرپور مالی اعانت حاصل ہے۔
اب آتے ہیں بل گیٹس کی پہچان مائیکرو سوفٹ کی طرف۔ اگرچہ بل گیٹس اس کمپنی کی سربراہی سے سبک دوش ہوچکے ہیں مگر اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن، پانچ بڑے حصص داروں میں شامل اور تیکنیکی مشیر کے طور پر اور شریک بانی کی حیثیت سے اس کمپنی میں نمایاں ترین حیثیت اور اثرورسوخ رکھتے ہیں، اور مائیکروسوفٹ فلسطینیوں کو کچلنے میں اسرائیل کے ساجھے دار بن چکی ہے۔
اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والے فلسطینی اپنے چہروں کو ڈھانپ کر سڑکوں پر نکلتے اور اسرائیلی ظلم وجبر کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ ان کی پہچان کے لیے اسرائیل اب تک روایتی طریقے استعمال کرتا رہا، اور اب مائیکروسوفٹ کی معاونت نے صہیونی ریاست کا کام آسان کردیا ہے۔
امریکی نیوزنیٹ ورک این بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق مائیکروسوفٹ نے اسرائیلی فرم AnyVision میں 78 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ فرم مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی خفیہ طور پر چہرہ شناسی (Facial Recognition ) کا کام کرتی ہے۔ AnyVision نے نہایت جدید سوفٹ ویئرسسٹم بنایا ہے جس کی مدد سے لائیو کیمرے اور اسمارٹ فون سے کھینچی جانے والے تصاویر میں نظر آنے والے شخص یا شئے کی بہ آسانی شناخت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اسے ڈھونڈنا اور ہدف بنانا مشکل نہیں رہتا۔
بل گیٹس کی انسانیت دشمن سرگرمیوں میں مصروف کمپنیوں میں حصہ داریاں، سیاہ منصوبوں کی مالی اعانت اور ویکسین کے ذریعے آبادی گھٹانے کا تصور سب محض الزامات ہوسکتے ہیں، لیکن نریندرمودی جیسے مسلمانوں کے قاتل، مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی تاریخ رقم کرنے والے اور بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے سرگرم حکم راں کو بل میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی طرف سے ایوارڈ ملنے کو کیا نام دیا جائے؟ مودی کو رواں سال بھارت میں بیت الخلاء تعمیر کرنے کے منصوبے پر یہ اعزاز عطا کیا گیا ہے۔
اس ایک اقدام ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بل گیٹس انسانی فلاح کے امور میں دست گیری اور خلق خدا پر ظلم اور اس کے استحصال میں ہاتھ بٹانے کا کام ایک ساتھ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، دیش میں غریبوں کے لیے بیت الخلاء بناتے اور بھارت کی فضاء کو نفرت کی بدبو سے بھرتے نریندرمودی کی طرح۔
The post بِل گیٹس کا دوسرا چہرہ appeared first on ایکسپریس اردو.