علم و آگہی کے سفر کے دوران انسان نے غاروں سے خلا تک اپنی جدوجہد میں کئی اسرار کھولے، کئی بھید پائے اور اس کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھایا۔ اپنے حواس کی طاقت سے اشیاء کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور کوئی نتیجہ قائم کیا جو بعد کے زمانوں میں مزید غورو فکر اور تحقیق سے نکھرا اور ایسے نتائج آج کسی شعبے میں کسی نہ کسی حوالے سے اصول اور طریقے کے طور پر رائج ہیں۔ لیکن اس ٹھوس (فزیکل) دنیا سے بہت آگے کی ایک دنیا میٹا فزیکل کی بھی ہے جہاں یہ سارا علم، ٹیکنالوجی اور عقل و فہم دھرا رہ جاتا ہے۔
یہ دنیا ایک حیرت کدہ ہے۔ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں نہ ہماری وجدانی صلاحیتیں کام آتی ہیں اور نہ ہی عقل کی کسوٹی پر ان واقعات کو پرکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔ ماورائے عقل واقعات انسان کو حیرت اور خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ان کے نفسیاتی اثرات بھی ایک انسان سے دوسرے انسان پر مختلف ہوتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس دنیا کے اسرار یا کچھ خاص چیزوں کو کسی سائنسی کلیے یا سائنسی تجربہ گاہ میں بیٹھ کر سمجھنا اور آلات کے ذریعے ان کی اصل جاننا شاید ناممکن ہے۔
اس وسیع تر کائنات کے دبیز اسرار میں پھیلی ہوئی ماورائے عقل دنیا اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تو ہے، مگر اس کی وضاحت کسی سائنسی اصول یا نظریے کی بدولت ممکن نہیں ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ بھیانک اور خوف میں مبتلا کرنے والی کوئی پکچر دیکھے یا کہیں بدصورت اور خوف ناک گڑیا… اس پر پہلی نظر پڑتے ہی اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ محسوس کرتا ہے اور اس خوف کو نہ تو کوئی نام دے سکتا ہے اور نہ ہی اکثر اسے محض وہم اور نظر کا دھوکا کہہ کر ٹال سکتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے اکثر ایک دم اندھیرا ہو جانے سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ رات میں قبرستان سے گزرتے ہوئے ایک عجب پراسراریت محسوس کرتے ہیں اور اپنے سامنے کسی مسخرے کو دیکھ کر ان کا دل دہل جاتا ہے۔
ان سب میں ایک چیز ایسی ہے جس سے اک عجیب سا خوف محسوس ہوتا ہے، اور وہ ہے ہم سب کا پسندیدہ، روایتی کھلونا گڑیا… جن کی بے جان، گھورتی ہوئی آنکھیں، مومی مسکراہٹ، چہرے کے مصنوعی تاثرات، ساکت پلکیں، اور بسا اوقات مخصوص طریقے سے حرکت دینے پر یا بیٹری کی وجہ سے بار بار جھپکتی آنکھیں، فطری طور پر عجیب سی نظر آتی ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ ہمارے پلے ٹائم میں بہترین دوست کے طور پر شامل رہتی ہے۔
لیکن ہم جس گڑیا کی بات کر رہے ہیں وہ ایسی ہے جس سے کھیلنا تو دور کی بات ان کو اپنے گھر بھی کوئی نہیں رکھنا چاہے گا۔ جب آپ کو معلوم ہو کہ دراصل یہ گڑیا آسیب زدہ اور شیطانی قوتوں کے زیراثر ہیں اور ان کے دائرۂ کار میں مداخلت کرنے والے کسی بھی انسان کا قتل ہو سکتا ہے، تو کیا آپ یا کوئی بھی ذی فہم ان سے لگاؤ رکھ سکتا ہے یا وہ خود اور اپنے بچوں کو اس سے کھیلنے دے گا؟
انسان فطری طور پر تجسس پسند ہے۔ وہ ایسی پراسرار چیزوں کو کھوجنا، ان کے بارے میں جاننا بھی چاہتا ہے، مگر ان سے خوف زدہ بھی رہتا ہے۔ ایسی ہی خوف اور دہشت کی علامت بننے والی گڑیائیں میوزیم یا مندر میں شیشے کے کیس میں مخصوص منتر اور مقدس پانی کے چھینٹے دے کر مستقل طور پر بند کر دی گئی ہیں تاکہ ان کی پراسرار شیطانی طاقتیں انسانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔
آج کے دور میں بھی یہ ڈولز دنیا میں پائی جانے والی سب سے زیادہ آسیب زدہ چیزوں میں سر فہرست سمجھی جاتی ہیں اور ان میں جو گڑیا سب سے زیادہ خوف کی علامت سمجھی جاتی ہے، اس کا نام رابرٹ گڑیا ہے۔ یہ ایک میوزیم میں محفوظ ہے لیکن یہاں پہنچنے سے پہلے وہ ’اوٹو‘ کی محبوب ساتھی تھی جسے بچپن میں اس کے دادا نے بطور تحفہ دیا تھا، لیکن اس کے بعد ان کے گھر جا بہ جا پراسرار واقعات ہونے لگے، رکھے ہوئے گل دان اکثر ٹوٹ جاتے، کمروں میں توڑ پھوڑ معمول بن گیا۔ چیزیں اپنی جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے لگی تھیں۔
یہ سب خود ہی ہو رہا تھا۔ گھر کا کوئی بھی فرد اس کی ذمہ داری قبول نہیں کررہا تھا۔ سب حیران اور خوف زدہ تھے۔ ایک دن ’اوٹو‘ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس گھر کو جس شخص نے خریدا اس میں یہ گڑیا بھی اس کے حصّے میں آئی۔ اس نے اس گڑیا کو اکثر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتا ہوا مشاہدہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی تباہی، کار حادثہ، پے در پے ہونے والے نقصانات نے مالک مکان کو چونکا دیا۔ گھر آئے ہوئے مہمانوں نے بھی ایک پراسرار ہنسی اور قدموں کی آواز سنی اور وہ خوف زدہ ہو گئے۔
تب اس کے مکان کے مالک نے اس پراسرار گڑیا کو فلوریڈا کے میوزم کے حوالے کردیا۔ 1994 میں یہ گڑیا میوزیم میں پہنچ گئی۔
لیکن میوزیم میں آنے کے بعد کئی پراسرار واقعات رپورٹ ہوئے۔ بعد میں تسلیم کیا گیا کہ یہ گڑیا نہ صرف اپنی جگہ سے حرکت کرتی ہے بلکہ یہ چہرے کے تاثرات اور گردن بھی گھماسکتی ہے۔ فلوریڈا کے اس میوزیم کا نام East Martello Museum ہے جہاں یہ گڑیا رابرٹ ڈول کے نام سے رکھی ہوئی ہے۔ اس کا مالک ایک مصور اور لکھاری تھا جس کا نام Robert Eugene Otto بتایا جاتا ہے ۔ میوزیم میں اس گڑیا کی آمد کے بعد کئی واقعات پیش آئے جن میں الیکٹرانک آلات کا بار بار جلنا یا خراب ہو جانا یا پھر سیاح بغیر اجازت اس گڑیا کی تصویر بنانے پر مشکلات کا سامنا کرتے اور بعض ایسے حادثات بھی رونما ہوئے جن میں جانیں بھی گئیں۔
رابرٹ کے بعد ہیرالڈ نامی گڑیا بھی خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ یہ ای بے پر فروخت ہونے والی پہلی گڑیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ایک چھوٹے بچے کی ملکیت تھی جس کی موت کے بعد اہلِ خانہ نے گڑیا کی پراسرار حرکتوں کا مشاہدہ کیا۔ اکثر آدھی رات کو یہ چیخ کر رونے لگتی یا پھر دوڑنے لگتی۔ اس پر جب پادریوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے تصدیق کی کہ اس گڑیا میں کچھ جادوئی طاقتیں موجود ہیں اور یہ سب اسی طرح ہوتا رہے گا۔
اس پر مرحوم بچے کے خاندان نے خوف زدہ ہو کر یہ گڑیا فلوریڈا میں کوائنٹ ٹاؤن کی مارکیٹ میں فروخت کردی۔ یکے بعد دیگرے اسے کئی لوگوں نے خریدا مگر سبھی کا کہنا تھاکہ اس گڑیا کو خریدنے کے بعد کئی پراسرار واقعات سامنے آئے جیسے ہلکی آوازیں سنائی دینا، مسلسل دھیمی حرکت، اور دیکھتے ہی دیکھتے ا س کے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی ۔ یہ سب کسی بھی عام انسان کو خوف میں مبتلا کر دینے کے لیے کافی تھا۔
اس کے علاوہ یہ جس کمرے میں موجود ہوتی وہاں جاتے ہی سردرد، کمر درد محسوس ہوتا جب کہ گھر کے افراد کو جسم پر غیر واضح زخم بھی لگے۔ اس سے خوف زدہ ہو کر ہر بار ہر مالک نے گڑیا کو بیچ دیا۔ یہ گڑیا مختلف لوگوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی انتھونی تک پہنچی جس کا کام ہی مافوق الفطرت اجسام ، آسیب اور جادووغیرہ سے الجھنا ہے۔ یہ گڑیا فی الوقت اسی کی ملکیت ہے۔
چینی مٹی سے بنائی گئی گڑیا مینڈی کو بھی دنیا میں دہشت کی علامت مانا جاتا ہے ۔ یہ گڑیا 1991 میں برٹش کولمبیا کے کونسل میوزیم کو عطیہ کی گئی تھی۔ اس گڑیا کے آنے کے بعد متعلقہ عملے نے مشاہدہ کیا کہ میوزیم میں کچھ عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غور کرنے پر یہ کھلا کہ اگر مینڈی کو کسی دوسری گڑیا یا کھلونے کے کیس کے ساتھ رکھا جائے تو وہ اس کے شیشے پر مسلسل دستک دیتی رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی بار عملے کا کھانا غائب ہوجاتا، لائٹیں بار بار بند ہو جاتیں، لیکن جب اسے الگ ڈسپلے کیس میں رکھا گیا تو ایسا نہیں ہوا۔ مشہور ہے کہ اس گڑیا کی تصویر کھینچنے پر اکثر سیاح کے کیمرے ناکام ہوجاتے ہیں۔
اس گڑیا کی مالک ایک خاتون تھی جس کے مطابق اسے کونسل میوزیم کو عطیہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ گڑیا اچانک رات کو رونے لگتی تھی۔ یہ اس عورت کے لیے ایک نہایت خوف ناک اور ڈرا دینے والی بات تھی ۔ اس نے گڑیا کو میوزیم کے حوالے کرنے میں ہی عافیت جانی۔ یوں آج بھی یہ گڑیا اس میوزیم میں رکھی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ شمالی امریکا میں بھی پراسرار قوتوں کی حامل اور دہشت پھیلاتی ایک گڑیا نہیں بلکہ کہتے ہیں پورا ایک جزیرہ موجود ہے ۔ یہ میکسیکو کے جنوب کی طرف نہری نظام میں گڑیا کے جزیرے کے طور پر مشہور ہے۔
یہاں جابجا درختوں سے لٹکنے والی سربریدہ بدن، ہاتھ پیر کٹی ہوئی یا پھر آنکھوں سے محروم سیکڑوں بوسیدہ گڑیا موجود ہیں جو اس جزیرے کو خوف ناک بناتی اور انسانوں کو دہشت زدہ کردیتی ہیں۔ اس کے پیچھے کہانی یہ ہے کہ یہاں ایک تالاب میں ایک ننھی بچی پراسرار طور پر ڈوب کر مر گئی۔ مختلف قصوں اور روایات کے مطابق اس جزیرے کے مالک کو ایک پرانی تیرتی ہوئی گڑیا ملی جسے اس نے بچی کی روح کو خوش کرنے کے لیے درخت سے لٹکا دیا۔ کچھ دنوں کے بعد لوگوں نے محسوس کیا یہ گڑیا انھیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتی ہے یا منہ سے کچھ کہتی ہے اور یہ بات پھیلتی ہی چلی گئی۔
ہر کوئی خوف زدہ ہو گیا اور یوں یہ جزیرہ پراسرار حیثیت اختیار کرتا چلا گیا۔ دوسری طرف جزیرے کے مالک ڈان کو محسوس ہوا کہ کوئی ماورائی طاقت اسے مزید گڑیا لانے کا کہہ رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں گڑیا لا کر لٹکاتا چلا گیا گیا۔ ممکن ہے یہ سب ڈان کا رچایا ہوا ڈراما ہو یا اس کی ذہنی حالت ہی خراب ہو چکی ہو اور وہ سب سے جھوٹ بول کر اپنی تسکین کے لیے گڑیا لاکر یہاں رکھتا ہو مگر عجیب اور نہایت پراسرار بات یہ ہے کہ 2001 میں ڈان بھی اسی جگہ فوت ہوا جہاں وہ بچی ڈوب کر مری تھی۔
اس واقعے نے جیسے بچی کی موت اور گڑیا کی کہانی میں جان ہی ڈال دی۔ اور اس جزیرے کو مزید پراسرار بنا ڈالا۔ اب یہاں آنے والے اکثر ان گڑیاؤں کی سرگوشی سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف باہمت سیاح ہی خشکی کے اس ٹکڑے پر قدم رکھ سکتے ہیں۔
اوکیکو بھی پراسرار طاقتوں کی حامل آسیب زدہ گڑیا ہے جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ اس پر کسی لڑکی کی روح کا سایہ ہے۔
اسے جاپانی لڑکے نے اپنی تین سالہ بہن کیکو کو کے لیے خریدا یہ گڑیا ہمہ وقت اس کے ساتھ ہوتی اور اس کی موت کے وقت بھی یہ اس کے سینے پر رکھی ہوئی تھی۔ لیکن اس موت کے بعد عجیب و غریب واقعات گھر میں ہونے لگے۔ سب کو حیرت زدہ کر دینے والا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اس گڑیا کے بال بڑھے ہوئے مشاہدے میں آئے۔ یہ بات کافی خوف ناک تھی۔ چناںچہ 1938 میں گھر والوں نے اسے معبد کے راہبوں کو دے دیا گیا اور یہ اس وقت سے اب تک جاپان کے ہوکانڈو کے ماننجی مندر میں رہتی ہے۔
سیاح یہاں آتے ہیں لیکن انہیں تصویر بنانے کی اجازت نہیں۔ جب اوکیکو کے بال اس کی کہنیوں تک آنے لگتے ہیں تو راہب اس گڑیا کے بال کاٹ دیتے ہیں۔ راہبوں کے مطابق انہیں بال کاٹنے کا اشارہ خود یہ گڑیا خواب میں دیتی ہے۔
اگر آپ گوگل پر جائیں گے اور ان گڑیاؤں کے نام لکھیں گے تو نہ صرف ان کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر آپ خوف زدہ نہیں اور کسی ایسے آسیبی چکر سے نہیں گھبراتے یا عجیب وغریب اور ماورائی طاقتوں سے ڈر نہیں لگتا تو یہ ضرور کیجیے گا۔
The post دنیا کی پراسرار گڑیاں appeared first on ایکسپریس اردو.