(قسط نمبر 14)
گلگت بلتستان کا ضلع غذر جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم محل و وقوع رکھتا ہے۔یہ مغرب میں خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے منسلک ہے۔
غذر کا بیشتر علاقہ 1895ء تک ریاست چترال کا حصہ تھا۔ انگریزوں نے مہتر چترال( چترال کے فرمانروا ) کا اثر رسوخ طاقت اور خوشحالی کا زور توڑنے کے لئے 1895 ء میں غذر کی وادی اشکومن، پونیال،گوپس اور پھنڈر کو گلگت ایجنسی میں شامل کر لیا تھا۔ شمال میں اس کی وادی اشکومن درہ قرومبر کے ذریعے چین ،اور درہ درکوت کے ذریعے تاجکستان کے ساتھ ملحق ہے۔گلگت سے ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس ضلع کا صدر مقام گاہکوچ ہے۔
اس کی حسین وادیوں میں پونیال، اشکومن،گلاپور،گوپس، یاسین، پھنڈر اوردرکوت بہت معروف ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان کی سیر کو آنے والوں کی اکثریت گلگت پہنچنے کے بعد ہنزہ اور زیادہ سے زیادہ خنجراب تک جانے اورواپس لوٹنے کی فکر میں ہوتی ہے۔جو لوگ سکردو کا رخ کرتے ہیں وہ شنگریلا اور ست پارہ یا زیادہ سے زیادہ دیوسائی سے آگے کی نہیں سوچتے۔وہ نہیں جانتے کہ ہنزہ اور خنجراب ، شنگریلا اور ست پارہ کے علاوہ گلگت بلتستان میں درجنوں وادیاں،جھیلیں، گلیشئر،چراگاہیں، جنگل اور آبادیاں ایسی بھی ہیں جہاں انسان پہنچ کر اپنے دُکھ اور غم ’کچھ وقت کے لئے ہی سہی‘ فراموش کر دیتا ہے۔
وادی یاسین کی وجہ شہرت یوں تو خوبصورتی اور زرخیزی بھی ہے لیکن یہاں کے ایک مرکزی گائوں ہندور میں کارگل کی جنگ کے ایک ہیرو حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کا مزار بھی ہے۔ حوالدار لالک جان ہندور کا رہنے والا تھا۔اُس نے کارگل کی جنگ کے دوران میں بھارتی فوجیوں کے گھیرے میں آجانے اور اپنے تمام ساتھیوں کے شہید ہوجانے کے باوجودچار روز تک جس جرات،بہادری،بے خوفی اور ایمانی جذبہ کے ساتھ اپنے مورچے سے فائرنگ جاری رکھی اور شہید ہونے تک بھارتی فوج کو اپنے مورچے کے قریب نہیں آنے دیا اس کی مثال جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔
ٹائیگر ہل کارگل پر سات جولائی 1999ء کو جام شہادت نوش کرنے والے حوالدار لالک جان کی بہادری کا اعتراف دشمن نے بھی کیا۔ لالک جان شہید کے لئے نشان حیدر کے اعزاز کا اعلان کیا گیا جو گلگت بلتستان کے اُن ہزاروں افسروں اور جوانوں کے لئے بھی ایک اعزاز ہے جو ناردرن لائٹ انفنٹری میں وطن عزیز کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے شدید ترین موسم میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پہ رکھ کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ لالک جان شہید کی میت کو وادی یاسین کے گاواں ہندور لاکر اُس کی اپنی آبائی زمین کے ایک حصے میں سپرد خاک کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان گلگت کے ایک سینئر پروڈیوسر واجد علی کا تعلق غذر کی وادی یاسین سے ہے۔ ہر سال چھ ستمبر کو لالک جان شہید کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی جاتی ہے اور ناردرن لائٹ انفنٹری کے کمانڈر ہندور آکر حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کے لئے فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ ستمبر دور تھا اس لئے میں نے ہفتہ چار اپریل کو وادی یاسین جانے ا ور وہاں پروگرام ریڈیو میلہ ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔ علی الصبح جب ہم ہندور جانے کے لئے ریڈیو پاکستان گلگت سے روانہ ہوئے تو وا جد علی سینئر پروڈیوسر،سرتاج اعظم براڈ کاسٹ انجینئر اور ڈرائیور امتیاز حسین میرے ہمراہ تھے۔ وادی یاسین جانے کے لئے پہلے گوپس پہنچنا پڑتا ہے۔ اُس روز گلگت میں بارش ہو رہی تھی۔
لیکن غذر کی طرف آسمان صاف نظر آرہا تھا۔گلگت شہر سے نکل کر جب ہم گاہکوچ جانے والی سڑک پر آگے بڑھے تو گلگت کی ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تعمیرات و مواصلات گلگت بلتستان کی نااہلی اس بین الصوبائی شاہراہ کی خستہ حالت، تنگی اور اس کے عین کناروں پر ہونے والی بے ہنگم تعمیرات کی صورت میں سامنے آگئی۔ چونکہ گلگت بلتستان اور چترال میں پچانوے فیصد رقبہ پہاڑوں، گلیشئرز،دریائوں، ندی نالوں،چشموں،جھیلوں اور جنگلات پر مشتمل ہے اس لئے کھیتی باڑی اور انسانی بود و باش کے لئے دستیاب زمین نہایت قلیل اور مہنگی ہے۔
لوگ اپنے حصے کی زمین کا ایک انچ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن شاہراہوں اور سڑکوں کی تعمیر کے اپنے قوانین ہیں جن کے تحت سڑک کی اہمیت کی مناسبت سے اس کے دونوں اطراف میں بیس،پچاس اور سو فٹ تک جبکہ موٹر ویز کی صورت میں دو سو بیس فٹ تک کسی بھی قسم کی تعمیرات کی اجازت نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں اس سڑک پر تعمیرات کی اس قدر بھرمار تھی گویا ہم کسی گائوں کی تنگ و تاریک گلی سے گذر رہے تھے۔گلگت شہرسے نکلتے ہی پہلی بستی بسین کی آتی ہے۔ بسین سے کچھ دور چلیںتو آگے وادی گلگت ختم ہو جاتی ہے اور ایک درے سے گذر کر سڑک ایک نئی وادی میں داخل ہو کر ہینزل گائوں کی طرف بڑھتی ہے جہاں سترہ میگا واٹ کا ایک پن بجلی گھر بنانے کا منصوبہ گذشتہ دو دہائیوں سے وفاقی حکومت کی طرف سے گرانٹ ملنے کا منتظر ہے۔
ہینزل میں بدھ مت دور کے آثار قدیمہ بھی مختلف چٹانوں پر کندہ ہیں۔ ہینزل گائوں میں سڑک کے کنارے چند ہوٹل ہیں جہاں آلو کے چپس، مچھلی اور دیگر کھانے دستیاب ہیں ۔ دریا کے کنارے گھاس کے قطعات پر لگی کرسیوں پر بیٹھ کر دریائے غذر کے بہنے کی مدہم سروں کی آوازسنتے ہوئے ،سرسراتی ہوا میںبکھرتی ہوئی جنگلی پھولوں کی خوشبو اور نیلے آسمان پر مست آوارہ بادلوں کی ٹکڑیوں سے بھرپور منظر میں گرم گرم چائے کے ساتھ چپس اور تلی ہوئی مچھلی کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ ہینزل کی اصل وجہ شہرت اس کے چشموں کا ٹھنڈا میٹھا پانی ہے جو گلگت قیام کے دوران میں ہر ہفتہ میں اپنے پینے کے لئے منگواتا تھا۔
یوں تو آپ گلگت بلتستان میں جس علاقے کا رخ کریں کہیں بھی جائیں کوئی نہ کوئی دریا، ندی، نالہ یا چشمہ آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے لیکن کہیں اس کے بہتے پانی کی گہرائی چند سو فٹ اور کہیں ہزاروں فٹ ہوتی ہے۔آپ چاہتے ہوئے بھی پانی کے قریب نہیں جا سکتے۔اس میں پیر ڈال کر نہیں بیٹھ سکتے۔اس کے پانی کو اپنے ہاتھوں سے چھو نہیں سکتے ۔لیکن دریائے گلگت جو کہ اصل میں دریائے غذر ہے، غذر جانے والی سڑک کے اس قدر قریب ہوکر بہتا ہے کہ آپ جب چاہیں گاڑی روک کر اس پانی کو ہاتھ لگا سکتے ہیں۔اس میں پائوں ڈال کر بیٹھ سکتے ہیں۔اسے پی سکتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ یہ دریا اپنے تمام تر حسن ،تیزی ،خوبصورتی،ٹھنڈے پانی اور سبک خرامی کے ساتھ سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے۔
دریائے غذر گلگت بلتستان میں خودکشی کرنے والی نوجوان لڑکیوں کا سب سے زیادہ پسندیدہ دریا ہے۔ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ شرح تعلیم میں اولیت رکھنے والے ضلع غذر کی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بوجوہ اس قدر مایوسی پھیلی ہوئی ہے کہ 2004 ء اور 2017ء کے درمیان 203 لڑکیوں نے دریائے غذر میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور اپنے ماں باپ کو ساری عمر کے لئے دکھ،پچھتاوے اور افسوس کی ایک ایسی دنیا کے حوالے کر دیا جس کا خاتمہ اُ ن کی اپنی موت پر ہی ممکن ہوتا ہے۔
خودکشی کی کوشش کرنے والے مردوں اورخواتین کی تعدا د دنیا سے رخصت ہو جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں شادی شدہ لڑکیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔گلگت اور چترال میں اپنے چاربرس کے قیام کے دوران میں علاقے کے سماجی،معاشرتی ،اقتصادی اور تعلیمی ماحول کا بغور جائزہ لینے اور وہاں کے تقریباً تمام علاقوںکے لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چترال،ہنزہ،گلگت اور غذر کی نوجوان آبادی خصوصاً تعلیم یافتہ لڑکیوں میںخودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بڑی وجہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی سے وابستہ تواقعات اور ارمانوں کا پورا نہ پانا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی لڑکیوں کی غالب اکثریت تعلیم کے اعلی مدارج طے کر لیتی ہیں اس کے مقابلے میں لڑکوں کی ایک بڑی تعداد اپنے معاشی حالات،گھریلو مجبوریوں، تعلیم سے بے رغبتی،آوارہ گردی،خراب صحبت،نشہ کی لت میں مبتلا ہونے اور کوئی رہنمائی نہ ملنے کے باعث وقت ضائع کرتی اور جاہل رہ جا تی ہے۔
یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کا تناسب دیکھ لیجئے آپ کو میری اس بات پر یقین آجائے گا۔ جب یہ لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کر کے یونیورسٹیوں سے نکلتی ہیں تو ان کے لئے ہم پلہ تعلیم یافتہ لڑکوں کے رشتے دستیاب نہیں ہوتے۔ تعلیم حاصل کرلینے والے لڑکوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو اپنے ان پڑھ جاہل گنوار اور نکھٹو ررشتہ دار لڑکوں سے شادی کرنا پڑتی ہے۔بہت سی لڑکیاں قسمت کے اس مذاق کو قبول کر لیتی ہیں اور اپنی عمر گائوں کی دیگر بڑی بوڑھیوں کی طرح
کھیتوں میں کام کرتے،جانوروں کو سنبھالتے،بچے پالتے گذار دیتی ہیں۔ جنہیں ملازمت مل جاتی ہے ۔وہ اکثر اپنے شوہروں کی افتاد طبع کے باعث ملازمت جاری نہیں رکھ پاتیں۔ جولڑکیاں اپنی قسمت کے اس مذاق کو قبول نہیں کر پاتیں نہ ہی وہ اپنے ماں باپ کو اس بے جوڑ رشتے سے روک سکتی ہیں تووہ دریائے غذر کا رخ کرلیتی ہیں۔
ہینزل سے آگے تھینگی،شروٹ، شیکیوٹ اور بیئرچی کے دیہات ایک دوسرے سے دو دو چار چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس سارے علاقے سے گذرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ کسی ہرے بھرے باغ سے گذر رہے ہوں۔ ہر گائوں میںسڑک کے دونوں طرف کھیت ہیں کھیتوں کے کنارے انار، انگور، ناشپاتی، سیب، خوبانی اور اخروٹ کے درخت ہیں اور ان درختوں کی گھنی چھائوں سڑک کو ایک خوبصورت سرنگ کی صورت پیش کرتی ہے۔
گلاپور ضلع غذر کا پہلا بڑا گائوں ہے۔اس گائوں میں محکمہ جنگلات،تعمیرات اور زراعت کے ریسٹ ہاوسز بھی ہیں۔اس گائوں کی خوبصورتی اور آبادی کی وسعت کے باعث میں نے گاڑی رکوا لی اوراپنا پہلا پروگرام ریکارڈ کرنے کے لئے گائوں کے ایف جی ہائی سکول کا رخ کیا۔ سکول کے ہیڈماسٹر اور یہاں پڑھانے والے تمام اساتذہ گلاپور اور قریبی دیہات سے تعلق رکھتے ہیں۔گلاپور انگور،سیب اور خوبانی کی پیداوار اور اقسام کے حوالے سے بہت شہرت رکھتا ہے لیکن محکمہ زراعت کے عملے کی غفلت کے باعث یہاں کے سیب کی پیداوار کا بہت بڑا حصہ پکنے سے پہلے کیڑا لگنے کے باعث گل سڑ جاتا ہے۔ جو پھل پک جاتا ہے وہ صحیح پیکنگ نہ ہونے کے باعث گلگت اور ملک کی دیگر منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتا۔
یوں باغبان اپنی محنت کا خاطر خواہ معاوضہ حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ خراب ہونے والے سیب، ناشپاتی، بہی اور خوبانی جانوروں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد قدوس خان کا کہنا تھا کہ مئی میں پھل پکنا شروع ہوجاتے ہیں اور اگست ستمبر تک یہ سلسلہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ پھلوں کی اقسام اور پیداوار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ پھل کوڑیوں کے مول بکنے لگتے ہیں۔ پھر ان پھلوں کو محفوظ کرنے کے انتظامات نہ ہونے کے باعث انہیں جانوروں کی خوراک کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔
گلاپور سے آگے دلناٹی،گوہرآباد،گیچ،سینگل،گلمتی،بوبراور گورنجر سے ہوتے ہوئے جب گاڑی ضلع غذر کے صدرمقام گاہکوچ پہنچتی ہے تو وادی اچانک کُھل جاتی ہے۔ سرسبز و شاداب درختوں اور برف پوش پہاڑوں سے گھرا ہوا گاہکوچ خاصا بڑا شہر ہے جس کی آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ شہر کے وسطی حصے میں بازار ہے جس میں درجنوں مارکیٹیں ہیں۔ تاجروں کی اکثریت کا تعلق اپرکوہستان،لوئر کوہستان،دیر،باجوڑ اور مہمند کے علاقوں سے ہے۔یہ لوگ سبزیوں اور پھلوں کی چھابڑی سے لے کر پرانے کپڑوں جوتوں تک اورپرچون فروشی سے لے کر ہر قسم کی اشیاء کے تھوک کاروبار تک ہر طرح کی تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔
گاہکوچ شہر کے اردگرد برفپوش پہاڑوں ،دریا کے کنارے باغات اور ہرے بھرے کھیتوں کی وجہ سے یہاں کے مناظر بہت دلکش ہیں اتفاق سے جس روز ہم گاہکوچ سے ہوتے ہوئے وادی یاسین کی طرف جار ہے تھے، اسی روز گاہکوچ کے ڈپٹی کمشنر رائے منظور حسین کو استور تبدیل کیا گیا تھا اور وہ گاہکوچ سے استور کے لئے روانہ ہوچکے تھے اس لئے اُ ن سے ملاقات نہ ہوسکی۔رائے منظور حسین نے ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے گاہکوچ میں صرف آٹھ ماہ کام کیا تھا۔چونکہ انہوں نے سرکاری اداروں کی گاڑیوں کے بے جا استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی اور ترقیاتی منصوبوں کی کڑی نگرانی کرکے اس بات کو یقینی بنانا چاہا تھا کہ سرکاری فنڈز کا ضیاع نہ ہونے پائے اس لئے ضلع بھر کے مختلف محکموں کے راشی افسر،نچلے ملازمین اور ٹھیکیداراُن کے تبادلے کے لئے کئی مہینوں سے کوشاں تھے۔ جو بالآخر کامیاب بھی ہوگئے تھے۔سرکاری محکموں کے ملازمین اور افسروں کی بدعنوانیوں،رشوت خوریوں اور مال حرام سے بنائی گئی جائیدادوں اور املاک کی فراوانی دیکھنی ہو تو گاہکوچ شہر اور اس کے اردگرد سابق آمر جنرل مشرف کے دور میں ہونے والی تعمیرات اس کے لئے کافی ثبوت ہیں۔ بازار کے دونوں اطراف میں وسیع و عریض مارکیٹیں،ہوٹل اور شاپنگ سنٹر تعمیر کئے گئے ہیں۔
اس بازار میں بڑی بڑی دکانیں پانچ سے آٹھ ہزار روپے کرایہ پر دستیاب تھیں۔کئی مارکیٹیں اور شاپنگ پلازے تقریباً خالی تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ مشرف دور میں ہر سال اربوں روپے گلگت بلتستان کے ہر ضلع میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے مہیا کئے گئے۔ یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف وزیر اعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے سے بہت پہلے کیپٹن کی حیثیت سے گلگت میں تعینات رہ چکے تھے۔انہوں نے اپنے دور آمریت میں گلگت بلتستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے بے تحاشہ فنڈز مہیا کئے ۔ بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں 2008ء سے 2013ء کے دوران گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مجموعی طور پربہتر ارب روپے وفاقی حکومت نے مہیا کئے۔
گویا 2000ء سے 2013ء تک سینکڑوں ارب روپے گلگت بلتستان حکومت کے حوالے کئے گئے۔تعمیرات ومواصلات سے متعلق اداروں کے افسروں اور اہلکاروں نے اپنے بھائیوں بھتیجوں اور رشتہ داروں کو ٹھیکیدار بنایا اور سرکاری خزانہ کی اس قدر لوٹ مار کی کہ دنوں اور ہفتوں میں وہ کروڑوں کی املاک کے مالک بن گئے۔ جبکہ گلگت بلتستان کے عام لوگ اسی طرح سے مفلوک الحال،فاقہ مست رہے اور غربت کی چکی میں بدستور پس رہے ہیں۔ جب بھی رائے منظور حسین کی طرح کا کوئی دیانت دار افسر ایمان داری سے کام کرنے اور اپنے ماتحت اداروں سے کام لینے کی کوشش کرتا ہے تو مقامی اخبارات کے کارٹل کے ذریعے جھوٹی خبریں شائع کروا کے اور اپنے چیلے چانٹوں کی مدد سے جلسے جلوس نکال کر واویلا مچایا جاتا ہے کہ ہمارے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جا رہا۔ حکومت کے کارپرداز دبائو میں آکر بدعنوان عناصر کی مرضی کی پوسٹنگ ٹرانسفر کردیتے ہیں اور پھر بدعنوانی کا راوی چین کی بانسری بجانے لگتا ہے۔
یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ پاکستان میں مالی سال جولائی سے جون تک کا ہوتا ہے۔ہر سال کا وفاقی بجٹ جون میں پیش کیا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں بحث اور منظوری کے بعد یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہونے پر یہ بجٹ نافذ کردیا جاتا ہے۔ صوبوں میں بھی سالانہ بجٹ وفاقی بجٹ کے فوراً بعد پیش اور منظور کیا جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص رقوم وفاق سے صوبوں تک اور ہر ضلع تک منتقل ہوتے ہوتے ستمبر اکتوبرکے مہینے آ جاتے ہیں جب ترقیاتی منصوبوں کے لئے اخبارات میں اشتہار شائع ہوتے اور ٹینڈر جاری ہوتے ہیں تو اس عمل میں مزید ایک آدھ ماہ صرف ہو جاتا ہے۔گویا جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی صورت نومبر تک ممکن ہوتی ہے۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب گلگت بلتستان اور چترال جیسے دور افتادہ علاقوں میں سردی اپنی شدت پر ہوتی ہے۔ کسی بھی منصوبہ پر عملی کام کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔مالی سال کی تیسری سہ ماہی مارچ میں ختم ہوتی ہے۔ٹھیکیدار حضرات کاغذات میں منصوبے مکمل کرکے دکھاتے اور ٹھیکوں کی رقم وصول کر رہے ہوتے ہیں۔متعلقہ عملہ اس لوٹ مار میں پوری طرح ملوث ہوتا ہے۔ جب مالی سال کی آخری سہ ماہی ختم ہونے کو ہوتی ہے تو متعلقہ محکمہ کے ذمہ داران ٹھیکیداروں پر زور دیتے ہیں کہ منصوبہ پر اتنا کام تو کرا دو کہ وزیر موصوف آکر منصوبہ کا افتتاح کر سکے ۔
اس پر ٹھیکیدار تھوڑی بہت لیپا پوتی کرکے تختی کی نقاب کشائی کی تیاری کر لیتے ہیں وقت مقررہ پر وزیر صاحب فیتہ کاٹ کر عوام کو یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ اتنے کروڑ کے اس منصوبہ سے فلاں فلاں آبادی مستفید ہوگی۔یوں مالی سال ختم پیسہ ہضم اور عوام کے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں۔
میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ خیبر پختونخوا میں چترال ،سوات ، کوہستان ،شانگلہ،جنوبی اور شمالی وزیرستان، پارہ چنار،اورکزئی اورہنگو بلوچستان میں ژوب،کوئٹہ،زیارت ا ور پورے گلگت بلتستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو بھی بجٹ کی فراہمی جنوری سے دسمبر تک کے لئے کی جائے تاکہ موسم کی شدت کے باعث اکتوبر سے دسمبر تک کا عرصہ منصوبہ بندی،جنوری سے مارچ تک کا درمیانی عرصہ ٹینڈر مشتہر کرنے اور ٹھیکیدار کا انتخاب کرنے میں صرف ہو۔جب مارچ کے آخر میںموسم کی شدت کم ہونے لگے تو ٹھیکیدار کے پاس کام شروع اور مکمل کرانے کے لئے سات آٹھ ماہ کا وقت موجود ہو۔اس طرح ان علاقوں میں سرکاری رقوم کا ضیاع کسی حد تک رک سکے گا۔
تیرہ برس میںضلع گاہکوچ کے لئے مختص اربوں روپے کا محض دس فیصد منصوبوں پر خرچ ہوا اور باقی ماندہ رقم گاہکوچ بازار میں مارکیٹس، ہوٹلز اور شاپنگ پلازوں کی صورت میںتعمیرات کی طرح گلگت بلتستان کے ہر علاقہ میں اپنے بدعنوان سرکاری عملہ کی لوٹ مار کی داستان بن کر بکھری ہوئی ہے۔ڈپٹی کمشنر گاہکوچ کے دفتر سے میں نے تحصیل گوپس کے اسسٹنٹ کمشنر رانا محمد وقاص کو ٹیلی فون کر کے اُن سے انٹرویو کے لئے شام چھ بجے کا وقت طے کیا اور پھرسرکٹ ہائوس گاہکوچ کا رخ کیا جہاں مقامی پریس کلب کے صدر نے ہماری درخواست پر پروگرام ریڈیومیلہ ریکارڈ کرنے کا انتظام کیا ہوا تھا۔سرکٹ ہائوس کے حسین سبزہ زار پر پچاس ساٹھ لوگ جمع تھے۔اُن سب کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ریڈیوپاکستان گلگت کا عملہ اُن کے مسائل کے بارے میں ریکارڈنگ کرنے گاہکوچ آیا ہے۔
ان لوگوں سے ریکارڈنگ شروع کی تو ان کی مشکلات،تکالیف،مسائل، مصائب اور پریشانیوں کی تفصیلات سن کر اور سرکاری حکام کی بے حسی،بدعنوانیوں،چیرہ دستیوں،کٹھورپن اور اپنے فرائض منصبی سے غفلت کے واقعات کے بارے میں جان کر بہت اذیت ہوئی۔معلوم نہیں ہمارے اس خوبصورت ملک کو کس آسیب نے ڈس لیا ہے کہ ریڑھی بان سے لے کر اعلی مناصب پر فائض لوگوں تک کسی کے بھی دل میں ذرا بھر اللہ رب العالمین کا خوف نہیں ہے۔ہر ایک موقعہ ملنے کی تلاش میں ہے۔ہر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ہرکسی کو حلال حرام کاخیال رکھے بغیر اپنا گھر بھرنے اور بچوں کے لئے کچھ اندوختہ چھوڑ کر جانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔کوئی یہ نہیں سوچتا کہ قبر کی اندھیری روز قیامت تک کی طویل رات میں کوئی بھی کام نہیں آئے گا محض اپنے اعمال کی بنیاد پر ہماری ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہوگا۔
خیر کس کس چیز کا رونا روئیں،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔قدم قدم پر گاہکوچ جیسی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔گاہکوچ میں اس ریکارڈنگ سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ایک ہوٹل میں گلگت سے اپنے ہمراہ لایا ہوا کھانا گرم کروایا۔تنور سے تازہ روٹیاں لیں۔ کھانے اور نماز سے فارغ ہوکر ہم نے گوپس کی راہ لی۔جو گاہکوچ سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان ہو یا کوئی اور پہاڑی علاقہ۔یہاں فاصلے کلومیٹروں میں نہیں بلکہ سفر میں صرف ہونے والے وقت کے حساب سے ناپے جاتے ہیں۔گاہکوچ شہر سے کچھ فاصلہ پرداماس کے مقام پر غذر ڈسٹرکٹ جیل ہے۔
جہاں گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے ملزموں اور مجرموں کو قید رکھا جاتا ہے۔مجھے معلوم تھا کہ گلگت بلتستان کے سابق گورنر اور میر آف ہنزہ غضنفر علی خان کے مقابلہ میں انتخابات میں حصہ لینے والا نوجوان باباجان غذر جیل میں قید ہے۔باباجان نے 2010ء میں عطا آباد کے مقام پر پہاڑ کا ایک حصہ گرنے کی وجہ سے بے گھر ہوجانے والے لوگوں کو خاطر خواہ امداد نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا۔وہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کا بھی مطالبہ کرتے تھے۔
اُن کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں گرفتار کرکے غذر جیل بھیج دیا گیا تھا۔اسی جیل میں ریڈیوپاکستان کا ایک ملازم اپنے کسی نجی تنازعہ کی وجہ سے قید تھا۔میں نے گاڑی رکوا کر جیل کے صدر دروازے پر دستک دی اور ریڈیو پاکستان کے ساتھی کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جیل حکام نے ملاقات کا وقت ختم ہوجانے کے باوجود میری درخواست پر ملاقات کی اجازت دے دی۔اپنے ساتھی ملازم سے ملاقات کے بعد میں نے باباجان کا پوچھا۔تو جیل کے عملہ نے اُس کے سیل کی طرف رہنمائی کی۔وہ اپنے چھوٹے سے پختہ سیل میں نیم دراز تھا۔مجھے دیکھتے ہی وہ کسی پرانے دوست کی طرح گرم جوشی سے ملا۔باباجان تیس بتیس برس عمرکا گٹھے ہوئے بدن کا جوان رعنا ہے۔جس کا تعلق ہنزہ کے مردم خیز علاقہ سے ہے۔
اُس نے دنیا کے حریت پسند رہنمائوں کے بارے میں خاصہ مطالعہ کررکھا ہے۔وہ اپنے خیالات اور مطالبات کی وجہ سے نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔اگر انتخابات میں نادیدہ مداخلت نہ کی جاتی تو باباجان کو اُس کے اپنے علاقہ میں شکست دینا دشوار ہوتا۔بہرحال باباجان جیسے باشعور افراد اگر منتخب ہوکر اسمبلی پہنچیں تو یقینناً علاقہ کے عوام کے لئے یہ ایک خوش آئند بات ہوگی۔غذر جیل سے نکلے اور کہیں رکے بغیر گوپس پہنچے۔جو ایک تنگ درے کی صورت میں دریائے غذر کے کنارے آباد ہے۔گوپس یاسین کے نام کی تحصیل کا صدرمقام گوپس ایک تاریخی قصبہ ہے۔
جہاں چشم فلک نے کئی خاندانوں کے مابین اقتدار کی جنگیں ہوتی دیکھیں۔بازار کے آغاز ہی میں انتظامیہ کے دفاتر اور رہائش گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ساتھ ہی سرکاری ریسٹ ہائوس بھی ہے جہاں شب بسری کے لئے بکنگ ہم نے گلگت سے روانہ ہونے سے پہلے کرا لی تھی۔گوپس پہنچے تو عصر کا وقت ہو چلا تھا۔ریسٹ ہائوس پہنچ کر منہ ہاتھ دھوئے وضو کیا اور بازار کی ایک مسجد میں نمازعصر ادا کی۔نماز کے بعد میری خواہش تھی کہ بازار جا کر لوگوں سے بات چیت کی جائے اور اُن کے مسائل کے حوالے سے پروگرام ریکارڈ کیا جائے۔بازار کے دکان داروں سے ملاقات کی تو ان میں پچانوے فیصد تاجر باجوڑ،کوہستان اور دیر کے تھے۔ان کی اکثریت اپنے اہل خانہ کے بغیر یہاں مقیم تھی اُنہیں علاقہ کی مقامی آبادی کو درپیش مسائل کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔
اتنے میں اسسٹنٹ کمشنر رانا محمد وقاص سے ملاقات کا وقت ہوچلا تھا۔وہ اپنے گھر کے خوبصورت چمن میں ہمارے منتظر تھے۔انٹرویو کی ریکارڈنگ سے پہلے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والا یہ خوبصورت نوجوان پاک بحریہ میں الیکٹریکل انجینئر تھا۔اور ایک آبدوز پر تعینات تھا۔رانا محمد وقاص نے فوج کے لئے سی ایس ایس کی مختص نشستوں پر امتحان میں کامیابی حاصل کی۔پھر سول سروسز اکیڈمی والٹن میں تربیت پانے کے بعد گلگت بلتستان بھیج دیا گیا۔اور گوپس میں اُن کی پہلی تعیناتی تھی۔
جہاں وہ ایک سال سے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ مقیم تھے۔ فوج کے جو کیڈٹ امتحانات کے ایک طویل سلسلے سے گذر کر دو اور چار برس کے لئے کاکول،رسالپور اور کراچی میں باالترتیب بری فوج،فضائیہ اور بحریہ میں خدمات سرانجام دینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔اُنہیں سول سروس میں شامل کرنا مستحسن عمل نہیں۔اسی طرح سے جو لوگ ڈاکٹر بننے کے لئے میڑک ایف ایس سی اور پھر ایم بی بی ایس کے لئے آٹھ برس پڑھائی کرتے اور میڈیکل کالجز میں محنت کرتے ہیں۔اُنہیں بھی سی ایس ایس کرنے کی اجازت دینا بہت بڑی زیادتی ہے۔
رانا محمد وقاص نے ضلع غذر اور خاص طور پر گوپس یاسین میںسرکاری نرخوں پر گندم کی فراہمی اور دیگر سرکاری اُمور پر سیر حاصل گفتگو کی۔اور بتایا کہ گوپس میں تیس بستروں کا ایک سرکاری ہسپتال ہے جس میں ہمیشہ عملہ کی کمی کا درپیش رہتاتھا۔اب وہ ہسپتال آغا خان فائونڈیشن کے سپرد کردیا گیا ہے۔تاکہ وہ سہولیات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ہسپتال چلانے کے لئے ضروری عملہ کی موجودی کو بھی یقینی بنائیں۔میرے خیال میں یہ محکمہ صحت گلگت بلتستان کی شدید نااہلی،غفلت اور اپنے فرائض سے پہلو تہی کی سنگین مثال ہے۔
سرکاری ہسپتال میں عملہ کی کمی کے بہانے ہسپتال کو ایک غیر سرکاری تنظیم کے حوالے کرنا کسی بھی طرح مستحسن عمل نہیں کہلایا جا سکتا۔ جس ملک میں تعلیم اور صحت کو کاروبار بنا لیا جائے۔(جیسا کہ ہمارے ملک میں ہو چکا ہے) وہاں کسی بھی دیگر سرکاری ادارے یا عوام سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔آغا خان فائونڈیشن ہر اُس جگہ پہ اسماعیلی برادری کو تعلیم اور صحت کی بہترین سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ جہاں اسماعیلی برادری کی تھوڑی بہت آبادی موجود ہے۔لیکن اس فائونڈیشن کی خدمات کا دائرہ بہرحال ایک خاص مکتبہ فکر تک محدود ہے جبکہ گلگت بلتستان اور چترال میں دیگر مکاتب فکر کے لوگ بھی بستے ہیں۔جو یقینناً اتنے منظم اور یکسو نہیںہیں۔جس قدر اسماعیلی برادری کے لوگ ہیں۔رانا محمد وقاص نے بتایا کہ شندور پولو ٹورنامنٹ کے موقعہ پر گلگت بلتستان کے راستے شندور جانے والے سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے انتظامات کئے جارہے ہیں۔
انٹرویو کے دوران میں رانا محمد وقاص کے گھر سے چائے معہ لوازمات آئی۔جس کی شدید طلب ہورہی تھی۔کیونکہ موسم سرد ہوچلاتھا اور ہم نے دوپہر کے وقت گاہکوچ میں کھانا کھانے کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تھا۔چائے کے بعد میں نے واجد علی کو مقامی لوگوں سے انٹرویو کرنے کے لئے بھیجا تاکہ اُن کا موقف بھی معلوم ہو سکے۔
The post گلگت کے درختوں حسین مقامات ابھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.