’’میں اس لیے پریشان نہیں کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اب میں کبھی تم پر اعتماد نہیں کرسکتا۔‘‘ (جرمن فلسفی نطشے)
یہ 2016ء کے موسم بہار کی بات ہے، ممتاز امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ سے منسلک انویسٹی گیٹیو رپورٹر، کریگ وٹلوک کو ایک ذریعے سے اطلاع ملی کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل فلین نے افغان جنگ کے متعلق انٹرویو دیا ہے۔ جنرل فلین ایک سال تک افغانستان میں اتحادی فوج کا ڈائریکٹر انٹیلی جنس رہا تھا۔
پھر اس زمانے میں بڑھ چڑھ کر امریکی صدارتی الیکشن میں قوم پرست امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کررہا تھا۔ کریگ کو احساس ہوا کہ جنرل فلین نے یقیناً انٹرویو میں افغان جنگ سے متعلق اہم معلومات افشا کی ہوں گی۔امریکی صحافی نے چھان بین کی تو پتا چلا کہ جنرل نے امریکی سرکاری ادارے’’اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘‘ کے ایک اہل کار کو انٹرویو دیا ہے۔
یہ ادارہ 2008ء میں امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) نے تشکیل دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت افغانستان میں جاری جنگ پر جو اخراجات کررہی ہے، اس پہ نظر رکھی جاسکے۔ معلوم ہوسکے کہ ڈالر درست طور پر خرچ ہورہے ہیں اور کسی بھی جگہ کوئی کرپشن تو نہیں ہو رہی۔
امریکا نے اواخر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ مدعا یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کوگرفتار کرکے وہاں سے القاعدہ کا وجود مٹایا جاسکے۔ لیکن امریکی حکمرانوں کی چھیڑی یہ جنگ تاحال جاری ہے۔ یہ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی اور اب بھی اس کا انت دکھائی نہیں دیتا۔
اس جنگ پر امریکا ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) خرچ کرچکا جبکہ غیر جنگی اخراجات بھی ایک ٹریلین ڈالر کی حد پھلانگ چکے۔اسی جنگ نے 2,419 امریکی فوجی ہلاک کر ڈالے جبکہ مقتولین کی مجموعی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہو چکی۔ اس تعداد میں چالیس ہزار شہری بھی شامل ہیں۔
درخواست مسترد ہوئی
کریگ وٹلوک نے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کے دفتر میں درخواست دی کہ جنرل (ر)مائیکل فلین کا انٹرویو درکار ہے۔ امریکی صحافی کا استدلال تھا: ’’افغان جنگ ہماری تاریخ کی طویل ترین لڑائی بن چکی۔ لہٰذا امریکی عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ایک اہم سابق جرنیل نے اس جنگ کی بابت کیا کہا۔‘‘ یہ درخواست امریکی قانون، فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت 24 اگست 2016ء کو دائر کی گئی۔شروع میں متعلقہ عملے نے کریگ سے وعدہ کیا کہ عنقریب اسے جنرل کے انٹرویو کا متن اور ریکارڈنگ بھی مل جائے گی۔
عملے ہی سے کریگ کو آگاہی ملی کہ ادارے نے ایک خفیہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘ (Lessons Learned) شروع کررکھا ہے۔ جنرل نے اسی کلاسیفائیڈ منصوبے کے لیے انٹرویو دیا تھا۔ یہ منصوبہ 2014ء سے جاری تھا۔ اس کے تحت افغان جنگ سے منسلک کئی سابق فوجی افسروں، اعلیٰ سول افسروں اور سفارت کاروں سے انٹرویو ہوچکے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ افغان جنگ کے دوران امریکی فوج اور حکومت، دونوں سے جو غلطیاں ہوئی ہیں، وہ سامنے آسکیں اور پھر غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ ان سے بچا جائے۔
عملہ جنرل کا انٹرویو ریلیز کرنے کی تیاری میں تھا کہ 8 نومبر 2016ء کو ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی الیکشن جیت لیا۔ جلد ہی یہ خبر گردش کرنے لگی کہ نئے صدر جنرل (ر) فلین کو اپنا مشیر قومی سلامتی بنانا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کے بعد سرکاری ادارے کے عملے نے کریگ کی ای میلوں حتیٰ کہ ٹیلی فون کالوںکا جواب دینا چھوڑ دیا۔ ادارے کی ایک ترجمان، جینفر جارج نے صحافی کو بذریعہ ای میل بتایا ’’مجھے افسوس ہے، میں آپ کی فرمائش پوری نہیں کرسکتی۔ دراصل ہمارے وکیل ہمیں کچھ نہیں بتارہے۔
بس یوں سمجھیے میں دیوار سے ٹکریں مار رہی ہوں۔‘‘24 جنوری 2017ء کے دن صدر ٹرمپ نے جنرل (ر) فلین کو مشیر قومی سلامتی مقرر کردیا۔ اگلے ہی روز کریگ کو اسپیشل انسپکٹر کے دفتر سے یہ ای میل موصول ہوئی کہ اسے مطلوبہ انٹرویو فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ ادارے نے ایک مجہول سے قانون کی بنیاد پر انکار کیا تھا۔ اب کریگ کو یقین ہوگیا کہ جنرل (ر) فلین کے انٹرویو میں یقیناً تہلکہ خیز انکشافات پوشیدہ ہوں گے۔
عدالتی جنگ کا آغاز
کریگ وٹلوک نے پھر اپنے سینئر ایڈیٹروں سے رابطہ کیا اور انہیں سارا واقعہ سنایا۔ انہیں بھی احساس ہوا کہ اسپیشل انسپکٹر کا جاری خفیہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘ اہم سرکاری دستاویز ہے۔ لہٰذا امریکی عوام اس منصوبے سے حاصل شدہ سبق اور معلومات جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ اس بار اسپیشل انسپکٹرکے دفتر یہ درخواست دائر کی گئی کہ ’’جو سبق ملے‘‘ منصوبے میں شامل تمام انٹرویوز کے متن اور ریکارڈنگ عوام کی دسترس میں دے دی جائیں۔
عملے نے دوبارہ آغاز میں وعدہ کیا کہ انٹرویوز کی تفصیل واشنگٹن پوسٹ کو مل جائیں گی مگر وہ پھر لیت و لعل سے کام لینے لگا۔ مختلف حیلے بہانوں سے کریگ اور دیگر رپورٹروں کو ٹرخادیا۔ آخر انہیں احساس ہوگیا کہ سرکاری ادارہ اپنے منصوبے کی کوئی تفصیل عیاں کرنے کے موڈ میں نہیں۔ یہ یقینی تھا کہ منصوبے کے طشت ازبام ہونے سے افغان جنگ میں امریکی حکمران طبقے کی کوتاہیاں اور غلطیاں عوام کے سامنے آسکتی تھیں۔ اسی لیے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے خفیہ منصوبہ عوام میں مشتہر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکی اخبار کے ایڈیٹر سمجھتے تھے کہ صحافت کی بنیادی ذمے داری سچ عیاں کرنا ہے۔ اس باعث طے پایا کہ فیڈرل کورٹ سے رجوع کیا جائے۔ اب وہ عدالت کی مدد چاہتے تھے تاکہ قانونی فیصلہ انسپکٹر جنرل کے ادارے کو اپنا خفیہ منصوبہ عوام کے سامنے عیاں کرنے پر مجبور کردے۔ یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا کہ ماضی میں امریکی سپریم کورٹ حکومت اور پریس کی ایک اور زبردست عدالتی جنگ کے دوران صحافت کے حق میں فیصلہ دے چکا تھا۔اس تاریخی فیصلے کی تفصیل یہ ہے کہ 17 جون 1967ء کو امریکی وزیر دفاع، رابرٹ میکنمارا نے ’’ویت نام اسٹڈی ٹاسک فورس‘‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا۔ منصوبے سے منسلک تاریخ دانوں کو ویت نام جنگ کی تاریخ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ مورخین میں عسکری و سول افراد شامل تھے۔
پینٹاگون پیپرز کی تاریخ
خفیہ منصوبہ جاری کرنے کا مقصد یہ تھا کہ امریکی حکومت اور فوج سے ویت نام جنگ کے دوران جو غلطیاں ہوئی ہیں، وہ نمایاں ہوجائیں۔ مستقبل کے حکمران پھر اپنی جنگیں چھیڑتے ہوئے ان غلطیوں سے بچ سکتے تھے۔خفیہ منصوبہ 1968ء کے اواخر میں ختم ہوا۔ منصوبے کے تحت دستاویز کی 47 جلدیں تیار ہوئیں۔ ان ضخیم جلدوںکے تین ہزار صفحات جنگ کے تاریخی تجزیوں سے متعلق تھے۔ چار ہزار صفحات میں سرکاری دستاویزات کا تذکرہ تھا۔ اس دستاویز کو ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ اور ’’حساس‘‘ (Sensitive) قرار دیا گیا۔ دستاویز کی 15 کاپیاں تیار ہوئیں جن میں سے دو مشہور امریکی تھنک ٹینک تنظیم، رینڈ کارپوریشن کو فراہم کی گئیں۔ امریکی حکومت کے تین اعلیٰ افسروں کی ضمانت کے بعد ہی کوئی ان کاپیوں کا مطالعہ کرسکتا تھا۔
ویت نام اسٹڈی ٹاسک فورس منصوبے کی تحقیق کا نمایاں ترین نکتہ یہ دھماکا خیز انکشاف تھا کہ امریکی حکمران طبقہ عوام سے ویت نام جنگ کے متعلق نہایت منظم طریقے سے جھوٹ بولتا رہا۔ حتیٰ کہ کانگریس سے بھی دغا بازی کی گئی۔ اس ساری دھوکے بازی کا مقصد یہ سچائی چھپانا تھا کہ امریکی فوج ویت نام میں فتح حاصل نہیں کرسکتی۔ لیکن پے در پے جھوٹ بول کر عوام اور کانگریس، دونوں کو یہی بتانے کی کوشش ہوئی کہ امریکی فوج جنگ جیت رہی ہے اور یہ کہ امریکا قانونی اور اخلاقی طور پر جنگ لڑنے میں حق بجانب ہے۔
رینڈ کارپوریشن میں ایک جنگ مخالف دانشور، دانیال ایلس برگ نے ان کا مطالعہ کیا۔اس نے بعدازاں ممتاز امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کی صحافی، نیل شیہان کو دستاویز کے متعلق بتایا۔ ایلس برگ نے نیل کو فوٹو کاپیاں بھی فراہم کردیں۔ مطالعے سے صحافیوں پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کوتاہیاں منظر عام پر آگئیں۔
چناں چہ اخبار جون 1971ء سے دستاویز کے انکشافات قسط وار شائع کرنے لگا۔ اس دستاویز کو ’’پینٹاگون پیپرز‘‘ کا نام ملا۔ امریکی حکومت نے جلد ہی اخبار کو انکشافات شائع کرنے سے روک دیا۔ اخبار نے پابندی کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک جاپہنچا۔ آخر عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ میڈیا حکومت کی ایسی خفیہ معلومات شائع کرنے کا حق رکھتا ہے جس سے عوام کو فائدہ ہو اور وہ حکومتی پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوجائیں۔ یوں سپریم کورٹ میں امریکی حکومت کو شکست ہوئی۔
محنت رنگ لائی
درج بالا مثال کے پیش نظر اس بار واشنگٹن پوسٹ عدالتوں میں پہنچ گیا۔ دنیا میں ہر حکومت اپنی غلطیاں اور گناہ پوشیدہ رکھنے کی سعی کرتی ہے۔ اسی واسطے ہر ملک میں ان غلطیوں کو پا کر انہیں عوام کے سامنے اجاگر کرنا صحافیوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر صحافی سچ کا کھوج لگاتے ہوئے اپنی جان تک قربان کر دیتے ہیں۔
امریکا میں صحافیوں اور عام لوگوں کو بھی حکومت کے خفیہ ریکارڈ تک رسائی دینے کی خاطر 1967ء میں ایک قانون، فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ متعارف کرایا گیا۔ اب امریکی میڈیا اسی قانون کی مدد سے اپنے حکمرانوں کے کالے کرتوت عیاں کرتا ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی مگر چالاک و عیار ہے۔ اس نے درج بالا قانون کا توڑ یہ دریافت کیا کہ مطلوبہ معلومات دینے میں کئی سال لگا دیتی ہے۔ سرخ فیتہ بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ معلومات لینے والا تنگ آکر خاموش ہوجائے۔
مگر کریگ وٹلوک بڑے صبر اور مستقل مزاجی سے عدالتوں میں اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کے عملے کا تعاقب کرتا رہا۔ اس کی محنت مشقت رنگ لائی اور نومبر 2019ء میں فیڈرل کورٹ نے اسپیشل انسپکٹر کے دفتر کو حکم دیا کہ منصوبہ ’’جو سبق ملے‘‘ سے متعلق مواد واشنگٹن پوسٹ کو فراہم کرجائے۔ یوں بالآخر سچ ہی کی جیت ہوئی اور طاقتور امریکی سرکار کو شکست! امریکا میں صحافت کو دوبارہ ایک اہم مقدمے میں فتح مل گئی۔یہ منصوبہ 2014ء تا 2018ء جاری رہا تھا۔
اس دوران چھ سو ممتاز شخصیات سے انٹرویو کیے گئے۔ ان ملاقاتوں کی بنیاد پر دو ہزار صفحات پر محیط مواد تیار ہوا۔ اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کے دفتر نے چھ سو میں سے 428 انٹرویو کا مواد واشنگٹن پوسٹ کو فراہم کردیا۔ اخبار نے قانون کے تحت بش دور حکومت کے بدنام زمانہ وزیر دفاع، ڈونالڈ رمزفیلڈ کے نوٹ (ممیو) بھی حاصل کرلیے تھے۔ اس پورے مواد کی چھان بین کے بعد اخبار نے افغان جنگ سے متعلق ایک بھرپور مضمون اوائل دسمبر شائع کر دیا۔ ’’پینٹاگون پیپرز‘‘ کی مناسب سے منصوبہ’’جو سبق ملے‘‘ کے انکشافات کو ’’افغانستان پیپرز‘‘ کا نام دیا جاچکا۔
دو اہم انکشافات
افغانستان پیپرز امریکی حکمران طبقے کے بارے میں دو اہم انکشافات دنیا بھر میں عوام و خواص کے سامنے لائے۔ پہلا انکشاف یہ ہے کہ امریکی حکومت شروع ہی سے افغان جنگ سے متعلق حقائق توڑ مروڑ اور مسخ کرکے پیش کرنے لگی۔ مدعا یہ تھا کہ امریکی عوام کودکھایا جاسکے، امریکا افغانستان میں جنگ جیت رہا ہے۔
حقیقت اس کے برعکس تھی۔منصوبے میں انٹرویو دینے والے جرنیل اور سفارت کار بھی بار بار کہتے ہیں کہ شروع دن سے افغان جنگ کی سمت متعین نہیں تھی۔بعد میں بھی امریکی حکومت اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہی۔یاد رہے، امریکا کی افغان جنگ نے پاکستانی معاشرے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے اور پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ دے ڈالا۔
دوسرا اہم انکشاف یہ ہے کہ جب امداد میں ملے ڈالروں کی ریل پیل شروع ہوئی تو اول دن سے افغان حکومت میں کرپشن شروع ہوگئی۔ معمولی سرکاری ٹھیکوں میں بھی کک بیکس اور کمیشن لیا جانے لگا۔ افغان حکومت میں شامل وار لارڈز اور ان کے چیلے چانٹے چند برس میں کروڑ پتی بن گئے لیکن افغان عوام بدستور غربت و افلاس کے شکنجے میں پھنسے رہے۔ خاص بات یہ ہے کہ امریکی حکام افغان اسٹیبلشمنٹ کی بے محابا کرپشن سے آگاہ تھے۔ مگر انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں۔ کرپٹ افغان وزیروں مشیروں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے، وہ شیر ہوکر کرپشن کرنے لگے۔ اسی کرپشن نے بھی افغانستان کو تباہ حال جنگ زدہ بنائے رکھا۔
امریکا سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ترین اسلحے کی بنیاد پر سپرپاور بنا۔ آج بھی وہ دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں سے ایک ہے۔ لیکن پچھلے ستر اسی سال میں امریکی حکمران طبقہ نت نئی جنگیں چھیڑ کر اپنے اجلے دامن پر کئی سیاہ دھبے لگوا چکا۔ اب ’’افغانستان پیپرز‘‘ نے بھی دنیا بھر میں امریکی حکمرانوں کی بھد اڑا دی۔ یہ عیاں ہے کہ امریکی حکمران طبقہ امریکا کے بانیوں کی نصیحتیں فراموش کرچکا۔ تین سو سال قبل امریکی بانیوں میں شامل اور دوسرے صدر، جان آدمز نے کہا تھا:
’’حکومت عوام کی حفاظت، انہیں ترقی دینے، خوشحال کرنے اور خوشیاں دینے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ کسی شخص، خاندان یا گروہ کومالی فائدہ پہنچ جائے یا انہیں جھوٹی عزت اور شان حاصل ہوسکے۔‘‘دور جدید کا امریکی حکمران طبقہ اس قول کے بالکل الٹ عمل کرتا محسوس ہوتا ہے۔
The post ’’افغانستان پیپرز‘‘ کی ان کہی کہانی appeared first on ایکسپریس اردو.