غزل
دوستی، دشمنی بہانے ہیں
کچھ تعلق ہیں جو نبھانے ہیں
آئینے کو یہ ہم نے بتلایا
ہم فلانے نہیں ، فلانے ہیں
بھانپ لیتے ہیں تنگ دستی کو
میرے بچے بڑے سیانے ہیں
عدل اندھا ہے ، عقل بہری ہے
جھوٹ بھی سچ کے شاخسانے ہیں
لوگ ہیں مستقل حراست میں
شہر کے شہر جیل خانے ہیں
عقل بھی عشق بن کے جاتی ہے
یہ فقیروں کے آستانے ہیں
از وعیدِ قضا و قدر امر
تیرے اشعار تازیانے ہیں
(امر روحانی۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
فقط تمہیں ہی نہیں دیر سے دکھایا گیا
میں اپنے آپ سے بھی دیر تک چھپایا گیا
مجھے دکھائے گئے بارہا بہشت کے خواب
عدم سے مجھ کو یہاں ورغلا کے لایا گیا
میں ایک عمر تلک نوریوں میں شامل تھا
بدن سے سایہ بہت بعد میں لگایا گیا
کسی بھی چیز سے بجھتی نہیں تھی پیاس مری
ہزار بار تو پانی بھی آزمایا گیا
الف، نکال کے’ی‘ رکھ دیا تھا یاروں نے
یوں آستاں کو مرے آستیں بنایا گیا
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
اس کی محفل میں گیا ٹھیک سے دیکھا اس کو
یہ بھی کیا کم ہے کہ نزدیک سے دیکھا اس کو
دیر تک اس کی نظر تھی میرے دروازے پر
دیر تک روزنِ باریک سے دیکھا اس کو
سامنے جا کے میں نے آنکھ پہ کاپی رکھ لی
اور پھر اک نئی تکنیک سے دیکھا اس کو
شہر والے نے محبت میں جو ٹھکرائی تھی
گاؤں والوں نے بھی تضحیک سے دیکھا اس کو
(قمر عباس۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
لٹائے بیٹھا ہوں رختِ سفر محبت میں
لگائے بیٹھا ہوں میں گھر کا گھر محبت میں
قدم قدم پہ زمانہ حریف ہوتا ہے
قدم قدم پہ بچھڑنے کا ڈر محبت میں
کٹورے خون کے بھر بھر کے دینا پڑتے ہیں
تو جا کے آتا ہے کچھ کچھ اثر محبت میں
حواس باختہ پھرتا ہوں ایک مدت سے
کہ اب تو جائے گا شاید یہ سر محبت میں
ابھی تو پوہ کی راتوں میں سرد ہونا ہے
مرے وجود! ابھی سے نہ مر محبت میں
یہ آنکھ دیدۂ بینا نہیں بنا کرتی
لہو کی بوند نہ ٹپکے اگر محبت میں
(فیصل امام رضوی۔ مظفر گڑھ )
۔۔۔
غزل
پرانے زخموں پہ رکھ کے مرہم، نیا ہی منظر دکھارہی ہیں
بہاریں ہم کو نجانے کیوں کر چمن میں پھر سے بلا رہی ہیں
اسی چمن کی عنایتوں سے ہوا تھا چھلنی یہ سینہ میرا
کتابِ ماضی کی تلخ یادیں لہو کے آنسو رُلا رہی ہیں
یہ سِحر کیسا ہوا ہے مجھ پر کہ چل پڑا ہوں میں اس نگر پھر
کہ جس کی گلیاں بھی خوں سے میرے قدم قدم پر نہا رہی ہیں
جنابِ منصف کا امتحاں ہے کہ حق میں کس کے وہ فیصلہ دے
یہ بلبلیں تو سب ایک گُل پر جو حق کو اپنے جتارہی ہیں
فقط ہمی ہیں جو تشنہ لب ہیں وگرنہ محفل کا یہ ہے عالم
نگاہیں ان کی ہر ایک طالب کو جامِ الفت پلا رہی ہیں
میں ایک مدت سے لطف و راحت کے نام کو بھی ترس رہا تھا
سفید جوڑے میں لپٹی یادیں اب آکے مجھ کو سلا رہی ہیں
نہاں ہے چہروں پہ اشک سب کے، بچھی ہے ماتم کی صف یہاں پر
مری یہ نظمیں، یہ میری غزلیں، فسانہ غم کا سنا رہی ہیں
ترانے غیروں کے جاری لب پر ہیں دیکھو ان کا تماشا دائم
نئی یہ نسلیں تو اپنے آبا کی شہرتوں کو بھلا رہی ہیں
(ندیم دائم۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
وفورِ رحمتِ پروردگار ہوتا تھا
کہ سب کا پہلا عقیدہ ہی پیار ہوتا تھا
درخت جھومتے رہتے دعاکے دھاگوں سے
گلی گلی کوئی منّت گزار ہوتا تھا
بس ایک وعدے پہ عمریں گزار دی جاتیں
بچھڑنے والوں پہ یوں اعتبار ہوتا تھا
نہ جھوٹے خواب دکھاتے تھے ایک دوجے کو
نہ ہاتھ چھوڑ کے کوئی فرار ہوتا تھا
جو ماں ہے پہلے سہیلی تھی اپنی بیٹی کی
تو باپ بیٹے کا تب پہرے دار ہوتا تھا
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
دل پریشان ہونے والا نہیں
باغ ویران ہونے والا نہیں
گریہ کرتے رہو مگر تم پر
کوئی قربان ہونے والا نہیں
پیڑ مایوس ہو کے چیختا ہے
کیا تو حیران ہونے والا نہیں
آنکھ اس واسطے نہیں جھپکی
عشق آسان ہونے والا نہیں
شمعیں ساری بجھا کے دیکھ لو تم
شہر سنسان ہونے والا نہیں
(نعیم رضا بھٹی۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
اک تسلسل سے ایک اذیت کو جانبِ دل اچھالتا ہے کوئی
ایک مشکل سے نیم جاں ہو کر خود کو کیسے سنبھالتا ہے کوئی
بجھتی پلکوں سے تاکتی وحشت،شکر کر ہم تجھے میسر ہیں
ہمیں جو روگ ہو گئے لاحق ،دیکھ وہ بھی اجالتا ہے کوئی
امتحاں میں پڑے ہوئے یہ لوگ ، اک تاسف سے دیکھتا ہے جہاں
ہائے، ایسے خراب حالوں کے کہاں شجرے کھنگالتا ہے کوئی !
گردِ راہِ سفر ہی ہیں ہم لوگ، عین ممکن ہے، بھول جاؤ ہمیں
جس طرح گھر کا فالتو ساماں، بے دلی سے نکالتا ہے کوئی !
بعد میرے بھی، کتنے لوگ آئے، تم کو اچھے لگے، تمہارے ہوئے !
کیا کبھی چپ کی ساعتوں میں تمھیں، مری طرح سنبھالتا ہے کوئی ؟
(آئلہ طاہر۔خانیوال)
۔۔۔
غزل
ان کی تھکن بھی بے ثمر جن پہ سفر کُھلا نہیں
سائے میں بھی ہیں بے قرار جن پہ شجر کھلا نہیں
لے تو گیا جنوں مرا اس کے درِ حصار تک
دستکیں بھی تو دیں بہت دَروہ مگر کھلا نہیں
اس کے جمال کی جھلک لکھتے جو رہتے ہوش میں
خامہ کہیں اٹک گیا دستِ ہنر کھلا نہیں
اب کہ ہوائے شہر نے لکھ دیا بام و در پہ کیا
ایسا فسونِ حرف تھا معنی کا در کُھلا نہیں
لو َکی انی کو تیز رکھ، اے مرے درد کے چراغ
شب کے جگر کو کاٹ ابھی رنگِ سحر کھلا نہیں
سارے پڑائو اور سفر اک ہی تو رہ گزر پہ تھے
میرا وہ ہم سفر تو تھا مجھ پہ مگر کھلا نہیں
(جاوید احمد۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
ٹوٹا حصارِ جاں تو مداوا نہ کر سکا
لاچار جسم روح کا پیچھا نہ کر سکا
خواہش تھی گھومتا مرے خالی مدار میں
اس چاند سے مگر میں تقاضا نہ کر سکا
شیشے کی چھت بنائی نظاروں کے شوق میں
لیکن میں گھر کے فرش پہ سایہ نہ کر سکا
پھرتا رہا وہ بھیڑ میں آنکھوں کے سامنے
میں چاہتے ہوئے بھی اشارہ نہ کر سکا
اِکسیر تھی سبھی کو محبت، مگر مجھے
یہ مستند علاج بھی اچھا نہ کر سکا
عارض وہ خواب دل میں تراشوں گا، جس کو میں
آنکھوں کی بانجھ کوکھ میں پیدا نہ کر سکا
(فرحان عارض۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
عشق میں معتبر نہیں لگتا
تو مرا چارہ گر نہیں لگتا
جانتا ہے مری کہانی بھی
اتنا بھی بے خبر نہیں لگتا
جب تلک میری ماں نہیں ہوتی
میرا گھر میرا گھر نہیں لگتا
مٹی کو نرم ہونا پڑتا ہے
اس میں یونہی شجر نہیں لگتا
میرے مولا کرم نہ ہو تیرا
زیر پر پھر زبر نہیں لگتا
وہ مرے ساتھ رہتا ہے صابر
میرا اپنا مگر نہیں لگتا
(اسلم صابر۔ کلور عیسیٰ خیل)
۔۔۔
غزل
تیری چاہت نے جو دیوانہ بنا رکھا ہے
تیری یادوں کو سدا دل سے لگا رکھا ہے
جلوہ افروز ہوئے غیر کی محفل میں جو تم
ہم نے بھی دید کی شمع کو بجھا رکھا ہے
مے سے، مے خانے سے اب ہم کو سروکار نہیں
تیری آنکھوں نے ہی مستانہ بنا رکھا ہے
تو کہ جاتے ہوئے جلووں کو یہاں چھوڑ گیا
تیری صورت کو نگاہوں میں بسا رکھا ہے
داد آہوں، کبھی اشکوں، کبھی شعروں سے نمو پاتی ہے
میں نے حسرت کو جو سینے میں دبا رکھا ہے
(داد بلوچ۔ فورٹ منرو)
۔۔۔
غزل
راس تھیں دل کو پستیاں اپنی
سو مٹا دی ہیں ہستیاں اپنی
سب ہیں سورج پرست پھر کیسے
رب کو پوجیں گی بستیاں اپنی
پیار میں موت ہو یا رسوائی
اب جلا دی ہیں کشتیاں اپنی
یہ جو ظالم کے ڈر سے لکھتی ہیں
کاٹ لوں کیوں نہ انگلیاں اپنی
عشق سے پیچ کیا لڑایا ہے
سب بھلا دی ہیں مستیاں اپنی
(عامر معان۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
رقیبوں کے دل کو جلاؤ تو جانیں
ہمیں اپنا کہہ کر بلاؤ تو جانیں
نگاہیں ملا کر نگاہوں سے جاناں
شرابِ محبت پلاؤ تو جانیں
بنے پھر رہے ہو طبیبِ زمانہ
مرا روگِ دل بھی مٹاؤ تو جانیں
ملیں گے زمانے میں یوں تو ہزاروں
جو ہم سا کہیں ڈھونڈ پاؤ تو جانیں
مٹا کر دلوں سے یہ نفرت اسد تم
محبت کا نغمہ سناؤ تو جانیں
(زین اسد ساغر۔ شیخو پورہ)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.