پشاور: اس بات کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کیا جا رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف اسلام آباد مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کب کرتے ہیں۔
پارٹی کی سطح پر طویل مشاورت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ صلاح ومشورے کے بعد بالآخر مولانا فضل الرحمٰن نے تاریخ کا اعلان کر ہی دیا ہے اور تاریخ منتخب کی گئی وہ کہ جس دن بھارتی افواج مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھیں یعنی27 اکتوبر، مارچ اور دھرنے کی تاریخ تو منظر عام پر آگئی ہے۔
تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ آیا اس میں دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی شریک ہونگی یا نہیں کیونکہ ان پارٹیوں کے اندر مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مارچ اور دھرنے میں شرکت کے معاملے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی جانب سے تو بار، بار یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مارچ اور دھرنے میں سب شریک ہوں گے تاہم صورت حال اس وقت تک واضح نہیں ہوگی کہ جب تک ان پارٹیوں کی قیادت واضح انداز میں شرکت کا اعلان نہ کردے۔
چونکہ ابھی دو ہفتوں سے زائد وقت پڑا ہوا ہے اس لیے مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی اپنے تمام ’’معاملات‘‘دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کریں گی اور ان دونوں بڑی پارٹیوں کا فیصلہ منظرعام پر آنے کے بعد ہی دیگر پارٹیاں بھی فیصلہ کر پائیں گی،اس معاملے میں دلچسپ صورت حال جماعت اسلامی کے حوالے سے بنی ہوئی ہے جس کے بارے میں سوال پر مسکراہٹوں کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنما ان کی شرکت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
تاہم سامنے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی شاید ہی اس مارچ اور دھرنے میں شریک ہو پائے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق اپنی شوریٰ سے مشاورت کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی نہ کوئی اعلان کر چکے ہوتے تاہم وہ حکومت مخالف ہونے کے باوجود اپنے طور پر احتجاجی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں اس لیے وہ اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اپنی تحریک کو بریک نہیں لگائیں گے، تاہم جے یوآئی کی پوری کوشش ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی کلی نہ سہی تاہم جزوی طور پر اس مارچ اور دھرنے میں شرکت ضرور یقینی بنائی جائے ۔
مارچ اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان سامنے آنے کے بعد سیاسی فضاء میں بھی ہلچل پیدا ہوگئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوگیا ہے، ایک جانب تو مرکزی حکومت یہ معاملہ سنجیدگی سے لیے ہوئے ہے جہاں سے مخالفانہ بیانات کے ساتھ مختلف حکومتی عہدیداروں کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو اس مارچ اور دھرنے سے روکنے کے لیے ڈرانے دھمکانے اور وعظ ونصحیت کا سلسلہ بھی جاری ہے تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمودخان نے اپنی پارٹی تحریک انصاف اور پارٹی سربراہ عمران خان سے وفاداری دکھاتے ہوئے اعلان کردیا ہے کہ مذکورہ مارچ میں شرکت کے لیے خیبرپختونخوا سے کسی کو بھی نہیں جانے دیا جائے گا۔
ان کے بیان نے جے یوآئی کی صفوں میں اشتعال پیدا کردیا ہے جس کا اظہار پارٹی کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے بڑے ہی جذباتی انداز میں اسمبلی میں کیا، خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر عاطف خان نے بھی اکرم درانی کی بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا اوراپنی پارٹی کے ارادے اور پالیسی واضح کردی ہے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ساتھی طویل المدت منصوبہ بندی کرتے ہوئے مارچ کرنے اور دھرنا دینے جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پشاور میں منعقد ہونے والے جے یوآئی کے علماء کنونشن کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی گئی کیونکہ مذکورہ کنونشن میں دھرنے اور مارچ کے حوالے سے منصوبہ بندی زیر غور لائی گئی اور شاید یہی صورت حال اگلے ہفتے رضاکاروں کے اجتماع کے حوالے سے بھی ہو۔
اس صورت حال میں یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور مرکزی حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی رہے گی بلکہ اس کی کوشش ہوگی کہ یا تو یہ مارچ اور دھرنا ملتوی کردیا جائے یا پھر ایسی صورت حال پیدا کی جائے کہ کم سے کم افراد اسلام آباد پہنچ سکیں، شاید اسی سوچ کے تحت خیبرپختونخو اکے وزیراعلیٰ نے جے یوآئی کے کارکنوں کو صوبہ ہی میں روکنے کا اعلان کیا، قارئین کو وہ وقت یاد ہوگا جب مسلم لیگ(ن)کے دورحکومت میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیاگیا اور خیبرپختونخوا سے اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے خود قافلے کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب کا رخ کیا جنھیں پنجاب کی سرحد پر ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
جس طرح مولانا فضل الرحمن مارچ اور دھرنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی چھپائے بیٹھے ہیں ٹھیک اسی طرح حکومتی تھیلے میں بھی بلی ابھی بند ہے جو وقت آنے پر ہی تھیلے سے باہر لائی جائے گی ۔ اس صورت حال میں یقینی طور پر ریاستی اداروں کو کردار اہم ہوگا جن پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں جو ایسے مواقع پر اپنا کردار بھی ادا کرتے ہیںکیونکہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس کی وجہ سے ملک وقوم کو نقصان پہنچانے کا احتمال ہو اس پر اداروںکو نظر رکھنی ہی پڑتی ہے اس لیے وہ بھی اس تمام تر صورت حال کا نظر عمیق سے جائزہ لے رہے ہوںگے اور ان کی پالیسی بھی جلد ہی واضح ہوجائے گی۔
اور ان حالات میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی سامنے آگیا ہے، اگرچہ اپوزیشن جماعتیں گزشتہ سال منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کے بعد ہی سے یہ مطالبہ کرتی آرہی ہیں تاہم بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسمبلیوں سے باہر رہنے کی بجائے ایوانوں میں جانے اور حلف اٹھانے کے فیصلہ کی وجہ سے ان کا یہ مطالبہ کمزور پڑگیا تھا۔
جس میں اب دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاہم یہ بات بھی مد نظررکھنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے جس مشکل گھڑی سے گزر رہاہے ایسے میں عام انتخابات کا انعقاد آساں نہ ہوگا اور اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہرکیف سب کو ہی فوکس کرنا ہوگا تاکہ معاملات ہاتھ سے نکلنے نہ پائیں ۔
The post جے یو آئی کے مارچ اور دھرنے میں اپوزیشن جماعتیں شرکت کریں گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.