(قسط نمبر 12)
گلگت بلتستان کا ذکر ہو اور فیری میڈوز کا تذکرہ نہ ہو، یہ ممکن ہی نہیں۔ جب سے میں گلگت آیا تھا فیری میڈوز کے حسن، راستے کی دشواریوں، لوگوں کی سادگی اور رائے کوٹ پل کے بارے میں سنتے سنتے شوق دید اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔
2015ء کے دوران میں مجھے گلگت کے علاوہ، نلتر، ہوپر غذر، گاہکوچ، گو پس، یاسین، پھنڈر،،راما استور ،چلم،دیوسائی، منی مرگ، ہنزہ، گلمت، سوست، خنجراب،ہوپر نگر، چھلت اور جگلوٹ سٹی جانے کے مواقع ملے۔ ریڈیو پاکستان گلگت کے ایک پروڈیوسر خورشید احمد خان کا تعلق رائے کوٹ ضلع دیامر سے ہے۔فیری میڈوز اور قاتل پہاڑ نانگا پربت بھی ضلع دیامر کا حصہ ہیں۔گلگت سے پچھتر کلو میٹر پہلے یہی وہ مقام ہے جہاں فیری میڈوز جانے کے خواہشمند شاہراہ قراقرم سے اُتر کر فیری میڈوز جانے والی روایتی جیپوں پر سوار ہوتے اور اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ فیری میڈوز جانے کا بہترین وقت مئی سے ستمبر کے آخر تک کا ہوتا ہے۔ لیکن یار لوگ دسمبر کی ہڈیوں کو منجمد کردینے والی سردی میں بھی وہاں جانے سے باز نہیں آتے۔
فیری میڈوز جانے کے حوالے سے جب بھی خورشید سے بات کی تو اُس نے یہی بتایا کہ ابھی راستہ ٹھیک نہیں ہے، ابھی پل ٹوٹ گیا ہے، ابھی جیپوں کا راستہ بند ہوگیا ہے، لوگ پیدل جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اب ان باتوں سے یہ سمجھنا ناممکن تھا کہ فیری میڈوز کو جانے والا راستہ درحقیقت کیسا ہے؟اور فیری میڈوز پہنچنے کے لئے کون کون سے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔فیری میڈوز کے راستے کی مشکلات کے بارے میںخورشید کی باتیں سُن سُن کر اُس کے ساتھی پروڈیوسروں نے فیری میڈوز جانے کو اُس کی چڑ بنا لیا، اُس کا مذاق اُڑایا جانے لگا کہ وہ ہمیں وہاں لے جانے سے گریزاں ہے اس لئے بہانے بناتا ہے۔
اُس کی جھجک کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ آتی تھی کہ فیری میڈوز میں اُس کے ماموں اور سسر کا ہوٹل بھی ہے۔ رائے کوٹ سرائے نامی یہ ہوٹل بہت ہی مناسب مقام پر اُن کی آبائی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔اس ہوٹل میں ٹھہرنے کے لئے پہلے سے بکنگ کرنا پڑتی ہے۔2015ء کا سارا سال اسی اُدھیڑ بن میں گذرگیا۔2016ء آیا تو گرمیوں کی چھٹیوں میںمیرے دوست قاضی آصف الدین نے گلگت آنے کی خواہش ظاہر کی۔ قاضی آصف ریڈیو پاکستان کے نیوز اینڈکرنٹ افیئرز چینل میں میرے ساتھ سنیئر پروڈیوسر تھے۔
جب 2003-4 میں اُنہیں ایک غیر ملکی سفارت خانے سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے ریڈیوپاکستان کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن انہوں نے ریڈیو پاکستان میں اپنے دوستوں کے ساتھ روابط استوار رکھے۔ قاضی صاحب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گلگت پہنچے تو میں نے اُن کے لئے اپنا وہ گھر خالی کردیا۔ جس میں وہ سینئر پروڈیوسر کی حیثیت سے دو برس تک مقیم رہے تھے۔ انہی دنوں میرا بڑا بیٹا عمر عبدالعزیز بھی گلگت آیا ہوا تھا۔عمر 2015ٗء میں اپنے دیگر بھائیوں کے ہمراہ گلگت آیا تھا۔وہ فیری میڈوز جانا چاہتا تھا۔ قاضی صاحب کی بھی خواہش تھی کہ وہ فیری میڈوز جا ئیں۔ میں نے سوچا کہ قاضی صاحب کو فیری میڈوز دیکھنے کا شوق پندرہ برس بعد گلگت لے آیا۔ تو چلو اب میں بھی وہاں سے ہو آئوں ۔ خورشید سے بات کی تو اُس نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
رائے کوٹ پل سے اوپر تاتو تک تو جیپیں ویسے بھی چلتی ہیں۔بس تاتو سے تھوڑا پہلے پل کا ایک پشتہ ٹوٹ چکا ہے ۔وہاں تک جیپیں جاتی ہیں۔اُس سے آگے پیدل جانا ہوگا اور تھوڑا سا راستہ ہے۔ اب یہ وضاحت خورشید نے نہیں کی ۔کہ یہ تھوڑا سا راستہ تاتو تک کا ہے یا فیری میڈوز تک کا، بہرحال میں نے اپنی روایتی سادگی کی وجہ سے یہی سمجھا کہ ٹوٹے پل سے تاتو تک تھوڑا سا فا صلہ ہوگا۔ اور بھر پریوں کی آماجگاہ ہمارے قدموں کے نیچے ہوگی۔ خورشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ ہمیں پیدل بھی چلنا ہے اس لئے سامان کم سے کم رکھا جائے۔
یہی بات میں نے قاضی آصف سے بھی کہہ دی۔خیر صبح سویرے ناشتہ کرکے ہم اپنی جیپ میں گلگت سے روانہ ہوئے۔اور تقریباً دو گھنٹے میں رائے کوٹ پل پر پہنچ گئے۔ یہاں بھی رائے کوٹ سرائے کے نام سے خورشید کے سسر کا ایک ہوٹل ہے۔
اس ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لئے رکے تاکہ چائے پی کر آگے روانہ ہوا جا سکے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ رائے کوٹ پل سے تاتو تک سترہ کلومیڑ کا فاصلہ ہے اور تاتو کے لئے جانے کے ہر خواہشمند کو اس جگہ سے جیپ کرایہ پر لینا پڑتی ہے۔ سات ہزار روپے فی جیپ کرایہ وصول کیاجاتا ہے۔اگر سواریاں پوری ہوں۔یعنی ایک خاندان کے چھ سات افراد ہوں یا اتنی ہی تعداد دوستوں کی ہو تو جیپ پوری لینا ہوتی ہے بصورت دیگر جیپ والے سواریاں پوری کرکے باری باری روانہ ہوتے ہیں۔
اس روٹ پر انہی ڈرائیوروں کی اجارہ داری ہے۔وہ نہ تو اس سڑک کو پختہ ہونے دیتے ہیں۔اور نہ ہی کوئی اور شخص یہاں اپنی جیپ پر آسکتا ہے۔ویسے بھی اس پگڈنڈی کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے کہ ذرا سی بارش ہو تو لینڈسلائیڈنگ ہوتی ہے جس سے پگڈنڈی کے کنارے منہدم ہو جاتے ہیں اور جیپوں کا راستہ مسدود ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ رائے کوٹ سے تاتو تک کی یہ کچی سڑک حکومت نے نہیں بلکہ ائر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان مرحوم کے بھائی بریگیڈئر ریٹائرڈ اسلم خان نے اپنے ذاتی خرچ سے بنوائی تھی تاکہ سکردو میں کچورہ کے مقام پر بنائے جانے والے ہوٹل کی طرز پر فیری میڈوز میں بھی ہوٹل تعمیر کیا جا سکے۔ یہ ہوٹل تادم تحریر تعمیر نہیں ہو پایا ہے۔
البتہ اس کے لئے خاصی بڑی جگہ خریدی جا چکی ہے۔ قاضی آصف الدین کے اہل خانہ سمیت ہم کل سات افراد تھے۔ اس لئے ہمیں پوری جیپ کرایہ پر لینا تھی۔ سات ہزارروپے کرایہ طے کرکے جب ہم جیپ میں سوار ہوئے۔اور جیپ ڈرائیور نے شاہراہ قراقرم سے اوپر فیری میڈوز جانے والی پتلی سی پگڈنڈی پر گاڑی موڑ کر چڑھائی تو اُس وقت تک مجھے یہ اندازہ ہر گز نہ تھا کہ اب میں سفر کے حوالے سے اپنی زندگی کے سب سے زیادہ خوف ناک تجربے سے دوچار ہونے والا ہوں۔
کچھ دیر کی مسلسل چڑھائی اور چند ایک موڑوں کے بعد جب میں نے نیچے دیکھا تو شاہراہ قراقرم ایک باریک سی لکیر کی صورت نظر آرہی تھی۔رائے کوٹ پل اور اس سے آگے گلگت کی طرف جانے والی سڑک معدوم سی ہو رہی تھی۔اتنے میںپتھروں اور گڑھوں سے بھرپور پگڈنڈی کا اصل حصہ شروع ہوا جو مسلسل موڑوں ، چڑھائی اور جیپ کے بے تحاشہ اچھلنے کودنے کا باعث بن رہا تھا۔ویسے بھی جیپ کوئی آرام دہ سواری نہیں، اور جب آپ فیری میڈوز والے راستے جیسی پگڈنڈی پر جیپ میں جارہے ہوں تو پھرہچکولوں،اور اردگرد پھیلے ہوئے ڈنڈوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ایک ایسی جدوجہد ہے جس میں ہاتھ، بازو،سراور گردن شل ہوجاتے ہیں۔کمر پھوڑے کی مانند دکھنے لگتی ہے اور منہ سے بے اختیار ہائے وائے کی صورت میں فریادیں برآمد ہوتی ہیں۔
ہمارے ساتھ چونکہ ایک خاتون بھی تھیں اس لئے ان فریادوں کا آہنگ کم رکھنے کی کوشش ایک الگ داستان غم تھی۔اس پگڈنڈی پر زندگی موت کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی ہے۔بہت سی جگہوں پر تو موت بالکل سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔اتنی قریب کہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی ہونے لگتی ہے۔کئی بار تو موڑ مڑتے ہوئے جیپ کا ایک ٹائر ہوا میں معلق ہوا لیکن ڈرائیور صاحب تھے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے۔ بہرحال تقریباً آدھے گھنٹے کی اس تکلیف دہ مشقت کے بعد یہ پگڈنڈی کسی حد تک ہموار ہوگئی کیونکہ ہم اب ایسی جگہ پہنچ چکے تھے کہ شاہراہ قراقرم کہیں نظر نہیں آرہی تھی اور نیچے دیکھنے پر ہول اُٹھتے تھے کیونکہ نانگا پربت سے نکلنے والے رائے کوٹ گلیشئر سے رسنے والے پانی نے جس نالے کی صورت اختیار کر لی تھی وہ کم و بیش پانچ ہزار فٹ گہرائی میں بہہ رہا تھا۔
اور اس کی رفتار اور آواز اس قدر خوف ناک تھی کہ نیچے دیکھتے ہوئے دل دہلتا تھا۔یہ درست ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے، اور جو شب قبر کی تاریکی میں بسر ہونی ہے، وہ روئے زمین کی سطح پر ہر گز نہیں گذرے گی لیکن جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔تو فیری میڈوز جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ اس پگڈنڈی پر آنے جانے والی جیپوں میں سے جب بھی کوئی جیپ کسی حادثے کا شکار ہوکر نیچے گری ہے تو اس کی سواریوں میں سے کسی کی میت کو نہیں نکالا جا سکا۔
راستے میں جب کوئی جیپ مخالف سمت سے آتی دکھائی دیتی تو ہر دو میں سے جس ڈرائیور کے قریب راستے میں گنجائش ہوتی ۔وہ گاڑی کو ایک طرف کرکے دوسرے کو گذرنے کا موقع دیتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات گاڑی کو پہاڑ پر بھی چڑھانا پڑتا ہے۔ ہماری جیپ کے ڈرائیور نے بھی ایک دو بار ایسا کیا۔تو بے اختیارسب کی چیخیں نکل گئیں۔
لیکن فیری میڈوز کے راستے پر چلنے والے ڈرائیور ان چیخوں اور فریادوں کو سنتے سنتے اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کم و بیش سوا ڈیڑھ گھنٹہ کے اس ناقابل بیان تکلیف دہ سفر کے بعد اچانک ایک موڑ پر ڈرائیور نے جیپ روک دی اور کہا کہ اب اس سے آگے آپ لوگ پیدل جائیں گے۔کیونکہ اس پگڈنڈی کے راستے میں آنے والے ایک پہاڑی نالے پر بنا ہوا لکڑی کا پُل ایک طرف سے پشتہ بیٹھ جانے کی وجہ سے جیپوں کا بوجھ سہنے سے قاصر ہوچکا تھا۔
یہاں درجنوں جیپیں کھڑی تھیں اور لوگ پیدل اُتر کر’’اپنی جنت گم گشتہ‘‘ فیری میڈوز کی طرف کشاں کشاں جا رہے تھے۔ ڈرائیور نے اگلے روز ہمیں اسی جگہ سے دوبارہ اپنے ہمراہ رائے کوٹ پُل تک پہنچانا تھا۔ بہر حال بدقت تمام اپنے پھوڑے کی طرح دکھتے جسم کی رہی سہی طاقت مجتمع کی اور جیپ سے اُترے۔سستانے کے لئے کوئی بیٹھنے کی جگہ میسر نہ تھی، نہ ہی سستانے کا موقع تھا۔ اس لئے بادل نخواستہ تاتو کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے فیری میڈوز کا ٹریک شروع ہوتا ہے۔ چند موڑ مڑنے کے بعد سرسبز گھنے درختوں میں گھرا تاتو گائوں نظر آیا۔ اب پگڈنڈی سے نیچے اُتر کر نالہ پار کرنے اور سامنے بنے ہوئے ہوٹل تک پہنچنے کا مرحلہ باقی تھا۔ ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہم سب پتلی سی پگڈنڈی پر سے اُترے۔
نالے پر پڑے جھولتے ہوئے لکڑی کے تختے کو پار کیا اور کھلی جگہ پر آکر قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ یہاں ایک ہوٹل موجود ہے جس میں قیام کے لئے لکڑی سے بنے دو کمرے، باتھ رومز اور ایک بڑا کھانے کا کمرہ ہے۔ کھانے کے کمرے میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں نے خورشید احمد خان کو آگے کیا اُس نے اپنا تعارف کرایا تو کچھ انتظار کے بعد ہوٹل والوں نے رہائشی کمرہ کھول دیا۔ ہم سب نے وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کی۔کھانے میں دال چاول ہی تھے۔اس کے علاوہ کسی اور شے کے پکانے کی شاید گنجائش بھی نہیں تھی۔ علی الصبح گلگت میں ناشتہ کرنے اور پھر رائے کوٹ میں چائے کی ایک پیالی کے سوا ایک کھیل بھی اُڑ کر منہ میں نہیں گئی تھی۔اس پہ مستزاد جیپ کا خوفناک سفر، ہماری آنتیں توکب سے قل ہواللہ پڑھ رہی تھیں۔
لیکن سفر کے دوران میں ہمیںاپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی۔کھانے کی فکر کس کافر کو تھی۔ اب جب نماز پڑھ لی تھی اور پھوڑے کی طرح دکھتے بدن کو قدرے آرام ملا تو بھوک چمک اُٹھی۔اُبلے ہوئے سفید چاولوں کے ساتھ دھلی ہوئی مسور کی دال کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ اس مزے میں بھوک کے ساتھ ساتھ ماحول کا بھی اثر تھا۔ کھانے سے فراغت کے بعد میں نے خورشید سے پوچھا کہ فیری میڈوز تک جانے کے لئے کیا کرنا ہوگا۔اُس نے اپنی روایتی بے نیازی سے جواب دیا کہ سر جی چار پانچ کلو میٹر کا فاصلہ ہے زیادہ تر لوگ پیدل جاتے ہیں۔ ہم بھی پیدل جائیں گے۔ دو تین گھنٹوں میں پہنچ جائیں گے۔ لطیفہ یہ ہے کہ وہ خود کم و بیش پندرہ برس بعدفیری میڈوز جا رہا تھا۔جو لوگ پیدل نہیں جاتے، وہ گھوڑوں پر سفر کرتے ہیں۔
گھنے درختوں کے جنگل میں گھرے اس ہوٹل کے اردگرد کئی گھوڑے بندھے تھے۔ خورشید بتا چکا تھا کہ ہم نے جس راستے پر پیدل چل کر فیری میڈوز پہنچنا ہے وہ پانچ کلو میٹر کے لگ بھگ دو سے تین فٹ چوڑی ایک پگڈنڈی ہے لیکن مجھے ہوٹل سے نکلتے وقت یہ اندازہ ہر گز نہ تھا کہ یہ پگڈنڈی میری زندگی کا سب سے بڑا متحان ثابت ہو گی۔
خیر لکڑی کے پھاٹک سے گذر کر جب ہم نے فیری میڈوز کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا تو گھوڑوں والے اپنے اپنے گھوڑے لے کر آگئے۔ یہ سب بے فکرے بارہ سے پچیس برس عمر کے مقامی لڑکے اورنوجوان تھے۔ان میں سے زیادہ تر سگریٹ بھی پی رہے تھے۔ فیری میڈوز پہنچنے کا کرایہ پوچھا تو حیرت ہونے لگی کیونکہ پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع فیری میڈوز تک پہنچانے اور پھر اگلے روز واپس لانے کے لئے اڑھائی ہزار روپے فی نفر کرایہ طلب کیا جا رہا تھا اور وہ ایک دھیلہ بھی رعایت کرنے پر آمادہ نہ تھے۔وہ سب یک آواز ہو کر بو ل رہے تھے۔
اس لئے ہم سب نے کہا کہ پیدل اوپر چلتے ہیں۔ میں نے ایک بار پھر خورشید سے پوچھا کہ راستہ ہموار تو ہے۔خورشید نے تکلفاً زور دے کر کہا کہ سر جی تھوڑی بہت چڑھائی تو ہے لیکن زیادہ تر ہموار ہی ہے۔قاضی صاحب کے بچے یعنی عائشہ اور حافظ عمر اور میرا بیٹا عمرعبدالعزیز تینوں فیری میڈوز پہنچنے کی خوشی سے مغلوب ہو کر ہم سے آگے آگے چل رہے تھے۔
خورشید اُن کے ساتھ تھا جبکہ میں ،قاضی صاحب اور اُن کی اہلیہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے ۔کم و بیش پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد غیر محسوس انداز میں راستہ بلند ہوتا گیا اور ساتھ ہی ہمارے سانس بھی پھولتے گئے۔پسینہ اس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا کہ ہمارے کپڑے بھیگ چکے تھے۔ پیاس کی شدت میں میری پانی کی بوتل ختم ہو چکی تھی۔پگڈنڈی گھنے جنگل سے نکل کر چلچلاتی دھوپ میں آچکی تھی۔
تاتو کی بلندی پر نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی چبھتی شعاعوں کو جھیلتے ہوئے پیدل چلنے کا ایک ایک قدم من من بھر کا لگ رہا تھا۔گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ جب بلندی بھی بڑھنے لگی تودھو نکنی کی طرح چلتے سانسوں نے احساس دلایا کہ علی الصبح کے جاگے ہوئے، رائے کوٹ تک پہنچنے اور پھر جیپ کے اچھلتے کودتے سفر کے بعد اب مزید پانچ کلو میٹر کی چڑھائی پیدل چڑھنا پچپن برس پرانے بدن کے بس کی بات نہیں ہے۔ جب یہ طے کر لیا تو دیکھا کہ جن گھوڑوں کے مالکان سے ہماری بات نہیں بن پائی تھی وہ اپنے اپنے گھوڑے لئے راستے میں کھڑے ہیں۔
دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں ہماری طرح فیری میڈوز پیدل پہنچنے کی خواہش رکھنے والوں کو اپنی بے بسی رک جانے پر مجبور کردیتی ہے۔ چنانچہ بغیر کسی مول تول کے ہم نے تین گھوڑے کرایے پر لئے۔بچے خورشید کے ہمراہ پیدل چلنے پر نہ صرف آمادہ تھے بلکہ خاصے آگے بھی جا چکے تھے۔ میرا کسی بھی گھوڑے پر بیٹھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔گھوڑے کی پشت پر بندھی ہوئی کاٹھی پر آگے کی طرف لوہے کا ایک کڑا تھا ۔جو چوکور سریے سے بنایا گیا تھا۔
گھوڑے کے مالک نے کہا کہ اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔میں نے اس کڑے کو مضبوطی سے پکڑنے کے بعد خود کو سنبھالا۔گھوڑے کا مالک لگام تھامے بڑی بے نیازی سے چل رہا تھا۔اب یہ پگڈنڈی عام پگڈنڈیوں کی طرح ہموار نہیں تھی بلکہ فیری میڈوز کی طرف بڑھنے والی چڑھائی تھی۔جس پر اوپر سے گرنے والے پتھر،گڑھے، موڑ، پھسلن،گرے ہوئے درختوں کی شاخیں اور ٹہنیاں، آتے جاتے لوگ، گھوڑے غرض ساری رکاوٹیں ایسی تھیں کہ ہر قدم پر گمان ہوتا تھا کہ گھوڑا اب پھسلا کہ تب پھسلا، اگرچہ گھوڑا پورے راستے کے دوران میں تو نہیں پھسلا لیکن مجھے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے جسم کے ہر حصے خاص طور پر انگلیوں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔
اب سہارے والے کڑے کو چھوڑتا ہوں تو گرنے کا خطرہ ہے اور نہیں چھوڑتا تو درد ناقابل برداشت ہے۔راستہ شیطان کی آنت کی طرح ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ واپس آنے والے جتنے بھی لوگ پیدل آرہے تھے اُن میںسے جتنے لوگوں سے پوچھا کہ فیری میڈوز کتنی دور ہے تو وہ یہی کہتے تھے کہ اگلے موڑ کے بعد فیری میڈوز آجائے گا۔ لیکن یہ اگلا موڑ آنے کا نام ہی نہیںلے رہا تھا۔ شاید وہ تمام لوگ لاہور سے تعلق رکھتے تھے یا لاہوریوں سے متا ثر تھے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ کراچی سے لاہور آکر داتا دربارکا راستہ پوچھنے والا شخص واپس کراچی پہنچ گیا لیکن وہ داتا دربار نہیں پہنچ پایا۔
اب یہ وقت عصر کے قضاء ہونے کا تھا۔صاف نیلا آسمان پر چمکتا ہوا سورج اب گہرے بادلوں کی اوٹ میں چھپ چکا تھا۔ تیز ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔پسینہ خشک ہوچکا تھا۔اور سرد ہوائوں کی وجہ سے کپکپاہٹ شروع ہو گئی تھی۔اتنے میں وہ موڑ بالآخر آہی گیا۔ جس کا پوچھتے پوچھتے دم پھولنے لگا تھا۔ موڑ سے اوپر عمودی بلندی پر فیری میڈوز کے ہوٹلوں کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔لیکن ہمارے اردگرد گہرا اندھیراچھا چکا تھا۔یہاں پہنچ کر بادلوں نے جو برسنا شروع کیا تو سردی کی شدت اور تاریکی کے باعث خون ہڈیوں میں جمنے لگا۔
خوف بھی آرہا تھا کہ اندھیرے میں گھوڑا کیا اپنا توازن برقرار رکھ پائے گا۔دانت سردی سے بج رہے تھے اور بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔ خدا خدا کرکے گھوڑے کا رخ فیری میڈوز کی آخری چڑھائی کی طرف ہوا تو اوپر بنے ہوئے ہوٹلوں کی روشنیاں اور لوگوں کی آوازیں ہمیں تسلی دینے لگیں کہ اب منزل دور نہیں۔ قاضی صاحب کی اہلیہ مجھ سے پہلے پہنچ چکی تھیں۔گھوڑوں کے مالکان کو ہم یہ بتا چکے تھے کہ ہم نے رائے کوٹ سرائے ہوٹل میں جانا ہے۔
موسلا دھار بارش کی وجہ سے شرابور کپڑوں میں جب میں رائے کوٹ سرائے ہوٹل فیری میڈوز میں گھوڑے سے اُترا تو کچھ دیر تک تو چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ رات کی تاریکی میں پہاڑ کی چوٹی پر برستی بارش میں جب میں اوپر پہنچا تووہ اپنے بچوں اور قاضی صاحب کے لئے سراپا انتظار تھیں۔تھوڑی دیر میں خورشید احمد خان کا چہرہ نمودار ہوا۔اُسکے پیچھے عمر عبدالعزیز اور عائشہ تھے۔قاضی صاحب کا بیٹا حافظ عمر اوپر پہنچنے تک تو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تھا لیکن چونکہ اوپر آنے والی پگڈنڈی چوٹی پر پہنچ کر کئی شاخوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور رائے کوٹ سرائے ہوٹل بالکل شروع میں ہے۔
اس لئے حافظ عمرکچھ آگے چلاگیا اور ایک دوسرے ہوٹل جا پہنچا لیکن یہ بات ہمارے علم میں نہ تھی۔اتنے میں گھوڑے پر سوار قاضی صاحب بھی پہنچ گئے۔خورشید نے بہتیرا کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، عمر ابھی آجائے گا لیکن اُس کی والدہ فکر اور پریشانی میں رونے لگیں۔ میں نے خورشید کو دوڑایا کہ جاکر فوری طور پر عمر کا پتہ کرو۔ وہ دس بارہ منٹ میں عمر کے ہمراہ آگیا اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔عمر نے بتایا کہ وہ اوپر پہنچ کر رائے کوٹ سرائے ہوٹل رکنے کے بجائے آگے چلا گیا تھا اور ہوٹلوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
عمر کے ملنے کے بعد ایک اور مسئلہ آنکھڑا ہوا، اور وہ یہ تھا کہ میں نے قاضی صاحب سے کہا تھا کہ سامان کم سے کم رکھیں۔ انہوں نے بچوں کو سختی سے منع کیا کہ وہ کوئی فالتو سامان نہ لیں، بچے اُن سے بھی زیادہ سیدھے نکلے اور انہوں نے پہنے ہوئے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ لیا۔
اب ہم سب کے کپڑے بھیگ چکے تھے لیکن خورشید،حافظ عمر ،عائشہ اور عمر عبدالعزیز تو شرابور تھے،کیونکہ وہ پیدل آئے تھے ۔اُنہیں فوری طور پر کپڑے بدلنے کی ضرورت تھی۔عمر عبدالعزیز تو اپنے ہمراہ ایک پینٹ،شرٹ اور شلوار قمیض لایا تھا۔ میں بھی ایک جوڑا کپڑے الگ سے لے آیا تھا۔ میرے پاس ایک گرم چادر بھی تھی ۔سردی سے ہم سب کے دانت بج رہے تھے۔ چونکہ سیاحوں کا بے تحاشہ ہجوم تھا۔ تمام کمرے پہلے سے بک ہوچکے تھے اس لئے خورشید کے ماموں نے ہمارے قیام کے لئے دو خیمے مختص کئے۔گھاس کے فرش پر دری بچھی ہوئی تھی اور سلیپنگ بیگز مہیا کردیئے گئے۔ دونوںخٰیمے اس قدر وسیع تھے کہ آٹھ آٹھ افراد با آسانی ان میں سما سکتے تھے۔ میں خورشید اور عمر کے ہمراہ ایک خیمے میں ٹک گیا جبکہ دوسرے خیمے میں قاضی صاحب اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ٹھہرگئے۔
سردی سے بچائو کے لئے لکڑی کا الائو جلانے کی تیاری کی گئی۔ کیونکہ اس کے سوا سردی کا مقابلہ کرنے کی کوئی اور صورت نہ تھی۔خورشید کے ماموں نے ’جن کا نام محمود غزنوی تھا‘ کٹی ہوئی لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا ایک ڈھیر لگا کر الائو روشن کیا تو ہمارے دیگر سیاح بھی آگ تاپنے پہنچ گئے۔ الائو کے اردگرد بیٹھنے کے لئے لکڑی کے بنچ موجود تھے۔اتنے میں بادل چھٹ گئے اور اُن کی اوٹ سے گیارھویں کا چاند جھانکنے لگا۔ فیری میڈوز کا حسن چاندنی کی روشنی میں کچھ اس طرح سے دمکنے لگا کہ ہم سب اپنی تھکن،بھیگے ہوئے کپڑے اورکپکپا دینے والی سردی کوبھول کر اردگرد پھیلے ہوئے منظر میں کھو گئے۔
ایک طرف نانگا پربت کی برف پوش چوٹیاں تھیں تو دوسری طرف گھنا جنگل، پھر ترائی کی طرف پھیلتا ہوا گلیشئر ایک سیاہ اژدھے کی صورت پہاڑ سے لپٹا ہوا تھا جس کی تہوں سے بہنے والے پانی کی آواز میں ایک مہیب گھن گرج تھی۔ کچھ وقت آگ تاپنے میں گذارنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے لئے کھانا لگ گیا ہے۔
ہوٹل کے ڈائننگ روم میں نانگا پربت کو سر کرنے کے لئے آنے والے تمام معروف کوہ پیمائوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔جن میں سے کچھ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور کئی ایک جان کی بازی ہار کر نانگا پربت کی ’’قاتل پہاڑ ‘‘والی شہرت میں مزید اضافے کا باعث بن کر تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھوا چکے تھے۔ کھانے میں چکن کڑاہی اورپلائو تھا۔ بھوک بھی بہت لگی ہوئی تھی۔اس لئے سب نے سیر ہوکر کھایا۔کھانے کے بعد قہوہ کا دور چلا۔یہ ہوٹل روایتی ہوٹلوں سے بہت مختلف اس لئے بھی تھا کہ ایک تو یہ فیری میڈوز میں ہے دوسرا یہ کہ اس کی تمام تر تعمیر لکڑی سے کی گئی ہے۔ڈائننگ روم،مہمانوں کو ٹھہرانے کے کمرے،باتھ رومزبرآمدہ ،سیڑھیاں غرض ہر شے لکڑی سے تیار کردہ تھی۔فیری میڈوز میں اس وقت تقریباً دو درجن ہوٹل ہیں۔جن میں آٹھ دس سے لے کر پچاس تک کمرے ہیں۔
تمام ہوٹل والوں نے کمروں کے علاوہ زائد مہمان آجانے کی صورت میں خیموں کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔سچ پوچھیں تو خیمے میں شب بسری کازیادہ لطف آتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں گھنے جنگل ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔لیکن جب سے رائے کوٹ برج سے تاتو تک جانے والی جیپ روڈ بنی ہے اُس وقت سے سیاحوں کی کثرت سے آمد شروع ہوئی ۔اور اب یہ حال ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تین سے چار سو سیاح فیری میڈوز آتے ہیں۔ان کے علاوہ یہاں ایک دن سے زیادہ قیام کرنے والے سیاح بھی خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔اس قدر بڑی تعداد کو رہنے،کھانے پینے،باتھ رومز اور بون فائر کی سہولیات بہم پہنچانے میں سب سے پہلے جنگل کی قربانی دینا پڑتی ہے۔
شدیدتھکن کی وجہ سے نیند جلد آگئی۔ لیکن رات کو دو بار نالے کے شور کی وجہ سے آنکھ کھلی۔دونوں بار میں خیمے سے باہر آیا اور فیری میڈوز کے مسحورکن ماحول میں چاند تاروں کی چھائوں تلے چہل قدمی کا لطف اُٹھایا اور اللہ رب العزت کی صناعی پر سر دھنتا رہا۔ صبح اُٹھ کرواپسی کے لئے تیاری کی اور ناشتے کے لئے ایک بار پھر ہوٹل کے طعام خانے کی طرف گئے۔ گرما گرم پراٹھے،آملیٹ اور چائے کا ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے رائے کوٹ ہوٹل کے اردگرد کے دیگر ہوٹلوں اور سبزہ زاروں کا رخ کیا تاکہ کچھ تصویر کشی کی جا سکے۔
تاتو کی طرف واپس روانہ ہونے سے پہلے ہم نے خورشید کے ماموں زاد بھائی سے بل کا پوچھا تاکہ ا دائی کی جا سکے تو اُس نے ایک شرمیلی سی مسکراہٹ سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں۔گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد ہم تاتو پہنچ گئے۔وہاں کے ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا۔اس ہوٹل میں درجنوں سیاح جو رائے کوٹ سے فیری میڈوز جانے کے لئے پہنچے تھے موجود تھے ۔
میرا خیال ہے کہ فیری میڈوز کے راستے کی دشواری کے پیش نظر بارہ تیرہ سال سے کم عمر بچوں اور ساٹھ پینسٹھ برس سے زائد عمر کے افراد کو یہاں نہیں آنا چاہیئے۔پچاس سال سے زائد عمر کے وہ افراد بھی جنہیں دل،ذیابیطیس،دمہ،بلندیا پست فشار خون جیسے امراض ہوں وہ ہر گز یہاں کا رخ نہ کریں،کیونکہ کسی بھی ہنگامی صورت میں قریب ترین طبی امداد تک پہنچنے میں گھنٹوں کی طویل مشقت درکار ہے۔دوسری صورت میں انسان سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس قدر بے بس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کر پاتا۔ (جاری ہے)
The post سیاحوں کی کثرت نے فیری میڈوز کے جنگل اُجا ڑ دئیے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.