کراچی: سندھ اسمبلی نے گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کی جانب سے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق مذمتی قرارداد قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی۔
آئینی ترمیم کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی ہے۔ اس موقع پر اسپیکر آغا سراج درانی نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں کٹ جاؤں گا، مر جاؤں گا مگر سندھ کی بقا پر آنچ نہیں آنے دوں گا۔ وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی ایم کیو ایم کی مجوزہ آئینی ترمیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں ہونے دیں گے، جو سندھ کی تقسیم کی نیت سے شروع کیا جائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایم کیو ایم ہمیشہ سازش کرتی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ قرارداد جی ڈی اے کی خاتون نصرت سحر عباسی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، جس سے یہ بات عیاں ہے کہ سندھ کی تقسیم صوبے کی تمام جماعتوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ نصرت سحرعباسی کا کہنا تھا کہ سندھ دھرتی پر وار کرنے والا کوئی زندہ نہیں بچے گا، سندھ کارڈ استعمال کرکے نئی مہم جوئی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک جی ڈی اے کاایک بھی ممبرموجود ہے سندھ کو کوئی تقسیم نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے بھی واضح موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت سندھ کی تقسیم کے سخت خلاف ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کو کسی بھی فیصلے سے قبل اس کے مضمرات کا خیال رکھنا چاہیے۔
سندھ کی تقسیم صوبے کے باسیوں کے لیے ناقابل برداشت ہے اور وہ اس حوالے سے کوئی بات تک سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس طرح کے متنازع بل قومی اسمبلی میں جمع کرانے سے اگر وہ اپنے ناراض ووٹرز کو منانے کی کوشش کر رہی ہے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے اس وقت اصل مسئلہ صفائی کا فقدان، پانی کی عدم فراہمی اور ٹرانسپورٹ کی ابتر صورت حال ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کارکردگی نے شہر کے عوام کو مایوس کیا ہے۔ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے غیر سنجیدہ اقدامات کرنے کی بجائے کارکردگی سے شہریوں کو اپنی جانب راغب کرے۔ ادھر سندھ اسمبلی میں صوبے میں گٹکے، مین پوری کی تیاری، اس کے ذخیرہ کرنے، فروخت اور کھانے پر پابندی کا بل متعارف کروا دیا گیا ہے، اسپیکر آغا سراج درانی نے بل سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں اسے مزید بہتر بنا کر ایوان میں پیش کیا جائے۔ ماہرین کے مطابق صوبے میں گٹکے اور مین پوری کے استعمال سے عوام مہلک امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
سندھ کے مختلف اسپتالوں میں اس وقت ایسے مریض بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو ان مضر اشیا کے استعمال سے منہ کے کینسر میںمبتلا ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ان اشیا کی خریدو فروخت اور تیاری کے حوالے سے مختلف احکامات جاری کیے جاتے رہے ہیں، لیکن ان پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس بل میں ان اشیاء کی تیاری اور خرید و فروخت کے ساتھ اس کا استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
مختلف حلقے حکومت کے اس اقدام کو ستائش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل کو اس لت سے بچانے کے لیے اسی طرح کے اقدامات کی ضرور ت تھی۔جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ جے یو آئی کے مارچ کے حوالے سے سندھ میں بھی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔
لاڑکانہ، سکھر، شکارپور اور جیکب آباد سندھ کے وہ اضلاع ہیں، جہاں جمعیت کا اچھا اثر و رسوخ ہے۔ اس لیے صوبے سے بھی بڑی تعداد میں کارکن اس مارچ میں شرکت کر سکتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام سندھ کے جنرل سیکرٹری علامہ راشد خالد محمود سومرو کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ دنیا دیکھے گی کس طرح سندھ کے ایک ایک ضلع سے لاکھوں کی تعداد میں عوام جوق در جوق آزادی مارچ کا حصہ بنیں گے۔
مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے اپنی پالیسی واضح کردی ہے۔ سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی اخلاقی حمایت کریں گے لیکن پیپلزپارٹی دھرنے میں شریک نہیں ہوگی۔ اس سے قبل پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا بھی یہ کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گی جس سے جمہوریت کو نقصان ہو، ہم ظلم برداشت کرنے کو تیار ہیں مگر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
اس حوالے سے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمن کے مارچ سے علیحدہ کر لیا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر ایک ہی اسٹیج کے نیچے دونوں جماعتوں کے کارکنان اکٹھے ہو جاتے تو اس سے پیپلزپارٹی کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے تما م عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے سینئر قیادت کی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے ان کی بالغ نظری کا مظہر ہیں۔
حکومت سندھ کی جانب سے ’’کلین کراچی‘‘ مہم جاری ہے اور تاحال اس مہم کے دوران 2لاکھ 12ہزارٹن سے زائد کچرا اٹھایا جا چکا ہے ۔ وفاقی وزیر برائے بحری علی زیدی کی جانب سے چلائی گئی مہم کی نسبت اس مہم کے زیادہ بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ترکش کمپنی کی جانب سے کراچی میں صفائی کے کام پر دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔
ترجمان وزیراعلی سندھ کا کہنا ہے کہ ترکش کمپنی لاہور میں صفائی کا کام کرتی ہے اور اب یہ کراچی میں بھی صفائی کے کام میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ترکش کمپنی اپنا پرپوزل سندھ حکومت کو بھیجے گی تاکہ مزید فیصلہ ہو سکے۔ وزیر بلدیات سندھ سید ناصر شاہ نے کا کہنا ہے کہ ہم ترکی کی کمپنی کو ہر قسم کی سہولیات دیں گے۔ اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ترکش کمپنی کے ساتھ حکومت سندھ کا کراچی میں صفائی کے حوالے سے کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج مرتب ہوںگے اور پھر یہ امید بھی کی جا سکتی ہے کہ کراچی ایک مرتبہ پھر کچرے سے پاک شہر بن جائے گا۔
The post نئے صوبوں کے قیام کی آئینی ترمیم کیخلاف مذمتی قرار داد منظور appeared first on ایکسپریس اردو.