محترمہ نعیمہ احمد مہجور جموں و کشمیر کی ایک معروف صحافی، ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سروس سے وابستہ رہیں، پھر دو دہائیوں تک لندن میں بی بی سی ورلڈ سروس میں نیوز ایڈیٹر (اردو) کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ وہ جموں وکشمیر عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں۔
عوامی مسائل، بالخصوص خواتین کو درپیش بڑے ایشوز پر جنوبی ایشیا سے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک کا سفر کرچکی ہیں۔ ان کے شوہر بھی آل انڈیا ریڈیو سروس سے وابستہ رہے، وہ بھی ادبی دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
نعیمہ احمد مہجور منفرد انداز سے کہانی لکھنے کے باعث ادبی حلقوں میں شہرت رکھتی ہیں۔ کشمیر کے حالات پر ان کا ناول ’’دہشت زادی‘‘ چند سال قبل ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی تصانیف ہیں۔ انھوں نے انگریزی زبان میں ’Lost in terror‘ بھی لکھی جو ایک کشمیری خاتون کی کہانی ہے جو دہشت اور خون خرابے کے درمیان پلی بڑھی۔ دراصل یہ ان کی اپنی ہی داستان ہے۔
نعیمہ احمد مہجور تین سال تک جموں و کشمیر میں ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن رہی ہیں۔ آج کل ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔ وہ محض ایک صحافی یا ادیبہ ہی نہیں ہیں، بلکہ کشمیری قوم کی ایک جرأت مندانہ آواز بھی ہیں۔ اپنے تجزیوں اور کالموں میں وہ اپنی قوم کا مقدمہ پوری دلیری کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔
گذشتہ دنوں ان سے مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورت حال پر سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ اس دوران ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں کیا حالات ہیں، اور ہندوستان کے اس اقدام کے کشمیر اور ہندوستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ مزاحمتی تحریک اب کیا صورت اختیار کرے گی اور مسئلہ کشمیر اب کیسے حل ہوگا؟
نعیمہ احمد مہجور کہتی ہیں:
پانچ اگست کو جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو اس سے کچھ روز قبل حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے خفیہ سرکلر سامنے آ گئے تھے جن پر مقامی انتظامیہ کو ہدایت دی گئی تھی کہ کشمیر میں چھ ماہ کے لیے راشن کا سٹاک رکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ کشمیر میں ہندوؤں کی یاترا کو جولائی کے آخر میں ختم کرنے کے احکامات دیے گئے حالانکہ عام طور پر یاترا 20 اگست تک رہتی ہے۔ مرکزی حکومت کے ان اقدامات سے محسوس ہوتا تھا کہ حکومت کچھ بڑا کرنے والی ہے۔
اس کے ساتھ بعض عناصر کے ذریعے یہ بات پھیلائی گئی کہ پاکستان کی طرف سے عسکریت پسند بھیجے گئے ہیں اور حملہ ہونے والا ہے۔ اس دوران سونامرگ کی طرف فورسز کی بڑی تعداد بھی بھیجی گئی۔ پھر اچانک چار اگست کی رات کو اچانک کریک ڈاؤن کرکے تمام سیاسی قیادت اور بااثر شخصیات کو گرفتار کیا گیا، جن کی تعداد تقریباً چھ ہزار تھی۔
پانچ اگست کی صبح جب ہم اٹھے تو موبائل سروس، انٹرنیٹ اور چند ٹی وی چینلز کے علاوہ کیبل بھی بند تھی۔ کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کیا ہو رہا ہے، لوگ سوچ رہے تھے شاید جنگ شروع ہو گئی ہے۔ ابھی تذبذب کا عالم ہی تھا کہ اچانک پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کر رہے ہیں۔ یہ اعلان کشمیریوں کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا اور بے تحاشا فورسز ہونے کے باعث گھروں میں محصور کشمیری اس صدمے کا اظہار بھی نہیں کر پائے۔ حالت یہ تھی پڑوسی دوسرے کے گھر نہیں جا سکتے تھے تاکہ وہ آپس میں یہ دکھ بانٹ سکیں۔ پوری ریاست سکتے کے عالم میں تھی اور صدمہ ایسا تھا جیسے کوئی مر گیا ہو اور لوگ گھروں میں ماتم کر رہے تھے‘‘۔
اگر سرکاری چینلز نہ ہوتے تو؟
کشمیر کا مقامی میڈیا پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے اور مقامی الیکٹرانک میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں حکومت نے دو تین چینل چلا رکھے تھے جن پر بتایا جا رہا تھا کہ وزیرداخلہ امیت شاہ گیارہ بجے کشمیر کے حوالے سے خصوصی اعلان کریں گے اور لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے۔
پھر جب اعلان کیا گیا تو لوگوں کو ان حکومتی چینلز سے علم ہوا کہ کشمیر کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔ اگر حکومتی چینلز بھی نہ ہوتے تو لوگوں کو نہیں پتا چلنا تھا کہ کس وجہ سے لاک ڈاؤن ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران کیا ہوتا رہا؟
کشمیر میں عموماً ہر گھر میں دس پندرہ دن کا راشن موجود ہوتا ہے۔ لوگ سردی کے باعث سردیوں سے قبل ایک ماہ کا راشن اسٹاک کر لیتے ہیں کیوںکہ سردی زیادہ ہوتی ہے اور ایسا ہمیشہ ہوتا ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کا راشن ہوتا ہے۔ تین چار ماہ کا راشن کوئی نہیں رکھتا اور ایسا اکتوبر میں ہوتا ہے۔ اگست میں ایسا نہیں ہوتا، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک عام کشمیری کے پاس ایک دو ہفتے کا راشن موجود تھا۔ اس میں بھی دالیں اور چاول وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے پاس سبزیوں کے چھوٹے باغات ہیں جن کے باعث لوگ گزارا کر لیتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران راشن سے زیادہ مسئلہ ادویات کا تھا
اور بالخصوص لائف سیونگ ڈرگز اور بچوں کے دودھ کا سب سے زیادہ مسئلہ دیکھنے کو ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا زیادہ سٹاک موجود نہیں ہوتا اور وہ باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں مریضوں کا ہسپتال جانا بھی ایک بڑا مسئلہ تھا، باہر کرفیو کی صورت حال میں ٹرانسپورٹ تک دست یاب نہیں تھی۔ ہفتہ دس دن بعد راشن کی قلت بھی شروع ہوگئی تھی۔ تاہم مقامی انتظامیہ نے کہا کہ انہوں نے راشن ڈپو کھولے ہیں جس کے باعث راشن کی قلت پر قابو پایا گیا لیکن کس طرح ہوا یہ سمجھ نہیں آئی۔
اس صورت حال میں لوگوں نے ایک دوسرے کی بہت مدد کی جن کے پاس زیادہ راشن تھا انہوں نے پڑوسیوں کی مدد کی۔ کشمیر میں یہ روایات موجود ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں راشن نہیں ہے تو وہ ہمسائے سے لے لیتا ہے اور بعد میں واپس کردیتا ہے۔ پھر تین چار ہفتے بعد ایسا ہوا کہ چھوٹی چھوٹی دکانیں کھلنے لگیں جو دو گھنٹے کے لیے کھلی رہتیں اور پھر بند ہوجاتیں۔ دو ماہ تک شدید قلت رہی اس کے بعد تھوڑی تھوڑی کر کے قلت ختم ہوئی۔ اس دوران گاؤں سے سبزیاں اور چاول بڑی تعداد میں آئے جس کے باعث کشمیری اب تک زندہ ہیں۔
مجھے گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟
نعیمہ احمد مہجور بتاتی ہیں کہ میں جموں کشمیر ویمن کمیشن کی چیئرپرسن تھی اور پھر میں نے19 جون کو اس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں سیاست سے بہت کتراتی تھی بلکہ میں نے پی ڈی پی کو بہت پہلے کہا تھا کہ سیاست نہیں کرسکتی کیوںکہ میں سیاست میں فٹ نہیں ہوں۔ میں ویمن کمیشن سے بھی بہت پہلے استعفیٰ دینا چاہتی تھی لیکن حکومت چاہ رہی تھی کہ میں تین سال مکمل کروں۔
ویمن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے جہاں عورتوں اور انسانوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے لیکن وہاں کے حالات میں کام کرنا بہت مشکل ہے کیوںکہ وہاں سیاسی مداخلت بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس ماحول میں آزادانہ کام نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے بارہا چھوڑنے کی خواہش کی لیکن کہا گیا کہ آگے بہتری آئے گی، اس کے ساتھ جب میں وہاں عورتوں کی حالت دیکھتی تو سوچتی کہ ان عورتوں کے لیے ہی کچھ کر لوں۔ بالآخر 19 جون کو میں نے استعفیٰ دیا، سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ سے صحافت میں آ گئی۔ شاید اسی بنیاد پر مجھے گرفتار نہیں کیا گیا۔ ہمارے علاقے میں فوج اور پولیس زیادہ نہیں ہوتی تھی لیکن ان دنوں بہت زیادہ فورسز تھیں، ایک مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید حکومت میں رہنے کی وجہ سے مجھے گرفتار کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
لاک ڈاؤن کے بعد کشمیری پاکستانسے کیا چاہتے تھے؟
کشمیریوں کو پتا ہے کہ دنیا میں کشمیر کی بات کرنے والا صرف پاکستان ہی ہے اور وہی ان کی تحریک کی حمایت بھی کرتا ہے۔ ایک بات پھیلائی گئی کہ کشمیری چاہتے ہیں کہ پاکستان حملہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ عام لوگ ایسا نہیں سوچتے کیوںکہ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان مضبوط ہو اور پہلے خود کو بہتر انداز میں سنبھالے اور کشمیریوں کی حمایت کرے۔ عمران خان کی تقریر کے بعد کچھ امید پیدا ہوئی کہ پاکستان نے کشمیر پر کھل کر بات کی۔ میری رائے ہے کہ پاکستان کو کشمیر کی پرامن تحریک کی حمایت کرنے چاہیے اور ایک عام کشمیری بھی پاکستان سے یہی امید رکھتا ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا آسمانی حروف نہیں تھے
’’ہندوستان کی سول سوسائٹی میں بہت سارے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کشمیر کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ سول سوسائٹی کے کئی ممبران سے میری بات چیت ہوئی جو سمجھ رہے تھے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے منشور میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا بائبل کے حروف نہیں تھے کہ جن پر عمل کرنا ضروری تھا۔ ہندوستان کی سول سوسائٹی کا ماننا ہے کہ 370 ختم کرنے کے نعرے کو الیکشن اسٹنٹ تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ کشمیریوں کوان کی مرضی کے مطابق رہنے دینا چاہیے اور ان کی منشا کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور دہلی حکومت کو کشمیر کے دل جیتنے چاہییں تاہم کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کا یہ طریقہ درست نہیں تھا۔
کشمیر کے معاملے میںبھارتی میڈیا کاکردار
ہندوستان کا میڈیا چوںکہ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور اس پر ہندوستان کے مذہبی طبقے (دائیں بازو) کا کنٹرول زیادہ ہے، ایسے میں میڈیا نے اس مسئلے کو درست انداز میں اور حقائق کے مطابق پیش نہیں کیا بلکہ حکومت کے اس فیصلے پر تالیاں بجائیں اور خوشی منائی۔ اس وجہ سے کشمیریوں میں بھی میڈیا کے حوالے سے بہت غم و غصہ ہے۔ میڈیا تو واچ ڈاگ ہوتا ہے جو عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے لیکن جہاں کشمیر کی بات آتی ہے وہاں میڈیا آر ایس ایس کی زبان استعمال کرتا ہے اور بی جے پی کے ایجنڈے پر عمل پیرا نظر آتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم میڈیا اور سول سوسائٹی کو ملا نہیں سکتے، میڈیا الگ زبان بول رہا ہے جب کہ سول سوسائٹی کی سوچ مختلف ہے۔
بین الاقوامی میڈیا نے پہلی مرتبہ کشمیر کو قریب سے دیکھا
پانچ اگست کے بعد انٹرنیشنل میڈیا نے پہلی مرتبہ اس مسئلے کو بہترین انداز میں اٹھایا۔ دنیا کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ ٹی وی، بی بی سی، وائس آف امریکا سمیت تمام بڑے اداروں کے رپورٹر وہاں موجود ہیں۔ انہوں نے تمام صورت حال کو خود دیکھا اور رپورٹ کیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے دیکھا کہ کیسے ایک فیصلہ مسلط کرکے پورے علاقے کو جیل میں تبدیل کیا گیا۔ عوامی رائے کا خون کیا گیا اور سیاست دانوں کو نظرانداز کرکے اتنا بڑا فیصلہ لیا گیا، کسی کو خاطر میں نہیں لایا اور مکمل لاک ڈاؤن کیا گیا۔ اسی بنیاد پر بین الاقوامی میڈیا نے اس معاملے کو بہت ہائی لائٹ کیا اور پھر برطانوی ممبران پارلیمنٹ اور یورپ کے دیگر ممالک کے پارلیمنٹریرینز نے جس طرح الارم کیا کہ کشمیر میں صورت حال بہت خطرناک ہے۔ یہ سب میڈیا کی بدولت ہی ممکن ہوسکا اور دنیا کو معلوم ہوا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔
کشمیریوں کو کیا کرناچاہیے؟
بین الاقوامی سطح پر دنیا کو معلوم ہے کہ آزاد کشمیر میں بھی علیحدگی کی تحریک موجود ہے جہاں لوگ پاکستان کے ساتھ بھی رہنا چاہتے ہیں وہیں پاکستان سے الگ (آزادی پسند) رہنے کی سوچ کے حامل لوگ بھی موجود ہیں۔ اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھی علیحدگی پسند بھی ہیں اور لوگ ہندوستان کے آئین کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور اسے قبول بھی کیا۔
آزاد کشمیر کے عوام نے لائن آف کنٹرول کی جانب مارچ کیا، وہ لائن آف کنٹرول عبور کرنا چاہتے تھے۔ ہم ان کی قدر کرتے ہیں کہ ان کی کشمیریوں کے لیے ہم دردی ہے اور وہ کشمیریوں کا درد بانٹنا چاہتے ہیں لیکن یہ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے موزوں وقت نہیں تھا۔ اس عمل سے ہو سکتا ہے کہ کچھ عناصر ہلا گلا کرنا اور بارڈر پر نیا محاذ کھلوانا چاہتے ہوں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ دونوں طرف لینڈ مائنز بچھی ہیں اور دونوں طرف سے گولی بھی چلتی ہے۔ اس طرح پہلے ہی کشمیری مر رہے ہیں تو اور کتنے لوگوں کو اس طرح سے مارنا ہے؟
ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ پرامن جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، ہمیں اس تحریک کو جذبات کے بجائے دماغ سے لڑنا چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی جب ہم سے بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے یہی کہا جاتا ہے کہ کشمیری اس جنگ کو جذبات سے لڑ رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ جنگ دماغ سے لڑنی چاہیے۔
پاکستان کی کشمیرپالیسی،بڑی طاقتیں کیا سوچتی ہیں؟
اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ دنیا پر بھارتی اثرورسوخ موجود ہے کیوںکہ ہندوستان دنیا کو سوا ارب کی مارکیٹ کا چسکا دے کر بہلاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کو کبھی لابنگ کرنا نہیں آئی اور مجھے نہیں لگتا کہ آئندہ کبھی آئے گی کیوںکہ پاکستان کی پالیسیوں میں کبھی تسلسل برقرار نہیں رہا۔ پاکستان کے ہر حکم راں کی جانب سے کشمیر پر الگ پالیسی سامنے آئی اور حکم رانوں کی طرف سے نت نئے حل پیش کیے گئے۔ دوسری طرف ہندوستان کو دیکھیں تو کشمیر کے معاملے پر ان کی پالیسی میں کبھی لچک نہیں آئی۔ ہندوستان میں بھی حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں لیکن 1947 سے اب تک ان کی کشمیر پالیسی ایک ہی رہی اس میں تبدیلی نہیں آئی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی فورمز کے ساتھ ساتھ امریکا اور برطانیہ وغیرہ بھی یہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ اس کی مثال کے لیے ہم دیکھیں تو شملہ معاہدے سے مشرف کے چار نکاتی فارمولے تک پاکستان کی کشمیر پالیسی کا پتا دیتے ہیں۔
شملہ میں پہلے کشمیر کو پہلے دو ملکی تنازع بنایا گیا پھر کہا کہ اقوام متحدہ میں جائیں گے۔ پھر اعلان لاہور میں شملہ اعلامیے کی توثیق کی گئی۔ اس کے بعد مشرف چار نکاتی فارمولا لائے اس کے بعد پھر کہا اقوام متحدہ میں جائیں گے تو ایسے میں بین الاقوامی برادری کو سب نظر آتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ ہندوستان تو ہر چیز کی اسٹڈی کے بعد فیصلہ لیتا ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کی پالیسی شفٹنگ اور ہندوستانی لابی کے فعال ہونے کے باعث بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی طرف جھکاؤ زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
کشمیر کی ہندنواز سیاسی قیادت کا مستقبل کیا ہوگا؟
کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا مستقبل بہت تاریک ہے۔ 1947ء میں شیخ عبداللہ نے جو کیا کشمیری سات دہائیوں سے اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب محبوبہ مفتی اور باقی لیڈر شپ کو کئی لوگوں نے کہا کہ آپ جو ہندوستان پر اس قدر تکیہ کر چکے ہیں وہ ایسے اقدامات کرے گا کہ آپ کو لگ پتا جائے گا۔ جب آرٹیکل 370 کو ہندوستان کے آئین میں شامل کیا گیا تو اس کے بعد اسے ہمیشہ کم زور ہی کیا جاتا رہا اور اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات موجود تھی کہ ہندوستان اتنا مخلص نہیں ہے جتنا مخلص ہو کر کشمیری قیادت نے ہندوستان کی گود میں جا گری تھی۔
اب اگر محبوبہ مفتی یا کوئی بھی ہندوستان کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کا کوئی خاص اثر نہیں نظر آئے گا، کیوںکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے مسجدیں بند رکھیں، نماز نہیں پڑھنے دی، پیلٹ گنز چلائیں۔ وہ اب ایسی غلطیاں تسلیم کر کے خود کو ہر چیز سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ جہاں تک ان کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو ان سے جو حلف نامے لکھوائے جا رہے ہیں کہ ہم ہندوستان کی پالیسی کو مانیں گے اور آرٹیکل 370 پر بات نہیں کریں گے، تو ایسے حلف نامے دینے کے بعد اگر وہ عوام میں آنے کی کوشش کریں گے تو عوام انھیںکشمیر میں بھی نہیں رہنے دیں گے۔
مزاحمتی قیادت کس حال میں ہے؟
جہاں تک مزاحمتی قیادت کا سوال ہے کہ وہ کہاں ہیں تو سید علی گیلانی نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو ایک خط لکھا۔ گیلانی صاحب کو ان کے رشتہ داروں سے ملنے نہیں دیا جا رہا، فون تک نہیں کرنے دیا جاتا تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔ شبیر شاہ کی جائیدادیں ضبط کرلیں اور وہ قید ہیں۔ اسی طرح یٰسین ملک کو برسوں پرانے مقدمے میں گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں مزاحمتی قیادت کیا کر سکتی ہے۔
کیا یٰسین ملک کو پھانسی دی جائے گی؟
بھارتی جنتا پارٹی نے جس طرح پرانے مقدمات کھولے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی یٰسین ملک کو بھی پھانسی دے سکتی ہے۔ گو کہ کارروائی عدالت میں چل رہی ہے لیکن اب عدالتوں سے بھی اعتبار اٹھ رہا ہے۔ اللہ کرے یٰسین ملک کو انصاف ملے، تاہم اگر ہندوستان کو یہی کرنا ہے توکشمیری ایک قوم ہیں وہ اس قوم ہی کو سزائے موت دے دیں۔
کیا اب مزاحمتی تحریک ختم ہوجائے گی؟
ہندوستان کا خیال ہے کہ اب کشمیر سے مزاحمت ختم ہو جائے گی لیکن حقیقتاً یہ ہندوستان کا وہم ہے کہ کشمیر میں تحریک ختم ہوجائے گی۔ پنڈت کلہن نے راج ترنگنی میں لکھا تھا کہ ’’کشمیری قوم کو پیار سے جیتا جا سکتا ہے ان پر جبر کیا جائے تو وہ ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔‘‘ کشمیر کو سمجھنے کے لیے انڈیا کو کلہن کی راج ترنگنی پڑھنی چاہیے۔ ویسے بھی تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں چاہے دو لوگ ہی کیوں نہ رہیں، جب تک قوم اپنا مقصد حاصل نہ کر لے تحریک باقی رہتی ہے۔ اس وقت ہندوستان نے جو کیا وہ کشمیر کو کھو دینے کا اقدام کیا۔ آرٹیکل 370 کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ایک پل تھا جو انہوں نے ختم کر دیا۔ اب وقت فیصلہ کرے گا کہ ہندوستان کا یہ اقدام کشمیر کا انضمام ثابت ہوگا یا ہندوستان کی بربادی؟ ہمیں اس کا انتظار کرنا ہو گا۔
کیا ریاست کی وحدت بحال ہوسکتی ہے؟
ایسا بالکل ممکن ہے کہ ریاست کی وحدت بحال ہوجائے۔ ہندوستان نے جو کیا وہ کوئی آسمانی وحی نہیں ہے جسے بدلا نہ جا سکے بلکہ امیت شاہ نے کہا بھی ہے کہ حالات نارمل ہوتے ہی ریاست کی حیثیت بحال کردی جائے گی۔ اگر کشمیری یہ چاہییں کہ ریاست ایک ہو اور 1953ء کی پوزیشن بحال ہو اور اس کے لیے جدوجہد کریں تو ہندوستان بھی مان سکتا ہے کہ ریاست کی وحدت بحال ہو۔ تاہم یہاں ایک سوال اہم ہے کہ کیا کشمیری اب ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہیں گے؟ اب یہ دیکھنا ہے کہ کشمیری 1947 سے پہلے والی حالت میں رہنا چاہیں گے یا 1947 کے بعد والی حالت میں۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ کشمیری آزادی چاہتے ہیں۔ مین اسٹریم (ہند نواز) قیادت کبھی یہ چاہتی تھی کہ اندرونی خودمختاری کے ساتھ وہ ہندوستان کے ساتھ ہی رہیں اور اسی بنیاد پر وہ ووٹ لیتے تھے تاہم 5 اگست کے بعد اب وہ حلقہ بھی نہیں رہا کیوںکہ اب وہ خود بھی کہتے ہیں کہ 47 ء میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا ایک غلطی تھی۔
امریکی کونسلیٹ کا کردار
ہندوستانی حکومت کے حالیہ اقدام کے بعد جہاں ڈوگروں سمیت دیگر اقلیتوں کو عدم تحفظ محسوس ہو رہا ہے وہیں جموں کو الگ ریاست بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ مطالبہ ہندوستان کے کہنے پر کیا جا رہا ہو۔ بھاجپا نے ہندوازم کو فروغ دیا اور اس بنیاد پر ریاست کو فرقہ وارانہ تقسیم کی ہوا ملی۔ اس کے ساتھ امریکی کونسلیٹ نے بھی کہا ہے کہ اسرائیلی طرز کی کالونیاں بنائی جائیںاگر ایسا ہوا توریاست مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی چلی جائے گی۔
ہندوستان کو کیسے جھکایا جاسکتا ہے؟
کشمیری جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں اسے دیکھ کر میں یہ کہہ رہی ہوں کہ یہ ایسی باہمت قوم ہے جو ایسے مظالم سات دہائیوں سے جھیل رہی ہے ورنہ ہندوستان نے کوئی ایسا حربہ نہیں چھوڑا جو ان پر نہ آزمایا گیا ہو۔ موجودہ سانحے میں ایک بات ہے کہ ابھی تک جو کشمیریوں کا رویہ ہے اور جس پُرامن اور پُروقار طریقے سے وہ چل رہے ہیں اور جس بردباری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کیوںکہ اگر وہ باہر نکلتے اور احتجاج کرتے تو خون خرابہ ہوتا۔ انھیں مستقبل میں بھی اپنی جنگ پرامن طریقے سے لڑنے ہوگی جس میں کسی کی جان نہ جائے۔ اس قوم کو اب ایک متحد قیادت کی ضرورت ہے جو تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرے۔ اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ جب یہ قیادت جیل سے باہر آتی ہے تو کون سا رخ اختیار کرتی ہے، کیا وہ آزادی پسندوں سے ملے گی یا پہلے والی سیاست ہی کرے گی؟
معیشت کی تباہی کے مزاحمتی تحریک پر اثرات مرتب ہوں گے؟
میرا خیال ہے کہ کشمیر کی تحریک کبھی کاروبار کے استحکام کی محتاج نہیں رہی کیوںکہ جن لوگوں نے یہ تحریک چلائی ان کے گھروں میں بعض اوقات دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں تھا۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ معیشت تباہ ہونے سے تحریک ختم ہوجائے گی
ایک خام خیالی ہے۔ موجودہ صورت حال میں کشمیریوں کی معیشت کو دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ کشمیر کی معیشت کو تباہ کرکے ہندوستان نے کشمیریوں کو اجتماعی سزا دی کیوںکہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے تاکہ کشمیری ہندوستان کی بات ماننے پر مجبور ہوجائیں اور اپنے حق آزادی سے دستبردار ہوجائیں۔
2014 میں جب کشمیر میں سیلاب آیا تھا تو اس وقت بھی کشمیر کی معیشت مکمل تباہ ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد کشمیری پھر سے اٹھے، کاروبار دوبارہ چلائے، مکان بنائے اور سب نارمل ہوا۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے مجھے لگ رہا ہے کہ کشمیری ایک مرتبہ پھر خود کو سنبھالیں گے اور اپنی معیشت کو مضبوط کریں گے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں کئی مرتبہ کشمیر کی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مزاحمت برقرار رہی۔
امریکا ، برطانیہ اور مسئلہ کشمیر
برطانیہ میں الیکشن ہیں اور بریگزٹ کا مسئلہ بہت گہرا ہے اور گذشتہ تین سال سے لوگوں کے ذہنوں پر بریگزٹ چھایا ہوا ہے، پھر بارہ دسمبر کو انتخابات بھی ہو رہے ہیں تو ایسے میں ان کے لیے دوسرے مسائل سے زیادہ اپنا مسئلہ اہم ہے۔ امریکا میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہ امیگریشن اور دوسرے مسائل پر پھنسے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے کشمیر امریکا کی زیادہ توجہ حاصل نہ ہو سکا، حالانکہ سب کو علم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں اور اگر خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو اس کا اثر نہ صرف برصغیر پر پڑے گا بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی لیکن وہ اپنے مسائل کی وجہ سے اس طرف توجہ نہیں دے پارہے ہیں۔
برطانیہ، لیبرپارٹی جیت گئیتو کیا ہوگا؟
برطانیہ کی لیبر پارٹی کی پالیسی میں کشمیری اور پاکستانی ڈایسپورہ کافی اثرو رسوخ رکھتا ہے اور یہاں 17 لاکھ پاکستانی اور کشمیری رہتے ہیں جب کہ ہندوستانیوں کی تعداد 14 لاکھ ہے جس میں چالیس فیصد ہندو ہیں اور ان میں بھی سب آر ایس ایس یا بی جے پی کے حامی نہیں ہیں بلکہ ایسے بھی ہیں جو کشمیرکے مسئلے کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور کشمیریوں کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ موجودہ برطانوی حکومت نے بھی کشمیر کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ایسا بھی محسوس ہو رہا ہے کہ برطانیہ پس پردہ پاکستان اور بھارت کو بات چیت کے لیے راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس بحران کا حل نکالا جا سکے۔
اس وقت برطانیہ کے انتخابات کی مہم جاری ہے اور کشمیری ڈایسپورہ انتخابی مہم کے سلسلے میں جہاں بھی جاتے ہیں کشمیر کی بات کرتے ہیں۔ اسی مہم کے دوران جرمن کوربن نے کہا کہ اگر لیبر پارٹی جیتتی ہے تو فلسطین کو آزاد مملکت کے طور پر قبول کرے گی۔ اسی طرح انہوں نے پہلے بھی کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں ملکوں سے بات چیت کے لیے کہیں گے اور مجھے لگتا ہے کہ اگر لیبرپارٹی آئی تو وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیے لیے کردار ادا کرنے کے لیے بھی کوشش کرے گی۔
برطانیہ میں پاکستان نواز اور ہندوستان نواز مظاہرین کے احتجاج پر پابندی کی اصل وجہ؟
برطانیہ میں کوئی بھی پرامن طریقے سے اپنے حق کے لیے احتجاج کرسکتا ہے ۔ 15 اگست کو انڈین ہائی کمیشن کے سامنے بھارتی اور کشمیری کمیونٹی الگ الگ احتجاج کر رہی تھیں۔ اس دوران بدمزگی پیدا ہوئی اور مظاہرین نے انڈین ہائی کمیشن پر انڈے پھینکے حالانکہ انہیں پرامن احتجاج کرنا چاہیے تھا اور بدمزگی نہیں پھیلانی چاہیے تھی۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس نے دونوں گروپوں کے احتجاج کرنے پر پابندی عائد کردی کیوںکہ ان کی نظر میں دونوں ہی برابر تھے۔ اس لیے جہاں رہا جاتا ہے وہاں کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے کیوںکہ تشدد یا ہلڑبازی ہمیشہ منفی تاثر پیدا کرتی ہے۔
اسے کسی کی سفارتی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر جگہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے تشدد کی راہ پر جانا ہوتا ہے اور اصل مقصد سے ہٹانا ہوتا ہے۔ ہم اس بات پر بحث کرسکتے ہیں کہ جو لوگ ہندوستان کے حق میں احتجاج کررہے تھے وہ درست تھے یا غلط لیکن برطانیہ میں سب کو احتجاج کا حق دیا جاتا ہے اور انہوں نے دونوں کو اجازت دے رکھی تھی اور اب دونوں کو ہی اجازت نہیں ملتی کیوںکہ یہاں ہلڑبازی اور تشدد کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
مشرف کا چار نکاتی فارمولا ہندوستان اور پاکستان کے لیے فیس سیونگ ہوسکتا ہے؟
کشمیر کے مستقل حل کے لیے پاکستان اور ہندوستان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان کو اپنی انا چھوڑنی ہوگی اور یہ سوچنا ہوگا کہ کشمیری جو دونوں اطراف سے شدید متاثر ہو رہے ہیں انھیں کس طرح راحت دی جاسکتی ہے۔
یہاں پر ہندوستان اور پاکستان کے لیےwin win سچویشن ہے، یعنی مشرف کا چار نکاتی فارمولا چل سکتا ہے، بارڈر کھولیں، کشمیریوں کو آزاد کریں اور یہی دونوں ممالک کے لیے فیس سیونگ بھی ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں ملک اس کے لیے سوچیں گے؟ اس سچویشن تک لانے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی کا دباؤ ضروری ہے، کیوںکہ اس کے بغیر یہ ممالک اس طرف نہیں جائیں گے۔ اس کے لیے خصوصاً امریکا اور برطانیہ کو کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ کشمیری زندہ رہ سکیں۔ اس کے علاوہ اگر ان دونوں ملکوں (ہندوستان اور پاکستان) کے سیاست دانوں کو عقل آئے اور انھیں سمجھ آجائے کہ کتنا بڑا اسٹیک لگا ہے تو وہ سوچیں گے اور سمجھیں گے، تب کشمیریوں کو سانس لینے دیں گے۔
کیا چین واقعی کشمیریوں کے حق خودارادیت کا حامی ہے؟
اب ریاست جموں کشمیر کی جیو پولیٹیکل سچویشن دنیا کے لیے انتہائی اہم ہے ایسے میں چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر 1947ء والے پوزیشن پر واپس جائے کیوںکہ اس وقت گلگت بلتستان ریاست کے حصے تھے۔ اور اس بنیاد پر وہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بھی مخالفت کرے گا۔ ہاں! اگر امریکا کی دل چسپی ہے تو وہ ریفرنڈم کروائے۔ پوری ریاست میں ریفرنڈم ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مختلف خطوں کی دل چسپیوں کا علم ہوجائے گا اور شاید اس طرح1947ء والی پوزیشن بحال ہو سکے لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا سخت رویہ کیوں؟
کشمیر ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے اور وہ آبادیاتی تناسب تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا رویہ سخت ہے۔ اس طرح ان کے عزائم بھی واضح ہیں۔ کشمیر کی صورت حال دیکھ کر شمال مشرقی ریاستوں میں عدم تحفظ اور خصوصی اختیارات کے کھونے کا ڈر پیدا ہوا ہے جس کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ کشمیر کے لیے بی جے پی کا 1947 سے ایجنڈا یہی تھا کہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا ہے اور مسئلہ ختم کرنا ہے۔ اب جب کہ انہوں نے اس ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو اس سے اور یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہندوستان کا رویہ سخت ہوا اور مزید ہورہا ہے۔
کیا پاکستان نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے؟
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں جو ہوا اس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کی مرضی شامل تھی لیکن میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوا ہے کیوںکہ اگر کچھ بیک ڈور ہوتا تو پہلے کشمیر کے حالات نارمل کیے جاتے پھر کرتارپور یا کسی اور طرف جانے کی کوشش کی جاتی۔ کرتارپور کھولنا پاکستان کا بہترین اقدام ہے اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان سیکولرازم کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہندوستان ہندوازم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک عجیب و غریب صورت حال ہے کہ پہلے ہندوستان سیکولر اسٹیٹ تھا اور پاکستان مذہبی ریاست کے طور پر جانا جاتا تھا تاہم اب الٹ ہو رہا ہے۔ جو خوب صورتی سیکولرازم کی ہے وہ مذہبی انتہا پسندی میں نہیں ہے۔ کرتارپور کوریڈور کھولنا اچھا اقدام ہے لیکن دونوں ملکوں کو سمجھنا چاہیے کہ کشمیر کے بھی منقسم خاندان ہیں ان کو بھی ملنے دینا چاہیے۔ جہاں تک یہ افواہ ہے کہ کرتارپور کھلا ہے اور کشمیر کا سودا ہوا ہے تو اس بات کو میں نہیں مانتی ہوں۔
ہندوستانی معیشت کیوں تباہیکی طرف گامزن؟
اس وقت ہندوستان کا جی ڈی پی 4.2 پر پہنچا ہے جو کہ 2015 میں 7 تھا۔ ہندوستان میں معیشت کے گرنے کی دو وجوہات ہیں:
ایک تو نوٹ بندی کے باعث معیشت کمزور ہوئی اور دوسرا جنرل سیلز ٹیکس لگانے کی وجہ سے سمال سکیل اور مڈل اسکیل بزنس متاثر ہوئیں۔ کئی انڈسٹریز بند ہوچکی ہیں اور سب سے زیادہ نقصان آٹو موبائل انڈسٹری کو ہوا جو تقریباً بند ہونے کو ہے۔
2014 سے2019 کے تمام ضمنی انتخابات ہارنے کے بعد بی جے پی جنرل الیکشن کیسے جیتی؟
بی جے پی الیکشن کے دوران ہمیشہ جذبات ابھارنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لیے انہیں کشمیر کا معاملہ ڈسکس کرنا ہو یا پاکستان کے خلاف بات کرنی پڑے وہ ہر طرح کی حد پار کرجاتے ہیں اور جذبات ابھار کر ووٹر کو متاثر کرتے ہیں۔ ہندوستان کے ووٹرز کے بارے میں گاندھی نے بھی کہا تھا کہ ’’ووٹر ایک کراؤڈ ہے اس کراؤڈ کو سمجھ لیں تو یہ ایک ہی رو میں بہہ جاتے ہیں۔‘‘ اس وقت بی جے پی اس کراؤڈ کو ہندو مذہب کی روٹی کھلا رہی ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ معیشت کمزور ہو رہی ہے، ملازمتیں نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ’’ہندو، ہندو‘‘ کہہ کر جیت جاتے ہیں، لیکن اب عام ووٹر سمجھ رہا ہے کہ اور مزید ہندو روٹی نہیں سینکی جا سکے گی۔ اب شعور آ رہا ہے آئندہ بی جے پی کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی یا پھر یہ اقتدار سے ہاتھ دھونا ہوں گے۔
The post بھارت نے کشمیریوں کو کھودینے کا اقدام کیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.