موریطانیہ مغربی افریقہ کا ایک غریب مسلمان ملک ہے جس کے دو تہائی سے بھی زیادہ حِصے پر صحرا کا راج ہے۔ یہاں صرف گرم مرطوب آب و ہوا کا لق ودق صحرا ملتا ہے۔ اسی طرح گرین لینڈ جو شمالی یورپ کا ملک ہے، چند جنوبی حصوں کے علاوہ سارا کا سارا برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ ایسے ملکوں کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے کہ یہاں ایڈونچر یا سیروسیاحت کے کیا ذرائع ہوں گے؟ یہ ممالک وہ ہیں جہاں سیاحت برائے نام ہے۔
جب کہ اس کے برعکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وہ سب کچھ موجود ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارا ملک دنیا کے جس خِطے میں واقع ہے وہ خدا کی طرف سے تمام نعمتوں سے مالامال ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اللہ تعالٰی نے متنوع جغرافیہ اور انواع و اقسام کی آب و ہوا دی ہے جو ہماری سیاحت کی اساس ہے۔
پاکستان میں مختلف لوگ، مختلف زبانیں، ثقافتیں اور علاقے ہیں جو پاکستان کو بہت سے رنگوں کا گھر بنا دیتے ہیں۔ یہاں ریگستان، سرسبزوشاداب علاقے، میدان، پہاڑ، جنگلات، سرد اور گرم علاقے، خوب صورت جھیلیں، برف پوش چوٹیاں، تاریخی عمارتیں، جزائر اور بہت کچھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2012 میں پاکستان نے اپنی طرف 1 ملین سیاحوں کو مائل کیا۔ امن و امان کے مسئلے کے وجہ سے پاکستان کی سیاحت بہت متاثر ہوئی لیکن اب حالات بڑی حد تک معمول پر آچکے ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں لوگوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔
پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی اپنے عروج پر تھی۔ بیرونی ممالک سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے اور بہت خوب صورت یادیں لے کر واپس جاتے تھے۔ کراچی کی شاہراہیں لوگوں کو حیران کرنے کے لیے کافی تھیں اور کراچی کی گلیوں میں ہپیز کی بہتات نظر آتی تھی۔ انگریزوں کا درۂ خیبر تک جانا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور، سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر خوب صورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ بہت سے سیاح آئے اور انہوں نے اس ملک کے کونے کونے میں پھیلے حیرت ناک مناظر کو دنیا تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں سیکڑوں سیاحتی مقامات دریافت کیے جا چکے ہیں بلکہ روزانہ کی بُنیاد پر ہو رہے ہیں۔
شمالی علاقہ جات کی سیاحت بھی اپنے عروج پر ہے۔ شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا کے علاقے اندرونی و بیرونی سیاحوں میں یکساں مقبول ہیں۔ پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے بے شمار نظارے موجود ہیں، جب کہ مختلف قدیم قلعے، تاریخی مقامات، نیشنل پارک، عجائب گھر، آثارقدیمہ، وادیاں، جھیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ آئیں ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں بڑے چھوٹے سیاحتی مقامات اور ہماری ثقافت پر۔
پاکستان کے تمام خطوں اور صوبوں میں سیاحت کے مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی ثقافت، کھانوں، لباس اور رنگ ڈھنگ کا مختلف ہونا ہی انہیں خاص بناتا ہے۔ خیبر پختونخواہ کی سیاحت پہاڑوں اور وادیوں کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہاں ایک طرف حسین و جمیل سوات اور کُمراٹ کی وادیاں ہیں جنہیں لوگ مشرق کا سوئٹزرلینڈ کہتے ہیں تو دوسری جانب وادی کیلاش ہے جو اپنے تمام تر منفرد رسومات اور اسرار و رموز سمیت ایک معما بنی ہوئی ہیں۔ ایسی وادی دنیا کے کسی خطے کسی کونے میں نہیں ہے۔ شمال مغرب میں چترال کی خوب صورت وادی ہے جہاں ایک ہی علاقے میں تقریباً بارہ چھوٹی بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح صوبے میں مذہبی سیاحت کی بھی کافی جگہیں ہیں جن میں خوب صورت اور قدیم مساجد کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی خانقاہیں، قدیم یونیورسٹیاں اور اسٹوپوں کے کھنڈرات بھی شامل ہیں۔ یہ صوابی، مردان، تخت بھائی، پشاور اور سوات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کئی قدیم مخطوطات، نسخے، سِکے، پتھر کی مورتیاں اور برتن و زیورات وغیرہ نکالے جا چکے ہیں۔
اسی طرح یہاں پشاور جیسا زرخیز تاریخ رکھنے والا شہر واقع ہے جو بیک وقت کئی ادوار کا امین ہے۔ یہاں ایک طرف جمرود و بالا حصار جیسے قلعے سر اٹھائے کھڑے ہیں تو دوسری جانب برطانوی راج کے دور کی یاد تازہ کرتا کُننگھم ٹاور بھی ایستادہ ہے۔ مسجد مہابت خان، پشاور میوزیم، کپورحویلی، طورخم بارڈر، درہ خیبر، سیٹھی ہاؤس اور قصہ خوانی بازار بھی دیکھنے کے قابل ہیں۔
بات کی جائے اگر خوب صورتی کی تو خیبر پی کے کی خوب صورتی رنگ برنگی جھیلوں کے بغیر ادھوری ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی حسین ترین جھیلوں میں سے ایک ’’ماہوڈنڈ جھیل‘‘ کو اگر وادی سوات کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا جو ضلع سوات کی تحصیل کالام سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’وادیٔ اوشو‘‘ میں واقع ہے۔
جھیل کے بیچوں بیچ ایک گھنا خوب صورت جنگل ہے اور ان میں بھاگتے دوڑتے اٹھکیلیاں کرتے پونیز (چھوٹی نسل کا ایک خوب صورت گھوڑا)، یہ نظارہ آپ پاکستان میں کہیں اور نہ کرسکیں گے۔ جھیل کے ارد گرد سرسبز گھاس پر لگے دودھیا خیمے کسی چھوٹے سے اُزبک قصبے کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اردگرد کے پہاڑ، سانپ کی طرح رینگتی بل کھاتی ندیاں اور اُس پر صُبح کا دھندلکا، یہ جھیل فطرت کے حسن کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔ اس کے علاوہ ناران کی جھیل سیف الملوک، دیر بالا میں واقع کٹورا جھیل، لولوسر، آنسو، کنڈول، دودی پت سر، درل اور پیالہ جھیل بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ وادی سوات میں کئی مقامات پر بلند آبشاریں بھی ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں بہت زیادہ بلندوبالا چوٹیاں نہیں ہیں لیکن یہاں سوات اور چترال کے سرسبز پہاڑ بہت جاذب نظر ہیں۔ بڑی اور مشہور چوٹیوں میں ترچ میر، مکڑا پیک، ملکہ پربت، فلک سر، بونی زوم، سارہ غر، موسیٰ کا مصلیٰ، میرنجانی اور مُکشپوری شامل ہیں۔ نتھیا گلی، باڑہ گلی، مالم جبہ، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، بھوربن، اور گھوڑاگلی یہاں کے وہ ہِل اسٹیشن ہیں جہاں سارا سال سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ حکومت کی طرف سے مالم جبہ میں سکی ریزارٹ جب کہ ایوبیہ و پٹریاٹا میں چیئر لفٹ اور کیبل کار کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔
کھانوں کی بات کی جائے تو خیبر پی کے اپنے قہوؤں، روش، ٹماٹر کڑاہی، خشک میوہ جات، دنبے اور چپلی کبابوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ یہ پکوان اس صوبے کا ٹریڈ مارک ہیں جو چترال سے ڈیرہ اسمٰعیل تک دست یاب ہیں۔ گوشت یہاں کے پکوانوں کا بنیادی جُز ہے جس کے بغیر پختون کھانے ادھورے ہیں۔ ٹرک آرٹ، پشاوری چپل اور خشک میوہ جات یہاں کی وہ سوغاتیں ہیں جو سیاح حضرات خوشی خوشی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
ہیر سیال اور صاحباں کے پنجاب کی بات کریں تو یہاں کی سیاحت تاریخ، روحانیت اور ثقافت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ صوبہ جہاں آپ کو حسین اور ٹھنڈے پہاڑی مقامات پیش کرتا ہے وہیں لق و دق صحرا اور زرخیز میدان بھی اس کی خاصیت ہیں۔ پنجاب کے لینڈ اسکیپ کا تنوع ہی خوب صورتی ہے۔ یہاں پہاڑ، دریا، میدان، سطح مرتفع، چشمے، صحرا، جھرنے سب موجود ہیں۔ اس کے چھتیس اضلاع میں کئی قدیم، تاریخی و خوبصورت جگہیں واقع ہیں جنہیں کھوجنا ایک شخص کی بات نہیں ہیں۔
یہاں مری، کوٹلی ستیاں اور فورٹ منرو جیسے سرد اور پُرفضا ہل اسٹیشن موجود ہیں جو ہر سال لاکھوں سیاحوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ ان ہل اسٹیشنز کے پہاڑوں پر کئی قیمتی جنگلات موجود ہیں جہاں متعدد جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح یہاں لال سوہانرہ، چِنجی اور کالا چٹا نیشنل پارک موجود ہیں جہاں جنگلی حیات کے شوقین حضرات اپنے ذوق کی تسکین کے لیے جاتے ہیں۔
پنجاب کی تاریخی عمارتوں (محلات و قلعے) اور درگاہوں کو اگر یہاں کی سیاحت کی بنیاد قرار دیا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ بڑے بڑے اور عظیم صوفیاء و شعرا جیسے حضرت علی ہجویریؒ، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت مادھو لعل حسینؒ، حضرت خواجہ غلام فرید کوریجہؒ، حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت سلطان باہوِؒ، حضرت سخی سرورؒ، حضرت بابا بلھے شاہؒ اور ان جیسی کئی اور بزرگ ہستیاں پنجاب کی دھرتی میں آرام فرما رہی ہیں جن کے خوب صورت اور منفرد مقبروں کی نقاشی اور لکڑی کا کام لاکھوں لوگوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ عرس کے دنوں کے علاوہ بھی یہاں ہزاروں کا مجمع ہوتا ہے۔ بہت سے سیاح خصوصاً انہیں دیکھنے دور دور سے آتے ہیں۔ اور اب تو بین الاقوامی سیاح بھی یہاں پاکستان اور خصوصاً پنجاب کا کلچر دیکھنے اور روحانیت کا تجربہ کرنے آتے ہیں۔
راولپنڈی سے 22 میل دور، شمال مغرب میں ٹیکسلا کا قدیم شہر واقع ہے جو بدھ مت کی ثقافت کا امین ہے۔ کہتے ہیں کہ باختر کے یونانی حکم راں دیمریس نے گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چین سیاح ہیون سانگ یہاں آیا تھا۔
اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے (جن میں بعض یونانی دور کے ہیں)، فن تعمیر کے نایاب نمونے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے گئے ہیں۔ ٹیکسلا کے آس پاس کئی اسٹوپے، بُدھ مندر اور خانقاہوں کے کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں۔ اس شہر کے کئی مقامات کو 1980ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
پنجاب میں کئی معروف اور غیرمعروف قلعے موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ قلعے سیکڑوں سالوں کی تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ جہاں کچھ قلعے صحرا کی وسعتوں میں گْم ہیں وہیں کچھ چٹانوں پہ دریا کنارے براجمان ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں میوزیم یا جیل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر قلعے عوام الناس کے لیے کھلے ہیں جبکہ کچھ نجی تحویل میں بھی ہیں۔ لاہور کا شاہی قلعہ، چولستان کا دیراوڑ فورٹ، اٹک کا قلعہ اٹک، جہلم میں روہتاس فورٹ، قلعہ مؤ مبارک رحیم یارخان، قلعہ روات راولپنڈی، چوآسیدن شاہ میں واقع نندنہ کا قلعہ، ملتان کا قلعہ کہنہ قاسم ار سیالکوٹ فورٹ وہ مشہور و معروف قلعے ہیں جہاں ایک دنیا سیروسیاحت اور تحقیقی مقاصد کے لیے جاتی ہے۔ ان سب کے علاوہ چولستان کی وسعتوں میں تقریباً 19 سے 21 چھوٹے بڑے قلعے گم ہیں جو مٹی اور پتھر کے مختلف ڈیزائنوں سے مزین تھے۔ اِن میں سے کچھ تو زمین کے اندر دفن ہو چکے ہیں جب کہ باقی بھی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ ان میں باڑہ، بجنوٹ، بھاگلہ، اسلام گڑھ، جام گڑھ، خیرگڑھ، خان گڑھ، لیارہ، مروٹ، میر گڑھ، موج گڑھ، ماچھکی، مریدکوٹ، نواں کوٹ اور پھولرہ کے قلعے شامل ہیں جو صحرائے چولستان کے اندر تقریباً ایک جتنے فاصلے پر واقع ہیں۔
محلات کا ذکر کیا جائے تو جنوبی پنجاب کا شہر بہاولپور اس میدان میں سب سے آگے ہے۔ اپنے آٹھ خوب صورت محلات کی وجہ سے یہ شہر ”نوابوں کا شہر” بھی کہلاتا ہے۔ یہاں واقع نورمحل، دربار محل، نشاط محل، فرُخ محل، گلزار محل اور صادق گڑھ پیلس فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اسی طرح شاہی قلعے کا شیش محل بھی اپنی مثال آپ ہے۔
پنجاب کی سیاحت میں پانچ دریاؤں کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جو کسی جسم میں موجود شریانوں کی طرح بہتے ہیں۔ ان دریاؤں پر موجود بند، بیراج، ہیڈورکس، انکے قریب واقع مچھلی فارم اور تحفظِ آبی حیات کے منصوبے خاصی کشش رکھتے ہیں۔ مرالہ، چشمہ، پنجند، تریموں، سدھنائی، سلیمانکی، جناح، تونسہ کے مقامات پر بہت سے لوگ فیملی سمیت پکنک منانے آتے ہیں۔
پنجاب کا دل کہلائے جانے والے لاہور شہر کی تو کیا ہی بات ہے۔ اس شہر کی ثقافت، تاریخ، خوب صورتی، پارک، چائے خانے، عجائب گھر، مساجد، کھیل کے میدان، باغ اور کھانے آپ کو اس کا گرویدہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ ایک لاہور شہر میں دیکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ انسان یہاں آرام سے اپنا ہفتہ گزار سکتا ہے۔ بادشاہی مسجد سے لے کہ مسجد وزیر خان، شاہی حمام، قدیم لاہور کے دروازوں، سُنہری مسجد، پوسٹ آفس، مینار پاکستان، شالامار باغ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، ٹولنٹن مارکیٹ، لاہورمیوزیم، ریلوے اسٹیشن، قائد اعظم لائبریری، انارکلی، قطب الدین ایبک، نورجہاں، جہانگیر، آصف و دائی انگہ کے مقبرے، تک ایک ایک عمارت سے تاریخ ٹپک رہی ہے، جب کہ اسی شہر میں دوسری طرف آرمی میوزیم، نیشنل ہسٹری میوزیم، ایفل ٹاور، قزافی اسٹیڈیم، لاہور فوڈ سٹریٹ اور عرفہ کریم ٹاور جیسی جدید تراش خراش کی حامل عمارتیں بھی موجود ہیں۔
لاہور کی فوڈ اسٹریٹ جو اپنی مثال آپ ہے آپ کو پنجاب کے تمام تر روایتی ذائقوں سے روشناس کرانے کے لیے کافی ہے۔ خالص دیسی پنجابی خوراک جس میں ساگ، مکھن، لسی، آلو کی سبزی، پالک پنیر، تندوری چکن، چرغہ، ہریسہ، بونگ پائے اور نہاری شامل ہے، آپ کو پنجاب میں ہر جگہ ملے گی لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے شہروں کی خاص سوغاتیں ہیں جن میں گوجرانوالہ کے چِڑے، چنیوت کا کُنہ گوشت، ملتان کا سوہن حلوہ اور چانپیں، خوشاب کا ڈھوڈھا، قصوری فالودہ اور اندر سے، خانپور کے پیڑے، جنوبی پنجاب کے آم اور چِلڑے اور بھلوال و سرگودھا کے کِنو اپنی مثال آپ ہیں۔ پنجابی کھانے اپنی لذت کے باعث پاکستان سے باہر بھی مقبول ہیں۔خوب صورت پنکھے، کھیس، دریاں، لانچے، مٹی کے برتن، پراندے، چوڑیاں اور دیگر گھریلو دستکاریاں یہاں کی سوغاتیں ہیں۔
ذکر کریں گلگت بلتستان کا تو یہاں سیاحت پہاڑوں کی مرہونِ منت ہے۔ قراقرم اور ہمالیہ کے بلند پہاڑی سلسلے اس خطے کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر سال کئی کوہ پیما اور پہاڑوں کے جنون میں مْبتلا جوشیلے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
یہاں کی آبادی 11لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جب کہ اس کا کُل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے۔ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سمیت کئی بلند اور دشوار گزار پہاڑی درے بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ قطبین سے باہر دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشیئر بیافو، بالتورو اور باتورہ بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔
یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ یہاں قراقرم ہائی وے کی تعمیر سے سیاحت کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ”قراقرم ہائی وے” ، این-35 اور ”شاہراہِ ریشم” بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم کُندہ چٹانیں، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چوٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں یہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔
خپلو، شِگر، التت اور بلتت کے قلعے بھی گلگت بلتستان کی سیاحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آغا خان فاؤنڈیشن نے ان کے اندر میوزیم اور ہوٹل بنا رکھے ہیں جنہیں دیکھنے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور تاریخ کے ان شاہ کاروں سے اپنی تشنگی مٹاتے ہیں۔
یہاں پانچ چوٹیاں ایسی ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے بھی زیادہ بلند ہیں ان میں کے-ٹو، نانگا پربت، گیشربروم اول، براڈ پیک اور گیشر بروم دوم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ راکاپوشی، میشہ بروم اور سالتورو کانگڑی بھی مشہور چوٹیاں ہیں۔
گلگت بلتستان کو اگر جھیلوں کا گھر کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا۔ یہاں جگہ جگہ سبز و نیلے پانی کی خوب صورت جھیلیں واقع ہیں جو ہر سال پاکستان کے گرم علاقوں سے سیاحوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ کر لے آتی ہیں۔ مشہور جھیلوں میں عطا آباد، شیوسر، ست پارہ، شنگریلا، اپر کچورہ، بورِت، راما، رَش، کرومبر اور خالطی جھیل شامل ہیں۔
یہاں کے دسترخوان پر ممتو، دیرم فٹی، نمکین چائے، چیری، خوبانی، بادام، اخروٹ، یاک کا گوشت اور مولیدا اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس خطے میں بہت سے نایاب نسل کے جانور بھی پائے جاتے ہیں جن میں بھورا ریچھ، مارموٹ، مارکوپولو شیپ، مارخور اور آئیبیکس شامل ہیں۔ یہ علاقہ پورے ملک میں قیمتی پتھروں، رسیلے پھلوں اور لکڑی کی پیداوار کے لیے جانا جاتا ہے۔
شاہ لطیف بھٹائی کا صوبہ سندھ، برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی سندھ دھرتی اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں (7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادی سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈر بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے، جنہوں نے پانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادی سندھ کو علمی، فنی اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔
سندھ میں سیاحت کے بہت سے مقامات موجود ہیں۔ خاص کر وادی سندھ کی تہذیب کا زیادہ تر حصہ موجودہ سندھ میں ہی واقع جن میں موہن جو دڑو قابل ذکر ہے۔ موہن جودڑو کے کھنڈرات آج بھی سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں سیاحوں اور تاریخ سے محبت کرنے والوں کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں۔
اسی طرح خیرپور کا خوب صورت ”فیض محل” اور ٹھٹھہ کہ ”شاہجہانی مسجد” بھی فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔
سندھ دھرتی کی سیاحت یہاں موجود آثارِقدیمہ کے کھنڈرات اور صوفی اِزم کی مرہونِ منت ہے۔ یہاں موجود حضرت لعل شہباز قلندر رح، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رح، حضرت عبداللہ شاہ غازی رح، حضرت سچل سرمستؒ، منگھو پیر اور بی بی جمال خاتون کے مزاروں پر ہر سال لاکھوں زائرین آتے ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والی قوالی اور دھمال تو اب پوری دنیا میں مشہور ہے۔
بہت سے لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ شدید ترین گرم صوبے سندھ میں ایک ہِل اسٹیشن بھی ہے جسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ضلع دادو میں واقع ”گورکھ ہل اسٹیشن” ہے جو کوہِ کیرتھر میں 5700 فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ سردیوں میں یہاں کا درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔
سندھ میں واقع رانی کوٹ کے قلعے کو ”دیوار سندھ” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ اس کے علاوہ تالپور دور میں بنایا گیا کوٹ ڈیجی کا قلعہ بھی یہیں خیرپور کے قریب واقع ہے۔
سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر، سیاحت کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔ یہاں مسلم فنِ تعمیر کے علاوہ ہندومذہب سے جڑی چند مشہور جگہیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن میں دریائے سندھ پر واقع مشہور سکھر بیراج، سادھو بیلو کا مندر، اروڑ، ایوب برج، لینس ڈاؤن برج، سکھر کا گھنٹہ گھر، سات سہیلیوں کے مزار اور معصوم شاہ کا مینار شامل ہیں۔
جنوبی سندھ میں جائیں تو ٹھٹھہ میں پاکستان کی دوسری بڑی تازہ پانی کی جھیل ”کینجھر” واقع ہے جس کے بیچوں بیچ سندھی لوک داستان کے کردار نوری جام تماچی دفن ہیں۔ ٹھٹھہ کی ہی ایک اور جھیل ”ہالیجی” ہے جو کراچی سے 82 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مغرب میں قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ ایشیا میں پرندوں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہاں پرندوں کی سوا دو سو کے قریب اقسام ریکارڈ کی گئی تھیں۔ ہالیجی جھیل کو دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی حکام نے محفوظ ذخیرہ آب کے طور پر تعمیر کیا تھا۔ منچھر، ہاڈیرو اور ہمل جھیل بھی سندھ کے مشہور سیاحتی مقامات میں گنی جا سکتی ہیں۔
مکلی اور چوکھنڈی کے قبرستان بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مکلی قبرستان ٹھٹھہ کے قریب ہی واقع ہے جس میں لاکھوں قبور موجود ہیں اور تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علماء، فضلا، فقہا، محدِثین، شعرا، مغل نواب، فلسفی اور جرنیل سپرد خاک ہیں۔ یہاں کی قبروں کی خاص بات اُن کے دیدہ زیب خدوخال اور نقش و نگار ہیں جو نہ صرف اہلِ قبر کے زمانے کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اُس وقت کی تہذیب، ثقافت اور ہنرمندی کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہ ایشیا کا سب سے بڑا قبرستان ہے جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے۔
سندھ کے مشرقی کونے میں دنیا کا زرخیز صحرا، تھرپارکر واقع ہے۔ لق و دق صحرا پر مشتمل یہ علاقہ بارش کے موسم میں اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔ یہاں واقع کرونجھر کا پہاڑ، نوکوٹ کا قلعہ، بھودیسر کی مسجد اور نگرپارکر کے مندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تھر جائیں تو بارش میں ناچتے ہوئے مور کو ضرور دیکھیں۔
مِنی پاکستان کراچی بھی لاہور ہی کی طرح جدید اور قدیم عمارتوں کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔ یہاں کی بیشتر پرانی عمارتیں برطانوی دور کی ہیں جن میں فریئر ہال، کراچی پورٹ ٹرسٹ بلڈنگ، میری وید ٹاور، ایمپریس مارکیٹ، قائد اعظم ہاؤس، ڈی جے سائنس کالج اور سینٹ پیٹرک چرچ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حبیب بنک پلازہ، بن قاسم پارک، مہوٹہ پیلس، کراچی پورٹ، دو دریا، نیشنل میوزیم آف پاکستان، پورٹ گرینڈ، منوڑا ٹاور، بحریہ کو میری ٹائم میوزیم، پاکستان ایئرفورس میوزیم، ہاکس بے، کلگٹن اور یراڈائز پوائنٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کراچی کے کھانوں میں کراچی بریانی، بن کباب، حلیم، کھیر اور مختلف اقسام کی مچھلی بہت مشہور ہیں۔ سندھ کے دیگر مشہور ذائقوں میں شکار پور کا اچار، حیدرآباد کی زعفرانی بریانی، لاڑکانہ کے امرود اور ڈہرکی و گھوٹکی کی ٹھڈائی شامل ہیں۔
سندھ کی سب سے مشہور سوغات سِندھی اجرک، کام والی قمیضیں، دری/کھیس، حیدر آباد کی چوڑیاں، شکارپوری اچار اور ہالہ کے برتن ہیں۔
بلوچستان، جو بلحاظ رقبہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہر قسم کی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے تاہم چوںکہ یہ خطہ زیادہ تر خشک اور ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے اور یہاں حکومتوں کی بھی کوئی خاص توجہ نہیں رہی ہے اس لیے اس خطے میں سیاحت کے نظام کو فروغ نہ مل سکا۔ بلوچستان کے متعلق آثارقدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی موجود تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ مہر گڑھ علم الآثار میں جدید زمانہ پتھر کا ایک اہم مقام ہے جو بلوچستان کے ضلع دھادر میں واقع ہے۔ معلوم تاریخ کے حساب سے یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار زراعت کی گئی۔ صرف مہر گڑھ ہی نہیں بلکہ بلوچستان کے اور بھی کئی مقامات پر مختلف ادوار کے آثار قدیمہ ملے ہیں۔
بلوچستان کی سیاحت کی بات کریں تو یہاں دیکھنے سے تعلق رکھنے والی بیشتر جگہیں جنوب میں ساحل کے قریب واقع ہیں جہاں مکران کوسٹل ہائی وے سے بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ ان میں ہنگول نیشنل پارک، کُند ملیر، ہَنگلاج ماتا کا مندر، ابوالہلول کا مجسمہ، استولا کا جزیرہ، گوادر اور امید کی شہزادی شامل ہیں۔ یہاں کوئٹہ ، زیارت اور چمن کی وادیاں اپنی برفباری اور خوبصورت سیب اور انگور کے باغات کی وجہ سے مشہور ہیں۔ زیارت میں واقع زیارت ریزیڈنسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بابائے قوم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہیں گزارے تھے۔ زیارت کے ہی قریب ایک جگہ کھوجک پاس ہے جہاں ریلوے کی مشہور سُرنگ ’’کھوجک ٹنل‘‘ واقع ہے۔
اب مشرقی بلوچستان میں بھی کئی خوب صورت جگہیں دریافت کر لی گئی ہیں جن میں مولا چھٹوک، پیر غائب، پیر چھتل نورانی گندھاوہ اور وادی بولان شامل ہیں۔ جہاں زیادہ تر قرب و جوار کے لوگ ہی آتے ہیں۔ دور دور سے بائیکر حضرات بھی اس جگہ کو دیکھنے آ رہے ہیں۔
بلوچی کھانوں کی بات کریں تو اس خطے کے لوگوں میں گوشت بہت مقبول ہے خصوصاً دُنبے اور بکرے کا گوشت یہ مزے سے کھاتے ہیں۔ بلوچی سجی، کاک، آب گوشت، کابُلی پلاؤ، چکن روسٹ، کھیر اور بلوچی کھڈا گوشت مشہور اور علاقائی کھانے ہیں۔ پھلوں میں سیب، انگور، آڑو اور ناشپاتی بکثرت دست یاب ہے۔
یہ تو تھے پاکستان کے مختلف علاقوں کے چیدہ چیدہ سیاحتی مقامات۔ اب ہم چلتے ہیں موجودہ دور میں سیاحت کی اہمیت اور اس کی ترقی کی طرف۔ گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے اور موجودہ حکومت کی خصوصی توجہ کی بدولت یہ اور آگے جا رہی ہے۔
سیاحت نہ صرف سیر و تفریح اور صحت افزائی کے لیے مفید ہے بلکہ سیاحت سے مقامی آبادی کی اقتصادی حالت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں اور مختلف ثقافتوں اور خطے سے تعلق رکھنے والے لوگوں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے جس سے مختلف اچھی چیزیں ایک معاشرے سے دوسرے میں رائج ہوجاتی ہیں۔ سیاحت کے مختلف اقسام ہیں جیسے قدرتی نظاروں کو دیکھنے والا سفر، مذہبی سیاحت جس میں لوگ مختلف مذہبی جگہوں کی زیارت کے لیے جاتے ہیں، تاریخی سیاحت جس میں لوگ آثار قدیمہ وغیرہ دیکھتے ہیں۔
آج سے چند سال پہلے 2010 کی بات ہے جب مشہور زمانہ ٹریول گائیڈ بْک ’’لونلی پلینٹ‘‘ نے پاکستان کو آنے والے سالوں میں سیاحوں کی جنت قرار دیا تھا۔ تب کوئی شخص یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا یہ بات سچ بھی ہو گی یا نہیں؟ کیوںکہ ان دنوں پاکستان بہت مشکل حالات سے جوجھ رہا تھا۔
اسی طرح برطانیہ کی مشہور ’’برٹش بیک پیکر سوسائٹی‘‘ نے ’’زمین پر موجود تمام ممالک میں سے انتہائی دوستانہ ملک، جہاں پہاڑوں کے وہ حیرت ناک مناظر ہیں جو کسی کے بھی تصور سے ماورا ہیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ 2018 میں پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی سیاحتی منڈی قرار دیا تھا۔ اسی طرح امریکی جریدے ’’فوربس‘‘ نے بھی پاکستان کو2019 میں سیاحت کے لیے ایک بہترین ملک قرار دیا تھا۔
تو جناب یہ تو تھے وہ چند حوالے جو دنیا کی جانی مانی تنظیموں اور جریدوں نے دیے تھے۔ لیکن اس سے ہٹ کر پاکستان کے ہر علاقے میں سیاحت کا زبردست اسکوپ ہے اور گذشتہ چند سالوں میں سیاحت ایک بڑی انڈسٹری بن کر ابھری ہے جس میں ہماری بائیکر کمیونٹی، میڈیا اور ٹریول ایجنسیوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاحوں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
کینیڈا کی روزی گیبریل، پولینڈ کی ایوا زو بیک، امریکا سے ڈریو برنسکی اور پیرو سے والٹر مینریکے نے پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کہ بہت باریک بینی سے اس ملک کو دیکھا ہے۔ شاید اتنا باریک بینی سے ہم عام پاکستانیوں نے بھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان حضرات نے موٹرسائیکل اور لوکل ٹرانسپورٹ میں شمال سے لے کر جنوب تک پاکستان کا تاریخی و ثقافتی لحاظ سے ہر اہم مقام کھوج ڈالا ہے۔ ان کے وی لوگز اور ویڈیوز سے متاثر ہو کر بہت سے بین الاقوامی سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کیا ہے۔
پاکستان کی سیاحت میں ایک اہم کردار بائیکر کمیونٹی کا بھی ہے جو اپنی موٹرسائیکلوں پر دور دراز کی سیاحت کرتے ہیں اور چھپے ہوئے مقامات کو منظرِ عام پر لے کر آتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام ’’کراس روٹ کلب‘‘ ہے۔ کراس روٹ کلب کی بنیاد 2015 میں جناب مکرم ترین صاحب نے رکھی تھی جس کا واحد مقصد سیاحت کے ذریعے پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنا تھا۔ 11 لوگوں سے شروع ہونے والے اس کلب میں آج 700 ممبر شامل ہیں۔ اس کلب کے تحت بہت سے ایونٹس منعقد کیے جاتے ہیں اور ہر سال عالمی یومِ سیاحت مشہور مقامات پر منایا جاتا ہے تاکہ عوام میں اُن کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔
اس کلب کے تحت سیاحت کا عالمی دن 2016 میں پشاور، 2017 میں خنجراب ٹاپ اور 2018 میں زیارت بلوچستان میں منایا گیا۔ رواں سال یہ دن مزار قائد کراچی میں منایا جائے گا۔ کراس روٹ کلب نے سیاحت میں ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پاکستانی بائیکر حضرات پر بین الاقوامی سفر کے دروازے کھول دیے ہیں۔ رواں سال اگست میں یہ کلب 16 موٹر سائیکل سواروں کا قافلہ لے کر ’’یارِ من ایران‘‘ کے نام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے روڈ ٹرپ پر گیا اور یومِ آزادی پر تہران میں پاکستان کا جھنڈا لہرا کر ہمارا سر فخر سے بلند کیا۔
مکرم ترین کا کہنا ہے کہ آپ جس دھرتی پر رہتے ہیں اس کا کچھ قرض ہوتا ہے آپ پر۔ اپنی صلاحیتوں کے مطابق آپ کو وہ قرض اتارنا چاہیے۔ اس وقت میں یہی کر رہا ہوں۔ سیاحت کے میدان میں اپنی سرزمین کی خدمت میرا اولین شوق، کام اور جنون ہے اور میں یہ مرتے دم تک کرتا رہوں گا۔ان کے علاوہ روڈیز، مولویز ان بائیک اور ڈائیجیرینز جیسے بائیکر کلب بھی وطنِ عزیز کی سیاحت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
بات کی جائے جنوبی پنجاب کی تو 2016 سے ’’وسیب ایکسپلوررز‘‘ کے نام سے قائم سیاحوں کی تنظیم نے جنوبی پنجاب کے تاریخی مقامات خصوصاً کوہِ سلیمان اور ملتان و ڈیرہ غازی خان کی سیاحت پر بہت کام کیا ہے۔ فورٹ منرو کے علاوہ کوہِ سلیمان کے درجنوں سیاحتی مقامات دریافت کر کے وہاں چھوٹی بڑی سرگرمیاں منعقد کروانا بھی وسیب ایکسپلوررز کے کریڈٹ پر ہے۔ یہ چھوٹے بڑے مقبروں اور تاریخی جگہوں سے لے کر راڑھ شم، موسیٰ خیل کے چشموں اور کوہ سلیمان کی چوٹیوں تک گئے اور انہیں منظرِ عام پر لے کر آئے۔
اسی طرح عبد الرحمن پالوہ، وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے سیاحت کا ذریعہ سائیکل کو بناتے ہوئے ایک ہی راؤنڈ میں پورا پاکستان گھوم لیا۔ انہوں نے اکتوبر 2017 سے اپریل 2018 تک اس چھوٹی سی سواری پر پورے ملک کی سیر کی جہاں جگہ جگہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
پاکستانی میڈیا اور سینما بھی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ 2018 میں بننے والی فلم ”موٹر سائیکل گرل” اپنی طرز کی منفرد فلم تھی جس کی کہانی پاکستان کی پہلی خاتون موٹر سائیکلسٹ زینتھ عرفان کی حقیقی زندگی پر مبنی ہے۔ اس فلم میں زینتھ کے شمالی علاقوں کے سفر اور اس دوران پیش آنے والے واقعات کو بڑی خوب صورتی سے فلم بند کیا گیا ہے۔ پاکستانی نیوز چینلز نے بھی سیاحتی مقامات پر کئی پروگرامز کیے ہیں جن سے عوام کو آگاہی حاصل ہوئی ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی 2017 میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ٹوٹل جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ 328 ملین امریکی ڈالر تھا جو تقریباً 2۔8 فیصد بنتا ہے، جب کہ 2016 میں یہ 7۔6 بلین امریکی ڈالر تھا جو ٹوٹل جی ڈی پی کا 2۔7 فیصد بنتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں 1۔9 ملین غیرملکی سیاحوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک سیاحت پاکستانی جی ڈی پی میں اندازاً 1 ٹریلین ڈالر کی حصہ دار ہوگی۔
ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم ملکی سیاحت کو پروموٹ کرنے میں بڑھ چڑھ کر اپنا حِصہ ڈالیں گے۔ اس کے گلی گلی کونے کونے کو صاف ستھرا رکھیں گے۔ سیاحتی مقامات پر کوڑا کرکٹ نہیں پھینکیں گے۔ ملک کا مثبت چہرہ پوری دنیا کو دکھائیں گے۔ سیاحت کے حوالے سے ہر اچھی بات کو سراہیں گے اور غلط بات پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ امید ہے کہ ان باتوں پر عمل پیرا ہوکر ہم ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینگے اور اسکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
The post ہمارے ملک میں دیکھنے کو کیا نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.