چوں کہ وہ ذرہ ہیں اس لیے ذرہ پرور بھی ہیں، ذرے کوآفتاب بنانے میں اُنہیں بے مثل مہارت ہے۔ اُن کی سوچ کی اُڑان اُن کے پیدائشی نام کی مناسبت سے خاصی بلند ہے۔
نام تو اُن کا ارفع ہے، پرجانے اس نام سے کیا بیر ہے کہ وہ خود کو ذرہ کہلوانا پسندکرتی ہیں۔ یہ اُن کے خیال کی پروازہی توہے کہ مختلف طبقوں اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد ذرہ کے حلقۂ احباب میںشامل ہو کر اُن کی معاشی حالت کے سدھارکا باعث بن رہے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ ذرہ کے منصوبہ بند ذہن کا کرشمہ ہے، وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حلقۂ احباب کا انتخاب کرتی ہیں، گوکہ اب بھی کئی ایسے شعبے ہیں، جن سے متعلق افراد ذرہ کی دسترس سے دور ہیں، مگر ذرہ کی حریص نظریں اُن کا تعاقب ایسے کرتی ہیں، جیسے کسی فاقہ زدہ کی نگاہوں کی زد میں روٹی کا ٹکڑا۔ اور ان تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ذرہ جلے پاؤں کی بلی کی طرح پھرتی ہیں۔
اس متنوع اور وسیع حلقۂ احباب کی بدولت ذرہ اور اُن کے اہل خانہ نے جی بھر کر فائدہ اُٹھایا ہے، مادی لحاظ سے بھی اور علمی سطح پر بھی، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ذرہ کی انسانی نفسیات پر گرفت بھی اسی ہُنر کی وجہ سے مضبوط ہُوئی ہے، مختلف طبقہ ہائے زندگی سے گہرے روابط کے سبب ذرہ اُن کی زبان، لہجے اور مزاج کے موسموں سے بھی واقف ہو گئی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج جتنا زور لوگ بلند معیار زندگی پر دیتے ہیں۔
اتنا اخلاقی اقدار کی پاس داری پر نہیں دیتے، اب ذرہ ہی کو دیکھ لیجیے کہ بلند معیار زندگی کے شوق میں اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ خود غرضی، مفاد پرستی جیسی غیر اخلا قی حرکات کا مظاہرہ وہ اس کمال سے کرتی ہیں کہ اُن کا شکار بھی اُن کی اصلیت سے بے خبر رہتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ذرہ شناسی کا دعویٰ کرنے کے باوجود ذرہ کا یہ فلسفہ اُن کے میاں نہ سمجھ سکے اور جو ایک دن اُنہوں نے اس کی وضاحت چاہی، تو ذرہ نے اپنے میاں کی نا سمجھی پر اُن کے بہت لتے لیتے ہوئے خاصا ڈپٹ کر کہا ’’کیوں جی؟ تم اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے، جب کہ گزشتہ کئی برسوں سے میرے میاں بھی کہلاتے ہو ۔
میاں جی جو بیگم کی شعلہ بیانی ہی سے نہیں سنبھل پائے، اب اُن کی ڈانٹ سُن کر بالکل ہی نڈھال ہو گئے، وہ اپنی بیگم کو ملتجی اور معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کب وہ اُن پر رحم کھائیں گی اور اُن کی گلو خلاصی ہوگی، اچانک ذرہ نے پینترا بدلا اُن کی آنکھوں میں مہرو محبت کے رنگ چھلکنے لگے۔ وہ اپنے میاں سے کہ رہی تھیں ’’آپ تو جانتے ہی ہیں، جب سے میں نے اپناحلقۂ احباب وسیع کیا ہے، ہمارے گھریلو حالات بدل گئے ہیں، ورنہ اس سے پہلے ہمارے بچے احساسِ کم تری کا شکار تھے۔ آپ کی تنخواہ میں تو روز مرہ کے اخراجات ہی ہمیں معمولی سی عیاشی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
جب ہمارے بچے اعلیٰ گھرانوں کے بچوں کے ٹھاٹ با ٹ حسرت و یاس بھری نظروں سے دیکھتے، تو میرا دل کٹ کر رہ جاتا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح اپنے بچوں کی جھولیاں خوشیوں سے بھردوں۔ ایک دن میں اسی ادھر بن میں بیٹھی تھی کہ یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھی اور ہفتہ بھر میں نے اس پرعمل کیا، اور پھر مہینے بھرکی کاوشوںسے مثبت نتیجہ سامنے آیا بچوںکی صحت میں بھی بہتری آئی، گویا تجربہ کام یاب رہا، تب میں نے اس عارضی کام کو مستقل شکل دے دی۔
یقیناً آپ اصل بات جاننے کے لیے بے تاب ہوں گے، مگر خیال رہے آپ کو اس راز میں شریک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ میرا کاروبار ٹھپ کرنے کے بہ جائے بڑھائیں گے۔ وعدہ کریں ناں‘‘ وہ جو اُن کی ایک نگاہ التفات کو ترستے تھے، حیران رہ گئے۔ ذرہ نے اٹھلاتے ہُوئے میاں جی کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے آج سے 20 سال پہلے تھام کر وہ آج تک پچھتا رہے تھے۔
انہوں نے ایک سرد آہ بھر کر ذرہ کا ہاتھ تھام لیا۔ ذرہ نے بصد افتخار بتایا ’’ اشرف باورچی کی بیگم سے تعلقات استوار کیے تو آئے دن ایسے کھانے نصیب ہُوئے، جنہیں ہم ٹی وی پر دیکھ کر ہی خوش ہو جاتے گوشت کے مختلف پکوان وضع وضع کی میٹھی ڈشز کون سی نعمت ہے، جو اب ہمیں میسر نہیں، ورنہ اس سے پہلے دال چٹنی پر گزارا تھا۔ کلو حلوائی کی بیوی سے راہ ورسم بڑھائے، ہفتے میں دو دن حلوہ پوری کا ناشتا اور کبھی سموسے تو کبھی نمک پارے کبھی جلیبی روز کا معمول ہیں مہمان آجائیں تو وہ نیک بخت مفت ناشتا بھیج دیتی ہے۔ تہوار کے موقع پر سال بھر سے کیسی بچت ہو رہی ہے۔
نصیباں بیکری والے کی بیوی سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ بیکری کا نام آپ کے نام پر رکھ کے تو آپ کے میاں نے اپنے بھاگ جگا لیے، اب اکثر ناشتا مفت آتا ہے اور بچوں کے دل میں اُٹھتی سال گرہ منانے کی ’ہڑک‘ کو بھی قرار آ گیا۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹے نے اپنی نانی کی سال گرہ تک منا ڈالی، ویسے بھی چھوٹا مجھ پر گیا ہے بہت سمجھ دار اور زمانہ شناس ہے۔
’’ہاں! فتنہ پرور، چاپلوس اور حریص بھی بہت ہے بالکل تمہاری طرح (ذرہ کے میاں دل ہی دل میں کچکچائے) چھوٹی تو محض کیک کی وجہ سے سال میں تین مرتبہ سال گرہ مناتی ہے، حالاں کہ لڑکی ہے۔‘‘
’’حالاں کہ لڑکی ہے، کیا مطلب؟ ذرہ کے میاں نے اُن کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو وہ کھکھلا کر ہنس دیں۔
’’کمال ہے، بھئی آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھے، صنف نازک کا بس چلے تو پانچ سال بعد اپنی ایک سال منائے۔ گویا 10 سال میں عمر میں صرف دو سال کا اضافہ۔ خیر آگے چلو۔ احمد سنارکی بیگم تارہ سے بہناپا جوڑا تو سنار کی فطرت کے برعکس اُس کے میاں سے سستے داموں بالیاں خریدنے میں کام یاب ہو گئی اور اپنے بھائی کی شادی کی خوشی میں تارہ نے مجھے سونے کی چین بھی نیگ میں دلوائی کہ جب تم میری بہن ہو تو میرے چندا بھیا کی بھی ہو، تارہ کا چندا بھیا مجھے سخت زہر لگتا ہے، جب میں اُس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتی ہُوں، تو تارہ خوب میرے صدقے واری جاتی ہے۔
اظفر بزاز کی لاڈلی اماں کی بیٹی کیا بنی وہ میری ہر بات پر یوں امنا صدقنا کہتی ہیں، گویا مستند ہے میرا فرمایا ہُوا۔ گرمی سردی اور تہوار کے دو دوجوڑے آپ کے میرے اور بچوں کے تحفے میں مل جاتے ہیں، سال بھر میں کپڑوں کا اتنا ذخیرہ ہو گیا جو ہمارے لیے تین سال میں بھی ممکن نہ تھا اورمیرا کم خواب کی ساڑھی کا خواب بھی اُنہوں نے پورا کر دکھایا آخر بیٹی بنی ہوں معمولی بات تھوڑی ہے اور وہ جو کل میں نے تمہیں سفاری سوٹ کا کپڑا دیا تھا، مارے محبت کے نہیں دیا تھا، وہ تو میری جائز کمائی تھی ورنہ آپ کی آمدنی میں یہ کہاں ممکن ہے۔
ذرہ نے میاں پر اپنی اہمیت اور اُن کی اوقات واضح کرتے ہُوئے مزید گوہر افشانی کی اس طرح ہمارے کئی مسائل حل ہو گئے، یہ تو میں نے چیدہ چیدہ ’’کام یابیاں‘‘ بتائی ہیں۔ میری کامرانی کا دائرہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہاں تو بتا رہی تھی کہ ان تمام لوگوں سے مراسم کا فائدہ یہ ہُوا کہ اب ہر ماہ با آسانی پانچ ہزار تو بچا ہی لیتی ہوں اور بچت بھی کیا یہ پیسہ اپنے بچوں کی ناآسودہ خواہشات کی تکمیل پرصرف کرتی ہوں کہ انہی کے توسط سے یہ ہنر میرے ہاتھ آیا ہے۔ ہم بڑے گھرانوں میں اپنے بچوں کی شادیاںکر کے معیار زندگی کوبلند کر سکیںگے کہ نہیں؟
تحمل سے بات کرتے ہُوئے ذرہ نے اختتامی استفہامیہ جملہ حسبِ عادت ذرا ڈپٹ کر ادا کیا، تو متحیر سے بیگم کو دیکھتے ہوئے ذرہ کے میاں بری طرح چونک کر جی بیگم جی کی گردان کرنے لگے۔ یہ کیا حرکت ہے؟ ذرہ کی گرج دار آواز سے میاں کا تسلسل کیا گردان بھی ٹوٹ سکتی تھی، سو ایسا ہی ہُوا۔ اب وہ اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے گئے دنوںکو یاد کرنے لگے کیا واقعی یہ وہی نادان خاتون ہیں، جن کی سادگی پرلٹو ہو کر یہ شعر پڑھتے ہوئے
دیکھ کر اُن کوکہا میں نے نکل آیا ہے چاند
اور وہ نادان سوئے آسماں دیکھا کیے
میں نے اُن کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کل کی بھولی بھالی خاتون آج کیسی شاطر نظر آرہی ہیں۔ سچ ہے بلند معیار زندگی کی خواہش انسان کو پستیوں میں دھکیل دیتی ہے، ساتھ ہی خود غرضی اور بے حمیتی کا راستہ بھی دکھاتی ہے۔ جب کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی خوایش انسانوں کو قانع بنا دیتی ہے اور بے نیازی و قلبی و ذہنی آسودگی بخشتی ہے، اگر ذرہ بلند معیار زندگی کی تمنامیں یوں سرگرم عمل رہنے کے بہ جائے اخلاقی اقدار کی طرف بڑھتیں، تو کتنی مطمئن اور آسودہ دکھائی دیتیں۔ اب تو ان پر بے چین بھٹکی ہوئی روح کا گمان ہوتا ہے۔‘‘
’’ارے آپ کیا سوچنے لگے؟‘‘
ذرہ نے میاں کو سوچ میں گم دیکھ کر اُن کا ہلایا ۔ کچھ بھی نہیں کہ کر انہوں نے ایک سہمی ہوئی نظر ذرہ پرڈالی کہ کہیں انہوں نے میری سوچ تو نہیں پڑھ لی کہ اسے پڑھتے ہی ذرہ ان کو کسی ایسے ادارے کا راستہ نہ دکھادیں، جہاں صراط مستقیم پر چلنے والوں کو گمرہی کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔
ایک وہ وقت تھا کہ جب ذرہ کی حماقت سے خائف ہو کر اُن کے میاں کہتے تھے کہ ’’ خاتون سے کچھ بھی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اب ذرہ کی خباثت سے تائب ہو کر کہتے ہیں اﷲ ہماری بیگم کی شاطرانہ چالوں سے سب کو محفوظ رکھے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے حلقۂ احباب کا انتخاب ہی نہیں کرتیں، بلکہ بہت سوچ سمجھ کر پل کی پل میں ہماری سوچ نگر کی رانی بنا بنایا کھیل اور بنے بنائے انسانوں کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں اور خود پر فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنی ذہنی ناداری کے بل بوتے پر اپنی معاشی مفلسی پر قابو پالیا۔
The post سوچ کی اونچی ’’اُڑان‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.