Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

رہتے تھے وہ جہاں پہ

$
0
0

پیر علی محمد راشدی راوی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد انجمن ترقی اردو کے دفتر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس عہد کے بڑے شاعر ہادی مچھلی شہری کے نواسے نے کہا ’’نانا حضور۔ ہندوستان میں جتنے بڑے لوگوں کے نام سنتے تھے انھیں کراچی میں دیکھ لیا‘‘ہادی فرمانے لگے بیٹا! پورا ہندوستان اجڑا ہے تو کراچی بسی ہے۔ رئیس امروہوی نے سید سلمان ندوی کی وفات پر قطعہ تحریر کیا تھا:

مدفون ہوئے آخر‘ آغوش کراچی میں

ملت کے بزرگان ذی حشم و فلک پایہ

تو کچھ بھی نہ تھا پہلے‘ اب تجھ میں سبھی کچھ ہے

اے شہر تہی دامن‘ اے خاک گراں مایہ

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، عروس البلاد یا اقتصادی و معاشی حب۔ ایک زمانے میں یہ حزب اختلاف کا شہر کہلاتا تھا ہر تحریک کی ابتدا یہاں سے ہوتی، ٹریڈ یونین یہاں مستحکم، طلبا تحریکیں یہاں مضبوط، سیاسی جماعتیں یہاں طاقتور اور علم و ادب کا کیا کہنا کہ گلی گلی مشاعرے، مباحثے معمول تھے، آنہ لائبریریاں قائم تھیں جہاں سے تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے پھر کوئی بلیک ہول اس سارے منظر نامے کو اپنے اندر نگل گیا اور اب کراچی کچراچی کہلاتا ہے۔

جب نام ترا لیجیے‘ تب چشم بھر آوے

کیسے کیسے گوہر نایاب اور جوہر کم یاب اس شہر کے مکیں تھے جن کے دم سے رونقیں تھیں اور محفلیں، مجلسیں تھیں، جو اب خیال و خواب ہو چکی ہیں بلکہ اب تو وہ لوگ بھی اور ان کے نام بھی ذہن سے محو ہوتے جا رہے ہیں، بقول عزیز حامد مدنی:

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

قیام پاکستان سے قبل کراچی کی سیاست ہاشم گزدر، کامریڈ میر محمد بلوچ، حاتم علوی، جمشید مہتا، عبداللہ ہارون، اللہ بخش گبول کے ارد گرد گھومتی تھی، اس شہر کی سیاسی قسمت کے فیصلے یہ شخصیات سیاسی شطرنج کی بساط پر مہرے آگے پیچھے کرکے کیا کرتے تھے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کا تذکرہ سائیں جی ایم سید کی تصنیف جنب گزریم جن سین‘ پیر علی محمد راشدی کی تحریروں کے مجموعے روداد چمن، گرو گرداس وادھوانی کے مطبوعہ کالموں سمیت اس عہد پر لکھی گئی کتب میں ملتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد یہاں ہجرت کرکے آنے والی شخصیات نے جو اپنے اپنے علاقوں میں نامور تھیں رہائش اختیار کی تو اس شہر کی شان اور بڑھ گئی، ماضی میں گارڈن ایسٹ میں سردار واحد بخش بھٹو کی کوٹھی جو سر شاہ نواز بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی، نشتر پارک کی شمالی سمت حیدر منزل جہاں سائیں جی ایم سید جلوہ افروز تھے۔ کراچی چڑیا گھر کے عقبی روڈ پر اسلامی کلب سے ملحقہ پیر آف لواری پیر گل حسن کا گھر اور بمبئی لیجسلیٹیو کونسل و سندھ اسمبلی کو اپنی تقریروں سے گرمانے والے محمد ہاشم گزدر کی اقامت گاہ قصر ناز واقع تھی۔

تحریک خلافت، مسلم لیگ سمیت متعدد تنظیموں سے وابستہ حاجی عبداللہ ہارون کی وکٹوریہ روڈ پر رہائش گاہ ’’نصرت‘‘ اور اللہ بخش گبول کا ایک گھر لیاری کلاکوٹ اور دوسرا سولجر بازار سے ملحق تھا، ہمہ وقت آباد رہا کرتا تھا۔ کیسے کیسے فیصلے ان مقامات پر ہوئے سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، مسجد منزل گاہ کا مناقشہ، آزادی کی تحریک میں صوبائی اسمبلی سے قیام پاکستان کے حق میں قرارداد کی منظوری، ہاریوں کے حقوق کی جدوجہد، حروں کی بغاوت اور ان کے پیر سورہیہ بادشاہ کی سعید منزل پر خدا بخش تالپور کی رہائش گاہ میں نظر بندی، خالق دینا ہال کا مقدمہ بغاوت جس میں مولانا نثار کانپوری، شری شنکر اچاریہ، مولانا محمد علی جوہر، پیر غلام مجدد سرہندی، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا حسین احمد مدنی اور دیگر ماخوذ تھے لیکن اب ان عمارات میں سے محض چند ہی باقی ہیں۔ امتداد زمانہ اور ورثا یا پسماندگان کی بے اعتنائی کے باعث یہاں کثیر المنزلہ عمارات کھڑی ہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کو اس مقام کی تاریخی اہمیت تک کا پتا نہیں۔ کامریڈ میر محمد بلوچ کی رہائش گاہ گارڈن ایسٹ میں پاکولا مسجد کے قریب تھی۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کی سیاست پر چھائے چوہدری خلیق الزماں کی رہائش موجودہ چیف منسٹر ہاؤس کے قریب ڈاکٹر ضیا الدین روڈ پر تھی جو ان دنوں کچہری روڈ کہلاتا تھا اسی طرح 70 کی قومی اسمبلی کے رکن مولانا ظفر احمد انصاری سعید منزل پر ماما پارسی اسکول کے مدمقابل ایم اے جناح روڈ پر قیام پذیر تھے اور یہیں کہیں وہ بنگلہ بھی تھا جس میں سورہیہ بادشاہ پیر صبغت اللہ شاہ ثانی کے اہلخانہ کو نظر بند رکھا گیا تھا۔

اسی سڑک پر لائٹ ہاؤس کی سمت چلیں تو برنس روڈ کی سابقہ فریم مارکیٹ سے متصل بابائے کراچی ایم ایم بشیر کی کپڑے کی دکان تھی جو بقول طاہر آزاد ہمہ وقت سیاسی بیٹھک کا کام دیتی تھی خود طاہر آزاد کے والد ابوالبیان آزاد جناح مسجد والی گلی کی فلیٹ سائٹ میں گراؤنڈ فلور پر رہائش پذیر تھے اور برنس روڈ کی سیاسی محافل کا اہم حصہ تھے۔ ٹاور کی سمت جاتے ہوئے حسن علی آفندی روڈ ہے جسے پیپر مارکیٹ بھی کہتے ہیں یہاں متروکہ املاک کی ایک عمارت میں مولانا عبدالقدوس بہاری کی رہائش تھی۔

برصغیر کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا نام سید حسین امام موجودہ عبداللہ ہارون روڈ اور ماضی کے وکٹوریہ روڈ پر جبیس ہوٹل کے قریب رہا کرتے تھے کراچی کے ایک روزنامے سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے والے حاجی احمد مجاہد نے ان کا تفصیلی انٹرویو کئی نشستوں میں اسی اقامت گاہ میں لیا تھا وہ ان کی سادگی، سیاسی تدبر اور مملکت پاکستان سے والہانہ محبت کے واقعات بتاتے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد کراچی کی مذہبی محفلوں کی جان اور سیاسی طور پر مسلم لیگ کی جدوجہد کا اہم حصہ مولانا ظہور الحسن درس صدر کراچی کے علاقے میں سمرسٹ اسٹریٹ پر رہائش پذیر تھے۔ اب یہ سڑک راجا غضنفر علی اسٹریٹ کہلاتی ہے۔ کراچی پولیس میں اہم عہدے سے ریٹائر ہونے والے جاوید مغل کے والد عنایت اللہ مغل قیام پاکستان سے قبل بندر روڈ مسلم لیگ کے صدر تھے۔

ان کی روایت ہے کہ 40 کی دہائی میں اس علاقے میں مسلمانوں کی رہائش خال خال تھی کاروبار پر بھی ہندو چھائے تھے وہ بتاتے تھے کہ پاکستان چوک پوش ہندو آبادی تھی، یہاں عبداللہ ہارون کے صاحبزادے یوسف ہارون اقامت پذیر تھے۔ کراچی کے قدیمی علاقے کھڈہ کے مولوی محمد صادق کا مدرسہ ریشمی رومال تحریک اور جمعیت علمائے ہند کا مرکز تھا۔

کراچی کی سیاسی، مذہبی، ادبی تاریخ پر سینئر صحافی نعمت اللہ بخاری کی گہری نگاہ ہے وہ بتانے لگے کہ لسبیلہ چوک پر مسجد نعمان کے مدمقابل جام آف لسبیلہ کی کوٹھی تھی سائیں جی ایم سید نے اپنی تصنیف جنب گزاریم جن سین میں ان کی ملی خدمات کا احاطہ کیا ہے اسی سڑک پر حسینی یتیم خانہ بھی ہے جسے دادا بھائی فیملی نے قائم کیا تھا اور ایک زمانے میں یہ شہر کے بڑے یتیم خانوں میں شامل تھا ایسا ہی ایک یتیم خانہ گرومندر چوک پر مسجد کنزالایمان کے سامنے انجمن حیات الاسلام کے حامد علی قریشی نے قائم کیا تھا۔

وہ دہلی میں بھی یہ تنظیم اور ادارہ چلاتے تھے۔ پاکستان چوک پر مولانا دین محمد وفائی کے اخبار کا دفتر اور رہائش تھی، آج بھی یہ عمارت اپنے مکینوں کی یاد دلاتی ہے سامنے ٹریفک چوکی والی سڑک پر جسے ماضی میں اسٹریچن روڈ کہتے تھے اور اب یہ دین محمد وفائی روڈ معروف ہے پر قیام پاکستان کے وقت کراچی کے میئر حکیم محمد احسن کا گھر تھا۔ اسی سڑک پر این ای ڈی یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس، برنس گارڈن، ڈی جے کالج، ایس ایم آرٹس کالج، قومی عجائب گھر، آرٹس کونسل، اسکاؤٹس ہیڈ کوارٹر، فری میسن ہال، نواب آف ماناودر کی کوٹھی اور ملحقہ سڑک پر کراچی پریس کلب بھی واقع ہے۔

حکیم محمد احسن کی رہائش گاہ سے چند قدم پر انجمن پٹھانان گوڑیانی کے مرحوم صدر حاجی ظہور احمد خان کی اقامت گاہ اور دھاگہ سازی کا کارخانہ تھا جہاں انجمن مسلمانان پنجاب سمیت متعدد تنظیموں کے رہنماؤں کی آمد و رفت رہتی تھی۔ قیام پاکستان سے قبل گارڈن ایسٹ میں جسٹس فیروز نانا بھی، جن کی صاحبزادی محترمہ انیتا غلام علی صوبائی وزیر، انگریزی نیوز کاسٹر اور ماہر تعلیم تھیں رہا کرتے تھے۔

پاکستان بننے کے بعد کراچی پھیلا تو سیاسی بیٹھکیں بھی شہر بھر میں ہونے لگیں، ورنہ تو مختصر سے کراچی میں لیاری، کھارادر، نیپیئر روڈ، پاکستان چوک، صدر، گزری اور عامل کالونی، آرام باغ، برنس روڈ، لارنس روڈ ہی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھے۔ سینئر صحافی نادر شاہ عادل، لیاری پر کئی کتب کے مصنف رمضان بلوچ، شبیر ارمان و دیگر کی تحریریں پڑھیں تو لیاری کی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی سرگرمیوں سے آگہی ہوتی ہے کراچی کا تذکرہ لیاری کے بغیر نامکمل ہے۔

پروفیسر علی محمد شاہین جیسی علم دوست شخصیت اسی بستی کی شناخت ہے جن سے ہزاروں نے اکتساب فیض کیا۔ گرومندر سے جہانگیر روڈ پر چلیں تو شروع ہی میں لکھم ہاؤس واقع تھا جہاں برصغیر کی ممتاز علی شخصیت سر شاہ محمد سلیمان کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان رہائش پذیر تھیں۔ حسین شہید سہروردی سے قرابت داری کے سبب یہاں نوابزادہ نصر اللہ خان سے لے کر جانے کتنے بڑے لوگ یہاں قیام پذیر رہے اور سیاسی فیصلے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش کلفٹن کے موہٹہ پیلس میں تھی تو بھوپال کی ولی عہد بیگم عابدہ سلطان جنھیں بھوپالی باشندے بڑی بیّا پکارتے تھے۔

ملیر میں رہائش پذیر تھیں۔ اسی ملیر میں قیام پاکستان سے قبل نواب آف بھاولپور کی کوٹھی تھی اور سعود آباد کے علاقے میں ایک چھوٹے سے کوارٹر S99 میں تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری کا بسیرا تھا۔ کثیر العیال شخصیت نے تمام زندگی یہیں گزاری۔ جناح مسلم لیگ کے سربراہ مجاہد ملت علامہ عبدالحامد بدایونی کے جواں سالی میں سیکریٹری اور لاتعداد کتب کے مصنف آزاد بن حیدر کی رہائش لیاری کے علاقے میں تھی ۔ شیر کراچی سید سعید حسن کوئنز روڈ ولیکا ہاؤس کے قریب رہا کرتے تھے یہ سڑک اب مولوی تمیز الدین خان روڈ کہلاتی ہے جب کہ تحریک استقلال کے مرکزی رہنما مشیر احمد پیش امام ڈیفنس سوسائٹی میں رہتے تھے اور ڈیفنس ہی میں سن سیٹ بلیوارڈ پر سردار شیر باز مزاری کا بنگلہ ہے۔ این ڈی پی کے سربراہ، علم دوست شخصیت رشتے میں مرحوم نواب اکبر بگٹی کے بہنوئی اور سابق نگران وزیر اعظم بلخ شیر مزاری کے حقیقی بھائی ہیں۔

مولانا ظہور الحسن درس مرحوم کے صاحبزادگان مولانا اکبر درس، مولانا اصغر درس، اولیائے کراچی پر کئی کتب کے مصنف خواجہ عبدالرشید دلبر شاہ وارثی اور برنس روڈ کے عوامی لیگی رہنما شیخ ممتاز پہلوان مرحوم سے ایک زمانے میں طویل نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ برنس روڈ، ریگل، لیاقت آباد، گولی مار، کھارادر کے متعدد ہوٹل رات بھر کھلے رہا کرتے تھے جہاں سیاسی مباحثے ہوتے تھے۔ 50 کی دہائی میں کراچی سے رات کا اخبار ’’شبینہ‘‘ بھی شایع ہوتا تھا جس میں شام ڈھلے تک کی خبریں ہوتی تھیں۔

اخبار کے ایڈیٹر سینئر صحافی شہزاد بیگ چغتائی کے والد مرحوم ارشاد بیگ چغتائی تھے۔ کراچی کے پہلے مسلمان میئر قاضی خدابخش مورائی سے برنس روڈ پر ایک سڑک جناح مسجد والی موسوم ہے۔ اب وہ پتھر بھی ٹوٹ پھوٹ گیا نیا لگوانے کی میئر بلدیہ وسیم اختر کو فرصت نہیں۔ قاضی خدا بخش مرحوم کے بیٹے جسٹس قاضی محمد اکبر کی رہائش گلشن اقبال میں بیت المکرم مسجد کے عقبی بلاک میں تھی، ان کے چچا عبدالخالق خلیق مورائی تحریک خلافت کے اہم لیڈر اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا ایک ناول جو محمد بن قاسم کے گرد گھومتا تھا سندھ یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ تھا۔ پھر قوم پرستی نے زور پکڑا تو خارج ٹھہرا اور اب تو شاید اس کی ایک کاپی راقم کے پاس ہی محفوظ ہے۔ قاضی اکبر بتایا کرتے تھے کہ نیپیئر روڈ پر آل انڈیا مسلم لیگ کا دفتر تھا انھوں نے ہی کراچی کے متعدد گم شدہ کرداروں کے حالات زندگی بتائے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک تاریخ ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئی۔

موجودہ کراچی کی تاریخ کنگری ہاؤس اور نائن زیرو کے بغیر شاید ہی مکمل ہو۔ مرحوم پیر پگارا شاہ مردان شاہ ثانی اور الطاف حسین سے ملنے کون نہیں آیا۔ گورنر، وزرائے اعلیٰ ایک طرف، سفارتکار، قونصلیٹ، صدور مملکت، وزرائے اعظم، اپوزیشن لیڈر اور برسر اقتدار طبقات تمام ہی خوشنودی کے طالب ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ایک کی رونقیں ماند ہیں اور دوسرا مقفل۔ جماعت اسلامی کا ادارہ نور حق پیپلز پارٹی کا پیپلز سیکریٹریٹ، متحدہ قومی موومنٹ کا بہادر آباد مرکز اور فاروق ستار کا پیر کالونی رابطہ آفس قریب قریب واقع ہیں اور کراچی کے حبس زدہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔

اسی علاقے میں پیپلز سیکریٹریٹ سے ملحقہ دادا بھائی نوروجی روڈ پر میر علی احمد تالپور کی کوٹھی اور عقبی شکارپور کالونی میں حکیم محمد سعید شہید کی رہائش گاہ تھی۔ ذرا آگے چلیں تو کشمیر روڈ سے ملحقہ الفلاح مسجد والی اسٹریٹ میں شہید ظہور الحسن بھوپالی کا گھر 57 این پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں واقع تھا۔ اسی میں ان کی سیاسی تنظیم استحکام پاکستان کونسل اور ہفت روزہ افق کا دفتر بھی تھا۔ کراچی کی سیاسی شخصیات کا یہاں ہمہ وقت جمگھٹا لگا رہتا تھا۔

کم عمری ہی میں وہ ایک شقی القلب کی گولی کا نشانہ بنے اور یہ سانحہ نہ ہوتا تو کراچی پر لسانی، علاقائی، نسلی عصبیت کے سائے شاید کبھی نہ لہراتے کہ وہ سندھ کے قدیمی اور نئے باشندوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے تھے۔ یہی ان کا مشن تھا جس کی انھیں سزا ملی۔ پی ای سی ایچ ایس میں ہی پنجابی پختون اتحاد کے ملک سرور اعوان کی رہائش تھی ابتداً وہ خیام سینما نرسری کے قریب پھر محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی اور آخری دنوں میں چنیسر پھاٹک سے ملحقہ بلاک 6 میں قیام پذیر رہے اور ان کے گھر پر سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔

مہاجر قومی موومنٹ سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد لانڈھی میں بیت الحمزہ اور مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حیدر کی رہائش گاہ راشد منہاس روڈ گلستان جوہر بھی سیاسی طور پر معروف ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ رہنے والے پیر الٰہی بخش نے کراچی سینٹرل جیل سے ملحقہ علاقے میں کوآپریٹیو سوسائٹی قائم کی ان کے نام سے منسوب اس کالونی میں علامہ عبدالحامد بدایونی کی بھی رہائش تھی۔ جن سے منسوب اسٹیڈیم کا عبدالستار افغانی کی میئر شپ کے دور میں نام تبدیل کرکے پی آئی بی اسٹیڈیم کر دیا گیا جبکہ ان کی جامعہ تعلیمات اسلامیہ کے وسیع و عریض رقبے پر واقع عبدالحامد بدایونی ڈگری کالج قصبہ موڑ کو گورنمنٹ ڈگری کالج اورنگی ٹاؤن کا نام دے دیا گیا۔

جسے قائد اعظم نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں بے مثال خدمات پر فاتح سرحد کا خطاب دیا تھا اب اس سے موسوم کوئی یادگار اس شہر میں موجود نہیں۔ کراچی سے تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے حاجی محمد حنیف طیب کی آج کل فلاحی سرگرمیاں زیادہ ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ شو مارکیٹ کی ڈاکخانہ اسٹریٹ پر رہائش پذیر تھے پھر شرف آباد، بریٹو روڈ اور اب پارسی کالونی کے زہرہ اپارٹمنٹ میں قیام پذیر ہیں جہاں سیاسی و سماجی شخصیات کی آمد و رفت رہتی ہے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ الخدمت کے سربراہ اور سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان بھی سماجی شعبے کا بڑا نام ہیں۔

نارتھ ناظم آباد میں ان کی رہائش ہے اسی علاقے میں جماعت اسلامی کے کئی مرتبہ ایم این اے اور متحدہ جمہوری محاذ و پاکستان قومی اتحاد کے سیکریٹری جنرل پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی رہائش پذیر تھے جو کئی کتب کے مصنف اور سیاسی طور پر بڑا مقام رکھتے تھے۔ کراچی شہری حکومت کے مجوز اور مقدمہ بغاوت کا سامنا کرنے والے مرزا جواد بیگ نے زندگی کے آخری دن نارتھ ناظم آباد میں گزارے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ نشتر پارک سے ملحقہ پارسی کالونی میں آباد ہوئے تھے۔

اسی علاقے کی ممتاز سماجی شخصیت محمد افضل علاقے کی سیاسی و سماجی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہیں تو خوبصورت منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ نشتر پارک، سولجر بازار کے دوسری سمت ایم اے جناح روڈ پار کریں تو جیکب لائنز کا علاقہ ہے جسے حکومت نے یہاں مدفون شہید ظہور بھوپالی کی نسبت سے گلشن ظہور کا نام دیا ہے لیکن یہ لائنز ایریا کہلاتا ہے کہ یہاں جیکب، جٹ، بی ہائنڈ، ٹیونیشیا، اے بی سینیا سے منسوب لائنز موجود ہیں۔ لائنز ایریا میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی رہائش تھی ان کی مسجد آج بھی شہر کی مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے ان کے صاحبزادے تنویر الحق سینیٹر اور احترام الحق پی پی ون لیگ کے رہنما رہے ہیں۔

لائنز ایریا سے ملحقہ علاقے خداداد کالونی میں سندھ اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر سید باری جیلانی کی رہائش ہے یہیں شاہراہ قائدین کشمیر روڈ کراسنگ پر جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کی رکن بیگم محمودہ سلطانہ اور ان کے شوہر مسلم لیگ کے رہنما شیخ لیاقت حسین کی رہائش تھی ان کے صاحبزادے عامر لیاقت ان دنوں تحریک انصاف کے اسی علاقے سے ایم این اے ہیں۔ یہ علاقہ خداداد گبول کی ملکیت تھا اسی مناسبت سے خداداد کالونی کہلاتا ہے۔ باتھ آئی لینڈ میں کلفٹن برج سے ملحقہ راجہ صاحب محمود آباد کا قیام پاکستان سے قبل خرید کردہ بنگلہ ’’محمود آباد ہاؤس‘‘ کہلاتا تھا اور ہمارے دوست ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد اسلم اور سینئر صحافی خالد مرزا بتاتے ہیں کہ انھوں نے صاحبان علم، اصحاب سیاست اور جانے کتنے ہی مشاہیر کو یہاں آتے جاتے دیکھا۔ سندھ کے سابق گورنر اور سابق صدر مملکت ممنون حسین ایم اے جناح روڈ پر جامع کلاتھ مارکیٹ کی عقبی گلی میں رہتے تھے ان کی سیاسی محافل یہاں جمتی تھیں پھر وہ ڈیفنس منتقل ہوگئے۔

قیام پاکستان سے قبل کراچی کا پوش علاقہ گارڈن ایسٹ بھی تھا جہاں اس زمانے کی اشرافیہ رہتی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد یہاں متمول افراد کو جو ہندوستان سے آئے تھے یہ کوٹھیاں الاٹ ہوئیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل مرحوم محمود الحق عثمانی، آدم جی سائنس کالج کے قریب اسی علاقے میں رہتے تھے بعد میں وہ کشمیر روڈ کی عقبی گلی میں محفل مرتضیٰ امام بارگاہ کے قریب منتقل ہوئے۔ گارڈن ایسٹ ہی میں رئیس امروہوی ان کے بھائی سید محمد تقی، جون ایلیا اور سید محمد عباس 129 الف مانک جی اسٹریٹ میں رہا کرتے تھے۔

جس کا نام انھوں نے ’’نرجس‘‘ اپنی عزیزہ کے نام پر رکھا تھا۔ قریب ہی پروفیسر کرار حسین کی اپنے صاحبزادوں تاج حیدر، جوہر حسین و دیگر کے ساتھ 74 گارڈن ایسٹ میں رہائش تھی۔ رئیس امروہوی کی پراسرار موت، سید تقی کی رحلت کے بعد جون ایلیا نے ودیگر پسماندگان نے حویلی فروخت کردی۔ اب اس کے نصف حصے پر مسجد ہے۔ لیاقت آباد میں سپر مارکیٹ سے ملحقہ عباس مارکیٹ کے ساتھ بیرسٹرسید علی کوثر کی رہائش تھی جو کنونشن مسلم لیگ کے رہنما تھے۔ تین ہٹی پل سے لیاقت آباد کی سمت اتریں تو الٹے ہاتھ پر جئے سندھ کا سرخ جھنڈا لہراتا نظر آتا تھا۔ یہ اپنے دور کے معروف طالب علم لیڈر علی مختار رضوی کا گھر تھا جو حلقہ احباب میں علامہ مشہور تھے۔

ویسے شاہراہ فیصل پر مہران ہوٹل کے مقابل کمال کلینک سے ملحقہ زرداری ہاؤس میں حاکم علی زرداری کی رہائش تھی جو اب منہدم ہوکر ہائی رائز بلڈنگ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ کیونکہ ان کے صاحبزادے سابق صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس تعمیر کرا لیا تھا ماضی قریب تک پی ای سی ایچ سوسائٹی کا مرزا ہاؤس مرحوم مشتاق مرزا کی دعوت حلیم اور نواب زادہ نصر اللہ خان کی قیام گاہ کے حوالے سے مشہور تھا۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی رہائش سمرسٹ اسٹریٹ پر میمن مسجد سے ملحقہ ماسٹر ہاؤس میں تھی یہاں بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم فیصلے ہوئے۔ ویسے جمعیت علمائے پاکستان کا دفتر برنس روڈ کے فریسکو چوک پر تھا، نچلی منزل پر جے یو پی اور بالائی منزل پر تحریک استقلال کے پرچم لہراتے تھے۔

قریب کی گلیوں میں کراچی کے سابق ڈپٹی میئر عبدالخالق اللہ والا، رکن سندھ اسمبلی ملک حنیف پاکستان والا کی رہائش تھی۔ قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں کمیونسٹ لیڈر سوبھوگیان چندانی کا فلیٹ بھی تھا۔ اسی سڑک پر ٹاور کی سمت چلیں تو کراچی چیمبر ہے جس کا افتتاح گاندھی جی نے کیا تھا۔ اس کی دیوار پر سنگی تختی مدتوں تک نصب رہی تھی، یہیں تاریخی آرام باغ واقع ہے جسے ماضی میں رام باغ کہا جاتا تھا۔ ہندو عقیدہ کے مطابق رام جی نے ہنگلاج بلوچستان جاتے ہوئے اس مقام پر قیام کیا تھا، پاکستان بننے کے بعد جب دلی کے آرام باغ کو رام باغ کا نام دیا گیا تو یہاں مقیم دلی والوں نے اسے آرام باغ پکارنا شروع کردیا اور اب کسی کو اس کا پرانا نام یاد نہیں۔ یہیں آرام باغ روڈ پر جسے اب ڈاکٹر محمد ہاشم خان غوری روڈ پکارا جاتا ہے حکیم محمد سعید کو شہید کیا گیا تھا جہاں ان کا مطب واقع ہے۔

پرانے سیاست داں ملک عدم کوچ کرگئے۔ نئی سیاست نگری آباد ہوئی تو کراچی سیاست کا نباض نہ رہا۔ اب یہاں چار درجن سے زائد ارکان اسمبلی، سینیٹر اور کتنے ہی سیاستدان آباد لیکن وہ رونق میلہ نہیں گوکہ نیو ایم اے جناح روڈ پر جماعت اسلامی کا ادارہ نورحق، اسی سڑک پر پیپلز پارٹی کا پیپلز سیکریٹریٹ، بہادر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کا رابطہ آفس، فریسکو چوک پر جمعیت علمائے پاکستان کا دفتر، ڈیفنس میں اے این پی کے صوبائی سربراہ شاہی سید کا مردان ہاؤس، پیر پگارا کا ڈیفنس میں راجا ہاؤس، مہاجر قومی موومنٹ کا لانڈھی میں عارضی بیت الحمزہ، شاہراہ فیصل پر تحریک انصاف کا مرکزی دفتر، محمد علی سوسائٹی میں مسلم لیگ ہاؤس، جمعیت علمائے اسلام کے قاری عثمان کی فعال شخصیت ڈیفنس سوسائٹی میں خیابان شمشیر پر مرحوم غلام مصطفی جتوئی کا جتوئی ہاؤس، پیپلز مسلم لیگ کے سربراہ ارباب رحیم کا کینٹ عسکری میں بنگلہ سیاسی جمود میں تحرک کی علامت ہیں۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔

The post رہتے تھے وہ جہاں پہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>