وطن عزیز پاکستان کا گوشہ گوشہ خصوصی اہمیت کا حا مل ہے۔
اس کی سیاحتی، جغرافیائی اور تاریخی اہمیت مسّلمہ ہے اس خطے سے ہزاروں تاریخی داستانیں جڑی ہوئی ہیں ہر جگہ کی اپنی اہمیت ہے مگر کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہماری کسی حکومت اور قوم نے اس کی جغرافیائی، تاریخی اور سیاحتی اہمیت کو محسوس ہی نہیں کیا، حتیٰ کہ نامور ادیبوں، شاعروں اور لکھاریوں نے بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، ہمارے بعض نامور ادیبوں نے اپنی غیر ملکی سیاحت کے متعلق تو بہت کچھ لکھا مگر انھوں نے پاکستان کے سیاحتی، تاریخی اور تفریحی مقامات کے متعلق بہت کم لکھا۔ غیرممالک سیاحت (ٹورازم) کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں اور عوام اپنے ملک کی ہر معمولی چیز کو بھی پرموٹ کرتی ہیں، وہ حکومتیں غیر ملکیوں کی توجہ مبذول کروانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھاتی ہیں، تشہیر کے وہ انداز اپنائے جاتے ہیں کہ خواہ مخواہ وہاں کی سیاحت کرنے کا دل چاہتا ہے، مگر ہمارے وطن میں ہر جگہ کی اپنی تاریخی اہمیت ہے، ان مقا مات سے لاتعداد داستانیں جڑی ہوئی ہیں مگر ہم یہ سب کچھ نظرانداز کر رہے ہیں۔
ایک ایسا نیا کلچر پیدا ہو چکا ہے کہ محبت کرنے والے لوگوں کی اس سرزمین کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت سے منسوب کردیا گیا ہے، معصوم پاکستانیوں پر جارحیت پسندی تک کا الزام لگا دیا جاتا ہے، جب دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت اور جارحیت کے الزامات لگائے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کے ثبوت میں ماضی کا ایک ایسا واقعہ بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ جس سے ثابت ہو کہ پانچ ہزار سال کی تاریخ میں اس خطیِ یعنی موجودہ پاکستان سے کوئی لشکر یا جتھا اٹھا ہو اور اُس نے کسی بھی پڑوسی ملک یا ریاست پر حملہ کیا ہو۔
اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ اس خطے کے باسی ڈرپوک، بُزدل یا غیر منظم تھے بلکہ اسکی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ امن پسند اور محبت کرنے والے تھے۔ آج بھی اس خطِے کے لوگ جنگ و جدل سے دور رہنا چاہتے ہیں، مگر ان کی صفوں میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیاں گُھس کر ان کی پُر امن زندگی کا تاثر ختم کرنا چاہتی ہیں۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب ہی نہیں رہے، ایسے لٹر یچرکی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی کہ جس سے اقوام عالم کو اس خطے کے عوام کی انسانیت دوستی اور مہمان نوازی کا اندازہ ہوتا۔
جو قومیں فروغ سیاحت کی اہمیت سے واقف ہوتی ہیں اور اس جانب اپنی تما متر توجہ مبذول رکھتی ہیں وہ بے شمار فوائد سے بہرہ مند ہوتی ہیں، جن ممالک میں سیاحوں کی آمد بہت زیادہ ہوتی ہے
(۱) وہ عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہوتے ۔
(۲) مالی دشواریوں سے دوچار نہیں ہوتے۔
(۳) ان ممالک میں تجارت وصنعت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
(۴) عوام کے ذہنوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔
(۵) مختلف ممالک کی عوام کو آپس میں گھُلنے مِلنے اور ایک دوسرے کے کلچر کو سمجھنے میں مدد مِلتی ہے۔
(۶) تعلیمی ترقی ہوتی ہے۔
(۷) اقوام عالم میں اہم مقام حاصل ہوتا ہے ۔
(۸) لوگوں میں ترقی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی فوائد کی ایک لمبی تفصیل موجود ہے اگر ان فوائد کا عمیق نظر سے جائزہ لیا جائے تواحساس ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی اور عوام کے شعور کو جِلا بخشنے کیلئے فروغ سیاحت ایک اہم اور بنیادی جُزو ہے، باقی تمام معاملات بعد کے ہیں تمام ممالک فروغ سیاحت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور اس مقصد کی کامیابی کیلئے وہ اپنی تمامتر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں، مگر افسوس کا مقام ہے کہ فروغ سیاحت کی اہمیت کا احساس و شعور ہماری حکومتوں کو رہا ہے نہ ہی عوام کو۔
بے شمار ممالک ایسے ہیں کہ جہاں ایسی کوئی قابل ذکر جگہ یا مقام نہیں ہے کہ جس کو دیکھنے کیلئے دور دراز کا سفر کیاجائے مگر ان ممالک نے کچھ عمارات اور مقامات کی اس قدر تشہیر کی ہے کہ ہر سال لاکھوں افراد یہ مقامات دیکھنے کیلئے ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں، اس ضمن میں مشہور برطانوی سیاح ہنری ولیم کا یہ جملہ قابل غور ہے’’اگر ایفل ٹاور کو بغور دیکھا جائے تو اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ جسے دیکھنے کیلئے اتنی دور کا سفر کیا جائے، یہ ایک تحفہ ہے جسے بہت سال پہلے برطانیہ نے دوستی کے جذبات کا مظاہرہ کرنے کیلئے مختلف ٹکڑوں میں فرانس بھیجا اور اِسے پیرس میں ایستادہ کروایا، مگر اِسے دیکھ کر کسی تحیر کا احساس ہوتا ہے نہ ہی کسی تازگی کا، اور نہ مظاہر قدرت دیکھ کر ششدر رہ جانے کا احساس اُبھرتا ہے مگر ایفل ٹاور کی تشہیر اس قدر کی گئی ہے کہ اس کا عجائبات عالم میں شمار کیا گیا ہے۔‘‘
ہر ایک کا اپنا نقطہ ِنظر ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ ہنری ولیم کے سوچنے، دیکھنے اور پرکھنے کا انداز دوسرا ہو، مگر اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فرانس کی حکومتوں نے ایفل ٹاور کو فرانس کی پہچان بنادیا ہے۔ جب کہ وطن عزیز پاکستان میں ہزاروں مقامات اور عجائبات ایسے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر فوراً یہ ا حساس اُبھرتا ہے کہ قدرت نے یہ خِطہ پیدا ہی سیاحت کیلئے کیا ہے۔ ہر شہر، ہر قصبے، ہر جگہ کی اپنی کوئی نہ کوئی انفرادیت ضرور ہے، مگر ابھی تک اقوام عالم ان سے ناواقف ہیں، اس کی اصل وجہ ہماری حکومتیں ہیں کہ ان کی توجہ اس جانب مبذول ہی نہیں ہوئی۔
سیاحت میں مذہبی مقامات کی اہمیت
پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں ہر بڑے مذہب سے تعلق رکھنے والے بیشمار مقامات ہیں، سِکھوں کے تمام تقریباً مقدس مقامات اس خطے میں موجود ہیں، ہر سِکھ کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں ایک دفعہ ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب اور کرتارپور کی زیارت ضرور کرے۔ وہ مہاراجہ رنجیت سِنگھ کی مڑھی بھی ضرور دیکھنا چاہتے ہیں مگر بھارت کے کشیدہ تعلقات اور سکیورٹی وجوہات کی بِنا پر سکھوں کو مخصوص تعداد سے زیادہ ویزے جاری نہیں کئے جاتے، ریاستی مصلحتیںاپنی جگہ مگر اس جانب بھی توجہ دینا ضروری ہے۔
ہری پور اور ایبٹ آباد کے بعد والے علاقے میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بے شمار نوادرات اور عجائبات موجود ہیں ان کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مگر بُدھ مت کے پیروکار وں کیلئے اس کی مذہبی اہمیت بہت زیادہ ہے، یہاں جین مت کے آثار بھی مِلتے ہیں ، مگر توجہ نہ دینے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ آثار معدوم ہو رہے ہیں ۔ مگر سیاحوں کیلئے ایسی جگہوں کیلئے زیادہ کشش ہوتی ہے وہ اپنی تحریروں اور ڈائریوں میں ان مقامات کا ذکر کرنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں کہ جن کے متعلق عام لوگ زیادہ نہیں جانتے، لکھاری سیاحوں کی تحریروں کا مرکز وہ مقامات اور افراد بنتے ہیں،جو دنیا کی توجہ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
اس خطے میں لاتعداد مقامات ایسے ہیں کہ جو قدیم مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ متروک ہوتے ہوئے مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی مقامات یا نوادرات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے کہ کسی بھی مذہب، دین اور ’’ازم‘‘ کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان میں ایسے کئی مقامات موجود ہیں مگر حکومت، متعلقہ اداروں اور لکھاریوں کی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے ایک اور بات بطور خاص محسوس کی جاتی ہے کہ یہاں کے اولیاء کرام اور صوفیاء کو صرف مذہبی پیشواؤں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان کے مزارات کو بھی مذہبی اور دینی حیثیت دی جاتی ہے، جبکہ یہ تمام اولیاء کرام اور صوفیاء کرام انسانیت کے علمبردار تھے۔
وہ تمام انسانوں کیلئے سراپا محبت اور پیکر ایثار تھے، ان کے مزارات کو عبادت گاہیں بنادیا گیا ہے، ان مزارات کے ساتھ ملحقہ مساجد کی اہمیت مسُلمہ ہے، حضرت داتا گنج بخشؒؒ ، حضرت بابافرید الدین گنج شکرؒ ، حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ، سخی شہباز قلندر ؒ سمیت ہزاروں اولیاء کرام نے تاریخ کا دھارا بدلا، ملک کے چپے چپے پر ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کے مزارات موجود ہیں، ان بزرگوں کی مذہبی اہمیت کے علاوہ تاریخی اہمیت بھی ہے ان کے مزارات سینکڑوں سالوں سے موجود ہیں، ان مزارات کو بھی سیاحتی مراکز کا درجہ دیا جائے۔
ایک دفعہ ایک غیر ملکی مہمان نے مجھے خود کہا تھا ’’ ان مزارات کے ساتھ کوئی ایسی جگہ ضرور مخصوص ہونی چاہیے کہ جو غیرمسلم اور غیر ملکی مہمانوں کیلئے مخصوص ہو، دیواروں پر ان اولیاء کرام کے حالات زندگی اور اس وقت کی ہسٹری لکھی جانی چاہیے۔‘‘ کہنے لگا کہ یہ ہستیاں تاریخ کا زبردست حصہ رہی ہیں۔ انھوں نے ایک کلچر تبدیل کیا، ہر صاحب ِ مزار ایک صاحب انقلاب تھا۔
جہاں ان روحانی شخصیات نے سکونت اختیار کی وہاں سے ایک انقلاب نے جنم لیا، اس انقلاب نے لوگوں کے دل ودماغ کو متاثر کیا۔ ان مزارات کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے ‘‘۔ آج بھی اِس غیر مسلم غیر ملکی کی بات یاد آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کی تعلیمات اور مزارات کو اپنی مخصوص فکرو سوچ کے خاص دائرے میں مقید کردیا ہے، انکی زندگیاں انسانیت کی فلاح وبہبو دکیلئے تھیں انھوں نے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ محبت کرنا سکھایا، امن کا درس دیا، کچلے ہوئے طبقات کو گلے سے لگایا ۔
محکمہ اوقاف، محکمہ مذہبی اُمور، محکمہ سیاحت اور دوسرے متعلقہ اداروں کو مذہبی سیاحت کے فروغ کیلئے مربوط اور منظم سوچ پیدا کرنی ہوگی۔ تمام مذہبی مقامات کا ازسر نو سروے کرنے کی ضرورت ہے، قدیم مذاہب کی عبادت گاہوں کی حفاظت اور سیاحوں کی ان مقامات تک رسائی اشد ضروری ہے۔ اولیاء کرام کے مزارات کے ساتھ ایک ایسی جگہ یا گوشہ مخصوص کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ جہاں غیر مسلم اور غیر ملکی سیاحوں کی خاص دلچسپی اور توجہ کا سامان ہو، یہ بات بھی عجیب نظر آتی ہے کہ مغلوں کے دور میں قائم ہونے والی شاہی عمارات کو تاریخی اور عالمی ورثہ قرار دیا جاتا ہے مگر اسی دور میں قائم ہونے والے مزارات کی عمارتوں کو تاریخی ورثہ نہیں سمجھا جاتا، جبکہ بعض مزارات پر نقش کاری اور تعمیرات کے وہ نمونے نظر آتے ہیں، جنکی دوسری مثال نہیں مِلتی، مغلوں کے دور سے بھی سینکڑں سال پہلے تعمیر ہونے والے مزارات کو بھی قدیم ورثہ نہیں سمجھا گیا اور انھیں صرف مذہبی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جبکہ فن تعمیر اور عمارات کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا۔ آثار قدیمہ، اوقاف، سیاحت کے علاوہ تاریخ اور جغرافیہ کے ماہر ین کو مل کر ٹورازم کے فروغ کیلئے مربوط کوشش کرنی پڑے گی۔
فروغ سیاحت میں تحریر وتخلیق کی اہمیت
ایک ادبی محفل میں ایک ’’غیر ادبی‘‘ صاحب نے تقریب کے آخر میں نہایت اُکتاہٹ کے عالم میں کہا ’’آج کی اس ادبی محفل میں ایک صاحب نے اپنی غیر ملکی سیاحت کے متعلق جو مضمون پڑھا ہے اُسے سُن کریہ احساس ہو رہاہے کہ یہ مضمون اُس ملک کے شعبہ سیاحت نے اپنے ملک کی ٹورازم بڑھانے کیلئے لکھوایا ہے‘‘ کہنے لگے کہ اس سے پہلے میں انشاء جی، مستنصر حسین تارڑ اور کئی نامور ادیبوں کے غیر ملکی سفرنامے پڑھ چکا ہوں، یہ سفر نامے پڑھ کر بے اختیار اُن ممالک کی سیر کرنے کیلئے دل مچل اٹھتا ہے۔‘‘
عمارات، حسیناؤں،دریاؤں اور دوسرے مقامات کے تذکرے اس انداز میں بیان کئے جاتے ہیں کہ اپنا ملک انتہائی ’’ حقیر وفقیر‘‘ قسم کا لگتا ہے، جبکہ ہمارے ملک جیسا دنیا میں کوئی دوسرا ملک ہے ہی نہیں ۔ پاکستان حسن و خوبصورتی میں کسی ملک سے پیچھے نہیں، چمکتے دمکتے خوبصورت چہرے دیکھتے ہیں روح خوش ہو جاتی ہے، پاکستان میں ہزاروں تاریخی عمارات ہیں خوبصورت دریا ، دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ، دلفریب نظارے جھرنے،آبشاریں، ہرقسم کے پھول، ہرقسم کے پھل، ایک ہی وقت میں ہر قسم کے موسم، ہرقسم کے لوگ، لا تعداد زبانیں، مختلف ثقافتیں، مختلف تہذیبیں اور مختلف انداز فکر و سوچ ، یہاں ہر چیز ہے کسی ایک پہلو پر ہی لکھنے بیٹھیں تو کئی ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر پتہ نہیں ہمیں احساس کمتری ہے یا ہم لوگ دوسری ’’ تہذیبوں کے پروموٹر ‘‘ ہیں ۔
ان کی یہ بات آج بھی یاد آتی ہے شائد ہم میں ’’پاکستانیت‘‘ اُس درجے کی نہیں ہے کہ جس کا ہمارا وطن ہم سے تقاضا کرتا ہے، ٹورازم کے فروغ میں تحریر وتخلیق کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ شنہشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نور جہان کا مقبرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس مقبرے کی صرف تاریخی اہمیت ہی نہیں ہے ایک رومانوی حیثیت بھی ہے ملکہ نور جہاں صرف ایک شنہشاہ کی بیوی نہیں تھی ایک رومانوی داستان کا مرکزی کردار بھی تھی کہ جس نے جہانگیر جیسے لا اُبالی انسان کو اپنی زلفوں کا اس حد تک اسیر بنایا کہ جب جہانگیر اُمور سلطنت نبٹا رہا ہوتا تھا تو نور جہان تحت کے پیچھے لگے پردے کی اوٹ سے اپنا ہاتھ شنہشاہ کے کندھے پر رکھتی تھی اگر وہ ہاتھ پیچھے کرتی تو شنہشاہ بے چین ہوجاتا۔ دونوں میاں بیوی کے مقبرے پاس پاس ہیں، نور جہاں کے بھائی آصف الدولہ کا مقبر ہ بھی اسی جگہ موجود ہے، یہ مقبرے دریائے راوی کے پاس ہیں۔
اگر نورجہان کو پاکستانی ادیب اور قلمکار اپنی تحریروں میں اہمیت دیتے تو شائد آج لاکھوں سیاح نورجہاں اور جہانگیر کے مقبرے کی سیا حت کر چکے ہوتے۔ یورپی سیاحوں نے یورپی ممالک کے متعلق اس طرح لکھا ہے کہ اُن مقامات کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ دراصل ہمارے زیادہ ترادیبوں کے ذہن کا کینوس بہت محدود ہے، زیادہ تر ادیب شخصیات اور انسانی روّیوں تک محدود رہے ہیں، بہت سارے ادیبوں نے انسانوں کے نفسیاتی اور عمومی روّیوں کو اپنی تحریروں کا محور بنایا ہے، کچھ نامور ادیبوں نے دیہی اور شہری ماحول پر اس طرح اپنا قلم اٹھایا ہے کہ قاری اپنے آپ کو اُس ماحول میں ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہے مگر ادیبوں نے تاریخی عمارات اور تاریخی مقامات کے ساتھ وابستہ داستانوں اور شخصیات کو اپنی تحریر کا مرکز نہیں بنایا۔
پاکستان کے ہر شہر، ہر علاقے کا اپنا کلچر ہے، ہر علاقے کے ساتھ بے شمار داستانیں جڑی ہوئی ہیں مگر نامور ادیبوں اور لکھاریوں نے کبھی اس حوالے سے قلم کشائی نہیں کی کہ بیرون ممالک رہنے والوں کو ان مقامات یا جگہ کو دیکھنے کا شوق یا تجسس پیدا ہو۔ خاص طور پر انگلش میں لکھنے والے پاکستانی ادیبوں نے کبھی شعوری کوشش ہی نہیں کی کہ وہ ایسا ادب تخلیق کریں کہ پڑھنے والے غیر ملکیوں کا کوئی خاص مقام، رسم و رواج یا روایات دیکھنے کیلئے دل مچل اُٹھے۔ لاہور کے میلے، لاہور کے تکیئے، لاہور کے رسم و رواج، لاہور کی پُرانی روایات، لاہور کا کلچر ، لاہور کے پہلوان، لاہور کی رومانوی داستانیں اور وہ مقامات جو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ شادمان لاہور کا وہ علاقہ جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی یا موجودہ لنڈے بازار کا وہ مقام جہاں دُ لا بھٹی کو دار پر لٹکایا گیا، لاہور کے بدمعاش، لاہورکے نئے اور پُرانے باغات، تاریخی عمارتیں اور سینکڑوں ایسے تاریخی و سیاحتی مقامات، جن کے متعلق بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر انگریزی اور دوسری ملکی زبانوں میں صرف لاہور کی مخصوص ثقافت کے متعلق لکھا جائے۔
سیاحت میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی اہمیت
یہ پہلو بھی سامنے آ یا ہے کہ فروغ سیاحت کیلئے پاکستانی قوم سوشل میڈیا سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کرسکی۔ یہ خِطہ ہمیشہ سے امنّ، سکون، محبت، ایثار اور مہمان نوازی کا گہوارہ رہا ہے، شائد دنیا بھر میں اس خِطے میں رہنے والوں سے پُر امن قوم کوئی نہیں، یہ قوم کبھی بھی جنگجو ، جھگڑالو یا جارحیت پسند نہیں رہی اپنے حال اور معاملات میں مَست رہنے والی قوم کا امیج پوری دنیا میں سامنے لایا جانا چاہیے تھا، مگر شائد ہم لوگ خود ابھی تک اپنی انسانی خوبیوں سے واقف نہیں ہیں۔
اس دور میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے صحیح استعمال سے پوری دنیا کو اصل تصویر دکھائی جا سکتی ہے، یہ بات بھی عجیب نظر آتی ہے کہ ہمارے تمام چینلز اور سوشل میڈیا میں معاشرے میں رونما ہونے والے چند واقعات کو اس طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے ہمارا پورا معاشرہ تشدد پسند اور منفی خیالات کا حامل ہو چکا ہے ہر وقت ایسے واقعات کی تشہیر سے ہمارا امیج بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اگر منفی واقعات کی شرح دیکھی جائے تو وہ اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ محبت و ایثار ، مہمان نوازی اور ایک دوسرے کے احساس کی شرح 70 فیصد سے بھی زیادہ ہے ، یہاں کے لوگ غیر ملکیوں کی آمد پر خوش ہوتے ہیں اور اپنے ان جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
آج بھی ہماری ثقافت، رسم و رواج اور روایات صرف محبت کے اُصولوں پر قائم ہیں، ہماری فلموں میں بھی تشدد، ناانصافی اور ظلم دکھایا جاتا ہے۔ فلمی ادیبوں، فلمسازوں اور ڈائریکٹروں کے غیر ذمہ دارانہ روّیے کی وجہ سے ہمارا اصل امیج بُری طرح متاثر ہوا ہے۔
میں ایک دفعہ ایک غیر ملکی دوست کو لاہور اور آس پاس کے کچھ دیہات کی سیر کروانے لے گیا، اُسے لاہور کی قدیم روایات، رسم ورواج اور ثقافت کی متعلق بتایا تو وہ ششدر رہ گیا، اُس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ، میں نے اُسے بتایا کہ ماضی قریب میں محلے کے لوگ کیسے آپس میں گُھلے ملے ار ایک خاندان کی طرح رہتے تھے جب اُسے ’’ تکیوں کے کلچر‘‘ کے متعلق بتایا تو تحیر سے اُسکا منّہ کھلے کا کھلا رہ گیا، پھر وہ خود ہی کہنے لگا کہ ’’ آپ لوگ اپنے اصل کلچر، روایات اور رسم و رواج کو بنیاد بنا کر انگریزی میں ایسی فلمیں بنائیں کہ دنیا کے سامنے پاکستانی افراد کی اصل تصویرآئے، ان مقامات سے جڑی رومانوی داستانوں پر مبنی فلمیں بنائیں۔
اگر آپ کی اپنی زبان میں ایسی عام فلمیں اور ڈاکو مینٹری فلمیں موجود ہیں تو انھیں دوسری زبانوں میں ڈب کرکے بیرون ممالک میں اسکی نمائش کا اہتمام کریں ‘‘ وہ دیہی زندگی کا امن وسکون دیکھ کر بھی بہت متاثر ہوا، کہنے لگا کہ یہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دور ہے، مگر لگتا ہے کہ ٹورازم سے متعلقہ اداروں کو اس بات کی اہمیت کاا حساس نہیں ہے۔ ٹورازم کے معاملے میں آج کی سرمایہ کاری مستقبل میں بہت اچھے نتائج دیتی ہے۔
اس خطے کی تاریخ اور تہذیب بہت پُرانی ہے، ہزاروں سال پُرانی، یہ قوم اپنے آپ میں مگن رہنے والی قوم ہے، دوسروںکے معاملات یا مال و دولت پر نظر رکھنے والی قوم نہیں ہے، مگر بیرونی دنیا میں اس کا عجیب سا امیج پیش کیا گیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ خود اس خطے کی اصل ثقافت سے روشناس ہو، پھر اس ثقافت کے تمام مثبت پہلو بیرونی دنیا کے سامنے لائے۔ اس خطے کی ہزاروں سال پہلے سے لے کر اب تک کی تہذیب سامنے لائی جائے۔
ان تما م مقامات کو اُجاگر کیا جائے، جنکی تاریخی ، جغرافیائی اور ثقافتی اہمیت مسلمہ ہے ، شہری اور دیہاتی زندگی کے خاص اور مثبت پہلو سامنے لائیں، خوشی غمی کی رسومات ، میلوں اور تہواروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلائیں اور اس پہلو سے بھی لوگوں کوآگاہ کریں کہ پوری دنیا کے برعکس اس قوم کے متعلق ہزاروں سال سے ایک واقعہ بھی ایسا نہیں مِلتا کہ جس سے یہ بات ثابت ہوکہ انھوں نے کبھی کسی بھی دوسری ریاست یا ملک کے خلاف جارحیت کی ہو، یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ابھی 80 فیصد پاکستانیوں کو ہی اپنے ملک کے سیاحتی مقامات کا علِم نہیں ہے، شمالی علاقہ جات بشمول گلگت، بلستان کی خوبصورتی کا اس وقت علِم ہوا کہ جب بعض فلمسازوں نے ان علاقوں میں فلمبندی کی۔ پاکستانی شہریوں کے دل میں یہ علاقے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا مگر ابھی تک بہت کچھ تاریکی میں ہے، نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی قوم کا اصل سافٹ امیج اور ملک کے تاریخی اور جغرافیائی ورثے کو کس طرح بیرونی دنیا کے سامنے لاتی ہے۔
پاکستان دنیا کا سب سے سستا سیاحتی مُلک
دنیا میں بلکہ خود پاکستان میں بہت کم افراد کو علِم ہے کہ غیر ملکیوں کیلئے پاکستان دنیا کا سب سے سستا سیاحتی ملک ہے، صرف چند سو ڈالروں میں پورے ملک کی سیاحت بشمول قیام و طعام کی سہولت کے ساتھ ممکن ہے، مگر اس بات کی بیرونی ممالک میں موثر تشہیر نہیں کی گئی۔ اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ غیر ملکیوں کو تمام اخراجات کی تفصیل سے آگاہ کیا جائے اور انھیں بتایا جائے کہ وہ قلیل رقم میں پاکستان کے گوشے گوشے کی سیاحت کر سکتے ہیں، اندرون اور بیرون ملک رہائش پذیر سیاحت کے شوقین پاکستانیوں کی بھی پاکستان کی سیاحت کی جانب توجہ دلوائی جائے۔
حکومتوں کی عدم توجہ
اقوام عالم میں ممتاز مقام حاصل کرنے کیلئے سیاحت ایک بنیادی جّزو ہے، مختلف ممالک کی عوام میں محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں مگر وطن عزیز میں میں کسی بھی حکومت کو سیاحت کی اصل اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے، غیر ملکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ اگر چہ موجودہ حکومت اور عسکری اداروں نے اس بات کی اہمیت کو محسوس کیا ہے اور وہ فروغ سیاحت کا عزم بھی رکھتے ہیں، مگر ابھی تک ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا کہ جس سے اندازہ ہو کہ ادارے اور حکومت فروغ سیاحت کیلئے واقعتاً سنجیدہ ہیں، پاکستان کو تنہا کرنے کیلئے بیرون ممالک میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا بہت پراپیگنڈہ کیا گیا ہے۔
بیرونی ممالک بھی اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے منع کردیتے ہیں، مگر دہشت گردی کی کسی بھی واردات میں کسی غیرملکی کو نشانہ نہیں بنایا گیا، اکا دکا واقعات میں چینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ، مگر چین سمیت سب کو علِم تھا کہ اسکے پیچھے بھارت کے علاوہ اور کونسے ممالک ہو سکتے ہیں، یہ سب سی پیک کو غیر مخفوظ ثابت کرنے کیلئے کیا گیا۔ اب دہشت گردی تھم چکی ہے، اگر کبھی اکا دکا واقعہ ہوتا ہے تو سب کو علِم ہے کہ بھارت یا افغانستان ہی اس دہشت گردی کے پیچھے ہوتے ہیں مگر وہ اس ایک واقعہ کو بھی بیرونی دنیا میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جیسے خدا نخواستہ پاکستان میں ہر وقت بم دھماکے ہوتے ہیں اور پورا ملک غیر مخفوظ ہے۔
اس پراپیگنڈہ کا موثر جواب دیا جانا ضروری ہے، اسکے ساتھ سیاحتی مقامات کے علاوہ پورے ملک میں سیاحتی سہولتوںکو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے، میں خود ملک کے کونے کونے کی سیاحت خود کر چکا ہوں ان مقامات پر بھی گیا کہ جہاں کوئی فرد سوچ بھی نہیں سکتا۔گوادر میں بھی رہائش پذیر رہا ہوں۔ اندرون سندھ کا سفر کرنے کا اتفاق بھی ہوتا رہتا ہے، شمالی علاقہ جات کے ہر مقام کی سیر کر چکا ہوں، مجھے تو کبھی کسی ڈکیتی یا کسی ایسے واقعہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ د وبارہ سفر کرنے سے توبہ کی ہو، البتہ یہ ضرور ہے کہ سفری سہولتیں ناپید ہیں، راستے میں ٹوائلٹ ،ڈسپنسری، مکینک اور سستے قیام وطعام کی سہولتیں بہت کم ہیں۔ اس طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دی جائے۔
دوران سیا حت، تجارت کارجحان بھی پیدا کیا جائے
تقریباً ہر ملک کی کو شش ہوتی ہے کہ آنے والا ہر سیا ح ان کے ملک سے خریداری ضرور کرے۔ پاکستان کے ہر علاقے میں دستکاری اور پھل سمیت کوئی نہ کوئی خاص سوغات ضرور ہوتی ہے۔ دُور دراز کے علاقو ں میں رہنے والوں کو بھی روز مرہ کی اشیاء کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ دوسرے مقامات سے آنے والے سیاح اپنے ہمراہ مقامی ضروریات زندگی کی اشیاء لیکر آئیں اور اس علاقہ میں بننے والی مصنوعات، دستکاری اور پیدا ہونے والے پھل، خشک میوہ جات اور دوسری اشیاء خرید یں، تجارتی کلچر پیدا ہونے سے سیاحت کے شوقین افراد کو جو مالی فائدہ پہنچتا ہے وہ سیاحت کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ پاکستانیوں کو اپنے ملک کی دوسری زبانیں بھی سیکھنی چاہئیں، ایک دوسرے کی زبان سیکھنے سے بھی آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔
پاکستان جیسا خوبصورت ملک دنیا میں دوسرا کوئی نہیں
سیاحت پر کئی کتابیں تحریر کرنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف اور سیاح مقصود احمد چغتائی 40 سے زائد بیرون ممالک کا سفر کر چکے ہیں، ان کے سفر ناموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے عمیق نگاہ سے مختلف ممالک کے قابل ذکر مقامات، کلچر، رسم و رواج اور وہاں کے لوگوں کی سوچ و فکر کا مشاہدہ کیا، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسا خوبصورت اور محفوظ ملک دنیا میں اور کوئی نہیں ہے، ہماری تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، بعض اوقات احساس ہوتا ہے کہ یہ ملک سیاحت کیلئے ہی بنا ہے۔ دنیا کی تینوں بلند ترین چوٹیوں کا راستہ پاکستان سے جا تا ہے، یہاں کے ریگستانوں اور صحراؤں کا حُسن بھی مبہوت کردیتا ہے۔
شمالی علاقہ جات کا کونہ کونہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، آبشاریں، جھیلیں، پھل پھول، پرندوں کی قطاریں، دل فریب نظارے، تروتازگی پیدا کرنے والے موسم۔ مقامی افراد کے رسم ورواج، جانور، نباتات، انسان ان علاقوں کی خوبصورتی اور خصوصیات کو الفاظ میں بیان کرہی نہیں سکتا۔ مگر بیرونی دنیا کی توجہ اس جانب کامیابی سے مبذول کروائی ہی نہیں جا سکی، ہماری تاریخی عمارات، باغات، تفر یخی مقامات اور لاتعداد ایسی جگہیں ہیں کہ جہاں بار بار جانے کو دل چاہتا ہے۔
بھارت اور کئی دشمن ممالک ہمارے ملک کے امن و امّان پر انگلیاں اٹھاتے رہتے ہیں جبکہ یورپ میں سیاح محفوظ نہیں رہتے کئی ممالک میں تو سیا حوں کو انتباہ کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ رقم اپنے پاس نہ رکھیں ایک دفعہ بلغاریہ سے رومانیہ جاتے ہوئے میں خود ڈکیتی کا شکار ہوا میں نے دوافراد سے رومانیہ کا راستہ پوچھنے کی غلطی کی تھی وہ کہنے لگے کہ’’ ہم بھی رومانیہ جا رہے ہیں‘‘ راستے میں انھوں نے مجھے شدید زخمی کرکے تمام رقم لُوٹ لی اور پھینک کر چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی دی کسی طرح کئی دن کے بعد رومانیہ پہنچا، لمبی داستان ہے مگر اسکے بعد میں نے بیرون ممالک دوران سفر اپنے آپ کو بالکل غیر محفوظ سمجھا اور زیادہ تر بارونق علاقوں میں ہی سفر کیا، جبکہ شمالی علاقہ جات بلند و بالا پہاڑوں کے درمیاں سفر کرتے ہوئے بھی اس خوف کا شکار نہیں ہوا ‘‘ انکا کہنا ہے دوسری قوموں کو سمجھنے کیلئے، تعلقات کی وسعّت اور فروغ تجارت کیلئے دوسرے مما لک کا سفر بھی کرنا چاہیے کہ مختلف مما لک کی عوام کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع ملتا ہے، تجارت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
اگر ہم ایک خاص سوچ و فکر کے ساتھ ان لوگوں کو ملیں تو ان کے دلِوں میں بھی ہمارا ملک دیکھنے کا شوق پیدا ہوگا، غیر ملکی افراد کو اگر یہ سہو لت مِلے کہ پاکستان میں ان کا کوئی دوست اور واقف کار موجود ہے تو وہ بھی ہمارے ملک کا رخ کریں گے مگر پاکستانی عوام کو اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ اپنے غیر ملکی دوستوں کے بھروسے اور اعتماد کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے، بعض غیر ذمہ دار افراد کے لالچ کی وجہ سے پوری قوم بدنام ہوتی ہے اور تمام پاکستانیوں کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، مقصود احمد چغتائی کا کہنا ہے میرا ذاتی مشاہدہ یہی ہے کہ سوئیزر لینڈ سے خوبصورت ملک تُرکی ہے جس کا قدرتی حُسن اور موسم انتہائی دلفریب ہے مگر ترکی سے بھی زیادہ خوبصورت شمالی علاقہ جات ہیں، وادی ِ سوات میں تو موسم خزاں میں بھی درخت پھلوں سے لدے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر کئی مقامات پر سیاحتی سہولتیں تقریباً نا پید ہیں، چین جاتے ہوئے شاہراہ قراقرم پر بھی قیام وطعام ، میڈ یکل ، واش رومز اور ہنگامی حالات میں فوری امداد کی سہولتیں کافی کم ہیں، موجودہ حکومت ہر بیس کلو میٹر کے فاصلے پر سفری سہولتوں کا اہتمام کرے اگر سیا حوں کے دل سے یہ خوف نِکل جائے کہ کسی بھی ناگہانی صورتحال کے سد باب یا انسانی ضرویات کیلئے انھیں کسی بھی قسم کے نا مساعد حالات کا سامنا نہیں ہوگا تو وہ بلا خوف و خطران علاقوں کی سیا حت کیلئے نِکل کھڑے ہوں گے۔
بائیکنِگ ، سستا اور دلچسپ تریں ذریعہ سفر
پاکستان میں ہا ئیکنِگ، بائیکنگ اور فروغ سیاحت کیلئے ہر لمحہ کوشاں عمران افضل اعوان کا شمار بھی سیاحت اور ایڈونچر کے اُن جنونیوں میں ہوتا ہے کہ جو اپنے شوق کی تکمیل کیلئے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔ اپنے اس شوق کی تکمیل کیلئے وہ بیرون ملک سے تین لاکھ ماہوار والی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اس وقت وہ پاکستان میں سرکاری نوکری کر رہے ہیں، انھوں نے جرنلزم میں ایم اے کیا تھا مگر سیاحت کو اپنا جنون بنایا، انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان میں موٹر سائیکل کے ذریعے سیاحت کے رجحان میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیا حتی مقامات کی سیر کا اصل مزا ہی ہائیکنگ اور بائیکنگ میں ہے۔ پہلے لوگ موٹر سائیکلوں پر دور دراز کے پہاڑی سلسلوں کا سفر کرتے ہوئے ڈرتے تھے، مگر اب عوام میں شعور پیدا ہو رہا ہے کہ موٹر سائیکل پر سیاحت کا اپنا مزا ہے کیونکہ آپ موٹرسائیکل پر ان مقا مات کی سیر بھی کر سکتے ہیں کہ جہاں گاڑی یا جیپ وغیرہ نہیں جا سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ خرچ بہت ہی کم آتا ہے۔ حادثات کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ پہاڑی علاقوں میں زیادہ تر تنگ سڑکیں ہیں۔ اندازے کی معمولی سی غلطی سے گاڑی کھائی میں گرِ جاتی ہے جبکہ موٹر سائیکل پگڈ نڈیوں سے بھی گزرجاتی ہے اگر موٹر سائیکل پر ایک دن میں تین سو کلو میٹر کا سفر کیا جائے تو کھانے سمیت کل 1200 روپے روز کا خرچ آتا ہے، پانچ دن کے سفر پر کل 6000 ( چھ ہزار) روپے خرچ ہوتے ہیں، ہم نے بائیکرز کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جب بھی وقت مِلتا ہے ہم کسی نہ کسی علاقے کی طرف سیا حت کیلئے نِکل جاتے ہیں، اب فیملیز اور خواتین بھی بہت شوق سے موٹر سائیکل کا سفر کرتی ہیں۔اس وقت بائیکرز کی تعداد 17000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ مقامی سیاح اشیائے خورونوش اپنے ہمراہ لے کر جائے، کیونکہ ان علاقوںمیں کھانا نسبتاً مہنگا ہے۔ مقامی سیاحوں کو خاص سہولت دینے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ سیاحت کیلئے پاکستان سے اچھا ملک نہیں ہے مگر ایک ’’ سیاحت دوست‘‘ مہم فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہم کے ذریعے پوری پاکستانی قوم بالخصوص سیا حتی علاقہ جات کی عوام کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ مہمان کے سامنے انتہائی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ انکے ساتھ دوستانہ روّیہ رکھیں اگر راستے میں کسی بھی سیاح کو کوئی مسئلہ درپیش آجائے تو دل و جان کے ساتھ اس کی مدد کریں، سیاحوں کو اللہ کا مہمان سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑیں، ایمانداری اور دیانتداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، علاوہ ازیں اب تک حکومت کی طرف سے فروغ سیاحت کیلئے وہ اقدامات نہیں کئے گئے کہ جن کے فوری طور پر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
٭سیا حتی راہنمائی کیلئے مراکز قائم کئے جائیں ۔
٭ گائید ز اور ٹورازم کمپنیوں کو خصوصی تربیت دی جائے اور حکومت بُری ساکھ والی ٹورازم کمپنیوں کو فوری بند کرے۔
٭تمام ہائی ویز، پہاڑی راستوں اور تفریخی مقامات پر سفری سہولتوں کے مراکز قریبی فاصلوں پر قائم کیں جائیں ۔
٭سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔
٭ ہوٹلوں کے عملے اور دوسرے افراد کو اعلیٰ اخلاق کا پابند بنایا جائے ۔
٭ جگہ جگہ خاص طور پر پہاڑی مقامات پر کوڑے دان لگائے جائیں ۔
٭ ہر بڑے سٹاپ پر مسجد، ٹوائلٹ اور صاف پانی کا انتظام ہونا بہت ضروی ہے۔
٭ تفریخی مقامات پر اگر کسی ٹورسٹ کو کسی ایمرجنسی کی ضرورت محسوس ہو تو کم وقت میں اسکی مدد کی جا سکے۔
٭ درختوں کی کٹائی فوری طور پر روکی جائے کہ ملک سے سبزہ ختم ہو رہا ہے، وزارت سیاحت کے تمام بڑے افسران کو سیاحتی مراکز میں تعینات کیا جائے۔
اور میری تمام بائیکرز سے التماس ہے کہ جب وہ سیاحت کیلئے جائیں تو موٹر سائیکل کو مکمل فِٹ کروائیں، ٹائرز اچھی کوالٹی کے استعمال کریں، دوران سفر اچھا ہیلمٹ، اچھے شوز، گھٹنوں اور کہنیوں کیلئے حفاظتی جیکٹ ضرور استعمال کریں کہ زندگی اللہ کی امانت ہے اس کی حفاظت کرنی چاہیے، برف باری کے دوران موٹر سائیکل کے مخصوص ٹائرز استعمال کئے جائیں۔ تمام حفاظتی تدابیر کو برّوئے کار لایا جائے تو سفر اور ایڈونچر کا حسین امتزاج پیدا ہوتا ہے۔
ہماری قوم ٹورازم کی اہمیت سے واقف ہی نہیں
ایکسپلوررز ڈین ٹورازم سروسز کے چیف ایگزیکٹو محمد جمیل رضا کو بطور ٹور آپر یٹر خدمات سر انجام دیتے ہوئے 26 سال سے زیادہ کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ انھوں نے اسی (80) ممالک کی سیا حت کی ہے، سیا حوں کو بھی 50 سے زائد ممالک سیاحت کی سیر کروا چکے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان کے تمام سیاحتی مراکز کی سیا حت کر چکے ہیں۔
انھوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے اسّی ممالک کی سیر کرنے کے بعد میں ا س نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیا حت کیلئے پاکستان سے بہتر ملک کوئی اور نہیں ہوسکتا، سیا حت کے حوالے سے پاکستان میں اس قدر مقامات ہیں کہ جنکی تفصیل شائد ایک کتاب میں بھی ممکن نہیں ہے، مگر پاکستان کی جانب غیر ملکی سیا حوں کا رجحان بہت کم ہے اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ’’ ٹورازم‘‘کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں۔
میں جب بیرون ملک جاتا ہوں اور وہاں کے باشندوں کو پاکستان کے اہم سیا حتی مقامات کی تصویر یں اور ویڈیو دکھاتا ہوں تو وہ ششدر رہ جاتے ہیں۔ پھر اُن میں سے کچھ لوگ پاکستان ضرور آتے ہیں، پاکستان میں ہزاروں سال پُرانی تہذبیوں کے آثار بھی موجود ہیں جن میں موئن جودڑو، ہڑپہ ، ٹیکسلا اور گندھارا شامل ہیں۔ ماضی سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کی تما م تر دلچسپی کا سامان ان کھنڈرات میں موجود ہے مگر ہم ابھی تک سیا حوں کی اصل توجہ اس جانب مبذول نہیں کروا سکے، مکلی کا قبر ستان ( حیدر آباد سندھ کے نزدیک ) چوکنڈی کا قبرستان اور بھمبھور جیسی جگہیں دنیا میں نہیں ہیں، مکلی کا قبرستان شائد دنیا کا سب سے قدیم اور بڑا قبرستان ہے، اس شہر خموشاں میں ہزار سال سے پُرانی قبریں بھی موجود ہیں۔
ہمارے ملک میں قدیم اور تاریخی عمارات کی بہتات بھی ہے، مغلیہ دور کی بنی ہوئی عمارتیں، قلعے اور مساجد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ ہر عمارت سے ایک داستان جڑی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے قدیم شہروں میں آج سینکڑوں سال پُرانا کلچر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، لوگوں کی بودو باش اور رہن سہن ابھی تک پُرانے دور کی یاد دلاتا ہے، پاکستان میں فلک بوس پہاڑی سلسلے موجود ہیں جہاں پورا سال برف جمی رہتی ہے۔ کاغان، ناران لولوسر جھیل، بابوسر ٹاپ، جھیل سیف الملوک، شنکیاری، کالام، بدین اور شگورہ کے علاوہ وادی سوات کا چپہ چپہ دیکھنے کے قابل ہے، گلگت، بلتستان جیسے خوبصورت علاقے کہیں بھی نہیں ہیں، وادی نیلم کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے، سکردوکی سیر کا اپنا ہی مزا ہے، جو لوگ وادی کیلاش اور چترال جاتے ہیں وہ سالوں تک ان علاقوں کے سحر میں کھوئے رہتے ہیں، آزاد کشمیر کے علاقے کِرن وغیرہ کی خوبصورتی انسان کو مبہوت کر دیتی ہے۔ پاکستان کی تقریباً سات سو کلومیٹر سا حلی پٹی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
کوسٹل ہائی وے پر ڈرائیونگ کا اپنا ہی مزا ہے، کراچی سے شروع ہونیوالی یہ سڑک گوادر تک جاتی ہے، ایک طرف ریگستان کی اداسی دوسری طر ف سمندر کا سکوت اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر قیام کے دوران جسم میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی ایسا چھوٹا بڑا شہر نہیں کہ جہاں کی کوئی نہ کوئی خصوصیت موجود نہ ہو۔ ہر جگہ کی اپنی انفرادی اہمیت ہے مگر اس کے باوجود یہاں غیر ملکی سیاحوں کا رش نظر نہیں آتا جبکہ اس سیاحتی ملک میں تو غیر ملکی سیاحتی جمگٹھے نظرآنے چاہئیں، شائدہم لوگ سیا حت کی اہمیت سے واقف ہی نہیں ہیں، ٹورازم کے فروغ کیلئے حکومت کے علاوہ فنوں لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو اس جانب توجہ دینی پڑے گی۔ ایسا ادب تخلیق کرنے کی ضرورت ہے کہ جِسے پڑھ کر خاص مقامات دیکھنے کا شوق پیدا ہو، ایسی کتابوں کا انگلش اور دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔ تمام چینلز کو بھی اس جانب بطور خاص توجہ دینی چاہیے۔
گنڈاسے اور قتل و غارت کی بجائے تاریخی اور سیاحتی مقامات سے جڑی کہانیوں پر مبنی فلمیں بنائی جائیں، یہاں یہ بات نہا یت اہم ہے کہ اگر صرف ملکی ٹورازم کو اہمیت دی جائے تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی دکان کا سودا اپنے اہل خانہ کے ہاتھ ہی فروخت کردیا جائے، امن و امان پر توجہ دینے کے ساتھ سفری سہولتوں کو عام کرنا بھی اشد ضروری ہے، خاص طور پر لمبے پہاڑی راستوں پر ٹوائلٹ کی سہولت، پٹرول پمپ جہاں مکینک بھی ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹورازم پولیس کا قیام بھی عمل میںلایا جانا ضروری ہے۔ اسکے علاوہ غیر ذمہ دار ’’ ٹورآ پر یٹرز‘‘ جو محض اپنے لالچ اورمفاد کی وجہ سے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں کے خلاف سخت قسم کی کاروائی ہونی چاہیے، ملکی سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ بننے والوںکیلئے’’ زیر ٹاکر نس‘‘ ہونی چاہیے۔
مقامی لوگوں کو فراخدلانہ روّیہ اپنانا پڑے گا
ندیم شیخ پاکستان کے کونے کونے اور ہر اہم و غیر اہم گوشے کی سیاحت کر چکے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ ملک کا ہر حصہ تاریخی، جغرافیائی، سیاحتی اور معلو ماتی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے لاہور سے ہی اپنی سیاحت کا آغاز کیا، مگر مجھے اس وقت خاصا دکھ پہنچا ، جب میں نے دیکھا کی یہاں کے لوگوں کو تاریخی عمارات یا قدیم ورثہ کی اہمیت کا احساس ہے اور نہ ہی کسی قسم کا لگاؤ، انار کلی بازار کے پاس ہی قطب الدین ایبک کا مزار ہے، ایک بھی آدمی مقبرے کے احاطے میں موجود نہ تھا۔ مقبرے کے باہر بُھنی ہو کلیجی بیچنے والے بیٹھے ہوئے تھے۔ رنگ محل کے نزدیک سلطان ایاز ( محمود غزنوی کا غلام جو محمود غزنوی کے بعد سلطان بنا) کا چھوٹا سا مقبرہ ہے ہر وقت یہاں خریداروں کی آمدو رفت رہتی ہے مگر میں نے مقبر ے کی جانب کسی کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
جب میں اندرون شہر گیا تو بہت ساری تاریخی عمارات موجود تھیں مگر سیاحوں کی توجہ سے بیگانہ، آ ہستہ آہستہ تاریخی ورثہ معدوم ہو رہا ہے۔ لاہور میں مَیں نے 8 سو نادر تصاویر اتاریں پھر یہاں سے چلتا ہوا ملتان پہنچا، راستے میں بے شمار تاریخی اور سیاحتی مقامات آئے، مَیں نے ان کی بھی تصاویر بنائیں مگر یہاں بھی یہی رویہ دیکھنے کو ملا کہ مقامی لوگ بھی تاریخی مقامات کی اہمیت سے نابلد تھے۔ ملتان سے نِکلا تو آس پاس کے تمام مقامات دیکھتا ہوا ٹھٹھہ پہنچ گیا، یہاں شاہ جہاں کی تعمیرکروائی تاریخی مسجد موجود ہے مگر یہاں بھی سیاحوں کا رش نہیں تھا، وہاںسے مکلی کے قبرستان گیا، اس تاریخی قبرستان میں لاکھوں قبریں موجود ہیں، کچھ قبروں کے متعلق بتایا گیا کہ ہزار سال سے بھی پُرانی ہیں، وہاں سے نِکلا توکینجھر جھیل گیا وہاں سے کراچی اور کراچی سے بذریعہ روڈ بلوچستان کے مختلف مقامات کی سیاحت کی، کوئٹہ، گوادر، پشین، خضدار کے علاوہ تمام علاقے دیکھے۔ وہاں سے آگے شمالی علاقہ جات پہنچ گیا۔ جب میں شمالی علاقہ جات کی سیاحت کرتا ہوا مری پہنچا تو میرے پاس دس ہزار سے زائد نادر تصاویر کا ذخیرہ موجود تھا۔ ہر تصویر کی کوئی نہ کوئی انفرادیت ضرور تھی، مری اور آس پاس کی گلیات میں مقامی سیاحوں کا رش تھا ، جبکہ باقی تمام علاقے مقامی سیاحوں سے بھی محروم تھے، اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ جس طرح مری اور نتھیا گلی وغیرہ کو ترقی دی گئی، دوسرے مقامات پر اتنی توجہ نہیں دی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ مری جیسے ہل اسٹیشنز اور بھی بنائے جائیں اور انھیں مری جیسی ترقی بھی دی جائے۔ تاکہ مری اور نتھیا گلی کا رش کم ہو، ایوبیہ اور خانس پور کو ترقی دی جا سکتی ہے۔
ملک کے پہاڑی سلسلوں میں کم از کم 28 مقامات ایسے ہیں کہ جنہیں مری کی طرح ترقی دی جا سکتی ہے ۔ ندیم شیخ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے پہاڑی سلِسلے اور شمالی علاقہ جات میں رہنے والے مقامی اب سیاح دوست نہیں رہے ان علاقوں میں اس قدر مہنگائی ہو چکی ہے کہ اب یہاں کی سیر عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اب مری اور گلیات بھی راہزنوں سے محفوظ نہیں ہیں، کاغان اور ناران سے بابو سر ٹاپ تک کا علاقہ کا فی حد تک محفوظ ہے، مگر بابو سر ٹاپ سے بذر یعہ چلاس، گلگت بلتستان کا سفر مکمل طور پر غیر محفوظ ہو چکا ہے، خصوصاً اب رات کا سفر ممکن نہیں ہے، ہنزہ وادی اور چترال کاسفر بھی پہلے جیسا محفوظ نہیں رہا، حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ندیم شیخ نے اپنے تجربات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیاحت بہت سستی ہے، یہاں پیدا ہونے والا پھل مثلاً کیلے، کھجوریں، آم اور امردو بھی سستے ہوتے ہیں، مقامی دستکاری اور اچار وغیرہ بھی سستا ہے مگر لاہور سے آگے مہنگائی زور پکڑتی جاتی ہے۔ کلر کہار، کھیوڑہ مائینز، قلعہ روہتاس جہلم ، پوٹھوہار کا علاقہ اور اس کے بعد شمالی علاقہ جات میںاب سیاحت بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ سوات میں وافر مقدار میں پیدا ہونے والا پھل وہاں بھی مہنگا ہے، لگتا ہے کہ ان علاقوں کے مقامی اپنے علاقوں کی سیاحت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
فروغ سیاحت میں عوام کی شمولیت بنیادی شرط ہے
کسی بھی ملک میں فروغ سیاحت کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ عوام کو ’’ٹورازم‘‘ کی اہمیت کا حساس بھی ہو اور ہر فرد اس میں کسی طریقے سے شامل بھی ہو۔ عوام کا رویہ بھی غیر ملکیوں کیلئے بہت اچھا ہونا چاہیے بلکہ دوستانہ اور ہمدرد انہ ہونا چاہیے، اُن سے اشیاء کے دام زیادہ نہیں ’’ ہتھیانے ‘‘ چاہئیں، اخلاق اچھا ہونا چاہیے، ہرفرد غیر ملکیوں کو تحفظ اور اپنائیت کا احساس دے۔ اسکے علاوہ اب میڈیا بھی شخصیات کی بجائے نظریات کی صحافت شروع کرے، ہر چینل کم از کم ایک گھنٹے کا فروغ سیاحت پر دلچسپ پروگرام شروع کرے۔ یہ پروگرام ’’لیکچر‘‘ نہ ہوں بلکہ اس انداز میں پیش کئے جائیں کہ سیاحوں میں خاص دلچسپی پید اہو، ہر عمارت اور مقام سے لاتعداد کہانیاں جڑی ہوئی ہیں، انھیں پیش کیا جائے۔ ہمارے تمام ادیب اور قلمکار بھی اپنے افسانوں، کہانیوں، ناولوں اور دوسری تحریروں میں دلچسپ انداز میں سیا حتی، پہاڑی اور قدیم عمارات اور اہم مقامات کا ذکر ضرور کریں اور عوام میں سیاحت دوستی کے جذبات پیدا کریں۔
غیر ملکی زبانیں سیکھنے سے سیاحت کو فروغ حاصل ہوگا
فیئر انٹرپر ائزر کے چیف ایگز یکٹو رانا محمدیار خان نے اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستا ن کی جانب غیر ملکی سیاحوں کا رجحان خاصا کم ہے اسکی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کا رجحان انگریزی کے سوا دوسری غیرملکی زبانیں سیکھنے کی جانب نہیں ہے، تجارت اور سیاحت کے فروغ کیلئے غیرملکی زبانیںسیکھنا بہت ضروری ہے اس سے اجنبیت کا احساس ختم ہوتا ہے بلکہ اپنے پن کا احساس پیدا ہوتا ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے آپ اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتے ہیں۔ زبانیں سیکھنے کے علاوہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے جو پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اسکا توڑ کرنا بھی ضروری ہے، سیاحتی علاقوں میں نئی سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ پُرانی سڑکوں کی مرمت بھی ہونی چاہیے۔ ان سڑکوں پر میڈیکل اور ضروریات زندگی کی سہولت بھی ہونی چاہیے اور پولیس چوکیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سیا حت کو فروغ دینے کیلئے ایک دفعہ کی سرمایہ کاری اور عوام کے دوستانہ جذبات ہمیشہ کیلئے منافع دیتے ہیں۔
فروغ سیاحت میں ملک کے تمام مسائل کا حل موجود ہے
وزیراعظم عمران خان سیاحت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں، انھوں نے سیاحت کے فروغ کیلئے اقدامات بھی کئے ہیں، اگرچہ موجودہ حکومت نے 75 ممالک کیلئے ویزا اور سفری سہولتوں کوآسان بنانے کا اعلان کیا ہے، فروغ سیاحت کی ذمہ داری کسی بھی ایک محکمے کو نہیں سونپی جا سکتی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے تمام محکموں، تمام اداروں اور ساری عوام کی شمولیت انتہائی ضروری ہوتی ہے، ہر فرد میں اچھا ’’میزبان ‘‘ بننے کی خوبی پیدا ہونی چاہیے، پاکستان کو ایسا ملک بنانا پڑے گا کہ دنیا کے 6 ارب انسانوں کی آ بادی کو اس ملک میں دلچسپی محسوس ہو ، یہاں انھیں اپنی دلچسپی کا ہر قسم کا سامان نظر آئے۔ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ بیرونی دنیا کے شہریوں میں پاکستان کے متعلق تجسس پیدا ہو، یہاں گھٹن اور عدم تحفظ کا ماحول نہیں ہونا چاہیے۔ محکمہ خارجہ، داخلہ، دفاع ، ثقافت ، تعلیم ، سیاحت ، اطلاعات ، جنگلات، آثار ِقدیمہ، صنعت وتجارت ، ہوَا بازی، ریلوے، اور باقی تمام ریاستی اداروںکو فروغ سیاحت کیلئے مربوط اور مفید کوششیں کرنی ہونگی۔ بھارت اور پا کستان دشمنوں نے پا کستان کا جو امیج بنادیا ہے اس کا اثر زائل کرنے کیلئے، ہر پاکستانی کو ’’ سیاحتی مجاہد‘‘ بننا پڑے گا۔ عوام میں سیاحت کی اہمیت کا احساس پیدا ہو جائے تو سی پیک اور گوادر سمیت ایسے تمام منصوبے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کریں گے۔ مگر یہ بات بھی اہم ہے، غلط شہرت رکھنے والے غیر ذمہ دار’’ ٹورآپریٹرز اور گائیڈز‘‘ پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ گائیڈز کو بھی جدید تربیت دینے کی ضرورت ہے، بہت سے اہم مقامات، عمارات اور آثارِقدیمہ کا کتابوںمیں ذکر نہیں ملتا، اس جانب بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان سیاحتی خزانوں سے بھی مالامال ہے!!!
The post پاکستان سیاحوں کی توجہ سے محروم کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.